مصنف : پروفیسر اظہار حیدری
مرتب : ہاشم اعظم
صفحات : 500 قیمت 800 روپے
ناشر : الجلیس پاکستانی بکس پبلشنگ سروسز
ملنے کا پتا : صدف بنتِ اظہار۔ناصر الاعظم
رابطہ : 0314-2487616
مکتبہ حیدری، فرسٹ فلور
پلاٹ نمبر 29 5B2/ ناظم آباد نمبر 5 کراچی
کھلتی رنگت، دراز قد، بھاری بھرکم، شانت مُکھ… اظہار حیدری سے جو بھی ملتا اُن کا گرویدہ ہوجاتا۔ چہرے پہ سجی سچی مسکراہٹ اُن کے اندر کے اطمینان کا پتا دیتی۔ وہ تحمل سے مخاطب کی بات سنتے، اور جب بولتے شیریں بیانی دل میں اتر جاتی۔ راقم سے ان کی یاد اللہ 1974ء سے رہی۔ ’’آئینہ اظہار‘‘ کئی دہائیوں پر محیط ان کی تحریروں کا مجموعہ ہے جو مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں شائع ہوتی رہی ہیں، جو اب ان کی ہونہار صاحب زادی صدف بنتِ اظہار اور ان کے سعادت مند بیٹوں خصوصاً ہاشم اعظم نے مرتب کرکے کتابی شکل میں شائع کردی ہیں۔
عرضِ مؤلف میں ہاشم اعظم نے اپنے خاندان کی علمی، ادبی شخصیات کا بھی تذکرہ کیا ہے، لکھتے ہیں: ۔
’’میرے والدِ محترم پروفیسر اظہار حیدری 13 مئی 1944ء کو دہلی (بھارت) کے ایک علم دوست گھرانے میں پیدا ہوئے۔ جدِّ اعلیٰ محبوب علی شاہ اصغری المعروف شاہ ظریف ایک درویش کامل، فارسی اور اردو کے صوفی شاعر تھے۔ ’’علم الرمل‘‘ پر اردو زبان میں پہلی کتاب لکھی۔ والدِ محترم کے جدِّ امجد محمود علی انوری اردو اور فارسی کے کہنہ مشق شاعر تھے۔ والد کے تایا معروف ادیب، شاعر، صحافی نازشؔ حیدری کا نعتیہ کلام ’’چراغِ عرش‘‘، غزلوں، نظموں کا مجموعہ ’’صدیوں کا سفر‘‘ اہلِ ارباب و دانش میں معروف ہے۔ جب کہ میرے دادا انور دہلوی کی رباعیات اور شعری مجموعہ ’’گلشنِ کرب‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ والد صاحب کے بڑے تایا ظہیر حسن فتنہؔ دہلوی بہت اچھے مزاح گو شاعر تھے۔ میرے چچا پروفیسر ڈاکٹر حسن وقار گل وفاقی اردو یونیورسٹی میں ڈین اور قائم مقام وائس چانسلر کے عہدوں پر فائز رہے۔ علمی، ادبی گھرانے میں پرورش اور اہلِ علم اصحاب کی تربیت کا فیض پروفیسر اظہار حیدری کی تحریروں سے عیاں ہے۔‘‘
’’قائداعظم محمد علی جناح اور لیڈر اکھنڈ بھارت‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں:۔
