پاکستان:قیادت کا بحران

تصنیف و تالیف : لیفٹیننٹ جنرل (ر) جہانداد خاں کی کتاب سے انتخاب

خودنوشت سوانح حیات عموماً خود اپنی ذات کی تلاش کی مظہر ہوتی ہے۔ تاریخ کے صفحات میں اپنا مقام پیدا کرنے کی خواہش کے ساتھ ساتھ مصنف کی ذات سے متعلق حالات و واقعات کے رموز بھی نظر آجاتے ہیں جس سے تاریخ کے تاریک گوشوں پر روشنی پڑتی ہے اور حالات و واقعات اور ان کے تجزیے سے ان کے حقائق کا انکشاف ہوتا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) جہانداد خان (جے کے) کی داستانِ حیات ’’پاکستان: قیادت کا بحران‘‘ ایک لحاظ سے بہت سی سوانحی داستانوں سے مختلف ہے کہ مصنف نے بیان کردہ حالات و واقعات میں سے بیشتر میں اپنے آپ کو پس منظر میں رکھا ہے اور واقعات اور متعلقہ شخصیات کو نمایاں کیا ہے، اور اپنے محتاط بیانات کے ذریعے کتاب کے قاری کو اپنی منکسرالمزاجی سے مذکورہ واقعات میں اپنے کردار کو سامنے لاکر اپنی موجودگی کا احساس دلایا ہے، اور دیانت داری کے ساتھ اپنی طبع حلیم کی وجہ سے خود کو Low Profile میں رکھا ہے اور مختلف ادوار کے قائدین کے طرزِ حکومت اور ملکی صورتحال کا تجزیہ کیا ہے، جو ایک سیدھے، کھرے اور دیانت دار شخص کا آئینہ دار ہے۔ ان کے تجزیے سے اختلاف تو ہوسکتا ہے مگر ان کے خلوص اور دیانت پر شک نہیں کیا جاسکتا۔
اٹک سے اپنے فوجی کیریئر کا آغاز کرتے ہوئے وہ لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے تک پہنچے اور صوبہ سندھ کے گورنر بھی رہے۔ انہوں نے ایوب خان کے دورِ حکومت میں پنجاب کے گورنر نواب امیر محمد کالاباغ کے ملٹری سیکریٹری کی حیثیت سے کئی سال خدمات انجام دیں۔ ذیل کے اقتباسات میں مصنف نے نواب کالاباغ کی شخصیت کے ان پہلوئوں پر روشنی ڈالی ہے جن سے عام لوگ واقف نہ تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنی صاف و شفاف زندگی کا سفر جاری رکھا اور ہر موڑ پر لوگوں سے اپنے لیے عزت و احترام اور محبت کے پھول سمیٹے، اور بینائی کی بحالی کے لیے ان کا قائم کردہ الشفا ٹرسٹ تو ایک ایسا مینارۂ نور ہے جس کی روشنی صدیوں تک انسانی خدمت کے افق پر معلق رہے گی۔ زیرمطالعہ کتاب کو جنگ پبلشرز نے اگست 2002ء میں شائع کیا تھا اور 2005ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوا۔
’’پاکستان: قیادت کا بحران‘‘ بلاشبہ پاکستان کی تاریخ و سیاست کے حوالے سے ایک نہایت اہم اضافہ ہے اور جنرل جہانداد خان نے بین السطور اس المیے کی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان کو سول اور ملٹری بیوروکریسی اور سیاست دانوں کی طرف سے ملنے والی قیادت اگر ژرف نگاہی اور ملک و قوم کی بے لوث خدمت کے جذبے سے کام لیتی تو آج اقوام عالم میں پاکستان کا مقام ہر اعتبار سے زیادہ باوقار اور معتبر ٹھیرتا۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) جہانداد خان اپنی سوانح حیات ’’پاکستان: قیادت کا بحران‘‘ کے صفحہ نمبر 90 پر رقمطراز ہیں:
’’1963ء میں ایوب خان کی حکومت کو جماعت اسلامی کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ایک مذہبی جماعت ہے جس کی بنیاد مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے رکھی تھی۔ جماعت اسلامی کا ایک جلسہ عام گوجرانوالہ میں ہورہا تھا جس پر ہجوم میں کسی نے گولی چلائی اور مولانا مودودی بال بال بچے۔ گورنر امیر محمد کالاباغ صاحب کے مولانا سے ذاتی دوستانہ روابط تھے، سخت الجھن میں پڑگئے اور مولانا کو ان کے خط کے جواب میں لکھا کہ اس طرح کی باتیں نئے نئے سیاست دانوں (اشارہ ایوب خان کی جانب تھا) ہی کی ذہنی اختراع ہوسکتی ہیں۔ اس طرح کی سیاست گری میرا طریقہ نہیں ہے۔ گورنر صاحب نے ایوب خان کو لکھا کہ حزبِ اختلاف سے اس طرح کے سلوک سے ملک میں قانون کی دھجیاں اڑ جائیں گی، اس کی حوصلہ شکنی کرنا ضروری ہے۔

