کل رات یہ خبر حواس پر بجلی بن کر گری کہ پروفیسر محمد رفعت صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ پروفیسر صاحبؒ کی رحلت، تحریک اسلامی اور امتِ مسلمہ ہند کا اس مشکل مرحلے میں بہت بڑا نقصان ہے۔ وہ ایک عظیم فکری رہنما، بلند پایہ دانشور، مستند فکری ترجمان اور بے مثل مربی تھے۔ رات بھر، ذہن کی اسکرین پر تقریباً ربع صدی پر پھیلے ہوئے ان کے ساتھ گہرے تعلقات کی فلم چلتی رہی۔ ایس آئی او کے زمانے میں وہ اُن لوگوں میں سے ایک تھے جن سے ہم فکری و علمی معاملات میں سب سے زیادہ رجوع کرتے تھے۔ گہرے علمی موضوعات پر بھی بغیر کسی نوٹ کے تقریر کرتے، اور ایسی مربوط تقریر گویا لکھا ہوا مقالہ پڑھ رہے ہوں۔ ہر سوال کا نہایت نپا تلا، مدلل، مختصر لیکن اطمینان بخش جواب۔ کبھی کبھی ہلکی سی ظرافت یا کوئی برمحل شعر۔ ڈاکٹر رفعت صاحب کی دلکش شخصیت کی تعمیر میں ان مختلف النوع تجربات کا بھی رول تھا جو آپ کو اپنی نہایت سرگرم تحریکی زندگی میں پیش آتے رہے، اور اس متنوع اور وسیع الاطراف مطالعے کا بھی نہایت اہم کردار تھا جو بچپن ہی سے ان کے معمول کا مستقل حصہ رہا۔ ڈاکٹر صاحب نے عربی زبان اور اسلام کے مصادر کی نہایت سنجیدگی سے تعلیم حاصل کی تھی۔ گفتگو میں وہ تفاسیر کے ایسے حوالے دیتے بلکہ اقتباسات نقل کردیتے گویا ان کی نگاہوں کے سامنے کتابیں کھلی رکھی ہوں۔ مولانا مودودیؒ اور مولانا صدر الدین اصلاحیؒ کی متعدد کتابوں کے مضامین بھی ہمیشہ انہیں مستحضر رہتے۔ وہ نظری طبعیات (theoretical physics)کے استاد تھے۔ سائنس کے اس مضمون کا فلسفے سے گہرا رشتہ ہوتا ہے، چنانچہ انہوں نے فلسفے اور سائنس کے اہم افکار کا راست مطالعہ اصل ماخذوں سے کیا تھا۔ ادب کا بہت نفیس ذوق رکھتے تھے۔ غالب و میر سے لے کر جگر تک، اردو کے کئی استاد شعراء کے ہزاروں اشعار نہ صرف انہیں یاد تھے بلکہ گفتگو اور مباحث کے دوران ان کے برمحل استعمال پر غیر معمولی قدرت رکھتے تھے۔ اس سے محفل میں تازگی و خوشگواری بھی پیدا ہوتی اور بات میں وزن بھی پیدا ہوجاتا۔ انگریزی ناولوں کا جیسا وسیع کلیکشن ان کے گھر پر تھا، وہ میں نے کسی اور مسلمان مفکر کے یہاں نہیں دیکھا۔ اس وسیع اور متنوع مطالعے نے ان کی شخصیت میں گہرائی و گیرائی، وسعت و ہمہ گیری اور برجستگی و شگفتہ مزاجی کا حسین امتزاج پیدا کردیا تھا۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کے لیے ان کی شخصیت میں بڑی کشش اور جاذبیت تھی جس کا انھوں نے بہت خوبصورتی سے تحریک کے لیے باصلاحیت افراد کی ایک پوری نسل تیار کرنے کی خاطر استعمال کیا۔ تحریک میں ڈاکٹر صاحب کا اصل رول اصولوں کی پاسداری اور حفاظت کا تھا۔ آئیڈیلزم اور پریگمٹزم کے درمیان سنجیدہ، باوقار اور اصولی کشمکش اسلامی تحریکوں کے لیے باعثِ رحمت ہوتی ہے۔ اسی سے وہ نقطہ اعتدال پر قائم رہتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کا اصل رول اصولوں کی پاسداری اور حفاظت کا تھا۔ کئی دفعہ وہ اکیلے اپنے موقف پر چٹان کی طرح مضبوطی سے ڈٹ جاتے اور پوری مجلس ان کے مقابلے میں ایک زبان ہونے کے باوجود اس چٹان کے مقابلے میں آگے نہیں بڑھ پاتی۔ بعض معاملات میں ان کے موقف سے شدید اختلاف کے باوجود، ہمیشہ یہ محسوس ہوا کہ ایسی شخصیتیں تحریک کی گاڑی میں بریک کا کام کرتی ہیں۔ بریک کا کام گاڑی کو روکنا نہیں ہوتا بلکہ تیز رفتاری میں مدد کرنا ہوتا ہے۔ بریک کمزور ہو تو ڈرائیور کبھی بے فکری سے ایکسیلیٹر پر پیر نہیں رکھ سکتا۔ ڈاکٹر صاحب کی موجودگی میں بڑے بڑے اقدامات کرتے ہوئے زیادہ تشویش نہیں ہوتی کہ غلطیوں کی روک تھام کا انتظام موجود ہے۔ میری عادت ہے کہ میں اپنی ہر تحریر کو اشاعت سے قبل چند لوگوں کو ضرور دکھا لیتا ہوں، اور ان کے مشوروں کی روشنی میں نظرثانی کرتا ہوں۔ ان لوگوں میں نمایاں ترین نام ڈاکٹر صاحب مرحوم کا تھا، جن کا جواب ہمیشہ سب سے پہلے موصول ہوتا۔ دو ڈھائی سو صفحات کی کتاب پر بھی تفصیلی تبصرہ اور مشورے ایک دن کے اندر مل جاتے۔ شوریٰ کے علاوہ ٘متعدد ٹرسٹوں، علمی اداروں وغیرہ میں برسوں ان کا ساتھ رہا۔ پالیسی و پروگرام کی تدوین، دستوری ترمیمات اور بعض دیگر اہم اور حساس مسائل پر شوریٰ میں جو کمیٹیاں بنتی رہیں، ان میں بھی ہم دونوں اکثر ساتھ رہے۔ خوب بحثیں ہوتیں، نوک جھونک ہوتی، کبھی بحثیں تلخ بھی ہوجاتیں۔۔ بعض امور میں ہمارا مؤقف ایک ہوتا اور بعض میں مختلف۔۔۔ لیکن ہمارے ذاتی تعلقات اور آپسی محبت و احترام میں ان سے کبھی فرق نہیں پڑا۔ وہ ہمیشہ ایسے مربی، رہنما اور دوست بنے رہے جن سے ملاقات خوشی و مسرت کا بھی باعث ہوتی اور بہت سے علمی و عملی فائدوں کے حصول کا ذریعہ بھی۔
ڈاکٹر صاحب کی ایک نمایاں ترین خصوصیت اجتماعیت سے ان کی وفاداری اور اجتماعی زندگی کا سلیقہ اور آداب کی رعایت تھی۔غیر متعلق مجالس میں ناروا طریقے سے اختلافی مؤقف کے اظہار کو وہ سخت ناپسند کرتے اور اس کی حوصلہ شکنی کرتے تھے۔ فیصلہ ہوجانے کے بعد اس کے نفاذ میں شریک رہتے۔ وہ کئی ایسی کمیٹیوں کے بھی رکن رہے جو اُن فیصلوں کے نفاذ یا ان کی تفصیلات کے تعین کے لیے بنائی گئیں جن سے ان کو شدید اختلاف رہا۔ فیصلہ ہوجانے کے بعد وہ اس کا احترام کرتے اور اس کے بعد ان کی کوشش یہ ہوتی کہ اس فیصلے کو اس کے نقصان دہ پہلوئوں سے کیسے بچایا جائے۔ اس کے لیے ایسے فیصلوں کے نفاذ کے کام میں بھی وہ بھرپور دلچسپی کے ساتھ شریک ہوتے۔ حد درجہ بلکہ درویشانہ سطح کی سادگی، تقویٰ، بلکہ ایسی احتیاط کہ دیکھنے والوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آئے۔ خوداعتمادی، بے فکری اور استغنا، یہ کچھ اور ایسی صفات تھیں جو ڈاکٹر صاحب کو ممتاز کرتی تھیں۔ چند مہینوں سے جب سے ان کی طبیعت خراب تھی ان کی شخصیت کے کئی اور دبے ہوئے پہلو نمایاں ہوگئے تھے۔ غریب و مجبور لوگوں کے لیے فکرمندی، اس حد تک کہ لاک ڈاؤن کے دوران مزدوروں کی حالتِ زار پر لوگوں نے ان کو کسی پیڑ کے نیچے یا مسجد اشاعتِ اسلام کی سیڑھیوں پر اکیلے بیٹھے زار و قطار آنسو بہاتے دیکھا۔ امت کے احوال پر ایسی تشویش کہ ان کے گھر والے، رات رات بھر ان کے جاگنے سے پریشان ہوگئے۔ اس دوران ان کے اضطراب و بے چینی کو ان کے اطراف موجود ہر شخص نے محسوس کیا بلکہ ہر ایک مضطرب ہوگیا۔
کیا خبر تھی کہ اعلیٰ دماغ، حساس قلب اور شیریں و حاضر جواب زبان کا مالک یہ انمول انسان، اتنی جلد ہماری محفل سُونی کرجائے گا۔ اللہ تعالیٰ غریقِ رحمت فرمائے۔ آمین