بہتان طرازیاں

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:۔
”اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں: آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لیے فارغ ہوجا، میں تیرے سینے کو دولت سے بھر دوں گا اور تیرے فقر کو دور کردوں گا۔ اور اگر ایسا نہ کرے گا تو تیرے سینے کو پریشانیوں سے بھردوں گا اور تیرے فقر کو دور نہ کروں گا۔“ (ابن ماجہ، ترمذی)۔

وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ (نور:ع1 )۔
”جو لوگ پاک دامن عورتوں پر عیب لگائیں اور پھر چارگواہ نہ لاسکیں تو مارو ان کے اسّی کوڑے اور کبھی ان کی کوئی گواہی قبول نہ کرو، اور وہی لوگ نافرمان ہیں۔“
إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُم مَّا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّـهِ عَظِيمٌ ﴿١٥﴾ وَلَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ قُلْتُم مَّا يَكُونُ لَنَا أَن نَّتَكَلَّمَ بِهَـٰذَا سُبْحَانَكَ هَـٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ ﴿١٦﴾ يَعِظُكُمُ اللَّـهُ أَن تَعُودُوا لِمِثْلِهِ أَبَدًا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (نور:ع3)
”جب تم اس بہتان کو زبانوں پر لانے لگے اور اپنے منہ سے وہ باتیں کہنے لگےجن کا تمہیں کوئی علم نہ تھا، اور تم انہیں ہلکی بات سمجھتے تھے، حالانکہ اللہ کے نزدیک بہت بڑی بات تھی، اور جب تم نے سنا تھا اُسی وقت کیوں نہ کہہ دیا کہ ہمارے لیے یہ زیبا نہیں کہ ہم ایسی بات زبان سے نکالیں، سبحان اللہ یہ بہتانِ عظیم ہے، اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو اس جیسی بات پھر کبھی نہ کرنا!“
إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ (نور:ع 37)۔
”جو لوگ چاہتے ہیں کہ بے حیائی کی باتوں کا چرچا مسلمانوں میں پھیلتا رہے اُن کے لیے دنیا و آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔“
یہ کلام مجید کی تین آیتیں ہیں، اور آپ جس فرقے سے بھی تعلق رکھتے ہوں اگر مسلمان ہیں تو کلامِ مجید کی ہر آیت پر یقین رکھتے ہوں گے۔ پہلی آیت میں یہ ہے کہ بغیر چار چشم دید گواہوں کے کسی پاک دامن مسلمان خاتون کی عصمت پر عیب لگانے والوں کی سزا یہ ہے کہ ان کے اسّی کوڑے مارے جائیں اور آئندہ عمر بھر کے لیے ان کی گواہی غیر معتبر اور مردود ٹھیر جائے، اور اللہ کی طرف سے اس کا اعلان ہوتا ہے کہ ایسے تہمت لگانے والے فاسق ہیں۔ دوسری آیت میں ام المومنین بی بی عائشہ صدیقہؓ کی بابت ایک بے ہودہ روایت پھیلانے والوں سے خطاب ہے کہ جس اتہام کا تمہارے پاس قطعاً کوئی ثبوت نہ تھا تم نے اپنی زبان سے اس کا چرچا کیوں کیا؟ اور اس روایت کے گھڑنے والوں سے فوراً کہہ کیوں نہ دیا کہ ہم ایسی بے ہودہ بات زبان سے نہیں نکال سکتے، اور آئندہ کے لیے کسی پاک دامن مسلمان بیوی کی عزت و ناموس کی بابت ایسی بے احتیاطی اور بے پروائی نہ برتنا۔ تیسری آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ قوم میں بدکاری اور بے حیائی کے تذکرے پھیلاتے رہتے ہیں اُن کے لیے دنیا اور آخرت دونوں میں سزا اور بہت سخت سزا ہے۔ ان آیاتِ قرآنی ہی کی طرح صحیح بخاری کی ایک حدیث میں شرک، قتل، سود خواری وغیرہ سات سب سے بڑے گناہوں میں ایک گناہ تہمتِ بدکاری کا بھی ارشاد فرمایا گیا ہے۔
اللہ اور اس کے رسولؐ کے یہ احکام اگر محض سن لینے اور پڑھ لینے کے نہیں بلکہ عمل کے لیے بھی ہیں تو ارشاد ہو کہ خود آپ کا، آپ کے دوستوں کا، آپ کے عزیزوں کا، آپ کے کنبے اور برادری والوں کا کہاں تک ان پر عمل ہے؟ مانا کہ آپ اس قسم کی روایات ازخود نہیں گھڑتے، لیکن جب کبھی سن پاتے ہیں تو ان کے قبول کرلینے میں اور پھر اس کا چرچا کرنے میں آپ کے کان اور آپ کی زبان نے کبھی احتیاط برتی ہے؟ آپ کے جاننے والوں میں خدا معلوم کتنے مرد اور کتنی عورتیں ایسی ہیں جن کی بابت آپ نے بدچلنی، آوارگی و بے عصمتی کی روایات شوق کے کانوں نہیں سنیں اور بے پروائی کی زبان سے نہیں دہرائیں؟ حالانکہ شریعت میں 80 کوڑوں اور گواہی کبھی آئندہ نہ قبول ہونے اور فاسق قرار پاجانے کی جو سزائیں مقرر ہیں، وہ صرف گھڑنے والوں ہی کے لیے نہیں بلکہ ان تہمتوں کی تشہیر کرنے والوں، ان کا چرچا پھیلانے والوں کے لیے بھی ہیں۔ آپ کی شریعت نے تو اس باب میں اتنی سختی برتی ہے کہ اگر اس دعوے پر بجائے چار گواہوں کے تین گواہ مل سکے، تو ان تینوں پر بھی حدِ شرعی جاری ہوگی، اور آپ ہیں کہ تین گواہ کیا معنی، ایک گواہ کی بھی ضرورت نہیں سمجھتے، اور محض اپنی زبان کی بے احتیاطی کے باعث خدانخواستہ اپنے کو دنیا وآخرت دونوں میں عذابِ الیم کا مستحق بنا رہے ہیں! آج ہمارے گھرانوں میں، ہمارے کنبوں میں، ہماری برادری میں کتنی رنجشیں، کتنی کدورتیں، کتنی عداوتیں محض اسی بے احتیاطی نے پھیلا رکھی ہیں! آج اگر شریعت کی صرف اسی ایک سیدھی اور سہل ہدایت پر عمل ہوتا تو ہماری خانگی زندگی پاک محبتوں اور اخلاص مندیوں کی کیسی جیتی جاگتی تصویر بنی ہوتی!۔