’’قائداعظم نے سقوطِ جوناگڑھ کے بعد پاکستان کے پہلے قائم مقام کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو حکم دیا تھا کہ پاکستان کی فوجی قوت کو مجتمع کرکے بھرپور قوت سے حملہ کرکے وادی کشمیر کو ہندو سامراج سے آزاد کرا لیا جائے۔ لیکن انگریز جنرل گریسی ہندوئوں کے بیسویں صدی کے مہابلی لارڈ مائونٹ بیٹن کی ریشہ دوانیوں کا نمائندہ تھا، لہٰذا اُس نے وہی کیا جو لارڈ کلائیو نے پلاسی کی جنگ میں 1757ء میں نواب سراج الدولہ کے ساتھ، اور 1799ء میں لارڈ کارنوالس اور ویلزکی نے ٹیپو سلطان شہید کے ساتھ کیا تھا۔ کچھ خزف ریزوں کا خیال ہے کہ لارڈ مائونٹ بیٹن کو ہندوستان کے ساتھ پاکستان کا مشترکہ گورنر جنرل نہ بناکر قائداعظم نے غلطی کی تھی اور اس غلطی کی وجہ سے کٹا پھٹا پاکستان ملا۔ جب کہ اگر قائداعظم خود گورنر جنرل نہ بنتے تو ملّتِ اسلامیہ کا یہ قلعہ مسلمانوں کی پناہ گاہ نہ بنتا بلکہ دشمن کی ایک ایسی کمیں گاہ بن جاتا جہاں شیر اور بھیڑیے لومڑیوں کے ساتھ بھیڑ بکریوں کے محافظ بن جاتے۔ ہمارے نیتائوں کو بالخصوص قائداعظم کے افکارِ عالیہ کی روشنی سے جمہوریت کے گلستان و دبستان میں ایسا چراغاں کرنا چاہیے کہ آرزو، امید اور حوصلوں کے گلی کوچوں میں کبھی اندھیرا نہ ہو۔ اتحاد، تنظیم اور یقینِ محکم وہ سہ آتشہ قوتیں ہیں جو ملتِ اسلامیہ کو سرتاپا محبت اور حرارت دے کر سدا چاق چوبند رکھ سکتی ہیں۔‘‘
پروفیسر اظہار حیدری کے دلچسپ و عمدہ تبصرۂ کتب بھی ’’آئینہ اظہار‘‘ کا حصہ ہیں۔
پروفیسر شاہین حبیب صدیقی کے سائنسی ادبی دیوان ’’میزانِ سائنس‘‘ کے تبصرے میں رقم طراز ہیں:۔
’’میزانِ سائنس میں اکثر و بیشتر نظموں میں محترمہ شاہین حبیب نے مکالماتی انداز اختیار کیا، تکرار کے اس انداز نے ان کی نظموں کو متاثر کن بنادیا۔ یہ وہ طریقہ کار ہے جو یونانی قدیم اور سائیلن کو ازبر کرا دیتے تھے، ایسی ہی ایک نظم کتاب کے صفحہ 56 پر ہے۔ یہ ایک بلاعنوان مکالمہ ہے، مگر اس مکالمے میں عنوان ہی عنوان پنہاں ہیں۔ مگر اس میں شروع سے آخر تک اس مصرعے کی تکرار مؤثر اور بالاتر ہے:۔
“میں کیوں کہوں کہ زندگی بے بندگی شرمندگی”
شاہین حبیب کی یہ نظم بلاشبہ عالمی معیار کی ایک شاہکار نظم ہے، جس نے اردو زبان کو بین البراعظمی وقار بخشتا ہے‘‘۔
یامین وارثی کے نعتیہ مجموعہ ’’بنائے کن فکاں‘‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں: ۔
اس نعتیہ مجموعے میں جا بجا علم و کلام کی معنوی خوبیاں ملتی ہیں، ان کی نعتوں میں سہلِ ممتنع بھی ہے اور مراعات النظیر بھی، علاوہ ازیں نہایت مترنم بحریں بھی ہیں، جو نعت خوانوں کے لیے نعمتِ معنوی کا حکم رکھتی ہیں۔ وہ اپنے استاد بیتابؔ نظیری کے حقیقی فرزندِ معنوی ہیں۔‘‘
