نصیر ترابی

نصیر ترابی کا سانحۂ رحلت… اس تسلسل میں کہ گزشتہ چند مہینوں، ہفتوں میں ہمارے متعدد اہلِ قلم، دانش ور اور اصحابِ علم وفن ہمیں داغِ مفارقت دے گئے ہیں… ایک تازہ سانحہ ہے، اور خاص طور پر ان کے مقربین، دوست احباب اور جدید غزل کے تازہ لب و لہجے کو پسند کرنے والوں کے لیے ایک حادثے سے کم نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عصر ِ حاضر کی اردو غزل اگرچہ اب اپنے ایک نئے عالمی تناظر میں ہے اور نئی نئی وسعتیں، نئے اسالیب اور فکر و احساس کی نت نئی جہات سے اپنا دامن وسیع تر کررہی ہے… لیکن عمدہ غزل کی تخلیق کے لیے فکر کی گہرائی اور تخیل کی وسعت سے قطع نظر، جس قسم کے ماحول اور مناسبت کی فضا درکار ہوتی ہے… یعنی جذباتی و ذہنی خلفشار اور اس میں خارج سے گریز پائی اور داخل سے رجوع… یہ کیفیات پاکستانی معاشرے اور بالخصوص گزشتہ تین چار دہائیوں کے عرصے میں اردو غزل کی وسیع تر فضا سے قطع نظر، کراچی کے ماحول میں بھی جس صورت میں ظاہر ہوتی رہی ہیں، انھوں نے پاکستان اور خاص طور پر کراچی میں تخلیق پانے والی غزل کو اپنے مزاج اور موضوع کے لحاظ سے احساس کی گہرائی، تجربات کی پختگی اور پُردرد لہجے سے روشنا س کرایا ہے، اور جو نصیر کی غزل میں بھی خاصا جھلکتا رہا ہے۔
اگرچہ غزل آج بھی اپنی دل کشی اور اپنے معیار کے لحاظ سے موجودہ نسل کے کم آموز اور ناپختہ شاعروں کی تخلیقات میں بھی دو ایک غزلوں یا چند شعروں کی حد تک وقتی جاذبیت اور کبھی کبھی ایک آدھ شعر کی حد تک دیرپا اثر کی صفات سے آراستہ بھی ہے، لیکن موجودہ نسل کے چند شعرا اپنی غزل میں اپنی عمر اور تجربے سے کہیں زیادہ تخلیقی تنوع، پختگی اور گہرائی کا ثبوت بھی دیتے رہے ہیں اور دے رہے ہیں۔ ایسے محض چند شاعروں میں نصیر ترابی کو میں اپنے ایک مختلف لب و لہجے کے ساتھ احساس کی گہرائی اور فکر کی پختگی کا حامل شاعر سمجھتا رہا ہوں۔ آئے دن کی بدلتی ہوئی ادبی فضا میں مختلف تازہ رجحانات ، رویوں یا تحریکوں کے باعث نئے اسالیب یا اظہار کے نئے سانچے اپنی جگہ بناتے رہتے ہیں اور شعری لفظیات میں نئی نئی معنویتیں پیدا ہوتی رہتی ہیں، جن کے نتیجے میں احساس و اظہار کے نئے تجربات سامنے آتے رہتے ہیں۔ عصر حاضر کے ایسے چند شاعروں میں، جن کی نما ئندگی نصیر ترابی نے بھی کی ہے، پرانے اور مسلمہ اسالیب سے استفادے کا رجحان بڑھ گیا ہے اور قدیم روا یات ِ شعری سے اخذ و انجذاب بھی نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ میں اس شعری فضا میں نصیر ترابی کو شاعروں کے اس مختصر گروہ میں بھی ایک کھلے اور نمایاں مقام پر دیکھتا رہا ہوں، جو کلاسیکی غزل کے اپنے وسیع تر مطالعے سے اپنے ذاتی اور عصری احساسات کی حامل شعریات کے لیے نئے سانچے، نئی لفظیات اور نئی روشیں تلاش کررہے ہیں۔
شاعری کے باب میں نصیر ترابی کے ایک ہی اور اوّلین شعری مجموعے ’’عکس فریادی‘‘ہی نے واقعتاً نصیر کو قابلِ توجہ اس طرح بنادیا تھا کہ بعد میں چاہے نصیر نے نثر میں ’’شعریات‘‘ اور شاعری میں ’’لاریب‘‘ بھی ادبی دنیاکو دیے ہوں لیکن ’’عکس فریادی‘‘ جب میری نظر سے گزرا ہے، وہی مجھے منتخب بھی لگا اور نمائندہ بھی۔ مجھے معلوم ہے کہ ان کی متاعِ شعر صرف اسی مجموعے تک محدود نہیں، نوجوانی میں باہم طالب علمی کا کچھ عرصہ ہم نے ساتھ گزارا ہے، میں نے ان کی دیگر متعدد غزلیں (اورنظمیں بھی) خود ان ہی سے سنی ہیں، جو اس مجموعے میں شامل نہیں۔ انھوں نے واقعتاً ’’عکس فریادی‘‘ کے لیے اپنے کلام کا انتخاب کیا اور حقیقتاً بڑا کڑا انتخاب کیا ہے، جو رطب و یابس یا فضولیات سے قطعی مملو نہیں۔ اسے تو اعتماد کے ساتھ انھوں نے پیش کردیا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انکسار کے ساتھ ابھی بہت کچھ چھپا رکھا تھا… اور یوں بڑے ایثار کا ثبوت دیا تھا۔ لیکن اب وہ سرمایہ شاید گرد و دھول ہی کی نذر ہوتا رہے گا، اس سے قطع نظر ’’اسی سے فقیری میں ہوں میں امیر‘‘ کے مصداق ’’عکس فریادی‘‘ میں حد درجہ تنوع اور تہ داری سمٹی ہوئی ہے۔ یہ مجموعہ صرف غزلوں پر مشتمل ہے… اور ایسی غزلوں پر جنھیں شاعر نے لفظی بلند آہنگی، وضاحت اور موضوعاتی تکرار سے دور رکھ کر داخلی آہنگ، تاثیر اور گہرائی سے آراستہ کیا ہے۔ ان میں نئے خیالات اور نئے پیرایوں کی جستجو عام ہے۔ پھر اسلوب بھی ایسا اختیار کیا ہے، جو ان کا اپنا ہے۔ اور اس کے لیے استعارے بھی نئے منتخب کیے ہیں، اور تراکیب بھی یکسر نئی وضع کی ہیں۔ مثلاً ان تراکیب ہی کی انفرادیت کا کوئی جواب یا مماثل کہاں ملے گا؟
کوہِ خود نگر: ۔

