رؤف طاہر کی یاد میں

جناب رئوف طاہر سے ابتدائی تعارف تو 1970ء کی دہائی میں ہی ہوگیا تھا، کہ وہ مقرر اور ڈیبیٹر کے طور پر تعلیمی حلقوں میں، اور ایک نظریاتی، متحرک اور سرگرم کارکن کے طور پر اسلامی جمعیت طلبہ کے حلقوں میں معروف تھے۔ ہارون آباد، بہاولنگر، ملتان اور پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور میں بطور طالب علم لیڈر اُن کا نام گونجتا تھا۔ وہ 1970ء کی دہائی کی تمام طلبہ تحریکوں میں متحرک رہے، اور ہمیشہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ اُن سے رکنیتِ جمعیت کا حلف سیّد منور حسن مرحوم نے لیا تھا۔ گورنمنٹ کالج ہارون آباد میں اسلامی جمعیت طلبہ کے پینل میں صدارتی امیدوار تھے مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ اس کے بعد سے وہ ذاتی طور پر انتخابی سیاست سے دور ہی رہتے، مگر جاوید ہاشمی، فرید پراچہ اور دوسرے دوستوں کی انتخابی مہم اس انداز میں چلاتے جیسے خود انتخاب لڑ رہے ہوں۔ یونیورسٹی کی سطح پر فیصلوں میں وہ سرگرمی سے شریک ہوتے، اپنی رائے کا دبنگ انداز میں اظہار کرتے۔ مولانا مودودیؒ کی اکثر عصری نشستوں میں شریک ہوتے اور اچھرہ میں اسلامی جمعیت طلبہ کے مرکزی دفتر کو خاصا وقت دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں انہیں تقریر اور تحریر کی بہترین صلاحیتیں عطا کی تھیں، وہیں لوگوں سے تعلقات اُن کی اضافی خوبی تھی۔ ہر عمر کے لوگ، ہر نقطہ نظر سے وابستہ افراد، ہر پیشے اور شعبے کے ماہرین، امیر غریب، آجر اجیر، صحافی اور مالکان، علماء اور لبرلز، طلبہ اور اساتذہ، حتیٰ کہ کھلاڑی اور اداکار بھی دورِ طالب علمی ہی سے اُن کے حلقۂ تعلق میں شامل تھے، اور ہر گزرتے دن کے ساتھ تعلقات کے اس حلقے اور اس تعلق کی نوعیت میں اضافہ ہوتا رہا۔ وہ مرتے دم تک اِن تعلق داروں سے ٹیلی فون پر رابطہ رکھتے۔ ان کے دُکھ سُکھ میں شریک ہوتے۔ انہیں اپنے دفتر بلاتے اور خود گاہے بہ گاہے جاکر اُن سے ملاقات کی سبیل پیدا کرتے رہتے تھے۔
میرے اُن سے ذاتی تعلق اور ملاقاتوں کا سلسلہ 1981ء سے شروع ہوا جب وہ لاہور میں روزنامہ جسارت کراچی کے بیورو چیف تھے اور میں نے روزنامہ جنگ سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ وہ شہر میں کمٹڈ نظریاتی صحافی اور انتہائی محنتی رپورٹر کے طور پر جانے جاتے تھے۔ وہ آن اسپاٹ رپورٹنگ کے قائل تھے۔ بڑے اخبارات کے رپورٹرز کی طرح ٹیلی فون پر خبریں اکٹھی کرنا یا پریس ریلیز پر اپنی کریڈٹ لائن ڈال کر کام چلانا انہیں قبول نہیں تھا۔ وہ ہر جلسے، جلوس، مظاہرے، تقریب، بھوک ہڑتال، پریس کانفرنس اور ادبی، علمی، سیاسی یا سماجی مجلس میں بذاتِ خود پہنچ کر اُسے کور کرتے۔ مہم جویانہ رپورٹنگ کا یہ جنون انہیں اس حد تک تھا کہ چھٹی والے دن بھی جلسے، جلوسوں کو دیکھنے پہنچ جاتے۔ رپورٹنگ سے فارغ ہوتے تو کسی سیاسی، علمی، ادبی، سماجی شخصیت یا کسی دوست سے ملاقات کے لیے نکل جاتے، اور روزانہ کی طرح چھٹی والے دن بھی رات گئے گھر لوٹتے۔ اپنے پیشے سے اس جنونی لگائو اور لوگوں سے ملاقاتوں کی اس ’’ٹھرک‘‘ نے دو معاملات میں انھیں بُری طرح متاثر کیا۔ ایک تو وہ اپنی صحت سے لاپروا ہوگئے، اور دوسرے اُن کی گھریلو زندگی بھی نظرانداز ہوتی رہی۔ اگرچہ وہ ہمیشہ اپنے خاندان اور افرادِ خانہ کے بارے میں بہت حساس رہے۔ والدہ کے شام ڈھلے گھر میں دیے جلانے، ماہ صفر میں کونڈے بھرنے، محرم میں گلی کے نکڑ پر چنے بھوننے والی مائی کی بھٹی میں پانی ڈال دینے سے لے کر والد کی بیماری، اور ’’جب امرتسر جل رہا تھا‘‘ تک میں دلچسپی۔ ماموں کی اخلاقی حساسیت ، ماموں زاد بھائی عبدالرزاق چیمہ کی ترقی و جدوجہد، چھوٹی بہن کی کالج دور کی سرگرمیوں، رفیقۂ حیات کے شوق اور دلچسپیوں سے لے کر بیٹی میمونہ کے سیڑھی سے گر کر زخمی ہونے، بیٹے آصف کی دینی معاملات میں دلچسپی، اور چھوٹے بیٹے کاشف کے جہادی جذبے تک کو وہ مجھ جیسے دوستوں کے سامنے تفصیل کے ساتھ بیان کرتے، لیکن خود اپنی فیملی کو بہت کم وقت دے پاتے۔
یہ ایم آر ڈی کی تحریک کا دور تھا۔ رئوف طاہر ضیاء الحق اور جہادِ افغانستان کے زبردست حامی ہونے کے باوجود نہ صرف ایم آر ڈی تحریک کی دیانت دارانہ کوریج کرتے بلکہ ملک قاسم، افضل حیدر اور عاصمہ جہانگیر وغیرہ سے مسلسل رابطے میں رہتے۔ دوسری جانب وہ افغان جہادی رہنمائوں حکمت یار، برہان الدین ربانی اور پروفیسر سیاف کے ساتھ ساتھ جنرل حمیدگل اور میجر عامر کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات کے بندھن میں بندھے ہوئے تھے۔ بااعتماد تعلقات کی یہ نوعیت خبروں اور تجزیوں میں اُن کی بہت مددگار ثابت ہوئی۔ جلسوں، جلوسوں اور مظاہروں کی کوریج کے بعد بیشتر رپورٹر مال روڈ پر روزنامہ ڈان کے دفتر چلے آتے اور جناب نثار عثمانی کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتے۔ ڈان کے دفتر کی اِن نشستوں میں محمود زمان مرحوم، سعید آسی، انجم رشید، صادق جعفری، اظہر جعفری مرحوم، اورنگ زیب مرحوم، سید ممتاز شاہ اور کئی دیگر اخبار نویس شریک ہوتے۔ اِن ہی نشستوں میں لاہور پریس کلب کی بحالی پر غور ہوا، جو عملاً موجود ہونے کے باوجود غیر مؤثر ہوگیا تھا۔ چنانچہ اِن دوستوں نے باہمی مشاورت سے محمود زمان، اظہر جعفری، انجم رشید اور صادق جعفری پر مشتمل ایک کمیٹی بنادی، جس نے اخباری دفاتر میں جاکر عامل صحافیوں کی فہرستیں بنائیں اور انتخابات کرا دیے۔ لیکن چار رکنی کمیٹی کو اِن انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لینے کا حق نہیں تھا۔ دیال سنگھ مینشن میں موجود غیر فعال کلب میں یہ انتخابات ہونا تھے جو کلب کی قابض باڈی نے عدالتی حکم کے ذریعے رکوا دیے۔ چنانچہ ان انتخابات کے لیے پولنگ قریب ہی مزدور رہنما احسان اللہ خان کے دفتر میں منعقد ہوئی، اور امتیاز راشد مرحوم صدر اور قدرت اللہ چودھری جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے۔ چنانچہ لاہور اسٹاک ایکسچینج کے صدر نوشیر ایف دستور کی مال روڈ پر موجود ایک چھوٹی سی عمارت میں بے سرو سامانی کے عالم میں یہ کلب شروع کردیا گیا۔ اگلے سال عزیز مظہر صدر اور سعید آسی سیکرٹری، جبکہ اُس سے اگلے سال عزیز مظہر صدر اور جواد نظیر مرحوم سیکرٹری منتخب ہوئے۔ اس کے اگلے سال کا معرکہ زیادہ زوردار تھا جس میں ہمارے گروپ کی جانب سے رئوف طاہر صدارت اور مجید آسی جنرل سیکرٹری شپ کے امیدوار تھے۔ جب کہ دوسری جانب سے ناصر نقوی اور فیاض چودھری مقابلے میں تھے۔ یہ مقابلہ ہمارا گروپ 147 بمقابلہ 151 کے ساتھ صرف چار ووٹوں سے ہار گیا۔ سعیدآسی تو بعد میں حسین نقی کے ساتھ جنرل سیکرٹری منتخب ہوگئے لیکن رئوف طاہر نے انتخابی مقابلے سے ایک بار پھر ہاتھ کھینچ لیا۔ لیکن بعد میں دوستوں کے مجبور کرنے پر 1988ء میں وہ لاہور پریس کلب کی گورننگ باڈی کے رکن، 1998ء میں پنجاب اسمبلی پریس گیلری کے صدر اور دو سال کے لیے پنجاب یونین آف جرنلسٹس دستور کے جنرل سیکرٹری بھی منتخب ہوئے۔ پی ایف یو جے دستور کے وہ بانی ارکان میں شامل تھے اور مرتے دم تک اپنا وزن اسی پلڑے میں ڈالتے رہے۔
