ہمارا عمل، ہماری گفتگو بہت دیرپا اثرات کی حامل ہے، اس لیے احتیاط کیجیے
”میں نہ مانوں“، غصہ… امید ہے آپ برداشت کرکے آگے بڑھ چکے ہیں۔ دو سال کی عمر والی ضد کو آپ نے اچھی طرح ہینڈل کرلیا۔
اب ضدی بچہ کچھ کچھ آپ کی بات ماننے لگا ہے۔ اگلے چند سال جادوئی دنیاؤں کے سال…
آپ سے باتیں کرے گا۔ اگر ابھی تک باتیں نہیں کرتا تو آپ محسوس کریں گے کہ اب زیادہ باتیں کرنے لگا ہے۔
ایک کے بعد ایک سوال… ”کیوں“ اس کا بنیادی سوال… ”ابا جاب پر کیوں جاتے ہیں؟“، ”ماما کیوں کچن میں کام کرتی ہیں؟“، اپنی معلومات میں اضافے کے لیے مسلسل سوالات زچ کرنے کی حد تک۔ ڈانٹنے سے کام نہیں بنتا، جواب دیں اس کی سمجھ کے مطابق۔
اس کو اب بتائے ہوئے کلرز کے نام یاد ہوگئے ہیں، اپنا نام صاف طور پر بتا سکتا ہے۔ اس کا نام غلط لیں گے تو آپ کو اپنا نام درست طریقے سے بتائے گا۔ جسم کے مختلف حصوں کی نشاندہی کرنے لگا ہے۔
تین سال کے آس پاس ایک جیسی اور مختلف اشیاء کا فرق جانتا ہے۔ رنگوں اور ساخت کے اعتبار سے چیزوں کو الگ کرسکتا ہے۔ مثلاً آگر اس کو کہا جائے کہ لال رنگ کے بلاکس الگ کردو، یا گول بلاکس الگ کردو تو کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
آپ اگر تین سالہ بچے کو ہدایت دیں کہ یہاں آؤ، کرسی پر بیٹھو اور پلیٹ میں رکھی چیز کھالو، تو وہ اس تین اسٹیپ والی کمانڈ کو سمجھ کر عمل کرسکتا ہے۔ رات کو کہانی سنانے پر اصرار کرتا ہے، اور کہانی کے حصے اس کو یاد بھی رہتے ہیں۔ اگر آپ اس کہانی میں کچھ تبدیلیاں کریں تو آپ کو ٹوک دے گا کہ ایسے نہیں ایسے ہے کہانی۔
بازار میں آپ کے ساتھ دیکھی چیزوں کو پہچان سکتا ہے۔ اب وہ گن بھی سکتا ہے، اور سیڑھیاں چڑھتے اور اترتے وقت ایک ایک سیڑھی پر اگر گنتی کی جائے تو یاد بھی رکھتا ہے۔
سر کے اوپر سے گیند کو پھینک بھی سکتا ہے۔ تقریباً چار سال کا بچہ چند سیکنڈ کے لیے ایک ٹانگ پر جمپ بھی کرسکتا ہے، اور ایک ٹانگ اٹھا کر چند سیکنڈ کھڑا بھی ہوجاتا ہے۔
خود کپڑے پہننے کی کوشش کرتا ہے اور خاصی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے۔
اندر، باہر، اوپر، نیچے اور پیچھے… ان کمانڈز کو سمجھتا ہے اور عمل کرتا ہے۔تین پہیوں کی سائیکل اعتماد سے چلاتا ہے۔
تصوراتی دوستوں کے ساتھ کھیل آس عمر کے بچوں کی خاص خوبی ہے۔ خود ہی تصوراتی آئس کریم کھائے گا اور خود ہی سوال کرے گا ”مزے کی ہے ناں؟“
کسی تقریب سے آکر وہاں ہونے والی چیزوں کو کہانی کی شکل میں سنائے گا۔
تین سال کے بچے کی تقریباً آدھی بات اور چار سال کے بچے کی پوری بات کسی اجنبی کو بھی سمجھ میں آجاتی ہے۔
شرارتیں اس عمر میں عروج پر ہیں۔
آپ نے کوئی پسندیدہ چیز کسی اونچی جگہ پر رکھ دی ہے تو اس کو حاصل کرنے کے چکر میں کرسی، اسٹول وغیرہ کی مدد سے اوپر چڑھ کر بلاجھجک حاصل کرنے کی کوشش میں گرپڑنا عام سی بات ہے۔
میری باری اور اس کی باری، اس بات کو سمجھتا ہے اور اپنے ہم عمر بچوں کے ساتھ گروپ کی صورت میں کھیلنا پسند کرتا ہے۔
وہ دو سال کا بچہ جو آپ کو چھوڑنے پر رونا شروع کردیا کرتا تھا، اب اس کو آپ کی بہت زیادہ پروا نہیں۔ بس بھوک لگنے پر کھانے کو کوئی پسندیدہ ترین چیز مل جائے… یا پھر دوسرے بچوں کی دیکھا دیکھی کچھ کم پسندیدہ چیز بھی چلے گی۔ اور ہم عمروں، ہم جولیوں کا ساتھ ہونا چاہیے، بس۔ کھیلتے ہوئے پڑوسی کے گھر میں سونے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں۔