وقت ہے کوہِ خود نگر دید و شنید بے اثر
تُو ہے اُدھر تو میں اِدھر برف جمی ہے درمیاں

کنعانِ رخ و زلف، بحدِ گریباں:۔

کنعانِ رخ و زلف سے تابحد گریباں
اک قافلۂ دشمن و دم ساز تو دیکھ

شمع ہم فراق:۔

دیکھ یہ شب گزیدہ لو دیکھ مرا پریدہ رنگ
اے میری شمع ہم فراق سوچ یہ کس کاہے زیاں

سوادِ خوش چرا غی، دیاربے دیا راں:۔

وہ بہار تھی کہ تُو تھا غبار ہے کہ میں ہوں
تُو سوادِ خوش چراغی میں دیار بے دیاراں

ہوائے خوش نگہی:۔

وہ اک ہواے خوش نگہی تھی گزر گئی
اپنی خبر نے اور مجھے بے خبر کیا

شبِ ستارہ کشا:۔

شب ستارہ کشا ہی مقدروں میں نہ تھی
چراغ طاق پہ تھے روشنی گھروں میں نہ تھی

چشم خوش ہدف:۔

کچھ نہ کھلا دم وداع بزم میں چشم خوش ہدف
کس کو بچھا گئی کہاں کس کو سنبھال لے گئی

سوادِ رنج کشاں، سار بانِ نا قۂ وقت:۔

بھری بہار میں اک ساربانِ ناقۂ وقت
سوادِ رنج کشاں میں مجھے اتار آیا

کار غنچہ کاراں:۔

میں نوشتۂ خزاں ہوں مرے نام کچھ بہاراں
مرے زخم سب ہرے ہیں کوئی کار غنچہ کاراں

طرفہ روئی ِوقت:۔

طرفہ روئیِ وقت بھی کیسی بہانہ جو رہی
رسمِ وصال کیا کہ وہ یادِ وصال لے گئی

ان تراکیب سے شاعر نے یا تو نئے معنیٰ پیدا کیے ہیں یا اظہار کو نئی تاثیر دی ہے۔ بعض غزلوں کے بیشتر اشعار میں تراکیب استعمال ہوئی ہیں، جب کہ بعض اشعار میں ایک دو نہیں تین تین تراکیب ملتی ہیں اور بعض مانوس بندشیں اور قدیم سانچے نئے مفاہیم کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ مثلاً:

فرصتِ قرار:۔

کس گھر تُو گوشہ گر تھی اے فرصتِ قرار
لوگوں نے انتظار ترا عمر بھر کیا

وضعِ دل سوزی:۔

عجیب شہر یہ نکلا کہ وضعِ دل سوزی
قلندروں میں تو تھی بندہ پروروں میں نہ تھی

موسمِ بے یاراں:۔

کل ہیں کہ فروزاں میں دل ہے کہ بجھا چاہے
یہ موسم بے یاراں کیا جانیے کیا چاہے

یا اسی غزل کا اگلا شعر، جس میں بیک وقت چار تراکیب استعمال ہوئی ہیں:۔

غم خوارِ غم جاناں دم سازِ دل ویراں
اک زخمِ تمنا تھا اب وہ بھی بھرا چاہے

ایسی نئی تراکیب جو اپنی مخصوص معنویت رکھتی ہیں، نصیر کے کلام کا امتیازی وصف ہیں۔ ان کے معاصرین میں کسی اور شاعر نے تراکیب کو اپنے اظہار کا اس حد تک لازمہ نہیں بنایا جتنا نصیر نے بنایا ہے۔ پچھلی نسل تک یہ وصف جس طرح فیض احمد فیض کے ساتھ مخصوص تھا، آج کا عہد نصیر کو اظہار کی اس دل کشی کے ساتھ سامنے لایا ہے۔ شعری تراکیب اظہار میں نہ صرف دل کشی بلکہ نئی معنویت پیدا کرنے کا وسیلہ بنتی ہیں۔ بہت کم شاعروں نے آج اس وسیلے کو اپنا مخصوص پیرایہ بنایا ہے۔ مثلاً نصیر کی ایک پوری غزل، کئی اور غزلوںکی طرح دل کش تراکیب سے سجی ہوئی ہے۔ اس کے چند شعر دیکھیے:۔

یونہی دور دور رہنا وہ ملے تو کچھ نہ کہنا
پسِ حرفِ بے تکلم اسے ہم کلام رکھنا
کسی یاد کی حنا کو گلِ دستِ شب بنانا
کسی آنکھ کے دیے کو سرِ طاق شام رکھنا
کسی شامِ دل دہی سے کبھی صبحِ جاں کنی سے
جو چراغ بجھ رہا ہے اسے میرے نام رکھنا

ایسی ہی صورت استعاروں کی بھی ہے۔ نصیر نے بکثرت ان سے کام لیا ہے اور پھر ان کے وسیلے سے اپنے خیال، مشاہدے اور احساس کو اپنے معنیٰ پہنائے ہیں۔ یوں لگتا ہے ’’ہوا‘‘ ان کا مقبول استعارہ ہے جو بکثرت ان کے کلام میں بکھرا ہوا ہے۔ مثلاً کچھ مقامات دیکھیے:۔