صدر ایوب، گورنر نواب کالاباغ اور سید مودودیؒ

صدر صاحب کو مولانا مودودی سے سخت خطرہ محسوس ہوتا تھا۔ ان کے چند خوشامدیوں نے انہیں باور کرا دیا تھا کہ مولانا مودودی کو منظر سے ہٹائے بغیر ملک میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ نواب صاحب کے مولانا مودودی کے ساتھ گہرے تعلقات کو جانتے ہوئے ایک بار اپنے لاہور کے دورے میں صدر ایوب نے کہا کہ مولانا مودودی بہت شورش پسند ہیں، ان کے ارادے نیک نہیں ہیں، میں چاہتا ہوں ان کی شورش پسند سیاست کو ختم کرنے میں آپ میرے ساتھ تعاون کریں۔ نواب صاحب خاموش رہے، جس سے ایوب خان کو یہ پیغام مل گیا کہ اس معاملے کو ان کی مرضی کے مطابق سلجھانے میں نواب صاحب کوئی اقدام نہیں کریں گے۔ نواب صاحب نے اس واقعے کا صرف ڈاکٹر طوسی سے یوں ذکر کیا تھا ’’میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایوب خان اس طرح کا کام میرے سپرد کریں گے، وہ چاہتے ہیں کہ میں ان کی کرسی بچانے کے لیے ایک عالمِ دین کو ظلم و ستم کا نشانہ بنائوں۔ اب میرے دل میں نہ ان کا کوئی احترام باقی ہے اور نہ ہی کوئی اعتماد‘‘۔ نواب صاحب نے یہ باتیں ڈاکٹر طوسی سے بڑی رازداری سے کی تھیں۔ 1965ء کی جنگ کے بعد ان تعلقات میں رخنے نمایاں ہوگئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایوب خان کا تخت ڈول رہا تھا، ان کی قوتِ فیصلہ جواب دے چکی تھی، ان کا زیادہ انحصار اپنے مشیروں پر تھا جو ایوب خان کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ نواب صاحب ان کے وفادار نہیں رہے، اور ایوب کے خلاف عوام جو غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں اس کی بڑی وجہ نواب صاحب کی جاگیردارانہ پالیسی ہے۔ یہ اختلافات اُس وقت اپنے عروج پر پہنچ گئے جب انتخابات میں ایوب خان کے پسندیدہ امیدوار خان بہادر حبیب اللہ خان کے مقابلے میں کراچی سے میرغوث بخش بزنجو کو کامیابی حاصل ہوئی۔ صدر کو بتایا گیا کہ نواب صاحب نے میرغوث بخش بزنجو کی کھلم کھلا حمایت کی تھی، تاکہ صدر کو شرمندگی اٹھانا پڑے۔

