حادثے کے سبب کا تعین ابھی تک نہیں ہوسکا
وفاقی بجٹ کی تیاری، خارجہ امور میں تبدیل ہوتے ہوئے رویّے اور اس ماحول میں بلوچستان میں مزدوروں کے قتل کا واقعہ اس ہفتے کے اہم موضوع تھے۔ مگر بجلی کا بریک ڈائون چھاتہ بردار کی طرح نمودار ہوا، اس لیے پہلے اسی پر بات ہوگی۔
پاکستان میں واپڈا گزشتہ چار پانچ دہائیوں سے کسی نہ کسی طرح خبروں کی زینت بنا ہوا ہے۔ اس قومی ادارے پر حالیہ زمانے میں سب سے پہلا وار پیپلزپارٹی کی حکومت میں اُس وقت ہوا جب ملک میں نجی پاور کمپنیوں کو تقریباً یک طرفہ معاہدوں کے ساتھ کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ معاہدوں کی سب سے اہم مگر متنازع شق یہ ہے کہ نجی پاور کمپنیاں یہ حقیقت کبھی نہیں بتائیں گی کہ ان کے پلانٹس کی قیمت کیا ہے اور ان میں بجلی پیدا کرنے کی گنجائش کیا ہے؟ جتنی بجلی پیدا ہوگی حکومت اس کی قیمت ادا کرنے کی پابند ہوگی، یہ کمپنیاں اپنے طور پر ایندھن نہیں خریدیں گی بلکہ حکومت انہیں فرنس آئل فراہم کرے گی۔ حکومت اور نجی پاور پلانٹس میں معاہدے کی سب سے بڑی خرابی یہی شقیں ہیں اور کرپشن کی وجہ بھی یہی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں بجلی کی کُل کھپت چوبیس ہزار میگا واٹ کے لگ بھگ ہے، اور ہمارے پلانٹس میں بجلی پیدا کرنے کی گنجائش اس سے کہیں زیادہ ہے۔ مگر یہ یک طرفہ دعویٰ ہے جو نجی پلانٹس کی انتظامیہ کی جانب سے کیا جاتا ہے اور حکومت اسے تسلیم کرنے مجبور یا پابند ہے۔ ملک میں نجی پلانٹس سے قبل پانی سے بجلی پیدا کی جاتی تھی، اور اس کے لیے تسلیم شدہ اصول یہ تھا کہ صوبے جہاں پن بجلی پیدا کی جائے، انہیں اس کا خالص منافع دیا جائے گا۔ اے جی این قاضی کمیشن میں یہ بات طے کردی گئی ہے، لیکن جب سے ملک میں فرنس آئل، گیس یا اب کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس لگائے گئے اس کے بعد صورتِ حال تبدیل ہوچکی ہے، اور یہ پاور کمپنیاں معاہدے کے مطابق ہی حکومت سے پیسے لے رہی ہیں۔ چونکہ معاہدے تقریباً یک طرفہ ہیں لہٰذا حکومت گزشتہ تین دہائیوں سے گردشی قرضوں کے ملبے تلے دبی ہوئی ہے۔ واپڈا کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نج کاری کا فیصلہ اور منصوبہ بندی بھی محکمے میں بڑی خرابی کا باعث بن رہی ہے۔ ہوسکتا ہے بریک ڈائون کی یہ بھی ایک وجہ ہو۔ ابھی حال ہی میں وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے توانائی تابش گوہر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا ہے۔ اس استعفے کی وجہ بھی گردشی قرضے ہیں۔ حال ہی میں مستعفی ہونے والے معاونِ خصوصی پاور پلانٹس کو گردشی قرضوں کی رقم ادا کرنے کے حامی تھے بلکہ اصرار کررہے تھے، یہ معاملہ دو تین ماہ سے چل رہا تھا، حکومت چونکہ اس جانب پیش رفت نہیں کررہی تھی لہٰذا وہ اپنے عہدے سے ہی الگ ہوگئے۔ تاہم دوسری وجہ یہ ہے کہ اُن کی نگرانی میں کے الیکٹرک کے ساتھ ایک معاہدہ کیا گیا ہے جسے پسند نہیں کیا گیا، بلکہ قابلِ گرفت گردانا جارہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ معاملہ تحقیقات کی جانب چل پڑے، تحقیقات ہونے سے حقائق بھی سامنے آجائیں گے۔
