حکمرانی کا بحران اور پی ڈی ایم کا پریشر گروپ

تعمیراتی مافیا کس طرح اور کس کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئی

۔2020ء مکمل ہوچکا ہے اور اب2021ء کے سال کا سورج طلوع ہوچکا ہے۔ گزشتہ سال کیسا گزرا اور نیا سال کیسے گزرے گا؟ یہ سوال ہمیں انفرادی، اجتماعی اور قومی زندگی کے حوالے سے بہتر منصوبہ بندی اور اپنے احتساب کا موقع دے رہا ہے، اور تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ ہمیں باوقار زندگی گزارنے کے لیے کن رویوں کو اختیار کرنا ہے۔2021ء کوئی معمولی سال نہیں ہے، یہ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کا آغاز بھی ہے۔ اکیسویں صدی کی دو دہائیاں گزر چکی ہیں، اور ہم اپنی قومی زندگی میں اگست 2019ء میں ایک سانحے سے بھی دوچار ہوچکے ہیں، یہ سانحہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے بارے میں ہماری خاموشی کے باعث ہوا ہے۔ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کے آغاز پر جہاں ہمیں اپنے وطن کی ترقی، خوش حالی کے لیے کام کرنا ہے، وہیں کشمیری اور فلسطینی بھائیوں کے لیے بھی سوچنا ہے، جہاں صرف ظلم ہورہا ہے۔ اس ظلم پر ہماری پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کو چپ کا روزہ توڑنا ہوگا۔
اس وقت جنوب ایشیا اور خلیج پر نظر دوڑائیں تو صاف نظر آرہا ہے کہ دنیا کا پانسہ پلٹنے جارہا ہے۔ 5 اگست2019 ء کو اس خطے میں ایک بہت بڑی تبدیلی آئی کہ بھارت نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ظلم و فسطائیت کے ایک نئے دور کا آغاز کیا، اور ہٹلر کے بدنما کرداروں کی فہرست میں اپنا نام لکھوایا ہے۔ یوں ہمیں داخلی اور معاشی میدان کے علاوہ خارجہ محاذ پر بھی سنگین بحران نے گھیر رکھا ہے۔ معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایشیا کی مجموعی ترقی (جی ڈی پی) باقی پوری دنیا کے جی ڈی پی سے بڑھ جائے گی اور 2030ء تک ایشیا میں کرۂ ارض کے جی ڈی پی کا 60 فیصد ہوجائے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہوںگے؟
پاکستان کی جی ڈی پی اس وقت منفی ہوچکی ہے، اور ملک میں سفید پوش طبقہ ایک کڑے امتحان سے دوچار ہے۔ ان کے لیے یہ بڑی آزمائش کے دن ہیں۔ 2030ء تک ایشیا پیسیفک میں مڈل کلاس آبادی میں دو ارب بیالیس کروڑ افراد کا اضافہ متوقع ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ غربت کی لکیر وسعت اختیار کرجائے گی اور کسی حد تک خوشحال طبقہ بھی مڈل کلاس میں آجائے گا۔ یوں یہ آبادی عالمی معیشت میں شامل ہوجائے گی۔ ہمارا ہمسایہ ملک برادر چین عالمی اور جنوب مشرقی ایشیا کی منڈیوں میں اہمیت اختیار کررہا ہے۔ اس خطے اور دنیا میں ترقی کے پہیّے کے تیزی سے گھومنے کے باعث کاروباری حلقوں اور حکومت کو نئے فیصلے کرنا ہوں گے اور یکساں انداز میں ترقی کے لیے مناسب رہنمائی، سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے لیے سوچ بچار بھی درپیش ہوگی۔ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے، ہمیں یہاں جائز اور حلال معیشت کے ذریعے خوشحالی چاہیے، مگر سود سے پاک معیشت یہاں کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ قومی سیاسی زندگی سراب کا شکار ہے۔ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کے آغاز پر دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں بھی جمہوریت سراب ثابت ہورہی ہے۔ ملک میں جمہوریت کا صبح سے شام تک ماتم ہوتا رہتا ہے، سیاست دان ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کرتے ہیں، جب کہ پاکستان کے عوام کے بنیادی مسائل کے بارے میں ان کی بے حسی انتہائی افسوس ناک ہوتی جارہی ہے۔ سیاست کا مقصد حکومت کو گرانا اور خود اقتدار میں آنا ہی رہ گیا ہے۔ جمہوریت کی بہترین شکل آئین اور قانون کی بالادستی، گڈ گورننس اور عدل و انصاف کی فراہمی ہے۔ یہ سب کچھ نہ ہو تو جمہوریت نہیں ہے، صرف دھوکا ہے۔ ملک میں حالیہ جمہوریت اخلاقیات سے بھی محروم ہوچکی ہے۔ سیاسی رہنما جگت باز بنے ہوئے ہیں۔ پُر فریب، سراب والی جمہوریت اسٹیک ہولڈرز کا کھیل بن گئی ہے جس میں سیاست دان، عسکری قوت، بیوروکریسی اور عدلیہ کے علاوہ ملک کی اشرافیہ اسٹیک ہولڈر ہے۔ پاکستانی جمہوریت اگر سیاسی جماعتوں کے ذریعے یونین کونسل سے لے کر مرکز تک منظم ہوتی تو ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویزمشرف اقتدار پر قبضہ کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے تھے۔ ملک میں سیاست اور جمہوریت چونکہ کمزور اور غیر منظم رہیں، اس لیے یہاں نااہل افراد کو سیاسی جماعتوں کا رہنما بناکر حکومت اُن کے حوالے کی جاتی رہی۔ اب تو مزید آسانیاں پیدا کردی گئی ہیں کہ دہری شہریت کے حامل افراد بھی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں، اسمبلی میں حلف لینے سے پہلے انہیں غیر ملکی شہریت چھوڑنا ہوگی۔ یہ سستا سودا ہے، جیت گئے تو شہریت چھوڑ دی، ہار گئے تو انہیں غیر ملکی شہریت رکھنے کا حق ہے۔ 2002ء میں قومی اسمبلی کے 240 اراکین میں سے 35 اراکین کے پاس امریکہ کی شہریت تھی، ان میں سے بیشتر اب بھی پارلیمنٹ میں ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیرلیاقت بلوچ نے درست کہا کہ 70 سال سے اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی و مداخلت کا انتخابی نظام اب نہیں چل سکتا۔ جمہوریت، پارلیمانی نظام، قومی سلامتی اور قومی وحدت کے لیے بااعتماد انتخابی نظام ناگزیر ہوچکا ہے۔ بااختیار بلدیاتی نظام اور شفاف و غیرجانب دارانہ انتخابی نظام کے لیے ملک گیر منظم رائے عامہ کی ضرورت ہے۔