شبِ فراق بھی چہرہ نما گزرتی ہے
کبھی چراغ بکف بھی ہوا گزرتی ہے
دونوں ہوا پسند ہیں دونوں کا اعتبار کیا
آنکھیں ہیں میری رنگ رنگ چہرہ ترا دھواں دھواں
کیا بندھی ہے ہوا چراغوں کی
دیکھ خالی یہ وار جاتا ہے
دل بھی شعلے کی طرح اپنی ہوا میں گم ہے
رقص کرتے ہوئے اک بار ادھر کو چلیے
ہوا کو طائرِ بے آشیاں نے شاخ کیا
شکستہ رنگیِ موسم سے حوصلہ نہ گیا
اس کے کوچے میں ہوا کی ہمرہی درپیش تھی
وہ مسافت وہ ندامت اب کہاں آہستہ چل
بیادِ موسمِ گل جانبِ در و دیوار
ہوا چلی ہے رقم تیرا نام کرنے کو
گفت و شنید باہمی پہنچی جو تابہ ہمدمی
پھر تو ہواے بے خیال کتنے خیال لے گئی

’’ہوا‘‘کے علاوہ ایسے دوسرے استعاروں میں ’’سفر‘‘ بھی انھیں بہت مرغوب ہے، جیسے:۔

چلا ہوں میں ہی نہ چلنے کے مر حلوں کی طرف
اب اس سفر پہ ہے کب کوئی دوسرا جاتا
مرا سفر عجب آشوب کا سفر ہے نصیرؔ
وہ آئے جس میں ہو چلنے کا حوصلہ آگے
خیال سیل و سوالِ طناب رہتا ہے
گزر رہی ہیں سفر ہی سفر میں زندگیاں
ذرا یہ مرحلۂ سائباں گزر جائے
زمیں بہت ہے سفر میں قیام کرنے کو
دشتِ ہنر سرابِ رفاقت ہوا نصیرؔ
اتنا ہی فاصلہ رہا جتنا سفر کیا

کہیں استعاروں کے وسیلے سے اور کہیں تراکیب کی بندشوں سے نصیر نے لفظوں کی جو نئی صورت گری کی ہے اس نے انھیں ایک نئی معنویت کے اظہار میں بھی مدد دی ہے۔ الفاظ کا درو بست ہی نہیں، نئی لفظی تشکیل اور لفظی اجتہاد نے ایک تو شعری اظہار کو ایک نیا آہنگ دیا ہے، اور پھر اسے کم از کم عہدِ حاضر کی نسل میں نصیر کے ساتھ مخصوص بھی کردیا ہے، کہ جدید غزل میں بہت کم شاعروں نے غزل کو وہ نیا رنگ و آہنگ اور نئے اسالیب و تنوع سے روشناس کیا ہے جو ان کے معاصرین میں کسی اور شاعر کے ہاں کم از کم مجھے نظر نہیں آتا۔ میرے خیال میں حقیقتاً جن جدید شعرا میں غزل کو جو نیا رنگ و آہنگ اور نیا روپ جیسے محسن نقوی نے دیا ہے یہ ہمیں اُسی وقت سے نصیر کی غزل میں بھی چمکتا دمکتا نظر آتاہے جو گنتی کے مزید ایک دو شاعروں ہی تک محدود و مخصوص ہے۔ اس اعتبار سے نصیر کا جدید دنیائے غزل سے رخصت ہونا کسی بڑے سانحے سے کم نہیں۔ ویسے بھی نصیر میں ہجوم سے گریزپائی کی ایک صفت نمایاں رہی، اور شہرت و خودنمائی کا مزاج ان کے سیکڑوں ہزاروں معاصرین کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر تھا۔ ان کی شاعری کی منفرد و مختلف خصوصیات اور فنی پختگی یقین ہے کہ دنیا سے رخصت ہوجانے کے باوجود انھیں تادیر فراموش ہونے نہ دے گی، اور لوگ ان کے بھی منتخب اشعار دہرانے پر مجبور رہا کریں گے۔اور یہی ان کا امتیاز رہے گا۔