اُن دنوں رئوف طاہر مرحوم جسارت اور فرائیڈے اسپیشل کے علاوہ ہفت روزہ زندگی میں بطور انٹرویو نگار، تجزیہ کار اور ڈپٹی ایڈیٹر کام کرتے تھے۔ اُن کی اس مشقت اور پیشہ ورانہ لگن کو دیکھتے ہوئے جناب مجید نظامی انہیں روزنامہ نوائے وقت میں لے آئے، جہاں بطور سیاسی رپورٹر، ڈائری نویس، تجزیہ کار، کالم نگار اور انچارج ایوانِ وقت فورم انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور لوہا منوایا۔ اُن دنوں اُن کے پاس ایک کھٹارا سی موٹر سائیکل ہوا کرتی تھی۔ وہ صبح سویرے جناب نصراللہ غلزئی مرحوم کے ساتھ نئی نئی خبروں کی تلاش میں نکلتے اور پھر دفتری مشقت اور دوستوں سے میل ملاقات کے بعد رات دیر گئے اپنے گھر واقع علامہ اقبال ٹائون لوٹتے۔ اس بستی کے ستلج اور جہانزیب بلاک میں جو صحافی آباد تھے اُن کے ساتھ بھی میل ملاقات کی وہ کوئی نہ کوئی سبیل نکال لیتے۔ 1998ء میں وہ معاشی ضروریات کے باعث اردو نیوز جدہ کے ایڈیٹر ہوکر سعودی عرب چلے گئے۔ اس جریدے کے لیے انہوں نے بڑے معرکتہ الآرا انٹرویو کیے۔ جبکہ پاکستانی اخبارات میں بھی وہ کالم اور مضامین لکھتے رہے۔ سعودی عرب میں 12 سالہ قیام کے دوران بھی وہ میل ملاقاتوں میں اُسی طرح متحرک اور پُرجوش رہے۔ وہاں کی تمام ادبی، علمی اورنیم سیاسی تقریبات میں شریک ہوتے اور اپنا حصہ ڈالتے۔ برادرم شاہد نعیم سمیت جدہ کے پاکستانی اور بھارتی اہلِ علم و دانش انھیںاب بھی یاد کرتے ہیں۔ سال چھے مہینے میں پاکستان آتے تو ایک ایک جاننے والے سے مل کر جاتے۔ اسی دوران میں نوازشریف مع فیملی جلاوطن ہوکر جدہ پہنچ گئے تھے، جن سے رئوف طاہر کے پہلے ہی سے تعلقات تھے۔ یہاں رہتے ہوئے یہ تعلقات قربتوں میں بدل گئے کہ اُس عرصے میں نوازشریف اور شہبازشریف کی کوئی مصروفیت نہیں تھی۔ رئوف طاہر سرور پیلس کے ریگولر وزیٹر تھے۔ پاکستان سے جانے والے بیشتر صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کی شریف فیملی سے ملاقات کا بندوبست اکثر وہی کراتے۔ یہیں انہوں نے نوازشریف کی یادداشتوں یا سوانح عمری پر بھی کام کیا جو بدقسمتی سے تاحال شائع نہیں ہوسکیں۔ یہی کام سہیل وڑائچ بھی کرنا چاہ رہے تھے۔ رئوف طاہر نے نہ صرف خوش دلی سے اُن کی حوصلہ افزائی کی بلکہ نوازشریف کو اس کے لیے آمادہ بھی کرتے رہے، جن کا خیال تھا کہ آپ (رئوف طاہر) جو کام کررہے ہیں پہلی فرصت میں اس کی تکمیل ہونی چاہیے۔ قیام جدہ کے دوران اُن کی وفا شعار اہلیہ اور ہماری انتہائی محترم بھابھی زاہدہ مرحومہ نے نہ صرف گھر کا نظام تنِ تنہا خوش اسلوبی سے چلایا، بچوں کی تعلیم و تربیت کا فریضہ ادا کیا بلکہ شوہر کی عدم موجودگی میں سبزہ زار والا پلاٹ بیچ کر واپڈا ٹائون میں گھر بھی تعمیر کرا لیا۔ چنانچہ 2010ء میں رئوف طاہر وطن واپس آئے تو ایک خوبصورت اور آرام دہ گھر اپنے خوبصورت مکینوں کے ساتھ اُن کا منتظر تھا۔