۔2020ء کورونا اور سیاسی بحرانوں کی تلخ یادوں کے ساتھ گزر گیا۔ پورا سال حکومتی نااہلی اور ناکامی کی وجہ سے مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت، بدتہذیبی 22کروڑ عوام کے لیے عذاب بنی رہی۔ 2021ء کے لیے پوری قوم کو تجدیدِ عہد کرنا ہوگا کہ پاکستان کو مثالی اسلامی فلاحی اور خوشحال ملک بنانا ہے۔ یہ کام اس صورت میں ہوگا کہ جب پارلیمنٹ اپنے کردار کے لیے متحرک ہو، ورنہ حکومت اور سدھائی ہوئی اپوزیشن ہمیشہ ایک پیج پر رہیں گی۔ وزیراعظم عمران خان خود اعتراف کرچکے ہیں کہ حکومت کے لیے ان کی تیاری نہیں تھی، اب اپنے بیان کی وضاحت پیش کررہے ہیں۔ نجی ٹی وی چینلز پر ان کے حالیہ ہفتہ وار انٹرویو تحریک انصاف کی طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت دراصل ان کی امیج بلڈنگ کے لیے ہورہے ہیں، جہاں سوال بھی مرضی کے اور جواب بھی تسلی بخش۔
ملک کی صورتِ حال یہ ہے کہ گڈ گورننس تو کیا، کہیں گورننس بھی نہیں نظر آرہی۔ گورننس کا حال یہ ہے کہ سانحہ موٹر وے کی گرد ابھی بیٹھی نہیں تھی کہ اسلام آباد میں سری نگر ہائی وے اور کراچی میں پولیس کے ہاتھوں معصوم نوجوان قتل کردیے گئے۔ یہ بدترین گورننس حکومت کا امتحان ہے۔ گورننس کا حال یہ ہے کہ وزارتِ داخلہ میں چودہ سو مشکوک ویزوں کا کیس تحقیقاتی کمیٹی کی سفارش کے باوجود کھڈے لائن لگاکر دبا دیا گیا ہے۔ وزیراعظم نے ہر وزارت کا سالانہ جائزہ لیا ہے، مگر پیٹرولیم سیکٹر میں غلط حکومتی فیصلوں اور ان فیصلوں میں تاخیر سے قومی خزانے کو 122ارب روپے کا جو نقصان پہنچا ہے اس کا کوئی ذمہ دار سامنے نہیں لایا گیا، کیونکہ یہ علم میں ہے کہ یہاں کوتاہی ایسے غلط فیصلوں کا نتیجہ ہے جن کی کوئی منطق نہیں تھی۔ 2018ء سے 2020ء تک تین سال ایل این جی ٹرمینل کو پورا استعمال نہیں کیا جا سکا، جس سے 25ارب روپے ڈوب گئے ہیں، اور اب فرنس آئل سے بجلی بنانے پر سردیوں میں 30 ارب کا نقصان ہوگا۔ 10 ارب کا نقصان 2018ء کی سردیوں میں، اور 35ارب کا نقصان گرمیوں میں سستی ایل این جی خریدنے میں تاخیر سے ہوا۔ ڈیڑھ ارب روپے کا نقصان اگست اور ستمبر میں وقت پر سستی ایل این جی نہ خریدنے کی وجہ سے ہوا۔ یہ سب نقصان غلط فیصلوں اور کبھی بجلی اور کبھی گیس نہ ہونے کی وجہ سے ملک، عوام اور انڈسٹری کو ہوا، مگر بیوروکریسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ ملکی معیشت درست کرنے کے لیے حکومت کی ترجیح ازسرنو جائزہ لینے کا تقاضا کررہی ہے۔
پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے، مگر یہاں زیرِکاشت رقبہ جس رفتار سے ہائوسنگ آبادیوں میں تبدیل ہورہا ہے اُس سے نئے مسائل جنم لے رہے ہیں اور ملک کی زرعی صلاحیت بھی کم ہورہی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اپنے وزراء سے کہا ہے کہ اگر کوئی لابی اپنے مقاصد کے لیے ان پر دبائو ڈالے تو وہ مجھے بتائیں۔ اب وزیراعظم خود اس بات کی تحقیقات کرائیں کہ ملک کی تعمیراتی انڈسٹری کس طرح اور کس کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئی ہے اور اپنے لیے بے شمار رعایتیں حاصل کرچکی ہیں۔ حکومت نے تعمیراتی شعبے کو خود صنعت کا درجہ دیا ہے اور اسے مراعات بھی دی ہیں، اس شعبے کے لیے سب سے بڑا اور جائز اعتراض یہی ہے کہ ملک میں پراپرٹی کے لین دین کے ذریعے کمیشن پر کام کرنے والے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد بلڈرز بن چکی ہے، مگر یہ سب اپنے مقاصد کے لیے کمیشن پر کام کرنے والے پراپرٹی ڈیلرز کو استعمال کرتے ہیں، یہ طبقہ صارفین کے نام پر حکومت سے پلاٹوں کی خریدو فروخت کے کاروبار میں ٹیکس میں چھوٹ مانگتا ہے، حالانکہ یہ خود ہی انویسٹر ہوتے ہیں اور خود ہی بلڈرز بھی بنے ہوئے ہیں، صارفین کا محض نام ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس طبقے نے لابنگ کرکے ایمنسٹی بھی حاصل کرلی ہے۔ حکومت اس بات کا جائزہ لے کہ ایمنسٹی اسکیم کے بعد عام آدمی کے بجائے فائدہ بڑے سرمایہ کار ہی کو کیوں ملا، اور اس نے حکومت سے فائدہ لے کر اسے نچلی سطح تک عام صارف تک کیوں نہیں پہنچایا؟ فیصلہ ہوا تھا کہ حکومت ان سے اُن کے ذرائع آمدن نہ پوچھے گی، مگر فکس ٹیکس عائد کرنے، سیمنٹ اور اسٹیل انڈسٹری کے علاوہ تعمیراتی شعبوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے سے ملک کے عام آدمی کو کیا فائدہ پہنچا؟پاکستان ہائوسنگ اسکیم میں پیسہ لگانے والوں کو 90فیصد ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے، گھر فروخت کرنے والوں سے کیپٹل گین ٹیکس نہ لینے کا اعلان ہوا ہے۔ ایمنسٹی اسکیم میں توسیع سے قبل حکومت معلوم کرتی کہ جو رعایت دی گئی تھی اس کا عام آدمی کو کتنا فائدہ ہوا؟ حکومت نے اپنا ہوم روک کیے بغیر ہی توسیع دے دی۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ بلڈرز، انویسٹرز اور عام صارف میں فرق معلوم کرے۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ عام صارف کے نام پر بلڈرز، انویسٹرز حکومت سے کیا کچھ حاصل کرچکے ہیں۔ اس سب کا حساب لیے بغیر ہی وزیراعظم عمران خان نے نئی ایمنسٹی اسکیم میں توسیع دے دی ہے۔ اب فکس ٹیکس رجیم میں ایک سال، منصوبوں کے اختتام کی مدت میں 30 ستمبر 2023ء، خریداروں کے لیے ذرائع آمدن بتانے کے حوالے سے 31 مارچ 2023ء تک توسیع کی گئی ہے، تعمیرات کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے لیے آمدن کے ذرائع بتانے کے حوالے سے استثنیٰ کی مدت میں 30جون 2021ء تک توسیع کی گئی ہے۔ اس سارے کھیل میں سرکاری سچ یہ ہے کہ 186ارب روپے کے پروجیکٹ ایف بی آر کے پورٹل پر رجسٹرڈ ہوچکے ہیں، پنجاب میں 163 ارب روپے کے تعمیراتی منصوبے شروع ہوچکے ہیں۔ تعمیراتی شعبے کے فروغ سے پنجاب میں 1500ارب روپے کی اقتصادی سرگرمیاں شروع اور ڈھائی لاکھ افراد کو روزگار ملے گا۔ بہرحال وزیراعظم عمران خان نے 2020ء میں تعمیراتی شعبے کے لیے اعلان کردہ فکسڈ ٹیکس نظام کو 31 دسمبر 2021ء تک جاری رکھنے کا اعلان کردیا ہے۔ حکومت کو یقین ہے کہ ان اقدامات سے صرف پنجاب میں 1500 ارب روپے کی معاشی سرگرمی پیدا ہوگی۔ کم لاگت مکانات کے لیے قومی بینک مالی اعانت فراہم کررہے ہیں۔ 31 دسمبر 2021ء تک مکانات کی تعمیر کے لیے قرضے کی غرض سے 3783 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ مکانات کی تعمیر کے لیے سبسڈی بھی برقرار رہے گی۔ پانچ مرلے کے مکانوں پر سود کی شرح پانچ فیصد اور دس مرلہ کے مکانوں کی شرح سود سات فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی۔ یہ سب کچھ ایک سراب ہے، اصل فائدہ انویسٹرز اور بلڈرز کے علاوہ ڈویلپرز کو ملا ہے۔
