حنیف عابد کی کتاب ’’جگمگ تارے‘‘ کی تقریبِ رونمائی

بچوں کے لیے 21 کہانیوں کا مجموعہ

حنیف عابد علمی، ادبی، صحافتی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے نہ صرف بڑے، بلکہ بچے بھی شوق سے ان کی تحریریں پڑھ رہے ہیں۔ بچوں کے لیے لکھنا بڑا مشکل کام ہے، اس کے لیے پہلے بچوں کی نفسیات سمجھنے کے ساتھ خود کو اُن کی ذہنی سطح پر لانا پڑتا ہے۔ حنیف عابد نے یہ کام خوبی سے کیا جس کا اظہار اُن کے بچوں کے لیے لکھے گئے پہلے ناول ’’ہوشان جادوگر کا انجام‘‘ سے ہوتا ہے۔ احمد حاطب صدیقی رقم طراز ہیں: ۔
’’یہ مختصر ناول مجھے پڑھنے کو ملا تو میں پورا ناول ایک ہی نشست میں پڑھ گیا۔ تحریر کی روانی اور قدم قدم پر وہی بچوں والا تجسس کہ …… پھر کیا ہوا نانی اماں؟…… کہانی سے توجہ ہٹنے ہی نہیں دیتا۔ چھوٹے چھوٹے فقرے، بچوں کے لیے قابلِ فہم زبان، فطری مکالمے اور کہانی کی طلسماتی فضا اس ناول کو بچوں کے لیے دلچسپ اور پُرکشش تو بناتی ہے مگر اس میں بہت سے تعلیمی اور تربیتی پہلو بھی ہیں۔ یہ تعلیم و تربیت کسی وعظ و تلقین سے نہیں ہوتی ہے۔ ناول کی کہانی کے بین السطور جو پیغام ہے وہی بچوں کے لاشعور میں بیٹھ کر ان کی ذہنی تشکیل کرتا ہے‘‘۔
’’جگمگ تارے‘‘ اکیس کہانیوں کا مجموعہ ہے جسے نیشنل بک فائونڈیشن اسلام آباد نے شائع کیا ہے۔ سابق منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر انعام الحق جاوید لکھتے ہیں: ۔
’’بچوں کی ذہنی اور اخلاقی تربیت کے لیے لکھی گئی اصلاحی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کی اشاعت سے کہانی سننے، سنانے اور پڑھنے کی روایت مضبوط ہوگی۔‘‘
راقم بھی چونکہ ابھی تک بچہ ہی ہے لہٰذا اس نے بھی کتاب ملتے ہی اسے پڑھنا شروع ک دیا۔ ’’جوش میں ہوش نہ کھونا‘‘ کہانی پڑھ رہا تھا، ’’شہیم نے اپنے کزن سے شرط لگائی کہ پاکستان آج (ویسٹ انڈیز سے) میچ ہر قیمت پر جیتے گا۔ جیسے جیسے کھیل آگے بڑھتا گیا صورتِ حال تبدیل ہوتی گئی۔ ویسٹ انڈیز کی ٹیم کے آئوٹ ہونے کے بعد شہیم نے کہا کہ اسکور کچھ زیادہ ہے لیکن پاکستان کی ٹیم مضبوط ہے، اس سے زیادہ رنز بنا لے گی۔ وقفے کے بعد جب کھیل شروع ہوا تو پہلے چار کھلاڑی ایک ہی رن بنا سکے اور پویلین لوٹ گئے۔ جیسے ہی چوتھی وکٹ گری شہیم نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی کولڈڈرنک کی بوتل غصے میں پھینکی جو ایل سی ڈی پر جاکر لگی اور اسکرین ایک چھناکے سے ٹوٹ گئی‘‘۔ یہ پڑھتے ہی میرے ذہن کی اسکرین پر وہ سچی کہانی آگئی، جس کا میں چشم دید گواہ ہوں۔ یہ اُس زمانے کی کہانی ہے جب ٹی وی نہیں آیا تھا بلکہ میچ کی کمنٹری ریڈیو سے نشر ہوا کرتی تھی۔ ایک صاحب کان سے ریڈیو لگائے ایک ہاتھ سے موٹر سائیکل چلا رہے تھے، ہاکی کا میچ آخری مرحلے میں تھا کہ کسی کھلاڑی نے گو ل کرکے بازی جیت لی۔ جونہی گول ہوا، موٹر سائیکل سوار نے خوشی سے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا لیے اور سامنے سے آنے والے رکشے سے ٹکرا گیا۔ لوگوں نے اسے سڑک سے اٹھایا۔ شکر ہے کہ موٹر سائیکل کی رفتار زیادہ نہ تھی، چند خراشیں پھر بھی آئیں۔ لوگوں نے پوچھا: کیا ہوا تھا بھائی؟ کراہتے ہوئے بولے ’’گول‘‘ ہوگیا ہے۔ ایک بزرگ نے کہا کہ ’’میاں خدا کا شکر کرو کہ تم گول نہیں ہوئے، ہمیشہ جوش میں ہوش سے کام لو‘‘۔ یہ کہانیاں ہمیں اپنے بچپن سے بھی جوڑتی ہیں جو بڑوں کو بھی پڑھنی چاہئیں۔