یہاں آکر انہوں نے روزنامہ پاکستان میں جہاں وہ پہلے بھی کالم لکھ رہے تھے، باقاعدگی سے کالم لکھنا شروع کردیے۔ کچھ عرصے بعد وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے انہیں پنجاب حکومت کا میڈیا کنسلٹنٹ مقرر کردیا۔ وہ 2013ء کے انتخابات سے کچھ عرصہ قبل تک اس عہدے پر اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ فرائض انجام دیتے رہے۔ 2013ء کی انتخابی مہم کے دوران جب راقم مسلم لیگ (ن) میڈیا سیل سے وابستہ تھا جناب رئوف طاہر نے ہماری درخواست پر میاں نوازشریف کے کئی جلسوں کی بہت اعلیٰ کوریج کی۔ اِن انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے بعد عام خیال تھا کہ رئوف طاہر کو کوئی اعلیٰ سرکاری عہدہ دیا جائے گا۔ میاں نوازشریف نجی ملاقاتوں کے دوران انہیں یہ پیش کش بھی کرچکے تھے، لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر اس تقرری میں پے در پے تاخیر ہوتی رہی۔ چنانچہ رئوف طاہر نے روزنامہ جنگ میں کالم لکھنا شروع کردیا۔ انتخابات کے دوران وہ جیو الیکشن سیل میں بطور تجزیہ نگار بھی خدمات انجام دیتے رہے تھے، اس طرح اُن کی ٹی وی اسکرین کی حیثیت بھی مسلمہ ہوگئی تھی۔ یہ رئوف طاہر کی آزمائش کا دور تھا۔ ایک طرف اُن کی مجوزہ تقرری بلاجواز تاخیر کا شکار ہورہی تھی اور دوسری جانب اُن کی وفا شعار اہلیہ اور اس گھرانے کی عملی سربراہ بھابھی زاہدہ شدید بیمار ہوکر اسپتال پہنچ گئی تھیں جہاں اُن کے ایک موذی مرض میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔ زاہدہ بھابھی اتفاق اسپتال میں زیر علاج تھیں اور رئوف طاہر اور ان کے بچے ماں کی دیکھ بھال میں لگے ہوئے تھے۔ واپڈا ٹائون کا گھر خالی پاکر چوروں نے رات کے وقت پورے گھر کا صفایا کردیا۔ رئوف طاہر اور بچوں نے یہ صدمہ خاموشی سے سہہ لیا مگر بیوی کو اس کی خبر نہ ہونے دی۔ وہ چند روز بعد گھر آئیں تو یہ گھر کو معمول پر لاچکے تھے۔ ایک روز انہیں لیپ ٹاپ کی ضرورت پیش آئی، میمونہ سے لیپ ٹاپ منگوایا تو اس نے بہانہ کردیا کہ اس کا لیپ ٹاپ مرمت ہونے گیا ہے۔ آصف سے کہا تو اس کا بہانہ تھا کہ وہ دفتر بھول آیا ہے۔ کاشف سے لیپ ٹاپ لانے کو کہا تو اس نے کہہ دیا کہ ایک دوست مانگ کر لے گیا ہے۔ اس طرح بچوں نے یہ حادثہ ماں سے چھپائے رکھا۔ چند روز بعد اُن کی طبیعت پھر بگڑ گئی، وہ دوبارہ اسپتال میں داخل ہوگئیں تو چوروں نے دوسری بار گھر کا صفایا کردیا۔ لیکن اس بار زاہدہ بھابھی واپس گھر نہ آسکیں۔ اسپتال ہی سے اللہ کے حضور حاضر ہوگئیں۔ اس سے قبل بھی ایک بار جب وہ آصف کے ساتھ خریداری کرکے واپس آئیں تو ابھی گاڑی ہی میں تھیں کہ تاک لگائے ہوئے نوجوان ڈاکوئوں نے انہیں گن پوائنٹ پر لوٹ لیا۔ اُن سے اور آصف سے نقدی اور موبائل چھین لیے۔ ڈاکوئوں نے بھابھی سے ہاتھوں میں پہنی ہوئی طلائی چوڑیاں دینے کو کہا تو انہوں نے بتایا کہ یہ تو ہاتھوں میں پھنسی ہوئی ہیں اُتر نہیں سکتیں۔ ڈاکوئوں نے جواب دیا: آنٹی آپ فکر نہ کریں، ہمارے پاس اس کا انتظام ہے۔ اور ایک ڈاکو نے جیب سے کٹر نکال کر چوڑیاں کاٹ کر اُتار لیں۔ علامہ اقبال ٹائون میں قیام کے دوران جب رئوف طاہر کرایے کے فلیٹ میں رہتے تھے بھابھی زاہدہ نے اپنا اور اپنی نند کا زیور اپنے لاکر میں رکھ دیا۔ بدقسمتی سے چوروں نے بینک کے لاکرز کاٹ کر بہت سے لوگوں کو اُن کے زیورات اور قیمتی چیزوں سے محروم کردیا۔ ان میں زاہدہ بھابھی اور رئوف بھائی کی بہن کا زیور بھی شامل تھا۔ بھابھی زاہدہ کے انتقال اور واپڈا ٹائون میں چوری اور ڈکیتی کی ان وارداتوں کے بعد یہ خاندان لیک سٹی میں نیا گھر تعمیر کرکے وہاں منتقل ہوگیا۔2020 ء میں بھی یہ گھر گن پوائنٹ پر لٹ گیا۔ آخری واردات کے سوا تمام وارداتیں نوازشریف اور شہبازشریف کے اقتدار کے ادوار میں ہوئیں مگر آج تک نہ کوئی ڈاکو پکڑاگیا، نہ لوٹا گیا مال برآمد ہوسکا۔
