مقبوضہ کشمیر میں جعلی پولیس مقابلوں کی نئی لہر
مقبوضہ کشمیر میں ایک بار پھر نوجوانوں کو جعلی پولیس مقابلوں میں قتل کرنے کا رواج زور پکڑ رہا ہے۔ حالیہ چند ماہ میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جنہیں بھارتی فورسز کی طرف سے پولیس مقابلے قرار دیا جارہا ہے، مگر جاں بحق نوجوانوں کے لواحقین اور آزاد ذرائع اسے بالی ووڈ کے کسی فلمی سین جیسا قرار دینے پر مُصر ہیں۔ ایک واقعے میں لاشوں کے اوپر ہتھیار ڈال کر اسے پولیس مقابلہ قرار دیا گیاہے۔ جعلی مقابلوں کی ایک سادہ سی پہچان یہ ہوتی ہے کہ کشمیر کے اُبلتے ہوئے ماحول میں جب ایک مسلح حریت پسند کسی مقابلے اور معرکے میں گزر جاتا ہے تو اُس کے لواحقین ایک شان اور ادا سے اُس کے اس فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں۔ ایسے نوجوانوں کے والدین میڈیا کے سامنے اپنے بچوں کے ہتھیار بند ہونے کے فیصلے کا جواز تلاش کرتے ہیں اور اس کے لیے ٹھوس دلائل پیش کرتے ہیں۔ اس میں بے روزگاری سمیت کوئی اور وجہ بیان کرنے کے بجائے سیدھے لفظوں میں اس فعل کی وجہ مسئلہ کشمیر کے حل طلب چلے آنے، یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ردعمل کو قرار دیتے ہیں۔ اس کے برعکس کوئی نوجوان جرمِ بے گناہی کا شکار ہوجائے تو اس کے والدین کے چہروں پر اطمینان کے بجائے دروکرب کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ذہنی طور پر ایسے کسی حادثے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ایسے ہی واقعے نے کشمیر کو ایک بار پھر ہلا کر رکھ دیا جب تین نوجوانوں کو ایک جعلی مقابلے میں شہید کردیا گیا۔ فوج نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ یہ نوجوان بھارتی فوج پر حملے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔ جبکہ اس حوالے سے ان نوجوانوں کا ماضی کا کوئی ریکارڈ اور کسی کارروائی کا ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ گویا کسی بھی شخص کو قتل کرنے کا آسان جواز اور بہانہ یہ ہے کہ اس پر کسی دہشت گردانہ کارروائی کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کردیا جائے۔ اس واقعے کی گونج الجزیرہ ٹی وی اور لندن کے گارجین تک میں سنائی دی۔ سری نگر شہر میں ایک پولیس مقابلہ ہوا اور اس مقابلے میں پینسٹھ کلومیٹر دور پلوامہ کے تین نوجوانوں کو قتل کردیا گیا۔ ان تین نوجوانوں کے نام پچیس سالہ زبیر احمد، سولہ سالہ اطہر مشتاق وانی، اور بائیس سالہ اعجاز مقبول گنائی بتائے گئے۔ ان میں ایک نوجوان راج مستری کا کام کرتا تھا، جبکہ دو طالب علم تھے۔ ان میں سے ایک نوجوان کے لواحقین کا اصرار ہے کہ ان کے بیٹے نے دوپہر کا کھانا گھر پر کھایا اور چند ہی گھنٹے بعد سری نگر میں پولیس مقابلے کی اطلاعات آئیں، اس قدر جلدی وہ نوجوان وہاں کیسے پہنچا؟ اس نے ہتھیار کہاں سے حاصل کیے اور اس نے عسکری تربیت کب اور کہاں حاصل کی؟ اس نوجوان کے گھر والوں کا یہی اعتماد ہے کہ وہ اس قتل کی تحقیقات کا مطالبہ کررہے ہیں۔ حد تو یہ کہ ان نوجوانوں کی لاشیں بھی گھر والوں کو نہیں دی گئیں اور انہیں سونہ مرگ کے ایک دوراُفتادہ مقام پر دفنا دیاگیا، جہاں پہنچنا ہی لواحقین کے لیے کارِدارد ہوتا ہے۔گزشتہ برس اپریل میں سونہ مرگ کی پہاڑی پر اس مقصد کے لیے جو قطعۂ زمین مختص کیا گیا تھا وہ ایک سال ہونے سے پہلے ہی بھر گیا ہے۔ اس سے اندازہ ہورہا ہے کہ بھارتی فوج کس تیزی سے کشمیریوں کی نسل کُشی میں مصروف ہے۔ ایک نوجوان کے والد کی اپنے بیٹے کی قبر کھودتے ہوئے تصویر اور وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں وہ دھاڑیں مار کرکہتا ہے کہ دنیا نے اس واقعے کا نوٹس نہ لیا توکشمیر میں اور بہت سے نوجوانوں کو اسی طرح جعلی مقابلوں میں مار دیا جائے گا۔بیٹے کی قبر کی تلاش میں یہ شخص جب سونہ مرگ کے اس نئے قبرستان میں پہنچا تو قبر کشائی پر معلوم ہوا کہ قبر بالکل خالی ہے،جس پر اس شخص نے کہا کہ اسے شک ہے کہ فوجی، لاشوں کو چیل کوّوں کے آگے پھینک کر نمائشی قبر بناتے ہیں۔کورونا کا بہانہ بنا کر اب بھارتی فوج شہید ہونے والوں کی لاشیں بھی لواحقین کے حوالے نہیں کرتی۔ اس وقت تک ایک سو سے زیادہ نوجوانوں کی لاشوں کو گھروں سے دور نامعلوم مقامات پر دفن کیا گیا ہے، انہی میں تحریک حریت کشمیر کے صدر اور بزرگ حریت راہنما محمد اشرف صحرائی کے جواں سال بیٹے جنید صحرائی بھی شامل ہیں۔کورونا کے بجائے اس کی وجہ جنازوں کو پُرجوش اور پُرہجوم بنانے کا عمل ہے جو اس میت اور اس کی قربانی کو دوسرے نوجوانوں کے لیے پُرکشش بناتا ہے۔
جعلی پولیس مقابلوں کی حکمتِ عملی کشمیر میں مسلح تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی روبہ عمل ہے۔ گویا کہ اس حکمتِ عملی کو تین دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے۔ فرضی پولیس مقابلے میں نوجوانوں کو قتل کرنے میں کئی آسانیاں ہیں۔ ایک تو مقابلہ آرائی کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اور اس مقابلہ آرائی کی وجہ سے ایک پورا ماحول وجود میں آتا ہے، اور اس ماحول کے ساتھ لاتعداد لوگوں کا معاش اور مفاد وابستہ ہوجاتا ہے۔ اس طرح جنگ ایک صنعت کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔ اس طرح قیدیوں کو پوچھ گچھ، عدالتی چکروں، تھانوں اور جیلوں کے عمل سے گزارے بغیر ہی راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔ اب حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا ایک نیا بہانہ ہاتھ آگیا ہے۔ امریکہ کے پیشگی حملے کی طرح اس بہانے کی زد بھی بے گناہوں پر پڑ رہی ہے، کیونکہ حملوں کی منصوبہ بندی کا اسٹیکر کسی بھی مقتول کی لاش پر چسپاں کرکے ایسی کسی بھی کارروائی کے بعد اُٹھنے والے سوالوں سے جان چھڑائی جا سکتی ہے۔ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ایک نیا انداز ہے، جس کے خلاف وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی کشمیریوں کے یوم حقِ خودارادیت کے موقع پر بیان دے چکے ہیں، مگر اصل مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند ہونے میں نہیں آرہیں، اور بھارت عام آبادی پر ایک جنگ مسلط کیے ہوئے ہے، اور ہمارے بیانات اور ٹوئٹس اس صورت حال کو بدلنے کے لیے ناکافی ہیں۔