فروری سے واٹس ایپ کا ڈیٹا، فیس بک کمپنی کو بھی دیا جائے گا

واٹس ایپ نے اپنے نئے پیغام میں کہا ہے کہ وہ 8 فروری سے اپنے لگ بھگ دو ارب صارفین کا ڈیٹا اپنی مرکزی کمپنی فیس بک سے شیئر کرے گی۔ اس ڈیٹا میں آپ کے کوائف، محلِ وقوع اور شاید دوستوں کے نمبر تک شامل ہوسکتے ہیں۔ واٹس ایپ نے سال کے آغاز پر اپ گریڈیشن کے ساتھ نئی شرائط بھی جاری کی ہیں۔ اس سے قبل واٹس ایپ نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ آپ کے ڈیٹا کی سیکورٹی کے معیارات بہت سخت ہیں اور دونوں روابط کے مابین اینکرپشن کے معیارات بہت سخت اور قدرے محفوظ ہیں۔ لیکن اب اگلے ماہ سے واٹس ایپ کمپنی آپ کا نام، کوائف، آئی پی ایڈریس، فون ماڈل، آپریٹنگ سسٹم، بیٹری چارجنگ کی مقدار، سگنل کی شدت، براؤزر کی قسم، موبائل نیٹ ورک، آئی ایس پی، زبان، ٹائم زون، یہاں تک کہ آئی ایم ای اے بھی معلوم کرے گی، اور شاید یہ معلومات فیس بک کے حوالے کرے گی۔ اس دوران واٹس ایپ کمپنی نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ اپنے پلیٹ فارم پر جاری کسی بھی کاروباری یا تجارتی معلومات کے تبادلے پر بھی نظر رکھے گی۔ اس لیے واٹس ایپ آپ کے پیغامات کی سن گن بھی لے سکے گی۔ واٹس ایپ نے اپنی ٹویٹ میں کہا ہے کہ بعض کاروبار تھرڈ پارٹی سافٹ ویئر یا سافٹ ویئر (بشمول فیس بک) استعمال کررہے ہیں تاکہ وہ اپنے صارفین سے رابطے میں رہ سکیں۔ اب بعض افراد بالخصوص حساس اداروں میں کام کرنے والے یا دیگر ماہرین مجبور ہوں گے کہ وہ واٹس ایپ کو ترک کردیں، لیکن واضح رہے کہ اکاؤنٹ ڈیلیٹ ہونے کے بہت عرصے بعد بھی آپ کا ڈیٹا اور معلومات واٹس ایپ پلیٹ فارم پر موجود رہیں گی۔ اہم بات یہ ہے کہ یورپی یونین کے 27 ممالک اس نئی پالیسی سے متاثر نہیں ہوں گے۔ یورپی ممالک نے حال ہی میں ’جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن (جی ڈی پی آر) متعارف کرایا ہے جس کے تحت تمام کمپنیوں پر صارفین کے ڈیٹا کو محفوظ اور یقینی بنانے پر زور دیا گیا ہے، خواہ یہ کمپنیاں دنیا کے کسی بھی ملک میں واقع ہوں۔