زاہدہ بھابھی کے انتقال کے دس پندرہ روز بعد میاں نوازشریف اور کلثوم نواز تعزیت کے لیے واپڈا ٹائون میں رئوف طاہر کے لٹے پٹے گھر آئے تو کلثوم نواز نے وزیراعظم کو توجہ دلائی کہ ابھی تک بھائی رئوف طاہر کی خدمات سے استفادے کا کوئی بندوبست کیوں نہیں کیا گیا، جس پر نوازشریف نے وہاں موجود وزیر اطلاعات پرویز رشید کو یہ کام جلد کرنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے اتنی بڑی وزارتِ اطلاعات میں تو مرحوم کو نہ کھپایا البتہ ڈائریکٹر تعلقاتِ عامہ پاکستان ریلویز کی خالی اسامی پر تعیناتی کے لیے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کو رضامند کرلیا۔ اس اسامی کو ڈائریکٹر سے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر اپ گریڈ کرانے میں کئی ماہ لگادیے گئے اور پھر وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری طارق کھوسہ نے اسے باقاعدہ مشتہر کرنے کی پخ لگادی۔ اس طرح رئوف طاہر دوبار گھر لٹوا کر اور رفیقہ حیات کی ابدی جدائی کا صدمہ سہہ کر تقریباً ایک سال بعد وسط 2014ء میں ڈائریکٹر جنرل تعلقاتِ عامہ پاکستان ریلویز تعینات ہوسکے۔ یہاں انہوں نے تین سالہ کنٹریکٹ پر اس انداز میں کام کیا کہ اخبارات اور چینلز پر ریلوے کا امیج بہتر کیا، ہر چھوٹے بڑے صحافی کو عزت و تکریم دی۔ یہ انتظامی اہتمام کیا کہ خواجہ سعد رفیق ریلوے سے متعلق امور پر پریس کانفرنس ریلوے ہیڈ کوارٹرز میں کریں اور وہاں کوئی سیاسی گفتگو نہ کریں۔ سیاسی موضوعات پر وہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے اور اس کے اخراجات ریلوے کے کسی فنڈ سے نہیں بلکہ پارٹی یا خواجہ سعد رفیق کی گرہ سے ادا کیے جاتے تھے۔ رئوف طاہر تمام پریس کانفرنسوں میں موجود ضرور ہوتے لیکن کبھی اسٹیج پر بیٹھتے نہ آگے بڑھ کر اپنے وزیر یا وزارت کا دفاع کرتے۔ صحافیوں کو ہر طرح کے سوالات کرنے میں آزادی دیتے اور کبھی غیر ضروری طور پر اپنے محکمے کا دفاع نہ کرتے۔ اُن کا دفتر ملک بھر کے صحافیوں کے لیے ہر وقت کھلا رہتا۔ انہوں نے صحافیوں کے لیے رعایتی کارڈز کے اجراء کو آسان اور تیز کرایا۔ ریلوے سے متعلق صحافیوں کے کاموں میں اُن کی ہر ممکن مدد کرتے۔ اپنے عملہ کو بھیج کر اُن کے لیے ریزرویشن کا بندوبست کراتے اور گرم کافی پلا کر اپنے کمرے کے دروازے تک آکر انہیں رُخصت کرتے۔ اس کارکردگی اور وفاداری کے باوجود جب اُن کا کنٹریکٹ ختم ہوا تو کسی کو اس کنٹریکٹ میں توسیع کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ اُن کے یہ بتانے کے باوجود کہ فلاں تاریخ سے اُن کا کنٹریکٹ ختم ہورہا ہے وزیر ریلوے نے جو دہائیوں سے اُن کے نیازمند ہیں اور جن کے والد مرحوم کے ساتھ بھی رئوف طاہر کے تعلقات تھے، محض ’’اوکے بیسٹ آف لک‘‘ کہہ کر انہیں رُخصت کردیا، جس کا رئوف طاہر مرحوم نے کئی بار میرے سامنے دُکھ کے ساتھ اظہار بھی کیا۔