فوج کے سربراہ کی نامزدگی پر نواب صاحب کا تبصرہ

مارچ 1968ء کے بعد چونکہ جنرل موسیٰ اپنے عہدے کی اضافی میعاد بھی مکمل کرنے والے تھے اس لیے فوج کے اگلے سربراہ کے لیے طرح طرح کی افواہیں گشت کرنے لگیں۔ اس معاملے پر نواب صاحب نے مجھ سے متعدد بار تبادلہ خیال کیا اور ایک بار اس عہدے کے لیے متعدد لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’اگر ایوب خان نے یحییٰ خان کو سربراہ بنادیا تو یہ ان کی زندگی کی عظیم ترین غلطی ہوگی۔ کیونکہ وہ عیاش اور شرابی ہے‘‘۔ چند دنوں بعد سرکاری اعلان آیا کہ یحییٰ خان کو افواج پاکستان کا سربراہ متعین کردیا گیا ہے۔ وہ 14 اگست 1968ء کو اپنا عہدہ سنبھالیں گے۔ جنرل ملک سرفراز نے اس عہدے کے لیے بڑی کوشش کی تھی اور نواب صاحب سے بھی مدد کے طالب ہوئے، لیکن انہوں نے اس بنا پر انکار کردیا کہ وہ 1965ء میں لاہور کے محاذ پر ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے۔
نواب صاحب نے فوج کے نامزد سربراہ کے بارے میں جو رائے دی تھی وہ کسی طرح خفیہ اداروں کے ذریعے جنرل یحییٰ تک پہنچ گئی اور وہ بہت پریشان ہوئے۔ وہ یہ معاملہ صدر ایوب تک لے جانا چاہتے تھے، لیکن اس سے قبل وہ خود بھی اس کی تصدیق ضروری سمجھتے تھے۔ ایک دن آئی ایس آئی ڈائریکٹوریٹ لاہور کے جی ایس او۔1 کرنل آصف نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ آپ اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ نواب صاحب نے کہا ہے کہ جنرل یحییٰ خان عیاش اور شرابی ہیں اس لیے وہ فوج کی سربراہی کے اہل نہیں ہیں۔ میں نے کرنل آصف سے صاف کہہ دیا کہ میں گورنر کا ملٹری سیکریٹری ہوں، ان کی خفیہ نگرانی کرنا یا ان سے منسوب باتوں کی تصدیق یا تردید کرنا میرے فرائض میں داخل نہیں ہے۔ یہ جواب آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل بریگیڈیئر (بعد میں لیفٹیننٹ جنرل) محمد اکبر خان کو پہنچادیا گیا، جنہیں میرے جواب نے سخت مایوس کیا۔ اسے انہوں نے فوج سے عدم تعاون قرار دیا اور مجھ پر آئی ایس آئی نے نواب صاحب کا آدمی ہونے کا ٹھپہ لگادیا جو سیاست میں ملوث ہوچکا ہے اور جسے فوج کے وقار اور مفاد کا کوئی خیال نہیں ہے۔

گورنر کا استعفیٰ

کراچی کے انتخاب میں خان بہادر حبیب اللہ خان کی جگہ میر غوث بخش بزنجو کی کامیابی کے بعد سے نواب صاحب کے صدر سے اختلافات اتنے گہرے ہوگئے کہ کسی مصالحت کی گنجائش باقی نہ رہی، اور نواب صاحب نے اپنے منصب سے اسعتفیٰ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ ایوب خان کو نواب صاحب کے اس فیصلے سے یقیناً بڑا اطمینان ہوا ہوگا، کیونکہ ان کے مخالفین نے باور کرا دیا تھا کہ نواب صاحب ان کے وفادار نہیں رہے اور وہ صدر کے مفاد کے خلاف کام کررہے تھے، اس لیے ان سے پیچھا چھڑانے ہی میں عافیت تھی۔ صدر صاحب کے لیے یہ فیصلہ نہایت اہم تھا، کیونکہ اس طرح کی محلاتی سازش کی وجہ سے وہ اپنی حکومت کے مضبوط ستون سے محروم ہوگئے تھے۔ نواب صاحب کے نکل جانے کے بعد ان کے حریفوں نے اطمینان کا سانس لیا ہوگا کہ ان کے لیے صدر ایوب کی آمرانہ حکومت سے نجات برسوں کی نہیں بلکہ چند ماہ کی بات تھی۔
اس معاملے میں نواب صاحب نے مجھے ہر پیش رفت سے آگاہ رکھا۔ میں نے ان کے اس فیصلے کی حمایت کی، کیونکہ ان جیسے مزاج والے شخص کے لیے صدر کا اعتماد کھونے کے بعد گورنر کے منصب پر کام جاری رکھنا ممکن نہ تھا۔ نواب صاحب نے اپنے ذاتی اور دفتری معاملات جو بہت زیادہ نہیں تھے، تین دن میں نمٹادیے۔ انہوں نے شکریے کے چند نیم سرکاری مراسلے تحریر کرنے کے بعد اپنا استعفیٰ خاص قاصد کے ذریعے صدر صاحب کو ارسال کردیا۔ چھے سال گورنر رہنے کے بعد انہوں نے رخصت ہوتے وقت کسی قسم کی تشویش یا تاسف کا اظہار نہیں کیا، نہ اس کا تاثر پیدا ہونے دیا۔ آخری روز انہوں نے گورنر ہائوس کے عملے کی بہبود کے لیے پچیس ہزار روپے کا چیک لکھ کر ملازمین میں تقسیم کرنے کے لیے مجھے دیا۔ اپنی رخصت کے مقررہ وقت پر وہ کمرے سے باہر نکلے اور عملے کے کسی فرد سے مصافحہ کیے بغیر راولپنڈی جانے کے لیے سیدھے کار میں بیٹھ گئے۔ میں نے راستے میں ان سے دریافت کیا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ ان کا جواب تھا: ان بیچاروں کو مصافحے کی نہیں بلکہ رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے صدر ایوب کے ساتھ لنچ کھایا۔ صدر نے انہیں تحفے میں ایک تلوار پیش کی اور اس طرح چھے سال کی رفاقت کا خاتمہ ہوگیا۔