’’انگریزی میں اردو، ایک لسانی مسئلہ‘‘۔ رقم طراز ہیں: ’’اب اسے ستم ظریفی کہا جائے، یا اہلِ دانش و بینش اور اربابِ حل و عقد کی یتیم العلمی کہ انہوں نے پاکستان کی قومی زبان اردو کی ترویج و ترقی کا بیڑا اٹھایا تو وہ بھی انگریزی زبان و دخان کے سہارے پر۔ اردو کے فروغ کے لیے جو ادارے بنائے گئے ان کے نام ملاحظہ ہوں: ترقی اردو بورڈ، نیشنل لینگویج اتھارٹی، اردو ڈکشنری بورڈ، اکیڈمی آف لیٹرز پاکستان۔ ترقی اردو بورڈ کے بنیادی رکن شاعرِ انقلاب جوش ملیح آبادی تھے، جو اپنی معزولی تک ترقی اردو بورڈ سے انگریزی کا لاحقہ ’’بورڈ‘‘ نہیں ہٹوا سکے، جب کہ وہ بے پناہ ذخیرۂ الفاظ کے لامحدود استعمال میں اردو کے لغاتِ زندہ کا حکم رکھتے تھے۔‘‘
پروفیسر اظہار حیدری منفرد اسلوب کے حامل رہے۔ ’’آئینہ اظہار‘‘ میں کئی شخصی خاکے، پیرصاحب پگارا، رتی جناح، ڈاکٹر امیر حسن صدیقی، کامریڈ سجاد ظہیر، عبدالستار ایدھی، مشفق خواجہ، جون ایلیا، شکیل احمد ضیاء و دیگر شخصیات کے خاکے قابلِ ذکر ہیں۔ طویل خاکہ جلیس سلاسل کے بارے میں ہے، لکھتے ہیں:۔
’’میں نے اپنے اور جلیس سلاسل کے عنفوانِ شباب سے انتہائے شباب تک جلیس سلاسل کی تیکھی شخصیت اور ذات و صفات پر ’’روشنائی‘‘ ڈالی ہے۔ کبھی خاکے لکھے، کبھی تصنیف و تالیف پر دیباچے و تبصرے لکھے ہیں، اور کبھی اس کی کسی کتاب ’’دلہن‘‘ کے گھونگھٹ اٹھانے کی تقریب کے سووینیر میں قلم کاری کی ہے۔ جب یہ ہونہار بروا کے چکنے کھردرے پات تھے اُس وقت ان کے استادِ محترم شورش کاشمیری نے ایک ملاقات میں مجھ سے کہا تھا کہ ’’جلیس اپنی تحریر میں ترقی پذیر ہے، وہ یقیناً ترقی یافتہ ہوجائے گا۔‘‘
محترمہ فائزہ احسان صدیقی کہتی ہیں: ’’ان کے قلم نے جو بلند پایہ ادب تخلیق کیا ہے، ان کے قاری کو زبان و بیان پر ان کی گرفت اور اظہارِ بیان کی بے پناہ صلاحیتوں کی داد دینی پڑتی ہے۔ معروف صحافی محمود شام آئینہ اظہار پر اظہار خیال کرتے ہیں: ’’ان تحریروں میں ادب اور عقیدت زیادہ ہے۔ سیاست بھی ہے، تعلیم و تربیت بھی، تاریخ کے ایسے گوشے بھی ہیں جن کا ذکر کسی وجہ سے تفصیل سے نہیں ہوسکا ہوگا، آپ کو ان سربستہ رازوں سے بھی پردہ اٹھتا نظر آئے گا۔‘‘ نامور سائنس دان ڈاکٹر عبدالقدیر خان رقم طراز ہیں: ’’اظہار حیدری قومی، بین الاقوامی اور اسلامی امور پر کافی دسترس رکھتے ہیں، جس میں انہوں نے بہت سے ایسے انکشافات کیے ہیں جس سے عام قاری نابلد ہے، اور وہ محب وطن پاکستانیوں اور دینِ اسلام سے محبت کرنے والوں کے لیے حوصلہ افزائی کا باعث ہیں۔ اپنی نگارشات میں غیر مسلموں بالخصوص امریکی و بھارتی حکمرانوں کی سازشوں سے بھی پردہ اٹھایا ہے۔ ’’آئینہ اظہار‘‘ تاریخ کی اہم کتابوں میں ایک خوبصورت اضافہ ہے‘‘۔
یہ تاریخی دستاویز رنگین تصاویر، خوبصورت رنگین گردپوش کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