آخر میں ملکی سیاسی منظرنامے پر ایک ہلکی سی نظر۔
حکومت اور پی ڈی ایم اس وقت آمنے سامنے ہیں، اطلاع یہ ہے کہ پی ڈی ایم سے کہا گیا ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے۔ حکومت کے اتحادی پیر پگارا نے بھی محمد علی درانی کو یہی پیغام دے کر شہبازشریف کے پاس بھیجا تھا۔ پی ڈی ایم سینیٹ میں چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے نتائج سے واقف ہے، لہٰذا وہ اس جال میں نہیں پھنسے گی، اسے خوف ہے کہ سینیٹ کی طرح قومی اسمبلی میں بھی اپوزیشن کے ارکان ہی کہیں نہ ٹوٹ جائیں۔ پیرپگارا کے بعد چودھری شجاعت حسین نے تجویز دی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر ایک سال تک عوام کے مسائل کی بات کریں۔ مقصد یہی ہے کہ پی ڈی ایم کی جماعتیں اکٹھی رہیں۔ یہ اتحاد دراصل حکومت کے خلاف سدھایا ہوا پریشر گروپ ہے۔ یہ اتحاد لانگ مارچ اور استعفوں سمیت ہر وہ فیصلہ کرے گا جو ضروری ہوگا۔ اس سیاسی نظام کے موجد چاہتے ہیں کہ ملک میں معاشی استحکام آئے۔ لیکن اس کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے۔ لہٰذا حکومت اور اپوزیشن دونوں مذاکرات کے گھاٹ پر پانی پینے کے لیے تیار ہیں۔ بلاشبہ اسٹیبلشمنٹ مذاکرات چاہتی ہے، وزیراعظم مذاکرات کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے، وہ پارلیمنٹ اور اپوزیشن کو قومی فیصلوں میں شامل نہیں کرنا چاہتے تھے، لیکن اب ماحول بدل گیا ہے۔ حکومت مذاکرات چاہتی ہے۔ تحریک انصاف بلکہ کابینہ میں کچھ وزراء بھی مذاکرات کرنے اور حکومت کو ایک قدم پیچھے جانے کا مشورہ دے رہے ہیں، کیونکہ اب ان کی سمجھ میں آگیا ہے کہ پی ڈی ایم پریشر گروپ کیوں بنا؟

اسلام آباد، انسداد دہشت گردی اسکواڈ کی دہشت گردی

اسلام آباد پولیس ماورائے عدالت اقدامات سے باز نہ آئی، انسدادِ دہشت گردی اسکواڈ نے گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کرکے ایک اور نوجوان طالب علم کو قتل کردیا۔ وزیراعطم عمران خان نے اسلام آباد میں قتل ہونے والے اسامہ ندیم ستی کے قتل کا نوٹس لیا اور اپنے معاونِ خصوصی زلفی بخاری کو لواحقین سے تعزیت کے لیے بھیجا، کشمیر کمیٹی کے سربراہ شہریار آفریدی بھی ان کے ہمراہ مقتول اسامہ ستی کے گھر پہنچے اور مقتول کے والد سے اظہارِ تعزیت کیا اور بتایا کہ وزیراعظم نے معاملے کا نوٹس لے لیا ہے اور انصاف ہوگا۔ زلفی بخاری نے کہا کہ حکومت آپ کے ساتھ کھڑی ہے، اسامہ کے قاتلوں کو جلد کیفرِکردار تک پہنچائیں گے۔