ریلوے سے فراغت کے بعد رئوف طاہر نے روزنامہ جنگ چھوڑ کر روزنامہ دنیا میں کالم لکھنا شروع کردیا۔ سیاسی ٹاک شوز میں اُن کی شمولیت بھی بڑھ گئی اور دوستوں اور تعلق داروں سے ملاقاتوں میں بھی اضافہ ہوگیا، تب وہ پی ٹی وی پر باقاعدگی سے ایک پروگرام بھی کرتے اور آتے جاتے پریس کلب میں بھی کچھ وقت گزارنے لگے۔ اس دوران معلوم ہوا کہ جدہ جانے کے باعث اُن کی پریس کلب کی رکنیت ختم ہوچکی ہے۔ چنانچہ میں نے پریس کلب کے سیکرٹری برادرم عبدالمجید ساجد سے درخواست کی، تو انہوں نے کمال مہربانی کرتے ہوئے جناب رئوف طاہر اور جناب صادق جعفری کو کلب کی لائف ممبر شپ جاری کردی۔ مئی 2018ء میں ایک ناخوشگوار واقعے کے بعد جناب مجیب الرحمٰن شامی کی کوششوں سے انہیں مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کا سیکرٹری مقرر کردیا گیا، جو اُن کی آخری تقرری اور ذمہ داری تھی۔ انہوں نے چیئرمین ٹرسٹ جناب خالد محمود کی قیادت اور بصیرت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس ٹرسٹ کو شہر کا ایک متحرک اور مقبول فورم بنادیا۔ ٹرسٹ کے ہال کو طلبہ اور اہلِ علم کے لیے کھول دیا۔ اہلِ علم کو ٹرسٹ کے دفاتر کا دورہ کرنے کی دعوتیں دیں، طلبہ و طالبات کو آگاہی پروگرام کے تحت مولانا ظفر علی خان کی شخصیت اور خدمات سے روشناس کرایا۔ استادِ محترم ڈاکٹر شفیق جالندھری کی قیادت میں جو ہفتہ وار فکری فورم چل رہا تھا اُسے زیادہ مؤثر اور مفید بنایا۔ اس فورم میں ملک کی نامور شخصیات کو اظہارِ خیال کے لیے مدعو کیا۔ مولانا ظفر علی خان کی برسی کے موقع پر قومی اخبارات میں خصوصی مضامین کی اشاعت اور ٹی وی چینلز پر خصوصی پروگراموں کو نشر کرانے کا اہتمام کیا۔ 2019ء سے مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ فکری فورم میں میرا آنا جانا شروع ہوا تو رئوف بھائی سے ملاقاتوں میں اضافہ ہوگیا۔ ڈاکٹر شفیق جالندھری نے حج پر جاتے ہوئے یہ ذمہ داری مجھے تفویض کردی تو برادرم رئوف طاہر کی معاونت اور رہنمائی مزید بڑھ گئی۔ وہ مقررین کی تلاش، شرکاء کی دلچسپی کے ساتھ ساتھ پروگرام کو دلچسپ بنانے میں ضروری معاونت کرتے۔ خود پروگراموں میں شریک ہوتے اور اپنے علم اور مطالعے کے باعث گفتگو اور بحث میں گرما گرمی پیدا کردیتے۔ اس دوران تقریباً روزانہ اُن سے ٹیلی فون پر بات ہوتی۔ وہ دوستوں سے ملنے کے لیے جاتے تو مجھے بھی ساتھ لے لیتے۔ ستمبر 2020ء سے میں نے ٹرسٹ کے دفتر باقاعدگی سے آنا شروع کیا تو یہ ملاقاتیں روزانہ کی بنیاد پر ہونے لگیں۔ صبح گیارہ بارہ بجے کے قریب اکٹھے چائے پیتے، سوا بجے دفتر ہی میں باجماعت نماز ادا کرتے۔ نماز باجماعت کا یہ اہتمام بھی جناب رئوف طاہر کا صدقۂ جاریہ ہے۔ وہ دفتر کے ساتھیوں کا بہت خیال رکھتے، انہیں عزت و احترام دیتے اور پیار محبت سے کام چلاتے تھے۔ سیاسی موضوعات پر گفتگو کے دوران اُن کی آواز خاصی بلند ہوجاتی۔ وہ کسی بات پر زور دینا چاہتے تو تین چار بار ’’نہیں نہیں‘‘ اور ’’ایک منٹ ایک منٹ ایک منٹ‘‘ کہہ کر اپنے مؤقف کی حمایت میں نئے دلائل لے آتے، لیکن دوسروں کی رائے کا بھی پورا احترام کرتے۔ ’’محترم بھائی‘‘ اُن کا مرغوب اندازِ تخاطب تھا۔ وہ مجالس میں چھا جانے کا فن جانتے تھے۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ کسی مجلس میں شریک ہوں اور اپنی بات نہ کریں۔ میںکسی مجلس میں خاموش رہتا تو مجھے اُکساتے کہ آگے بڑھ کر اپنی بات کہا کرو۔ کہیں میری گفتگو پسند آجاتی تو بے حد حوصلہ افزائی کرتے۔ دوسرے لوگوں کی گفتگو اور تحریر پر بھی دل کھول کر تعریف کرنا اُن کا معمول تھا۔ پنجاب یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر ڈاکٹر سلیم مظہر نے یونیورسٹی کی ایک تقریب میں صدارتی تقریر کی تو دیر تک اس تقریر کے مندرجات کی تعریف کرتے رہے۔ ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر اپنی کتاب پیش کرنے آئیں تو کہنے لگے ’’یہ میری چھوٹی بہن ہے، لیکن اس کی تحریر بہت زور دار ہے‘‘۔ جناب الطاف قریشی، سجاد میر، عطا الرحمٰن، یاسر پیرزادہ، عطاء الحق قاسمی، یا کسی دوسرے کا کالم پسند آتا تو فوراً تعریفی فون کرتے۔ ڈاکٹر امان اللہ ملک کی ترقی اور رانا فاروق کی بیگم کی چھٹی کے لیے اُن سے زیادہ پریشان رہتے اور جہاں جہاں ممکن ہوتا جاکر سفارش کرتے۔ دفتری معاملات کو کسی جھنجھلاہٹ کے بغیر نمٹاتے اور سیاسی و نظریاتی مخالفین کا پُرتپاک انداز میں استقبال کرتے۔ دوستوں سے بے تکلفی کو اپنا حق قرار دیتے اور مخالف نقطہ نظر کے لوگوں کی بات کا موقع پر ہی زوردار جواب دیتے۔ تحریر میں زبان و بیان کا بہت خیال رکھتے۔ اُن کا کالم سیاسی واقعات کی درست تاریخ اور ادبی ذوق کا اظہاریہ ہوتا، اکثر کالموں میں خوبصورت اشعار استعمال کرتے، کتابوں کے حوالے دیتے اور کسی برجستہ مصرع ہی کو اپنے کالم کا عنوان بناتے۔ دفتر ہمیشہ پراپر لباس پینٹ شرٹ، کوٹ پینٹ یا سوٹ میں آتے۔ اہتمام کے ساتھ سفاری سوٹ پہننے والے وہ اس شہر کے چند لوگوں میں شامل تھے۔ میں نے انہیں صرف اُن کی اہلیہ کے انتقال پر شلوار قمیص میں ملبوس دیکھا تھا۔ وہ کبھی اس لباس میں دفتر نہیں آتے تھے۔ اتنے سادہ تھے کہ کسی ریڑھی سے لنڈے کا کوٹ خرید لیتے تو برسوں لوگوں کو بتاتے رہتے۔ ہم جیسے لوگوں کی غیر محسوس انداز میں اس طرح تربیت کرتے کہ دیکھو یہ دوستوں کا حق ہے، یہ تعلق داروں کا مان ہے، ہر بات پر کڑھا مت کرو کہ زندگی اسی طرح چلتی ہے۔ جن کا احترام کرتے اُن سے بھی اختلاف کرنے سے گریز نہ کرتے، البتہ اختلاف اس خوبصورتی سے کرتے کہ سامنے والے کو بھی بُرا نہ لگتا۔ دوستوں اور تعلق داروں کے دُکھ سُکھ میں اس طرح شریک ہوتے کہ شرکت کا حق ادا ہوجاتا۔ اپنے ماضی پر ہمیشہ فخر کرتے اور فخریہ انداز میں اُس کا تذکرہ بھی کرتے رہتے۔ یونیورسٹی دور کی یادیں بیان کرتے تو آنکھوں میں چمک آجاتی۔ مرحومہ اہلیہ کا تذکرہ کرتے تو دیر تک کرتے چلے جاتے۔ مرحومہ کی پہلی برسی پر انہوں نے جو کالم لکھا وہ اُن کا شاہکار کالم تھا، جس کے بارے میں ہمارے دوست اور حیدرآباد کے جیّد صحافی جناب ظہر احمد نے کہا تھا کہ اس کالم نے اُن لوگوں کو بھی رُلا دیا ہے جن کی بیگمات حیات ہیں۔
اتنی خوبیوں اور محبتوں والے طویل قامت، بلند آہنگ اور درد مند رئوف طاہر 2020ء کی آخری شام ڈاکٹر امان اللہ ملک کے ساتھ میرے کمرے میں آئے تو چائے پر نرم گرم گفتگو کرکے پوری گرمجوشی کے ساتھ رخصت ہوئے۔ وہ اُس وقت بھی عمر مجیب شامی کی خوش دامن کے قل سے واپس آئے تھے اور جناب الطاف قریشی کی خبر گیری کے لیے جارہے تھے۔ چلتے ہوئے گرمجوشی سے ہاتھ ملایا۔ کسے معلوم تھا کہ یہ اُس باوقار دوست کے ساتھ آخری مصافحہ ہے۔ اگلے دو دن فون پر بھی بات نہ ہوسکی اور نئے سال کے چوتھے روز ہمیشہ باوضو رہنے والا یہ شخص آن لائن کلاس لیتے ہوئے دوستوں اور عزیزوں کو سوگوار چھوڑ کر اپنے اللہ کے حضور پیش ہوگیا۔ اُن کا آخری کالم بھی محنت اور رزقِ حلال کا پیغام لیے ہوئے ہے۔

چلے تو غنچوں کی مانند مسکرا کے چلے
پر اپنے چاہنے والوں کو خوں رُلا کے چلے

