ملائشیا: پی آئی کے طیارے کی ضبطی

عالمی دو طرفہ معاہدوں میں پاکستان کی سبکی کا تسلسل

ملائشیا کی ایک مقامی عدالت کے حکم پر کوالالمپور ائرپورٹ پر پی آئی اے کا بوئنگ777 طیارہ قبضے میں لے لیا گیا، اور اُن تمام مسافروں کو جو اسلام آباد کے لیے سوار ہوچکے تھے اُتار دیا گیا، جنہیں بعد ازاں خصوصی پرواز سے اسلام آباد لایا گیا۔ پرواز پی کے895 کراچی سے کوالالمپور پہنچی تھی، یہ طیارہ 2015ء میں ویت نام کی ایک کمپنی سے لیز پر لیا گیا تھا، لیکن لیز کے واجبات جو ایک کروڑ40 لاکھ ڈالر یعنی تقریباً 2 ارب24کروڑ روپے بتائے جاتے ہیں، ادا نہ کرنے پر کمپنی نے لندن کی ایک عدالت میں مقدمہ دائر کردیا، جہاں یہ چھے ماہ سے زیر سماعت ہے۔ طیارہ کورونا کی وجہ سے گزشتہ کچھ ماہ سے زیر استعمال نہیں تھا، تاہم کچھ عرصے سے کراچی، اسلام آباد اور لاہور کے لیے پرواز کرتا رہا۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پی آئی اے میں کس نے یہ طیارہ تنازعے کے باوجود ملائشیا بھیجا؟ اب حکام کا مؤقف ہے کہ لندن میں مقدمے کے باوجود ملائشیا کی عدالت میں معاملہ لے جایا گیا۔ سول ایوی ایشن کا طے شدہ اصول ہے کہ کسی بھی طیارے کے خلاف اسی روٹ پر مقدمہ ہوسکتا ہے جس روٹ پر وہ پرواز کررہا ہے، اب جس کمپنی نے لیزنگ کی رقم کے لیے مقدمہ دائر کیا ہوا ہے اس کے ساتھ معاہدے کی تفصیلات بھی سامنے آجائیں گی، تاہم اس حوالے سے دستیاب اطلاع یہ ہے کہ پی آئی اے لیزنگ کے نرخ کم کرانے کے لیے بات چیت کررہی تھی۔ اس کے باوجود یہ وضاحت بھی ہونی چاہیے تھی کہ کیا معاہدے کے اندر کوئی ایسی شق موجود ہے کہ اگر کسی وجہ سے لیز پر لیا گیا طیارہ استعمال نہیں ہوگا تو لیزنگ کمپنی ریٹ کم کرنے کی پابند ہوگی؟ کم استعمال پر کم ادائیگی کرنے کی دلیل میں وزن نہیں ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ملائشین حکام اس انتظار میں تھے کہ کب پی آئی اے کا طیارہ پہنچے اور وہ کس طرح اسے قبضے میں لیں۔ عدالت نے تو دو طیارے قبضے میں لینے کے احکامات جاری کیے تھے، خوش قسمتی یہ ہوئی کہ ایک ہی طیارہ وہاں پہنچا جو دھر لیا گیا، دوسرا ہوتا تو وہ بھی اسی طرح گراؤنڈ ہوجاتا۔ پی آئی اے اس لحاظ سے بدقسمت ہے کہ کراچی میں ایک طیارے کے حادثے کے بعد وزیر ہوا بازی کے قومی اسمبلی میں بیان پر پی آئی اے پر پابندی لگی، پورے یورپ، امریکہ اور بعض دوسرے ممالک نے پی آئی اے کی پروازیں بند کردیں جو آج تک بحال نہیں ہوسکیں، جو چند روٹ اب تک کھلے رہ گئے تھے ان میں ملائشیا کا یہ سیکٹر بھی شامل تھا۔ اب معلوم نہیں اس قانونی جنگ کا کیا انجام ہوتا ہے؟ طیارہ کب واگزار ہوتا ہے اور لیز کی رقم کی ادائیگی کا کیا فیصلہ سامنے آتا ہے؟ لیکن ندامت کا جو داغ پی آئی اے اور اس کی وساطت سے خود وطن ِ عزیز کی پیشانی پر لگ چکا ہے وہ کس طرح دھلے گا! اب طیارے کے معاملے میں ایک مؤقف تو وہ ہے جس کی بنیاد پر لیزنگ کمپنی نے مقدمہ دائر کیا اور وقتی طور پر اتنی کامیابی ضرور حاصل کی کہ طیارے کو پرواز نہیں کرنے دی، دوسرا اثر جو بالواسطہ پڑا وہ یہ ہے کہ دُنیا بھر میں پی آئی اے کو بدنام کردیا کہ یہ وہ ائرلائن ہے جو لیز پر طیارے حاصل کرکے معاہدے کے مطابق بروقت ادائیگیاں نہیں کرتی۔ عین ممکن ہے آخری فیصلہ لیزنگ کمپنی کے حق میں نہ ہو اور پی آئی اے اپنا مقدمہ بہتر طور پر لڑ کر کوئی سہولت حاصل کرسکے، لیکن لیز کی جو رقم کمپنی اِس وقت مانگ رہی ہے اگر اتنی ادائیگی نہ کرنا پڑی تو بھی کچھ ادائیگی تو کرنا ہوگی۔ لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ پی آئی اے اپنا مقدمہ جیتنے کی پوزیشن میں ہے؟ ویسے بھی عالمی سطح پر دو طرفہ معاہدوں میں یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا کہ حکومت کو پی آئی اے کے طیارے کے معاملے میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا، ریکوڈک کیس اور براڈ شیٹ کیس کی شکل میں دو واقعات پہلے بھی اپنا رنگ دکھا چکے ہیں۔
ریکوڈک کے کیس میں آسٹریلیا کی ٹیتھیان کمپنی کے ہاتھوں ہماری سبکی ہوچکی ہے جس کے ساتھ پاکستان نے بلوچستان کے ضلع چاغی کے مقام ریکوڈک سے خام تانبا نکالنے کا معاہدہ کیا تھا۔ پاکستان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت یہ مائننگ لیز ختم کی، تو ٹیتھیان کمپنی نے عالمی بینک کے انٹرنیشنل سینٹر فار سیٹلمنٹ آف انوسٹمنٹ ڈسپیوٹ کے روبرو ہرجانے کا دعویٰ دائر کردیا۔ اس کیس میں پاکستان کی مؤثر وکالت نہ ہونے کے باعث پاکستان پر 6 ارب ڈالر کا جرمانہ عائد ہوا۔ پاکستان اس کیس میں حکم امتناعی حاصل کرنے میں تو کامیاب ہوا مگر حکمِ امتناعی ختم ہونے پر بالآخر پاکستان پر اتنی خطیر رقم والا جرمانہ برقرار رہا جس کی ادائیگی سے پاکستان کی کمزور معیشت پر یقیناً مزید برے اثرات مرتب ہوں گے۔ اسی طرح ایک معاملہ برطانوی فرم براڈ شیٹ کا بھی سامنے آیا ہے، جس کے دائر کردہ کیس میں برطانوی عدالت نے پاکستان کے خلاف فیصلہ صادر کیا اور پاکستان کو مجموعی طور پر ایک خطیر رقم اس برطانوی کمپنی کو ادا کرنا پڑی، جبکہ کیس ہارنے سے ملک کی سبکی الگ ہوئی۔ جنرل (ر) پرویزمشرف کے دور میں پاکستان کی دو سو کے قریب شخصیات کے غیرقانونی طریقوں سے بنائے گئے اثاثوں کی چھان بین اور بازیابی کے لیے برطانوی فرم براڈشیٹ سے 2000ء میں معاہدہ کیا گیا تھا، یہ معاہدہ ہر لحاظ سے یک طرفہ تھا کہ اگر براڈشیٹ کرپشن پکڑتی ہے تو اسے کُل رقم کا بیس فیصد ملے گا، اگر حکومت خود پکڑتی ہے تو بھی اسے بیس فی صد ملے گا، اگر نشان دہی کرتی ہے تو بھی اسے بیس فیصد ملے گا۔ براڈ شیٹ نے کیا کیا ہے سوائے الزام لگانے کے؟ یہ بات بھی معاہدے میں شامل تھی کہ معاہدہ ختم نہیں ہوگا۔ بہرحال پاکستان نے 2003ء میں معاہدہ ختم کردیا، چنانچہ براڈشیٹ کمپنی نے معاہدے کی خلاف ورزی پر برطانوی عدالت میں دعویٰ دائر کیا، جو پاکستان کی جانب سے مؤثر وکالت نہ ہونے کے باعث جیت لیا۔ اس سے پاکستان کے قومی خزانے کو تو جو نقصان پہنچا سو پہنچا، مگر پاکستان کی ساکھ کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ اب بہت مشکل سے ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیرون ملک کی عدالتوں میں لاکھوںکروڑوں روپے فیسیں وصول کرکے پاکستان کے مقدمات کی پیروی کرنے والے قانون دان یا لا فرمیں کیا اتنی نااہل ہوتی ہیں کہ وہ متعلقہ کیس پاکستان کے حق میں مضبوط بنا ہی نہیں پاتیں۔