مقتول اسامہ ستی کا تعلق تحریک انصاف سے تھا، جسے سری نگر ہائی وے پر اسلام آباد پولیس نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ پولیس کا مؤقف ہے کہ رات کو فون پر کال موصول ہوئی تھی کہ گاڑی میں سوار ڈاکو شمس کالونی کے علاقے میں ڈکیتی کی کوشش کررہے ہیں، جس کے بعد اے ٹی ایس پولیس اہلکاروں نے مشکوک گاڑی کا تعاقب کیا۔ اہلکاروں نے مشکوک گاڑی کو روکنے کی کوشش کی تو ڈرائیور نے گاڑی نہ روکی، جس پر پولیس نے گاڑی کا تعاقب کیا اور نہ روکنے پر گاڑی کے ٹائروں پر فائر بھی کیے۔ گاڑی کی ونڈ اسکرین پر بھی گولیوں کے نشانات پائے گئے ہیں۔ آئی جی اسلام آباد نے وقوعہ کا نوٹس لے لیا ہے، قتل میں ملوث پانچوں اہلکار گرفتار کرلیے گئے ہیں۔ نوجوان کے اہلِ خانہ نے پولیس کا مؤقف مسترد کردیا ہے۔ ڈاکٹر فرخ کمال نے اسامہ ستی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار کی، رپورٹ میں بتایا گیا کہ اسامہ ستی کو 6 گولیاں لگی ہیں، ایک گولی سرکے عقبی جانب اور چار گولیاں کمر پر لگیں، ایک گولی بائیں بازو پر لگی۔ ابتدائی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گاڑی سے کوئی اسلحہ نہیں ملا۔ مقتول اسامہ ندیم ورچوئل یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ نوجوان کو 22 گولیاں ماری گئی ہیں۔ مقتول کے والد ندیم ستی نے بتایا کہ پولیس والوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بچہ بے قصور تھا۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ میرے بیٹے کو 16،17 گولیاں ماری گئیں جس سے وہ جاں بحق ہوا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا جائے۔ وزیراعظم، وزیرداخلہ،اسلام آباد انتظامیہ سے انصاف کی اپیل کرتا ہوں۔
ترجمان پمز وسیم خواجہ کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کے مطابق اسامہ کو سامنے سے گولیاں ماری گئی ہیں۔ وقوعہ کے متعلق پولیس کی ابتدائی رپورٹ کی کاپی بھی سامنے آئی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اے ٹی ایس کی گاڑی میں ایک سب انسپکٹر اور4 جوان سوار تھے، اہلکار ایچ 13 میں ڈکیتی کی اطلاع پر موقع پر پہنچے تھے۔ ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گاڑی کو پیچھے سے نہیں بلکہ سامنے اور دائیں بائیں سے گولیاں برسائی گئیں، گاڑی پر 17 گولیوں کے نشان پائے گئے جن میں تین ڈرائیور اسامہ ستی کو لگیں۔ ای ٹی سی اہلکاروں نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ نوجوان کو گاڑی نہ روکنے پر پیچھے سے فائر کیے گئے، تاہم ان کا مؤقف غلط ثابت ہوا۔ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ گاڑی کو روک کر سامنے اور دائیں بائیں سے متعدد فائر کیے گئے۔ جھوٹ کا پول کھلنے کے بعد مدثر مختار، شکیل احمد، سعید احمد، محمد مصطفیٰ اور افتخار احمد نامی پولیس اہلکاروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔

برطانوی عدالت میں نیب پر ہرجانہ

