شہدائے مچھ کی تدفین اور ہزارہ برادری کا دکھ

بلوچستان کے علاقے مچھ میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے گیارہ مزدوروں کا قتل بھی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ ان مزدوروں کے ہاتھ پائوں باندھ کر قتل کیا گیا اور ویڈیو بناکر انٹرنیٹ پر چڑھا دی گئی۔ قتل ہونے والے مظلوموں کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے حالات میں بھی تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ وہ ریاست مدینہ بنا رہی ہے؟ اور وہ کون سے عناصر ہیں جو معاشرے کو یرغمال بنا رہے ہیں؟
شہدائے مچھ بالآخر سپردِ خاک کردیے گئے ہیں اور دھرنے ختم ہوچکے ہیں، وزیراعظم کوئٹہ پہنچ کر دل جوئی کرچکے ہیں، مگر اس عرصے میں بہت کچھ ہوگیا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ اس بات کا تجزیہ ہونا چاہیے کہ وزیراعظم نے پہلے تدفین کی شرط کیوں لگائی؟ کہا گیا کہ وزیراعظم کو سیکورٹی خطرات کے پیش نظر وہاں جانے سے روکا گیا۔ ممکنہ خطرات سے آگاہی تو بہت دی جاتی ہے مگر حملوں کو روکنا بھی تو کسی کی ذمہ داری ہے۔ اس خطے میں ہمیں اس وقت افغانستان، ایران اور بھارت سے خطرات ہیں، بھارت ہر جگہ موجود ہے اور صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ افغانستان اور ایران دونوں ملکوں میں بھارتی مفادات عروج پر ہیں۔ بھارت کی 1947ء سے کوشش رہی ہے کہ پاکستان کبھی مستحکم نہ ہو، اور وہ اکھنڈ بھارت کا نعرہ بلند کرتا رہے۔ اب نریندر مودی کے دونوں ادوار میں ہندو توا اور اکھنڈ بھارت کے نظریات پُرتشدد انداز میں پھیلائے جارہے ہیں۔ بھارت تخریبی کارروائیوں کے لیے اپنے ایجنٹ بھیجتا رہتا ہے۔ سانحہ مچھ کا تجزیہ صرف یہی ہے کہ یہ غیروں کی جارحیت اور ہماری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔ جب علم ہے کہ دشمن ہر وقت وار کرنے کی تاک میں رہتا ہے تو پھر ہر حساس مقام پر سیکورٹی کیوں نہیں دی جاتی؟ اور جب اس بات کا بھی علم ہے کہ دشمن انتشار سے فائدہ اٹھاتا ہے تو پھر حکومت اپوزیشن کو دیوار سے لگانے کی حکمت عملی چھوڑ کیوں نہیں دیتی؟ جب اس بات کا بھی علم ہے کہ ملکی عدلیہ میں سیاسی نوعیت کے مقدمات لے جانے سے وہاں دیگر مقدمات میں تاخیر ہوتی ہے جس سے لوگوں میں بے چینی بڑھتی ہے تو حکومتیں کیوں احساس نہیں کرتیں؟ احتساب ذاتی خواہش کے بجائے قانون کے مطابق کیوں نہیں ہوتا؟ یہ سب کچھ ہر حکومت کے دوران ہوتا ہے اور دعویٰ کیا جاتا ہے کہ نظام کو مضبوط بنایا جارہا ہے۔ حکومت، پارلیمنٹ اور اپوزیشن جماعتیں مل کر سوچیں کہ وہ ملک کو کہاں لے جارہی ہیں؟ کسی بھی ملک کے لیے یہ صورتِ حال بہت خطرناک اور حساس ہوتی ہے۔ سیاسی تحفظات ہوں یا سیکورٹی خدشات… یہ سب انتشار کوہوا دیتے ہیں۔
وزیراعظم کی کابینہ میں کیا کوئی ایسا صاحبِ ادراک نہیں تھا جو انہیں کوئٹہ جانے کا مشورہ دے کر شہر شہر سلگتی چنگاریوں کو بھڑکنے سے روک دیتا؟ وزیراعظم کی سیکورٹی کوئی ایشو نہیں تھی، یہ بھی اطلاع ہے کہ وفاقی وزراء کی اکثریت نے وزیراعظم عمران خان کو مشورہ دیا تھا کہ وہ کوئٹہ جاکر ہزارہ کمیونٹی کا دکھ درد بانٹیں۔ وفاقی وزراء کی رائے تھی کہ وزیراعظم کو کوئٹہ کا دورہ کرنا چاہیے۔ تدفین سے قبل کوئٹہ کا دورہ نہ کرنے کا فیصلہ وزیراعظم کا اپنا فیصلہ تھا۔ وزیر داخلہ شیخ رشید نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ وہ کچھ دن انتظار کریں، تاہم بعد میں وزارتِ داخلہ کی طرف سے بھی وزیراعظم کو مشورہ دیا گیا کہ وہ احتجاج کرنے والے ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں سے جاکر ملاقات کریں۔ حکومت کے اہم وزراء کا کہنا ہے کہ کچھ معاملات میں جب وزیراعظم اپنی رائے قائم کرلیتے ہیں تو وہ اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کرتے، اسی لیے وہ مقتولین کی تدفین سے قبل کوئٹہ نہیں گئے۔ وزیراعظم کا دورہ آگ پر پانی ڈالنے کے بجائے جلتی پر تیل کا کام ثابت ہورہا ہے۔ وہاں جو گفتگو ہوئی سیاسی حلقوں میں اسے پسند نہیں کیا جارہا۔ بہرحال اب آرمی چیف کوئٹہ جانے کا ارادہ باندھ چکے ہیں، انہوں نے وزیراعظم سے ملاقات کی ہے اور صورتِ حال پر اپنی رائے سے بھی انہیں آگاہ کیا ہے۔
مزدوروں کے قتل کا واقعہ غیر معمولی ہے، گزشتہ ہفتے کور کمانڈر کانفرنس میں بھی درپیش کچھ چیلنجز کا ذکر ہوا تھا، بھارت ریشہ دوانیوں اور مذموم کوششوں کا سرغنہ ہے جس نے جنوری کے آغاز سے کر اب تک لائن آف کنٹرول پر 38 بار بلا اشتعال فائرنگ کی ہے اور قریبی بستیوں کو نشانہ بنایا ہے۔ بھارتی رویّے کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ وہ ہر قیمت پر اس علاقے اور خطے کا امن تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ پاکستان کی طرف سے اس باب میں شواہد اور ثبوتوں کے ساتھ جو ڈوزیر جاری کیا گیا وہ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مندوب منیر اکرم نے عالمی ادارے کے سیکریٹری جنرل انتونیو گو تریس کو پیش کیا ہے۔ اس ڈوزیر میں پاکستانی سرزمین پر کی جانے والی دہشت گردی، افغانستان میں بھارتی سفارتی مشنوں کے ذریعے پاکستان کے خلاف تخریب کاری، عدم استحکام کی کارروائیوں، دہشت گردوں سے رابطوں اور سازشوں سے متعلق جو ثبوت دیے گئے، وہ اس بات کے متقاضی ہیں کہ عالمی ادارہ بھارت کی امن دشمن سرگرمیوں کا سختی سے نوٹس لے۔