مسلمان کہتے ہی اس کو ہیں جو خدا کے سوا کسی کا بندہ اور رسولﷺ کے سوا کسی کا پیرو نہ ہو۔ مسلمان وہ ہے جو سچے دل سے اس بات پر یقین رکھتا ہو کہ خدا اور اس کے رسولﷺ کی تعلیم سراسر حق ہے، اس کے خلاف جو کچھ ہے وہ باطل ہے، اور انسان کے لیے دین و دنیا کی بھلائی جو کچھ بھی ہے صرف خدا اور اس کے رسولﷺ کی تعلیم میں ہے۔ اس بات پر کامل یقین جس شخص کو ہوگا وہ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں صرف یہ دیکھے گا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا کیا حکم ہے۔ اور جب اسے حکم معلوم ہوجائے گا تو وہ سیدھی طرح سے اس کے آگے سرجھکادے گا۔ پھر چاہے اس کا دل کتنا ہی تلملائے اور خاندان کے لوگ کتنی ہی باتیں بنائیں، اور دنیا والے کتنی ہی مخالفت کریں، وہ ان میں سے کسی کی پروا نہ کرے گا، کیونکہ ہر ایک کو اس کا صاف جواب یہی ہوگا کہ میں خدا کا بندہ ہوں، تمہارا بندہ نہیں ہوں، اور میں رسولﷺ پر ایمان لایا ہوں، تم پر ایمان نہیں لایا ہوں۔
نفاق کی علامتیں
1۔ نفس کی بندگی
اس کے برخلاف اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ خدا اور رسولﷺ کا ارشاد یہ ہے تو ہوا کرے، میرا دل تو اس کو نہیں مانتا، مجھے تو اس میں نقصان نظر آتا ہے، اس لیے میں خدا اور رسولﷺ کی بات کو چھوڑ کر اپنی رائے پر چلوں گا، تو ایسے شخص کا دل ایمان سے خالی ہوگا، وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہے کہ زبان سے تو کہتا ہے کہ میں خدا کا بندہ اور رسولﷺ کا پیرو ہوں، مگر حقیقت میں اپنے نفس کا بندہ اور اپنی رائے کا پیرو بنا ہوا ہے۔
2۔ رسم و رواج کی پابندی
اسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ خدا اور رسولﷺ کا کچھ بھی حکم ہو، مگر فلاں بات تو باپ دادا سے ہوتی چلی آرہی ہے، اس کو کیسے چھوڑا جاسکتا ہے! یا فلاں قاعدہ تو میرے خاندان یا برادری میں مقرر ہے، اسے کیوں کر توڑا جاسکتا ہے! تو ایسے شخص کا شمار بھی منافقوں میں ہوگا، خواہ نمازیں پڑھتے پڑھتے اس کی پیشانی پر کتنا ہی بڑا گٹا پڑگیا ہو، اور ظاہر میں اس نے کتنی ہی متشرّع صورت بنارکھی ہو۔ اس لیے کہ دین کی اصل حقیقت اُس کے دل میں اتری ہی نہیں۔ دین رکوع اور سجدے اور روزے اور حج کا نام نہیں ہے، اور نہ دین انسان کی صورت اور اس کے لباس میں ہوتا ہے، بلکہ اصل میں دین نام ہے خدا اور رسولﷺ کی اطاعت کا۔ جو شخص اپنے معاملات میں خدا اور رسولﷺ کی اطاعت سے انکار کرتا ہے، اس کا دل حقیقت میں دین سے خالی ہے، اس کی نماز اور اس کا روزہ اور اس کی متشرع صورت ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں۔
3۔دوسری قوموں کی نقالی
اسی طرح اگر کوئی شخص خدا کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کی ہدایت سے بے پروا ہوکر کہتا ہے کہ فلاں بات اس لیے اختیار کی جائے کہ وہ انگریزوں میں رائج ہے، اور فلاں بات اس لیے قبول کی جائے کہ فلاں قوم اس کی وجہ سے ترقی کررہی ہے، اور فلاں بات اس لیے مانی جائے کہ فلاں بڑا آدمی ایسا کہتا ہے، تو ایسے شخص کو بھی اپنے ایمان کی خیر منانی چاہیے۔ یہ باتیں ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتیں۔ مسلمان ہو اور مسلمان رہنا چاہتے ہو تو ہر اُس بات کو اٹھا کر دیوار پر دے مارو جو خدا اور رسولﷺ کی بات کے خلاف ہو۔ اگر تم ایسا نہیں کرسکتے تو اسلام کا دعویٰ تمہیں زیب نہیں دیتا۔ زبان سے کہنا کہ ہم خدا اور رسولﷺ کو مانتے ہیں، مگر اپنی زندگی کے معاملات میں ہر وقت دوسروں کی بات کے مقابلے میں خدا اور رسولﷺ کی بات کو رد کرتے رہنا نہ ایمان ہے، نہ اسلام… بلکہ اس کا نام منافقت ہے۔
قرآن مجید کے اٹھارویں پارے میں اللہ تعالیٰ نے صاف صاف الفاظ میں فرمادیا ہے:۔
۔(ترجمہ)”ہم نے کھول کھول کر حق اور باطل کا فرق بتانے والی آیتیں اتار دی ہیں۔ اللہ جس کو چاہتا ہے ان آیتوں کے ذریعے سے سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت قبول کی۔ پھر اس کے بعد ان میں سے بعض لوگ اطاعت سے منہ موڑ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ ایمان دار نہیں ہیں، اور جب ان کو اللہ اور رسولﷺ کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ ان کے معاملات میں قانونِ خداوندی کے مطابق فیصلہ کیا جائے تو ان میں سے کچھ لوگ منہ موڑ جاتے ہیں، البتہ جب بات ان کے مطلب کی ہو تو اسے مان لیتے ہیں۔ کیا ان لوگوں کے دل میں بیماری ہے؟ یا کیا یہ شک میں پڑے ہوئے ہیں! یا ان کو یہ ڈر ہے کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ ان کی حق تلفی کرے گا؟ بہرحال وجہ کچھ بھی ہو، یہ لوگ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرنے والے ہیں۔ حقیقت میں جو ایمان دار ہیں ان کا طریقہ تو یہ ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی طرف بلایا جائے تاکہ رسولؐ ان کے معاملات کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں: ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں، اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرے گا اور اللہ سے ڈرتا رہے گا اور اس کی نافرمانی سے پرہیز کرے گا، بس وہی کامیاب ہوگا‘‘۔(النور:46 تا52)۔
ان آیات میں ایمان کی جو تعریف بیان کی گئی ہے،اس پر غور کیجیے۔ اصلی ایمان یہ ہے کہ اپنے آپ کو خدا کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کی ہدایت کے سپرد کردو۔ جو حکم وہاں سے ملے اس کے آگے سرجھکادو، اور اس کے مقابلے میں کسی کی نہ سنو،نہ اپنے دل کی،نہ خاندان والوں کی اور نہ دنیا والوں کی۔ یہ کیفیت جس میں پیدا ہوجائے وہی مومن اور مسلم ہے۔ اور جو اس سے خالی ہو اس کی حیثیت منافق سے زیادہ نہیں ہے۔