استعفے کے بعد کی زندگی

کالا باغ واپس آکر نواب صاحب نے جاگیر کا تمام انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ وہ کام لینے میں نرمی یا رعایت نہیں برتتے تھے، اس لیے ان کے بیٹے اور دیگر عزیز و اقارب سے ان کی تعلقات میں گہرائی اور گرم جوشی نہیں تھی۔ لیکن گورنری کے طویل دور میں یہ تعلقات بد سے بدتر ہوگئے تھے۔ اس دوران انہوں نے اپنے بیٹوں اور قریبی عزیزوں کو ہر طرح کی رعایت سے محروم رکھا تھا۔ انہوں نے مجھے اور عملے کے دیگر اعلیٰ افسران کو یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ ان کے بیٹوں اور رشتہ داروں کے ساتھ ان کی اجازت کے بغیر کوئی رعایت نہ کی جائے۔ اس اصول کے سبب اہلِ خاندان سے تعلقات مزید کشیدہ ہوگئے تھے۔ اس جتھے اور سازش کے سرگرم رکن ان کے دو بیٹے مظفر اور اسد، اور ان کی بیگم صاحبہ اور بیٹوں کے ماموں ملک شیر محمد تھے جنہوں نے اپنے بھانجوں اور ہمشیرہ کے کان بھرے اور تعلقات میں زہر گھولا، کیونکہ نواب صاحب کے آمرانہ رویّے سے انہیں کوئی فائدہ حاصل نہیں ہورہا تھا۔

خاندانی تنازعات میں اضافہ

نواب صاحب کے اپنے خاندان سے تعلقات میں ابتری پیدا ہوتی چلی گئی۔ اس صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے ان کے بیٹوں نے راستہ ڈھونڈ نکالا۔ انہوں نے صدر ایوب کے ایک عزیز کے وسیلے سے یہ تجویز پیش کی کہ وہ نواب صاحب کو کسی غیرملک میں کوئی ذمہ داری سونپ دیں تاکہ خاندان والوں کو ان سے نجات مل جائے۔ ایوب خان نے نواب صاحب کو بین الاقوامی خوراک ایجنسی کے مشیر کے عہدے کے لیے رسمی اطلاع بھیجی۔ نواب صاحب ذہین شخص تھے، یہ کھیل سمجھ گئے اور انکار کردیا۔ انہوں نے اس پر ڈاکٹر طوسی سے بھی مشورہ کیا۔ انہوں نے بھی مخالفت کی اور کہا کہ واپسی پر نواب صاحب کے لیے کالا باغ میں کوئی جگہ نہیں رہے گی۔ نواب صاحب اپنے بیٹوں کی سازشوں سے اتنے زچ ہوگئے تھے کہ انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ وہ اپنی تمام جائداد ملک مظفر کے بیٹے اور اپنے پوتے ادریس کے سپرد کردیں گے۔ یہ خبر ان کے بیٹوں تک پہنچ گئی اور ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔
نواب صاحب کے پیچیدہ خاندانی تنازعات کا ایک کردار جاگیر کا منیجر نور محمد (نورا) تھا۔ انہیں جاگیر کے معاملات میں اس پر اپنے بیٹوں سے زیادہ اعتماد تھا۔ نواب صاحب کی گورنری کے زمانے میں چونکہ نورا پر کوئی پابندی نہیں تھی اس لیے وہ افسروں کے پاس بلا روک ٹوک پہنچ جاتا تھا اور اپنے بہت سے کام نکال لیتا تھا، جبکہ نواب صاحب کے بیٹوں کو یہ رعایتیں حاصل نہیں تھیں۔ علاوہ ازیں خاندان والوں کو یہ بھی اندیشہ تھا کہ نواب صاحب جائداد کا کچھ حصہ نور محمد کو دینے والے ہیں۔ نورا کے اس کردار نے ان کے بیٹوں کی شکایات میں ایک اور عنصر کا اضافہ کردیا تھا، لیکن ان لوگوں کو سب سے زیادہ فکر وسیع و عریض خاندانی جاگیر کی تھی جس پر نواب صاحب کا مکمل قبضہ تھا اور ان کے بیٹے اس کے انتظامی امور سے رفتہ رفتہ دور ہوتے جارہے تھے۔