آپ کی خوشی، غم، پریشانی اچھی طرح محسوس کرتا ہے اور اسی کے مطابق اپنا ردعمل ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اکیلے ہونے میں بوریت کا اظہار، اور غم زدہ ماحول میں غم زدہ۔ غصے کا اظہار جو پہلے بہت زیادہ تھا اب آپ محسوس کریں گے کہ کم ہوگیا ہے۔ باری کے انتظار میں بھی بے چینی نہیں۔ دوسروں کو گنجائش دینے کا حوصلہ پیدا ہوگیا ہے۔ اپنے چھوٹے موٹے مسئلے خود حل کرلیتا ہے۔
یہی وہ موقع ہے جہاں اس کی ٹوائلٹ ٹریننگ شروع کرنی چاہیے، اور اس کی کوئی خاص عمر نہیں۔ عام طور پر تین سال کے آس پاس کے بچوں کو بآسانی اس کی تربیت دی جاسکتی ہے۔ ٹوائلٹ ٹریننگ میں جلد بازی یا غصے کا اظہار کام خراب کردیتا ہے، اس لیے صبر کے ساتھ یہ کام کریں۔
چار سال کے بچے کے ہاتھ میں پینسل، کریون جہاں اس کو لکیریں اور دائرے بنانا سکھاتے ہیں جو وہ پیپر پر بنا سکتا ہے، وہیں وہ ان کا آزادانہ استعمال گھر کی دیواروں پر بھی کرتا ہے اور ڈانٹ کھاتا ہے مگر باز نہیں آتا۔ تین سال کے بچے لکیریں، اور چار سال کے بچے دائرے اور اسکوائر بنانے کی صلاحیت عام طور پر حاصل کرلیتے ہیں۔
اس کے ذہن میں چلنے والے خیالات اور آئیڈیاز مسلسل اس کو کسی نہ کسی ایکٹیویٹی پر اکساتے رہتے ہیں، اور والدین کو اس میں اُس کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔ مثلاً وہ کاغذ پر کریون یا پینسل کی مدد سے انسانی جسم کو تین پارٹ میں اگر بنا رہا ہے تو اس کو مزید حوصلہ دیا جائے، کہ اس کی تصوراتی دنیا میں بہت کچھ ہے۔ اس کو بنانے دیا جائے، اس کو بولنے دیا جائے۔ اس کے سوالات کے جواب سادہ اور عام فہم الفاظ میں دیے جائیں۔ اس کو سوال کرنے سے روکنا اس کی نفسیاتی اور جذباتی نشوونما کے لیے بہت ہی خطرناک بات ہے۔
ہم خوراک کے بارے میں بہت سوچتے ہیں اور بہتر خوراک فراہم بھی کرتے ہیں، مثلاً ہم نے شروع کے دو سال میں اس کی خوراک پر جو محنت کی، یعنی اس کو غذا کی تمام اشیاء کھلائیں، ان کا عادی بنایا، یعنی وہ سبزی، دال، چاول، روٹی، گوشت، انڈہ، مچھلی، دودھ، دہی، پھل، اور ہر قسم کی غذاؤں کا عادی ہے… جوں جوں عمر بڑھ رہی ہے وہ خود سے کھانے لگا ہے۔ اب وہ دسترخوان یا ٹیبل پر بیٹھ کر سب لوگوں کے ساتھ اپنی پلیٹ میں سے کھانا کھا لیتا ہے اور ہمیں عام طور پر اس کے کھانے سے کوئی خاص پریشانی نہیں، ہم نے اس پر وقت لگایا اور اب ہم کھانے پینے سے مطمئن ہیں۔
اسی طرح اس کی نفسیاتی اور جذباتی نشوونما کے لیے ہمیں اس کے ساتھ وقت لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
تین سے پانچ سال کے بچے مسلسل سیکھنے کے عمل سے گزرتے ہیں۔ جہاں وہ جسمانی طور پر بہتر چلنے لگے ہیں، بھاگنے لگے ہیں، دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل میں اپنی باری اور دوسرے کی باری سمجھتے ہیں، وہیں وہ آپ کے رویوں کو بھی بغور دیکھتے ہیں، گھر میں ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات کو قبول کرتے ہیں، ہونے والی گفتگو سے بہت ساری باتیں اخذ کرتے ہیں۔ ماں اور باپ کے درمیان کیا چل رہا ہے، اماں کی پریشانیاں، ابا کا غصہ وغیرہ وغیرہ۔
پیدائش سے دو سال تک آپ کی توجہ جسمانی نشوونما پر زیادہ رہی، اب بھی بہت ضروری ہے، مگر اب نفسیاتی اور جذباتی نشوونما بھی توجہ کی مستحق ہیں۔
تو ہمارا عمل، ہماری گفتگو بہت دیرپا اثرات کی حامل ہے، اس لیے احتیاط کیجیے۔