جدید سائنسی انکشافات اور ٹیکنالوجی کی ایجادات اخلاقی نوعیت کے نئے سوالات بھی کھڑے کرتی ہیں، ان سوالوں کے سلسلے میں اسلامی نقطۂ نظر پیش کرنا وقت کی ضرورت ہے، نقطۂ نظر کی تفصیلات میں اختلاف ہونا عین ممکن ہے، اختلاف اور گفتگو نقطۂ نظر کی تنقیح میں مددگار ہوتے ہیں۔ زیرنظر مضمون ”زندگی نو“ دہلی کے شکریے کے ساتھ شائع کیا جارہا ہے۔ ادارہ
یوں تو ہر سال نوبیل انعام کا اعلان کیا جاتا ہے اور سائنس داں حضرات اور ان کی محدود دنیا میں اس پر مختلف طرح کے ردعمل سامنے آتے ہیں۔ یہاں یہ نہ بھولیں کہ اس محدود دنیا کے انسانی سماج پر لامحدود اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ نوبیل انعام سویڈن کے ایک باشندے الفریڈ نوبیل کی وصیت کے مطابق اُس سائنس داں کو دیا جاتا ہے جو پچھلے ایک سال کے دوران سائنس کی دنیا کے پانچ میدانوں میں سے کسی میدان میں ایسا کارنامہ انجام دے جو انسانیت کے لیے زبردست فائدے کا حامل ہو۔
نوبیل انعام سائنس کی دنیا کا موقر ترین انعام ہے۔ عام طور پر یہ انعام تعصبات سے پاک ہوتا ہے (سوائے سیاسی میدان میں دیے جانے والے نوبیل انعام کے، جو بسا اوقات مضحکہ خیز حد تک جانب داری پر مبنی ہوتے ہیں)۔
گزشتہ سال (2020) علم کیمیا کے میدان میں دو خواتین سائنس دانوں کو نوبیل انعام سے نوازا گیا جو ایمانوئل کارپنٹیئر اور جنیفر اے ڈوڈنا ہیں۔ یہ انعام انھیں کرسپر ٹیکنالوجی کی دریافت پر دیا گیا ہے۔
سائنسی حلقوں میں کرسپر چند سال قبل یعنی 2014-15ء کے دوران مقبول ومعروف ہوچکا تھا، اور اس کی یہ مقبولیت اور معروفیت اس کے دوررس نتائج کی وجہ سے تھی۔ ابتدا میں جن لوگوں نے اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے منفی پہلوؤں پر روشنی ڈالی انھیں شکی مزاج کہا گیا۔ حالاں کہ خود اس کی موجدہ نے دبے الفاظ میں اسے منضبط کرنے (regulate) پر زور دیا تھا۔
کرسپر ٹیکنالوجی کیا ہے
کرسپر (CRISPR) دراصل Clustered Regularly Interspaced Short Palindromic Repeats کامخفف ہے۔ یہ مخفف دراصل وراثتی مادہ ڈی این اے میں موجود نائٹروجنی اساس کی ایک خاص ترتیب سے متعلق ہے۔
بہت عام فہم زبان میں یہ ایک ایسی قینچی ہے جو ہمارے خلیے کے اندر موجود موروثی مادے کو ہماری حسب ِخواہش کاٹ سکتی ہے۔ اور یہ ’’کاٹنا‘‘ غیر معمولی صحت کے ساتھ ہوتا ہے۔ اگر ہم آسانی کے لیے سمجھنا چاہیں تو ذیل میں دی گئی تخفیفی شکل سے ہم اس بات کو سمجھ سکتے ہیں کہ انسان بالآخر اپنے جینز اور ماحول کی پراڈکٹ ہے۔ اور کس طرح ان جینز کو تبدیل کرکے انسان سمیت ہر جان دار کو یکسر مختلف جان دار یا انسان میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
انسان، انسانی اعضا، نسیج اور بافت،خلیات، حیاتیاتی سالمات، مرکزہ، ڈی این اے