ہفتے کی شب ملک بھر میں اچانک بجلی بند ہوگئی اور چاروں صوبوں میں تاریکی چھا گئی۔ اتوار کی صبح دس بجے سے بحالی کا عمل شروع ہوا جو ابھی تک جزوی طور پر جاری ہے، اور اس کے باعث دو روز تک تو ملک کی انڈسٹری میں کوئی کام ہی نہیں ہوسکا۔ اطلاعات کے مطابق قومی گرڈ میں سے 22 ہزار میگا واٹ بجلی نکل گئی اور یوں اندھیرا ہوگیا۔ یہ صورتِ حال رات بھر برقرار رہی اور تمام تر کوششوں کے باوجود بجلی تاحال پوری طرح بحال نہیں ہوئی، بلکہ ملک بھر میں بجلی کے بریک ڈائون کے بعد سپلائی ابھی بحال نہیں ہوئی کہ ایک مرتبہ پھر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا۔ نیپرا نے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں ایک روپے چھے پیسے اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے۔ اس اضافے سے صارفین پر 8 ارب 40 کروڑ روپے کا بوجھ پڑے گا۔ یہ اضافہ اکتوبر اور نومبر میں فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا۔ اکتوبر میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 29 پیسے، اور نومبر میں 77 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا گیا۔ یہ اضافہ جنوری کے مہینے کے بلوں میں وصول کیا جائے گا۔ اس اضافے کا اطلاق کے الیکٹرک اور لائف لائن صارفین پر نہیں ہوگا۔ این ٹی ڈی سی نے بجلی کے بریک ڈاؤن کی تحقیقات کے لیے کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی کے مطابق خرابی کے باعث کمپنی کی 220 کے وی اور 500 کے وی ٹرانسمیشن لائن اور گرڈ اسٹیشن ٹرپ کرگیا، جس کی وجہ سے کے الیکٹرک، لیسکو، کیسکو، جیپکو، میپکو اور آئیسکو سمیت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو 66 کے وی اور 132 کے وی کی فراہمی متاثر ہوئی۔ بجلی کی طلب پوری کرنے کے لیے فرنس آئل اور گیس سے بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ تمام 500 کے وی اور220 کے وی گرڈ اسٹیشنوں اور ٹرانسمیشن لائنوں سے بجلی کی سپلائی جاری ہے۔ گڈو پاور پلانٹ سے ڈیرہ غازی خان، مظفر گڑھ اور رحیم یار خان کو بھی بجلی کی سپلائی شروع ہوگئی ہے، تاہم صورتِ حال یہ ہے کہ اب تک معمول کے مطابق بجلی ٹرانسمیشن کمپنیوں کی لائنوں میں نہیں آئی اور اس کا حل لوڈشیڈنگ کی صورت میں نکالا گیا ہے۔ بجلی کا یہ انقطاع غیر معمولی ہے۔ پہلے بھی ایک دو بار بڑے بریک ڈاؤن ہوئے لیکن وہ نہ تو ملک گیر تھے اور نہ اتنے طویل ثابت ہوئے تھے۔ ہمارے شہروں میں پانی کا انتظام بھی بجلی سے منسلک ہے، اور بجلی نہ ہونے سے سرکاری پانی بھی دستیاب نہ تھا۔ شہریوں کو بندش کے علاوہ ٹرپنگ کا سامنا ہے جس کی وجہ سے برقی آلات بھی خراب ہوئے۔ ابھی تک یہ نہیں بتایا جا سکا کہ نقص کیا اور کہاں واقع ہوا؟ قوم کوحکومت کی طرف سے تفصیل اور ماہرین کی طرف سے بجلی کی مکمل بحالی کا انتظار ہے۔ جہاں تک حالیہ بریک ڈائون کا تعلق ہے، ہوسکتا ہے کہ یہ کوشش حکومت کو گردشی قرضوں کی ادائیگی کے لیے آمادہ کرنے کی ’’دھمکی‘‘ ہو، جو ایک اطلاع کے مطابق اندازاً اس وقت 23 سو ارب تک جاپہنچے ہیں، تاہم حکام نے بتایا کہ یہ واقعہ ٹرانسمیشن لائن میں خرابی کے باعث پیش آیا جس کی ابتدا گدو سے ہوئی، اور اس کے بعد جام شورو اور پھر تربیلا بریک ڈائون کی زد میں آیا، منگلا اور دیگر پاور اسٹیشن بعد میں ٹرپ ہوئے۔ پرویزمشرف دور میں بھی بریک ڈائون ہوا تھا، اس کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت آئی، اس نے بجلی پیدا کرنے پر توجہ ہی نہیں دی بلکہ عارضی بندوبست کے ذریعے کام چلانے کی کوشش کی۔ نوازشریف دور میں گردشی قرضوں کا بہت بھاری بوجھ اتارا گیا اور متعدد نئے پاور اسٹیشن لگائے گئے، یوں لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات ملی۔ مگر اب عدم توجہی کے باعث صورتِ حال پھر اسی جانب جارہی ہے۔ اگر اس معاملے کی تحقیقات ہو تو سب سے پہلا سوال یہ ہونا چاہیے کہ بریک ڈائون کے لیے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب کا انتخاب کیوں ہوا؟ ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا، ماضی میں بھی ہفتے اور اتوار کی درمیان شب ایسا ہوچکا ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہوا۔ اتوار کو وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان نے وزیراطلاعات شبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا کہ گدو میں خرابی کے باعث تربیلا اور منگلا پر دس ہزار سے زیادہ میگاواٹ بجلی اچانک غائب ہوگئی۔ ماضی میں خرابی گدو سے ہوئی تھی،آج کے دور میں جب بجلی، گیس، پیٹرول جیسی ضروریات کی فراہمی میں تعطل کا تصور بھی مشکل ہے، بریک ڈائون سے پورا ملک اندھیرے میں ڈوب گیا۔ اسپتال، ہوائی اڈے، ریلوے اسٹیشن، کارخانے، عوامی مقامات، ایوانِ صدر، وزیراعظم ہائوس اور وفاقی و صوبائی اداروں کے دفاتر سمیت ہر طرف رات بھر تاریکی کا راج رہا۔ چھے سات گھنٹے بعد جزوی طور پر بجلی بحال ہونا شروع ہوئی۔ ترجمان پاور ڈویژن کے مطابق گدو پاور پلانٹ میں فنی خرابی پیدا ہونے سے نیشنل گرڈ ٹرانسمیشن لائن ٹرپ کرگئی اور پاور فریکوئنسی پچاس سے صفر پر آگئی تھی جس سے پاور پلانٹ بند ہوئے۔ این ٹی ڈی سی کے مطابق دھند کے باعث بجلی کی ترسیل کا نظام متاثر ہوا، یہی بات اطلاعات کے وفاقی وزیر شبلی فراز نے وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتائی۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ گردشی قرضوں کا بوجھ کیوں سر اٹھا رہا ہے؟ ، اس سوال کا توانائی کے بحران سے گہرا تعلق ہے۔ڈھائی سال گزر جانے کے باوجود حکومت سب کچھ ماضی کے سر تھوپ رہی ہے، جب کہ اسے ایل این جی کی مہنگے داموں خریداری کا جواب دینا چاہیے، شوگر مافیا کی اجارہ داری کا بھی حساب پارلیمنٹ کے سامنے رکھنا چاہیے اور یوٹیلٹی اسٹورز پر صرف ایک آئٹم ناقص گھی کی اونچے داموں خریداری میں 70 کروڑ کادن دہاڑے ڈاکا کس نے مارا؟ اس کا بھی جواب دینا چاہیے، اور اب گندم بحران کیوں پیدا ہوا؟ سیٹھ مافیا کیسے مارکیٹ پر قابض ہے؟ ادویہ کیوںمہنگے داموں فروخت ہورہی ہیں؟ اس کا جواب بھی حکومت پر قرض ہے۔اب حکومت کی جانب سے بجلی مہنگی کرکے صارفین پر 8 ارب 40 کروڑ روپے کا اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے۔