کینسر زدہ خلیات کی نشاندہی کرنے والی ذہین خردبین

سرجری کے عمل میں انتہائی احتیاط کے باوجود بھی سرطانی خلیات انسانی جسم میں رہ جاتے ہیں، اور یوں کینسر دوبارہ پھیلنے کے خطرات منڈلاتے رہتے ہیں۔ اب ایک خاص خردبین (مائیکرواسکوپ) مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلی جنس) استعمال کرتے ہوئے چند منٹوں میں کسی بھی ٹشو (بافت) میں سرطانی خلیات کی شناخت کرسکتی ہے۔ رائس یونیورسٹی کی سائنس داں پروفیسر میری جِن اور ان کے ساتھیوں نے یہ ٹیکنالوجی وضع کی ہے۔ پروفیسر میری کا کہنا ہے کہ ”جراحی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تمام تر سرطان زدہ خلیات کو جسم سے نکال باہر کیا جائے۔ لیکن اس کا واحد راستہ یہی ہے کہ اس پورے عمل کو خردبین سے دیکھا جائے“- لیکن ماہرین کا اصرار ہے کہ خردبین سے دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ٹشو کے انتہائی باریک ٹکڑے کیے جائیں اور انہیں الگ الگ دیکھا جائے۔ تاہم یہ عمل بہت وقت طلب، مشکل اور مہنگا ہوتا ہے۔ اسی لیے پروفیسر میری نے ایک ٹشو کے ایک بہت بڑے ٹکڑے کو بڑا کرکے اس کی باریک پرتیں بنائے بغیر خردبین سے دیکھی جانے والی ٹیکنالوجی بنائی ہے جو کمپیوٹر الگورتھم استعمال کرتی ہے۔ اس خردبین کو ڈیپ ڈی او ایف کا نام دیا گیا ہے۔ یہ مصنوعی ذہانت استعمال کرتے ہوئے فوری طور پر تصویر دیکھ کر اسے پروسیس کرتی ہے۔ ڈیپ ڈی او ایف کے اوپر ایک انتہائی ارزاں آپٹیکل فیز ماسک لگایا جاتا ہے جو پورے ٹشو کی ڈیپتھ آف فیلڈ کو پانچ گنا تک بڑھا دیتا ہے۔ اب اس تصویر کی پروسیسنگ میں ایک خاص طرح کا الگورتھم اپنی رائے دیتا ہے۔ ماہرین اس طرح بہت تفصیل اور گہرائی سے بافتوں کو دیکھ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ پہلے 1200 سے زائد سرطانی تصاویر سے الگورتھم کو تربیت دی گئی ہے۔ اس کا ڈیٹا الگورتھم میں شامل ہے جو فوری طور پر اپنے ڈیٹا کی روشنی میں ماہرین کی مدد کرتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق صرف دو منٹ میں خردبین یہ بتاتی ہے کہ اس بافت میں کتنے سرطانی خلیات شامل ہیں۔ ماہرین نے اس کی آزمائش کی ہے جس کے بہت اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔

پاکستان کا عالمی طرز کی سماجی رابطے کی ایپ تیار کرنے کا فیصلہ

حکومتِ پاکستان نے عالمی طرز کی سماجی رابطے کی ایپ تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ سماجی رابطہ ایپ وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور آئی ٹی ماہرین تیار کریں گے۔ یہ جدید سماجی رابطہ ایپ مکمل تحفظ پر مبنی ہوگی۔ اس میں میسیجز، وائس کال، ویڈیو کال سمیت دیگر تمام خصوصیات شامل ہوں گی۔ اس سماجی رابطہ ایپ کی تیاری پر بات چیت جاری ہے، وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اس پر باقاعدہ کام شروع ہوجائے گا۔ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق اسے پاکستانی آئی ٹی ماہرین تیار کریں گے، اس ایپ میں سماجی رابطوں کے حوالے سے تمام سہولیات میسر ہوں گی۔ اس ایپ کے ذریعے میسیجز، وائس میسیج، ویڈیو کالنگ کے ساتھ سماجی رابطوں کی جدید سہولیات میسر ہوں گی، اس ایپ میں ممکنہ طور پر موبائل نمبر اور شناختی کارڈ سے رجسٹریشن ہوگی، اس میں لوگوں کے ڈیٹا اور پیغامات کا مکمل تحفظ ہوگا اور صارف کی ذاتی معلومات کو بھی تحفظ حاصل ہوگا۔ بتایا گیا ہے کہ اس رابطہ ایپ میں غیر اخلاقی مواد کو شیئر نہیں کیا جاسکے گا۔ یہ سماجی رابطہ ایپ تجرباتی بنیادوں پر تیار کرنے کے بعد پہلے مرحلے میں بڑے شہروں میں شروع کی جائے گی، جس کے بعد اس کا دائرئہ کار پورے ملک میں وسیع کردیا جائے گا، اس مرحلے کے بعد عالمی سطح پر اس سماجی رابطہ ایپ کو متعارف کرایا جائے گا۔