یعنی انسان کا مادی وجود (سائنسی نقطۂ نظر کی رو سے) اصل میں صرف ان 30 ہزار جینز اور ان کے مختلف ریگولیشن اور ماحول کے بعض عوامل کا مجموعہ ہے، یا دوسرے لفظوں میں 30 ہزار الفاظ کی کہانی ہے جو صرف 4 حروف تہجی (A,G,T,C) سے لکھی گئی ہے۔
یہ حقیقت کہ 4 حروف سے لکھی گئی یہ 30 ہزار صفحات پر مشتمل کہانی ہر بار الگ ہوتی ہے، اور نہ جانے کتنے عرصے سے چلی آ رہی ہے۔۔۔ یہ خالق پر ایمان لانے کے لیے کافی ہے۔
ہر جان دار (انسان) اس کتاب کا ایک جز اپنی ماں سے اور ایک جز اپنے باپ سے حاصل کرتا ہے۔ اس کتاب میں سب کچھ لکھا ہے۔ ہمارے جسمانی اعضا کی بناوٹ (جیسے رنگ، آنکھ، ناک، کان، ہونٹ، ٹھوڑی) سے لے کر ہماری ذہانت کی سطح (آئی کیو)، ہمارے بعض رویّے، یہاں تک کہ ہماری بعض ترجیحات بھی!
کرسپر ٹیکنالوجی اس کتاب کے کسی بھی ورق کو انتہائی صفائی سے کاٹ کر آپ کے من پسند ورق کو اس جگہ چپکا سکتی ہے۔ (ملحوظ رہے کہ اس کتاب کا بیشتر حصہ اُن اوراق پر مشتمل ہے جو اپنی مکمل کہانی رکھتے ہیں، اور اس کتاب کا کم حصہ ایسا ہے جو ایک دوسرے سے متصل ہے۔)
یعنی اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے جان داروں کی ہیئت اور ان کے بہت سارے رویّے تک منضبط کیے جاسکتے ہیں۔ یہ محض ہالی وڈ کی فکشن فلم یا مغرب کے فکشن ناول کا خیالی پلاؤ نہیں ہے بلکہ ایسا عین ممکن ہے۔ اور چوہے اور مینڈک میں ان کی جلد اور ان کی بعض خصوصیات کو اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے بدلا جا چکا ہے۔
موروثی مادے (ڈی این اے) کی ایڈیٹنگ کی مختلف ٹیکنالوجیاں جو گزشتہ صدی کی ستّر کی دہائی سے آج تک ایجاد ہوئی ہیں، ان میں کرسپر ٹیکنالوجی سب سے تیز، سستی اور تیر بہدف ٹیکنالوجی ہے۔ اس لحاظ سے اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے مثبت اور منفی اثرات حیاتیاتی ٹیکنالوجی کی اخلاقیات پر زبردست سوالات کھڑے کردیتے ہیں۔ ذیل میں اس ٹیکنالوجی کے اثرات کا مختصر تذکرہ کیا جاتا ہے۔ ملحوظ رہے کہ یہ ٹیکنالوجی دوسری ٹیکنالوجی کی طرح محض مثبت و منفی اثرات نہیں رکھتی، بلکہ اس ٹیکنالوجی کے بالطبع اثرات بالکل ایک نئی جہت کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس کی وضاحت آگے آئے گی۔
آگے جدول میں دیے گئے تمام نکات یا اثرات محض خیالی نہیں ہیں، بلکہ ان سب نکات پر تفصیلی مقالات موجود ہیں، جن پر یہ تمام سائنسی کام کیے جا چکے ہیں۔ مثلاً زیبرا فش میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے مخصوص رنگ کےذمہ دار جین کو درست کیا گیا۔ اسی طرح arabidopsis نامی پودے میں ایک خاص قسم کے جین میں تبدیلی کرکے اصولی طور پر ثابت کیا گیا کہ اس ٹیکنالوجی کےذریعے چاول کی پیداوارکو بڑھایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ایک خاص قسم کے خنزیر میں اس ٹیکنالوجی کے ذریعے تبدیلی کرکے ایک جینیاتی مرض کے لیے تحقیقی ماڈل بنایا گیا۔ ایک جاپانی کالی گائے/بیل میں پائی جانے والی جینیاتی بیماری کو اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے درست کیا گیا۔ سائنسی حلقوں میں اس تحقیقی مقالے کو بڑے جوش وخروش کے ساتھ لیا گیا، کیوں کہ یہ براہِ راست اس بات کا ثبوت تھا کہ اگر گائے یا بیل میں یک جینی امراض کا علاج اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے کیا جاسکتا ہے تو انسانی یک جینی امراض کا علاج بھی بہ آسانی کیا جا سکتا ہے۔
کرسپر ٹیکنالوجی پر شک کرنے والے یہ کہتے آئے ہیں کہ یک جینی تبدیلی یا ایڈیٹنگ تو آسان ہے لیکن ایک سے زائد جینز کی تبدیلی مشکل کام ہوگا۔ اور چوں کہ فینوٹائپ یعنی ظاہری خصائص مثلاً رویّے، احساسات، رحم، مامتا، جلد کا رنگ، یا قد و قامت، یا آنکھوں کا رنگ ایسے خاصّے ہیں جو ایک سے زائد جینز کے ذریعے منضبط کیے جاتے ہیں۔ اس لیے اس ٹیکنالوجی کے اس پہلو سے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں کہ یہ انسانوں یا جانوروں میں بہتری لانے کے لیے استعمال کی جائے گی، بلکہ یہ بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن کام ہے۔
ہمارے نزدیک یہ محض ایک تکنیکی دشواری ہے جس پر بہت ممکن ہے کہ جلد یا بدیر قابو پا لیا جائے۔ اس کو اس مثال سے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ابتدائی کمپیوٹر کا سائز ایک کمرے کے برابر ہوا کرتا تھا۔ اب وہ ہماری ہتھیلی میں سما سکتا ہے۔
صرف 25 سال پہلے تک ڈیٹا اسٹوریج ڈیوائس کی ڈیٹا محفوظ کرنے کی صلاحیت اور آج کی ڈیوائسز کی صلاحیت میں کوئی مقابلہ نہیں۔ پہلے ایک مکمل جانور کو قربان کرکے کچھ ملی لیٹر انسولین حاصل کی جاتی تھی۔ جینٹک انجینئرنگ کے ذریعے ای کولائی نامی بیکٹیریا سے سینکڑوں ملی لیٹر انسولین حاصل کی جاتی ہے۔ پہلے جان داروں بشمول انسان کے ڈی این اے میں موجود نائٹروجن اساس (ڈی این اے بیس) کی ترتیب (sequencing) کے لیے ہزاروں ڈالر خرچ کرنے پڑتے تھے۔ اب 100 ڈالر سے کم میں آپ خود اپنے ڈی این اے کی ترتیب معلوم کرسکتے ہیں۔ اور مستقبل قریب میں کس طرح کی ذہنی اور جسمانی بیماری کا شکار ہوں گے ان کے امکانات کا فی صد معلوم کرسکتے ہیں۔ یہ جینیاتی سطح کی مستقبل گوئی ہر گزرتے دن کے ساتھ بہتر سے بہتر ہوتی جارہی ہے۔
