کمال فن اور شیخی

عربی گرامر (حرف و نحو) کے علم کا ماہر ایک استاد دریا عبور کرنے کے لیے کشتی پر سوار ہوا۔ جب کشتی بادِ موافق کے سہارے مزے سے دریا پر تیرتی جارہی تھی تو علم نحو کے بادشاہ نے ’’ملاح‘‘ سے باتیں کرنا شروع کر دیں۔ پوچھنے لگا ’’بھائی ملاح! تو نے علم نحو پڑھا ہے؟ ملاح کی جانے بلا کہ نحو کیا ہوتا ہے؟
کشتی بان نے کہا: مولوی صاحب نحو کیا چیز ہے؟ میں نے تو آج تک اس کا نام بھی نہیں سنا۔ استاد بولا: واہ رے میاں ملاح تو نے تو یونہی آدھی عمر برباد کر دی۔ ارے جو شخص علم نحو سے واقف نہیں وہ انسان نہیں حیوان ہے۔ افسوس تو نے اپنی زندگی کشتی چلانے میں گنوا دی۔ نحو جیسا فن نہ سیکھا۔
کشتی چلانے والے کو بڑا غصہ آیا۔ بہرحال بے چارہ خاموش ہو گیا اور لاجواب ہو کر چپ رہا۔ جب کشتی عین دریا کے درمیان میں پہنچی تو قدرتی طور پر باد مخالف زور سے چلنے لگی سب کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ کشتی کا بسلامت کنارے پر لگنا ناممکن نظر آنے لگا۔
ملاح نے کہا: بھائیوں! کشتی بھنور میں پھنس چکی ہے تیر کر پار ہونے کے لیے تیار ہو جائو۔ ملاح نے اس وقت علم نحو کے ماہر استاد صاحب سے کہا: حضور اب اپنے فن سے کچھ کام لیجیے۔ کشتی غرق ہونے والی ہے۔ حضور اس وقت خاموش رہے۔ اس وقت نحو کیا کام دیتا۔ پھر کشتی بان نے کہا: اس وقت نحو کا کام نہیں محو کا کام ہے۔ آپ کو کچھ تیرنا بھی آتا ہے؟ استاد صاحب نے جواب دیا: بالکل نہیں آتا۔
ملاح نے کہا: حضرت پھر تو آپ کی ساری عمر برباد ہو گئی۔ دریا کا پانی مردہ کو اپنے سر پر رکھتا ہے اور زندہ غرق ہو جاتا ہے۔ اپنے آپ کو مٹانے اور فنا کرنے سے اللہ تعالیٰ کا راستہ طے ہوتا ہے۔ تکبر والے محروم اور غرقِ آب ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔
درس حیات: غرور کا سرنیچا ہوتا ہے۔

خلاف شان

یزید بن مہلب (721ء) دورِ امیہ کا ایک ممتاز سیاست دان تھا۔ اسے عمر بن عبدالعزیز (720-717ء) نے قید کر دیا۔ جب یہ جیل سے رہا ہوا اور اپنے بیٹے معاویہ کے ہمراہ اپنے وطن کو جارہا تھا تو راہ میں انہیں بھوک نے ستایا۔ ایک بدوی عورت کے پاس گئے اور کہا کہ ہم بھوکے ہیں۔ اس نے ایک پورابکرا بھون کر ان کے سامنے رکھ دیا۔ جب کھانے سے فارغ ہوچکے تو باپ نے بیٹے پوچھا: کیا تمہارے پاس کچھ پیسے ہیں؟ کہا: سو دینار ہیں۔باپ نے کہا: یہ ساری رقم اس عورت کو دے دو۔ بیٹاکہنے لگا: ابا جان! یہ ایک غریب عورت ہے، دس دینار سے بھی خوش ہو جائے گی۔
یزید:یہ صحیح ہے لیکن یہ میری شان کے خلاف ہے۔
معاویہ: آپ کو یہاںجنگل میں کون جانتا ہے؟
یزید: اور کوئی جانے نہ جانے میں خود تو اپنے آپ کو جانتا ہوں۔

باعث رسوائی

علامہ جلال الدین سیوطی (1505ء) فرماتے ہیں کہ سات باتیں انسان کو ذلیل کر دیتی ہیں:
1۔ کسی دعوت میں بن بلائے جانا۔
2۔ کسی مجلس میں اپنے مرتبہ سے بالاتر بیٹھنا۔
3۔ مہمان بن کر میزبان پر حکم چلانا۔
4۔ دوسروں کی بات میں دخل دینا۔
5۔ ان لوگوں سے خطاب کرنا جو سننے کے لیے تیار نہ ہوں۔
6۔ بد چلن سے دوستی کرنا۔
7۔ سنگدل اور حریص دولت مند سے مدد مانگنا۔

پڑوس کی قیمت

کہتے ہیں کہ قونیہ کا ایک آدمی قرضہ کی وجہ سے اپنا مکان بیچنے پر مجبور ہو گیا۔ جب خریدار جمع ہوئے تو اس نے آواز دی۔
’’مکان کی قیمت پانچ سو اور پڑوس کی قیمت دو ہزار کل اڑھائی ہزار‘‘۔
اس کے پڑوس میں مولانا جلال الدین رومیؒ (1274ء) رہتے تھے۔

زبان زد اشعار

اس امید پہ روز چراغ جلاتے ہیں
آنے والے برسوں بعد بھی آتے ہیں
(زہرہ نگار)
ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
(میر تقی میر)
ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدرِ سخن
کون جائے ذوق پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر
(ذوق)
اسدؔ بسمل ہے کس انداز کا قاتل سے کہتا ہے
کہ مشقِ ناز کر خونِ دو عالم میری گردن پر
(غالب)
اٹھ کر تو آگئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دِل سے آئے ہیں
(داغ)