نیب کو برطانیہ میں ایک لیگل فرم کو بہت بھاری رقم جرمانے کی مد میں دینا پڑی ہے، مگر نیب کا کوئی احتساب نہیں ہوگا، اور نہ ہی یہ پوچھا جائے گا کہ فرم کے ساتھ مہنگا معاہدہ کیوں کیا گیا، اور اتنے مہنگے معاہدے کے باوجود لیگل فرم براڈ شیٹ کوئی اہم معلومات فراہم کرنے میں کیوں ناکام رہی؟ پاکستان کی وفاقی کابینہ نے امریکی اثاثہ جات ریکوری فرم براڈ شیٹ (ایل ایل سی) کو دو کروڑ 87 لاکھ ڈالر جرمانہ اداکرنے کی منظوری دے دی ہے، تاہم فیصلہ کیا ہے کہ لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن سے لاکھوں ڈالر لینے کا برطانوی عدالتی حکم چیلنج کیا جائے گا۔ جنرل پرویزمشرف کی حکومت کے دوران امریکی فرم براڈ شیٹ سے معاہدہ کیا گیا تھا جس کا مقصد بیرونِ ملک سو سے ڈیڑھ سو پاکستانیوں کے اثاثوں کی معلومات اکٹھا کرنا تھا۔ ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ براڈ شیٹ نوازشریف، اُن کے کسی رشتے دار، یا کسی بھی دوسرے پاکستانی سے متعلق کوئی معلومات فراہم نہیں کرسکی۔ پاکستان پر جرمانہ لگنے کی کچھ ذمہ داری دوسرے اداروں پر بھی آتی ہے جن کا کام اٹارنی جنرل کو بروقت اطلاع دینا تھا۔ نیب نے لندن ہائی کورٹ میں دائر مقدمہ ہارنے کے بعد لیگل فرم براڈ شیٹ کو جرمانے کی رقم ادا کردی ہے۔ نیب کے وکیل اور لیگل فرم کو فیس کی ادائیگی کے بعد یہ رقم سات ارب اٹھارہ کروڑ روپے تک پہنچ جائے گی۔ برطانوی ہائی کورٹ کی جانب سے جرمانہ عائد کیے جانے کے بعد بروقت ادائیگی نہ کرنے پر پاکستان کو 90 لاکھ ڈالر کا سود بھی ادا کرنا پڑا ہے۔ پاکستان نے برطانوی لیگل فرم کو کل 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالر ادا کیے ہیں۔ برطانوی ہائی کورٹ نے نیب کو 31 دسمبر تک جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا۔ جرمانے کی عدم ادائیگی کے بعد برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کا اکائونٹ منجمد کردیا گیا تھا۔ امریکی کمپنی کی خدمات پاکستان میں انسدادِ بدعنوانی کے لیے کام کرنے والے قومی احتساب بیورو (نیب) نے 2000ء میں پرویزمشرف دور کے دوران حاصل کی تھیں۔ مقصد بیرونِ ملک مقیم ڈیڑھ سو سے زیادہ پاکستانیوں کے خفیہ اثاثوں کی تحقیقات کرنا تھا۔ ان میں سابق وزیراعظم نوازشریف کا خاندان بھی شامل تھا۔ نیب نے 2003ء میں معاہدہ ختم کردیا تھا، جس کے بعد براڈشیٹ نے نیب کے خلاف لاکھوں ڈالر ہرجانے کا دعویٰ دائر کردیا۔گزشتہ برس براڈشیٹ نے نیب کے ذمے 2 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے واجبات کی ادائیگی کے لیے لندن ہائی کورٹ میں دعویٰ دائر کیا۔ براڈشیٹ نے یہ بھی کہا کہ اس رقم میں 4758 ڈالر یومیہ سود بھی شامل کیا جائے گا۔ 17 دسمبر کو برطانیہ کی ایک عدالت نے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹس سے 2 کروڑ87 لاکھ ڈالر جاری کرنے کا حکم دیا۔ سفارتی مشن 22 دسمبر کی ڈیڈلائن کے مطابق عدالتی حکم کو چیلنج کرنے میں ناکام رہا۔ پاکستانی ہائی کمیشن نے امریکی فرم کو 31 دسمبر تک جرمانہ ادا کرنا تھا۔ نیب کو معاہدہ ختم کرنا ہی تھا تو اسے قانونی طریقے سے ختم کرتا، تاکہ ملک پر اتنا بڑا جرمانہ عائد نہ ہوتا۔ نیب کی جانب سے معاہدہ توڑے جانے کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی ہے۔