کراچی پریس کلب کی ادبی کمیٹی نے ’’جگمگ تارے‘‘ کی تقریبِ پذیرائی کا عمدہ اہتمام کیا ۔صدرِ محفل پروفیسر سحر انصاری جبکہ مہمانِ خصوصی معروف صحافی اور بچوں کے ادب کی دنیا کی معتبر شخصیت حمیرا اطہر تھیں۔ مہمانِِ اعزازی طارق جمیل کے علاوہ سید معراج جامی، علی حسن ساجد، ادبی کمیٹی کے سیکریٹری علاء الدین خانزادہ، صالحہ صدیقی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ حنیف عابد کی کہانیاں بچوں میں تخلیقی صلاحیت ابھارتی ہیں۔ انہوں نے احمد عقیل روبی کی فرمائش پر کہانیاں لکھنی شروع کیں۔ ان کی کہانیوں میں سادگی اور سلاست کے ساتھ دلچسپی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے۔ یہ بچوں کی نفسیات کو بخوبی سمجھتے ہیں، اسی لیے بچے بھی ان کی تحریریں ذوق و شوق سے پڑھتے ہیں۔ ’’جمگ تارے‘‘ جہاں بچوں کو اپنی تہذیب سے جوڑتی ہے، وہیں دورِ جدید کے تقاضوں سے بھی ہم آہنگ کرتی ہے۔ انہوں نے یہ کہانیاں وقت گزاری یا تفریحِ طبع کے لیے نہیں لکھیں، بلکہ ان میں اصلاحی نکات کو اوّلیت حاصل ہے۔ موجودہ دور کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا ہے، جس نے بچوں کے ہاتھ سے کتاب چھین لی ہے، ایسے حالات میں بچوں کو کتاب کی جانب راغب کرنے کے لیے بچوں کے ادب کو بھرپور توجہ کی ضرورت ہے۔ ’’جگمگ تارے‘‘ خوبصورت کہانیوں کا ایک ایسا شوخ گلدستہ ہے جسے والدین اپنے بچوں کو دیتے وقت فخر محسوس کریں گے۔ ان کہانیوں میں جہاں پڑھنے والوں کو موجودہ عہد کی جھلک نظر آئے گی، وہیں تخیلاتی اور تمثیلی رنگ بھی دکھائی دے گا۔ یہ کہانیاں بچوں کے ساتھ بڑوں کو بھی پسند آئیںگی۔ انہوں نے کہانیوں میں مختلف کرداروں کے ذریعے بچوں کو جو سمجھانے کی کوشش کی ہے اسے پڑھ کر انہیں بھرپورداد دینے کو دل چاہتا ہے۔
ابنِ عظیم فاطمی اور اختر سعیدی نے منظوم اظہارِ خیال کیا۔ تقریب کی خوبصورت نظامت کرتے ہوئے ڈاکٹر نزہت عباسی نے کہا کہ بچوں کو نیکی، سچائی اور خیر کا سبق دیا گیا ہے۔ حنیف عابد نے کہا کہ ’’میرے لیے لکھنا معمول کی بات رہی ہے۔ قلم کے ساتھ میرا رشتہ 40 برس پر محیط ہے۔ لیکن جب میں نے بچوں کے لیے لکھنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ یہ کام معمول سے ہٹ کر ہے۔ دنیا جہان کے موضوعات پر بلاتکان لکھنے کی صلاحیت اُس وقت کہیں گم ہوجاتی ہے جب کسی بچے کے لیے لکھنا ہو۔ لوگ کہتے ہیں کہ بچوں کے لیے لکھنے کے لیے مصنف کو بچوں کی سطح پر جانا پڑتا ہے، جب کہ میں کہتا ہوں کہ بچوں کے لیے لکھنے کے لیے خود کو بچوں کی سطح سے اٹھانا پڑتا ہے۔‘‘
قبل ازیں تقریب کا آغاز م، ص ایمن نے تلاوتِ قرآن مجید کے ذریعے کیا۔ سعد الدین سعد نے نعتِ مبارکہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ معروف شاعر رونق حیات نے مہمانوں کا فرداً فرداً شکریہ ادا کیا۔ سینئر شاعرہ طاہرہ سلیم سوز نے حنیف عابد کو اجرک پیش کی۔ م، ص ایمن، وحید محسن، صالحہ عزیز صدیقی نے اپنی کتابوں کے تحائف پیش کیے۔ اردو مرکز جدہ کے سیکریٹری حامد اسلام خان نے اپنی محبت کا اظہار گلدستہ دے کر کیا۔ تقریب میں بڑی تعداد میں اربابِ علم و دانش کے ساتھ مظہر ہانی، جنید علی فریدی، نعیم قریشی، عادل ظفر، خالد دانش، اصغر خان، رحمان نشاط، زاہد حسین جوہری، ڈاکٹر اقبال ہاشمانی، ارشاد آفاقی، عبدالستار رستمانی، جنید احمد راجپوت، مجید رحمانی، فرحت اللہ قریشی، شاہین مصور، غلام مرتضیٰ سولنگی، محسن نقی، صائمہ نفیس، رضوان احمد و دیگر شریک ہوئے۔