آئی ایم ایف کا شکنجہ سخت ہورہا ہے
حکومت آئی ایم ایف پروگرام کی جانب دوبارہ بڑھ رہی ہے، بجلی کے بعد گیس کی قیمتوں میں بھی اضافہ متوقع ہے۔ پاکستان نے 2019ء میں 6 ارب ڈالر کے تین سالہ آئی ایم ایف بیل آؤٹ پروگرام میں شمولیت اختیار کی تھی، لیکن ابھی اس کا دوسرا جائزہ منظور ہونا باقی ہے، جو گزشتہ سال کے اوائل سے زیر التوا ہے۔ گزشتہ برس آئی ایم ایف کے عملے اور پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کے فنڈز میں 450 ملین ڈالر کی ادائیگی کی راہ ہموار کرنے کے لیے ایک معاہدہ کیا تھا، جس کی منظوری آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ سے لینا تاحال باقی ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پاکستان کو اپنے کم ٹیکس کو جی ڈی پی کے تناسب سے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اسی ہدایت کی روشنی میں پاکستان اور آئی ایم ایف، خاص طور پر ٹیکس وصولی کے لیے، آئی ایم ایف کے تعاون سے چلنے والی معاشی اصلاحات کے نفاذ کے لیے کام کررہے ہیں۔ اگرچہ بیل آؤٹ پروگرام ابھی باقی ہے، پاکستان کو آئی ایم ایف سے 1.4 ارب ڈالر کی ہنگامی امداد موصول ہوئی تاکہ اس سے وسیع پیمانے پر کورونا وبا کی وجہ سے بیماریوں کو روکنے اور اس کے معاشی اثرات کو کم کرنے کا ہدف حاصل کیا جاسکے۔
ملک کی مالی حیثیت کو تقویت بخشنے اور اس کی معیشت پر عالمی اعتماد بڑھانے کے لیے حکام آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پیکیج پر انحصار کررہے ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کا فائدہ اتنا ہی ہے کہ دوسری بین الاقوامی فنانشل باڈیز پاکستان میں شاید سرمایہ کاری کریں۔ اب تک آئی ایم ایف نے ایک ارب ڈالر دیے ہیں اور پانچ ارب ڈالر ابھی اسے دینا ہیں، لیکن یہ پروگرام کورونا کے سبب خلل میں پڑ گیا۔ ان کی شرط ہے کہ جی ڈپی ٹو انڈیکس ریشو کو بڑھائیں۔ اِس مرتبہ تو یہ بھی ہوا کہ گزشتہ برس سے بہت کم ٹیکس ریٹرنز فائل ہوئے، کیونکہ ٹیکس فائلنگ کی مدت کو نہیں بڑھایا گیا تھا، اور جنہوں نے ٹیکس نہیں دیا ان پر جرمانے عائد کیے جارہے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر چل سکتا ہے، مگر ہمیں اس کی ضرورت بھی ہے تاکہ ہماری ساکھ بین الاقوامی فنانشل مارکیٹ میں بنی رہے۔ بیوروکریٹس اور سیاسی اشرافیہ کو عادت پڑ گئی ہے کہ وہ خود کچھ پیدا نہ کریں اور دوسروں سے لیں۔ جبکہ اِس بار یہ ہورہا ہے کہ انہیں خود اقتصادی پالیسی نہیں بنانی پڑ رہی بلکہ آئی ایم ایف ہی انہیں اچھی بری پالیسیاں بناکر دیے جارہا ہے۔ قرض کے جال میں پھنسے رہنے سے ہمیں طویل مدتی پائیدار نمو حاصل کرنے میں مدد نہیں ملے گی۔ گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق اگر ہمارے معاشی استحکام کے لیے آئی ایم ایف کی جانب سے دی گئی ہدایات اچھی ہیں تو ہمیں اپنے طور پر انہیں نافذ کرنا چاہیے۔ رواں مالی سال میں پاکستان کا مقصد 1.5 فیصد سے 2.5 فیصد جی ڈی پی گروتھ حاصل کرنا ہے۔