بھائی رئوف طاہر مرحوم کے آخری کالم کا عنوان تھا: ’’وفا کا نام بھی زندہ ہے، میں بھی زندہ ہوں‘‘۔ یہ کالم انہوں نے مسلم لیگی رہنما خواجہ آصف کی گرفتاری پر لکھا تھا۔ اگرچہ انہیں خواجہ آصف کے اندازِ سیاست اور بعض امور پر اُن کے مؤقف سے اختلاف رہا ہے، لیکن انہوں نے اُن کی مسلم لیگ (ن) سے وفاداری، اور گرفتاری کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنے کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ کالم لکھا تھا۔ رئوف طاہر اسلامی جمعیت طلبہ سے ہوتے ہوئے، اور جماعت اسلامی کی محبتوں کے مرتے دم تک اسیر رہنے کے باوجود سیاسی طور پر مسلم لیگ (ن) کے زبردست حامی تھے۔ انہوں نے اچھے اور برے وقتوں میں اس کا برملا اظہار کیا۔ نوازشریف کی معزولی اور 2018ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی شکست کے بعد وہ مسلسل شریف فیملی اور مسلم لیگ (ن) کی حمایت میں لکھ رہے تھے۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگ انہیں مسلم لیگ (ن) کا غیر اعلانیہ ترجمان بھی کہہ دیتے تھے۔ وہ نوازشریف سے رابطے میں تھے، اور شہبازشریف گاہے گاہے انہیں اپنے گھر یا دفتر بلا کر ان سے سیاسی امور پر تبادلہ خیال کرتے تھے۔ وہ نوازشریف کے بیانیے کے حامی اور پرچارک تھے، لیکن شہبازشریف کے لیے بھی نرم گوشہ رکھتے تھے۔ نوازشریف کی معزولی کے بعد سے وہ اسٹیبلشمنٹ، اُس کے سیاسی آلۂ کاروں اور نوازشریف سے بے وفائی کرنے والوں کے سخت ناقد تھے۔ اس طرح موجودہ حالات میں شریف فیملی اور مسلم لیگ (ن) کی صحافتی محاذ پر لڑائی وہ تنِ تنہا لڑ رہے تھے۔ وہ نجی محفلوں میں بھی یہ لڑائی پورے جوش و جذبے سے لڑتے۔ اس طرح بعض دوستوں کی ناراضی بھی مول لیتے۔ جبکہ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف ناروا اور بے جا پروپیگنڈا ہوتا رہتا، مگر وہ اس محاذ پر ڈٹے رہے۔
ایک طرف ان کی پُرخلوص وفاداری کا یہ عالم تھا اور دوسری جانب مسلم لیگ (ن) نے ان کی موت پر جس بے حسی کا مظاہرہ کیا وہ ہراعتبار سے قابلِ غور ہے۔ ان کے جنازے میں سعد رفیق کے سوا کوئی مسلم لیگی نہیں تھا، اور سعد رفیق محض اپنے محکمے کے ایک اچھے افسر کے جنازے میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ اُن کی قل خوانی میں کوئی مسلم لیگی نہیں تھا، حالانکہ اُن کے گھر اور جاتی امراء کے درمیان بمشکل دو کلومیٹر کا فاصلہ ہوگا۔ لیگی رہنمائوں نے محض تعزیتی بیانات دے کر اپنی ذمہ داری پوری کرنے کی کوشش کی۔ صرف جماعت اسلامی کے امیرالعظیم، فرید پراچہ اور بعض دیگر رہنما اور کارکن موجود تھے۔ اس صورتِ حال پر جنازے کے تمام شرکاء، رئوف طاہر کے دوست احباب، خصوصاً صحافیوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ رئوف طاہر کے تعزیتی ریفرنس میں بھی اُن کے ذاتی دوست جاوید ہاشمی کے سوا کوئی شریک نہیں ہوا۔ سینئر صحافی ارشاد عارف کا کہنا تھا کہ سیاست دانوں سے سچ اور وفا کی توقع کرنا اپنے آپ کو فریب دینے کے سوا کچھ نہیں۔ ایک اور صحافی کا کہنا تھا کہ سیاست دان صرف اپنا مطلب نکالتے ہیں اور اگر کوئی صحافی ان کی لڑائی لڑے تو اسے اپنا حق سمجھتے ہیں، جبکہ تنقید کی صورت میں بدلہ لینے پر اُتر آتے ہیں۔ مسلم لیگی رہنمائوں کا بے حسی پر مبنی یہ رویہ پہلی بار سامنے نہیں آیا۔ سراج منیر کے انتقال پر بھی یہی صورت حال تھی۔ یہ رہنما مسلم لیگ کے لیے جان دینے والے کارکنوں کو بھی ایسے موقع پر نظرانداز کرنے کے عادی ہیں۔ رئوف طاہر کے بارے میں انہوں نے اسی رویّے کا مظاہرہ کیا جس کے وہ دہائیوں سے عادی ہیں۔

اس کو ناقدریِ عالم کا صلہ کہتے ہیں