امریکی معاشرے کے امراض

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے پُرتشدد احتجاج کے باوجود امریکی کانگریس نے ڈیموکریٹ جوبائیڈن کے صدارتی انتخاب کی باضابطہ توثیق کردی ہے۔ کانگریس کی توثیق کے بعد جوبائیڈن صدارتی انتخابات کے فاتح قرار دے دیے گئے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انتقالِ اقتدار روکنے کی آخری کوشش تھی جو کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ 20 جنوری 2021ء کو اقتدار کی باضابطہ منتقلی سے قبل کانگریس اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس تھا جس میں ووٹوں کی گنتی کی توثیق کے بعد باضابطہ نتائج کا اعلان ہونا تھا۔ اس روز انتخابی نتائج کو روکنے کے لیے ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو واشنگٹن پہنچنے کی ہدایت جاری کردی تھی۔ ٹرمپ کی اپیل پر ہزاروں مظاہرین واشنگٹن میں جمع ہوگئے۔ مظاہرین نے پارلیمان کی عمارت پر قبضہ کرلیا اور اُس وقت حفاظتی حصار توڑ کر ایوان میں داخل ہوگئے جب کانگریس کے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس نائب صدر مائیک پنس کی صدارت میں جاری تھا۔ مظاہرین نے اسپیکر کی کرسی پر قبضہ کرلیا۔ پولیس کے روکنے پر پارلیمان کی عمارت کے شیشے توڑ ڈالے۔ نائب صدر مائیک پنس اور دیگر ارکان نے بھاگ کر جان بچائی اور پارلیمان کا مشترکہ اجلاس ملتوی کردیا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے نائب صدر مائیک پنس سے کہا تھا کہ وہ ووٹوں کی تصدیق کے عمل میں شامل نہ ہوں، لیکن انہوں نے بھی ٹرمپ کی بات نہیں مانی۔ نومنتخب امریکی صدر جوبائیڈن نے امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس پر صدر ٹرمپ کے حامیوں کے حملے کو ’’بغاوت‘‘ قرار دیتے ہوئے ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ آگے بڑھیں اور تشدد کو روکیں۔ جوبائیڈن کی اپیل کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا کی ویب سائٹ کے ذریعے اپنے حامیوں سے اپیل کی کہ وہ پُرامن رہیں۔ مظاہرین سے پارلیمان کی عمارت خالی کرانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں 4 امریکی شہری ہلاک ہوگئے۔ واشنگٹن کی انتظامیہ نے کرفیو بھی نافذ کیا۔ جوبائیڈن کو اقتدار کی پُرامن منتقلی کے اعلان کے باوجود ٹرمپ کا اب بھی اصرار ہے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے۔ تنازعے کا آغاز گزشتہ سال نومبر میں انتخابی عمل ہی سے ہوگیا تھا۔ تنازعے کی بنیاد پوسٹل بیلٹ کے ذریعے رائے دہی کی اجازت تھی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی شکست نے امریکی جمہوریت کو بحران میں مبتلا اور امریکی قوم کو تقسیم کردیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کی پالیسیوں نے امریکہ کے داخلی امراض کو عیاں کردیا ہے اور مقتدر طاقتوں کی داخلی کش مکش بے نقاب ہورہی ہے۔ اس وجہ سے امریکی انتخابی عمل اور اقتدار کی منتقلی پر پوری دنیا کی نظریں لگی ہوئی تھیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے عوامی احتجاج ریکارڈ کرانے کے بعد جوبائیڈن کی فتح کو تو تسلیم کرلیا ہے لیکن وہ انتخابی عمل میں دھاندلی کے الزامات سے دست بردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ وہائٹ ہائوس سے ایک شخص کو باہر نکالنے کے لیے امریکی مقتدرہ کے تمام ادارے استعمال ہوئے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنے نائب صدر مائیک پنس اور کانگریس اور سینیٹ کے ارکان کی حمایت بھی حاصل نہیں ہوسکی، یہاں تک کہ سوشل میڈیا کی ویب سائٹس کو امریکی صدر کے اکائونٹ بند کرنے پر مجبور ہونا پڑا، اس لیے کہ امریکی مقتدرہ امریکہ کو خانہ جنگی سے بچانا چاہتی ہے۔ اقتدار سے محروم ہونے کے باوجود ٹرمپ کمزور نہیں ہوئے ہیں۔ دھاندلی کے الزامات جاری رکھتے ہوئے وہ آئندہ انتخابات کی تیاری کررہے ہیں۔ اس لیے اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کیا عوامل ہیں جنہوں نے امریکی جمہوریت کو بحران میں مبتلا کردیا ہے؟ ٹرمپ سفید فام بالادستی کی طاقتور تحریک کے رہنما بن کر اُبھرے ہیں، جس کا ردِعمل”Black Lives Matter” کی صورت میں سامنے آیا تھا، سفید فام پولیس اہلکار سیاہ فام شہری کو ماورائے عدالت قتل کردیتے ہیں۔ سفید فام بالادستی کی تحریک نے مختلف عناصر کو خوف میں مبتلا کردیا ہے، جن میں لاطینی امریکی، ریڈانڈین اور تارکین وطن بھی شامل ہیں۔ ان تمام گروپوں اور ان طاقتور طبقات نے جن کے مفادات پر ٹرمپ کی پالیسیوں سے زد پڑ رہی تھی اپنا پورا زور جوبائیڈن کے حق میں لگادیا تھا۔ اس اعتبار سے ٹرمپ کی جانب سے تدبیری غلطی ہوئی اور انہوں نے پوسٹل بیلٹ پر توجہ نہیں دی، جب کہ جوبائیڈن کیمپ نے غیر متحرک ووٹرز پر توجہ دی اور پوسٹل بیلٹ پر انحصار کیا۔ یہ طبقہ ٹرمپ کی پالیسیوں سے خوف زدہ بھی تھا، دوسری طرف کورونا کی وبا کا بحران اور ٹرمپ کی غیر سنجیدگی کا بھی ردعمل ہوا۔ اس کے باوجود کہ ان انتخابات میں تیکنیکی طور پر ٹرمپ کو شکست ہوگئی، دھاندلی کے الزامات پر اُنہیں عدلیہ سمیت کسی بھی جگہ سے مدد نہیں ملی۔ لیکن وہ ابھی غیر مقبول نہیں ہوئے ہیں۔ ان انتخابات نے امریکی سماج کو تقسیم کردیا ہے، اور یہ تقسیم مزید گہری ہوگی۔ یہ بھی امریکی سیاست کا منظرنامہ ہے کہ انتخابی عمل جاری رہنے اور شکست کھا جانے کے باوجود وہ بنیادی فیصلے کرتے رہے۔ ان کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو، داماد اور مشیر جیرڈ کشنر، اور خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد آخر وقت تک عالمی سیاست میں متحرک رہے۔ اسی دوران میں ٹرمپ نے عالم اسلام کے چار ملکوں متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کو اسرائیل کو تسلیم کرلینے پر مجبور کردیا۔ قطر، سعودی عرب تعلقات کی بحالی کے لیے جی سی سی کے اجلاس میں ٹرمپ کے داماد اور مشیر جیرڈ کشنر موجود تھے۔ یہ بات واضح رہے کہ خلیج کے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی بھی براہِ راست امریکی دبائو اور سفارت کاری کے ذریعے ہوئی ہے۔ یہ منظرنامہ اس لیے قابلِ غور ہے کہ امریکی مقتدرہ کے طاقتور مراکز سے ٹرمپ کی کش مکش مستقل جاری رہی، اس کے باوجود وہ کلیدی اور اہم فیصلے کرتے رہے۔ آخری مرحلے پر انہوں نے کانگریس کی مالی سفارشات کو ویٹو بھی کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاستی مقتدرہ سے باہر رہنے کے باوجود ٹرمپ کمزور نہیں ہیں، شکست کے باوجود اُن کے اثرات امریکی سیاست اور سماج پر جاری رہیں گے۔ انہوں نے سفید فام بالادستی کے جذبات کو بھڑکایا ہے۔ اس خدشے کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ امریکی جمہوریت فاشزم میں بدل سکتی ہے۔ ان انتخابات، اور نتائج کو عوامی تشدد سے روکنے کی کوشش نے ایک نئی بحث شروع کردی ہے جس نے جمہوریت کے علَم برداروں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے، اور وہ بحث یہ ہے کہ بیلٹ اور ہجوم میں سے کون عوام کی نمائندگی کرتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ امریکی قانون سازوں کی عمارت پر ہجومی حملے اور قبضے نے سب سے زیادہ تشویش میں یورپ کے حکمرانوں کو مبتلا کیا ہے۔ اسی وجہ سے جوبائیڈن نے اس عمل کو ’’بغاوت‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ یہ اقلیت کی اکثریت کے خلاف بغاوت ہے، یا اکثریت کی اقلیت کے خلاف بغاوت۔ سفید فام بالادستی کی تحریک جس کے قائد ٹرمپ بن کر سامنے آئے ہیں، کمزور نہیں پڑی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جوبائیڈن اور ان کی قیادت میں امریکی مقتدرہ امریکہ کو درپیش داخلی بحران سے کیسے نکالتی ہے۔ یہ بحران ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب عالمی سطح پر امریکی بالادستی کو خطرات درپیش ہیں۔ اسی ماحول میں ٹرمپ نے ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ کورونا بحران کی وجہ سے ٹرمپ کو انتخابات میں شکست ہوگئی ہے۔ ان حالات کا گہرائی کے ساتھ مطالعہ کرنا ضروری ہے۔