نواب صاحب کا قتل

حسبِ توقع آخرکار وہ وقت آگیا جب اہلِ خاندان نے نواب صاحب کو ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنایا۔ یہ سازش جاگیردار خاندان کے معمولات کا ایک نمایاں حصہ تھی۔ ان کے لیے جائداد کی خاطر والد کو قتل کردینا کوئی انوکھی بات نہ تھی۔ اس سے پیشتر کہ نواب صاحب جائداد کا انتقال اپنے پوتے کے نام کرتے، انہیں ختم کرنا ضروری تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس افسوسناک ڈرامے کا اصل کردار ان کے سب سے بڑے صاحبزادے ملک مظفر تھے جس پر ان سے خاندان والوں کی گلوخلاصی کے لیے جلد ہی عمل درآمد ہونے والا تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ نواب صاحب کو اُس وقت گولی ماردی جائے جب وہ دریا کے کنارے اپنے مہمان خانے میں وڈیو پر فلم دیکھنے میں محو ہوں۔ اس کام کے لیے ملک اسد کو مقرر کیا گیا تھا۔مجھے سب سے پہلے ریڈیو پر یہ خبر ملی کہ مغربی پاکستان کے سابق گورنر نواب امیر محمد خان کالا باغ کو نامعلوم قاتلوں نے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ مجھے سخت صدمہ ہوا اور نواب صاحب کے وہ الفاظ یاد آگئے جو ایک طرح کی پیش گوئی تھی، انہوں نے ایک سفر کے دوران کہا تھا کہ ’’اگر کسی وقت میں مارا جائوں تو یہ کام بچوں کے ماموں کے کہنے پر کوئی ملازم یا خاندان کا کوئی فرد انجام دے گا‘‘۔ یہ الفاظ یاد آتے ہی میرے منہ سے نکلا ’’یہ پیش گوئی کتنی درست ثابت ہوئی‘‘۔ بعد میں معلوم ہوا کہ دراصل ان کے بیٹے اسد نے بہت ہی قریب سے ان پر پستول سے گولی چلائی تھی۔ یہ بھی اطلاع ملی کہ اس جرم کے ارتکاب سے قبل ایوب خان کے ایک رشتہ دار کے ذریعے یہ یقین دہانی حاصل کرلی گئی تھی کہ حکومت کی مدد ہر صورت میں شاملِ حال رہے گی۔
یہ سانحہ بڑا افسوسناک تھا۔ قوم ایک نہایت اعلیٰ منتظم، سیاسی مدبر اور عظیم شخصیت سے محروم ہوگئی۔ ان کے خاندان کی ساکھ اور عزت نواب صاحب ہی کی مرہونِ منت تھی۔ بدقسمتی دیکھیے کہ تجہیز و تکفین میں بھی جلدبازی سے کام لیا گیا۔ ان کے جسدِ خاکی کو ایک ٹرالر میں رکھ کر قبرستان لے جایا گیا اور نمازِ جنازہ اور دیگر مذہبی رسوم کے بغیر ہی راتوں رات سپردِ خاک کردیا گیا۔ بیٹوں کے جرم میں یہ ایک اور جرم کا اضافہ تھا۔ حفیظ طوسی اور ان کے چند احباب نے ہائی کورٹ میں مقدمہ لڑا، مگر اعلیٰ ترین سرکاری سطح پر قاتلوں کی اعلانیہ طرف داری کے سبب وہ رہا ہوگئے۔ اس طرح ایک عظیم اور بارعب شخصیت کا خاتمہ ہوگیا۔