اس لیے یہ بات شرحِ صدر کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ کرسپر کے سلسلے میں جن تکنیکی دشواریوں کا تذکرہ ماہرین کررہے ہیں، ہمارے نزدیک وہ محض وقت کی بات ہے، اور صرف تین سال پہلے اس کا اصولی ثبوت محقق زوئے ای (Zue-e) وغیرہ نے دے دیا ہے۔ انھوں نے بندروں اور چوہوں میں کئی طرح کے جینز کو خارج کرکے (knock out) بتایا کہ مختلف جینز کے ذریعے کنٹرول ہونے والے افعال کو بھی اس تکنیک کے ذریعے بدلا (manipulate) جا سکتا ہے۔
اسی دوران کچھ دوسرے محققین نے انسانی جنین (embryo) میں دل کی بیماری پیدا کرنے والے خراب جین کی جگہ صحت مند جین کو کرسپر کے ذریعے تبدیل کردیا۔ واضح رہے کہ دل کی یہ بیماری جین اور دیگر ماحولیاتی عوامل کے ذریعے ہوتی ہے۔ (اگرچہ کہ حیاتیاتی اخلاقیات کے اصولوں کی وجہ سے یہ جنین ضائع کردیے گئے، لیکن اصولی طور پر یہ ثابت ہوگیا کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے جینز میں تبدیلی کی جا سکتی ہے۔)
چناں چہ یہ بات صاف ہوگئی کہ کرسپر ٹیکنالوجی میں بالطبع اس بات کی مکمل صلاحیت موجود ہے کہ سالماتی حیاتیاتیات کی ترقی کے ساتھ ساتھ وہ جان داروں میں ظاہری تبدیلی کو ممکن بنائے۔ بطور خاص جین اور ان کے افعال اور وہ تمام خاصے جو جین یا مختلف جینز کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں۔ جیسے ظاہری خاصّے رنگ، قدو قامت اور بالوں اور آنکھوں کا رنگ۔۔۔ ان کے بارے میں جیسے جیسے سالماتی حیاتیات کی معلومات پختہ ہوتی جائیں گی، یعنی ہم یقین سے یہ کہہ سکیں گے کہ فلاں اور فلاں جین ان ظاہری یا باطنی خاصوں کے لیے ذمہ دار ہیں ویسے ویسے ان جینز کی تبدیلی اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ممکن ہوتی چلی جائے گی۔
ہمارے نزدیک یہ بات صرف یہیں تک نہیں رکے گی۔ باطنی خاصّے جیسے احساسات، رویّے، رسپانس کی صلاحیت بالآخر سب کچھ جینز کے ذریعے ہی کنٹرول کیا جاتا ہے۔ حالاں کہ ابھی تک سالماتی حیاتیات اس طرح کے باطنی خاصوں یا خصوصیات کے سلسلے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ پارہی ہے ، لیکن جانوروں میں بعض چونکانے والے تجربات ہوئے ہیں، مثلاً ایسے مادہ چوہے جن میں آکسی ٹوسن نامی ہارمون پیدا کرنے والے جین کو نکال دیا گیا، انھوں نے اپنے بچوں سے کسی بھی قسم کی مامتا، یا ان کی پرورش و پرداخت کے لیے درکار جدوجہد کا اظہار نہیں کیا۔ سائنس داں اسے مامتا کے ہارمون کا نام دیتے ہیں، یعنی جانوروں کی حد تک مامتا جیسا جذبہ محض ایک جین کی موجودگی اور غیر موجودگی پر منحصر ہے، یہ شک سے بالاتر ہوکر ثابت کیا جاچکا ہے۔ تو کیا انسانوں میں آکسی ٹوسن ہارمون ہی مامتا کی وجہ ہے؟
چوں کہ انسانوں میں یہ تجربات اخلاقی حدود کی وجہ سے ممکن نہیں ہیں، اس لیے اس کا حتمی جواب ملنا مشکل ہے۔ لیکن تمام سائنس داں اس بات پر متفق ہیں کہ اگر یہ بات چوہے کے لیے درست ہے تو انسان کے لیے بھی تقریباً درست ہوگی۔
بالکل یہی صورتِ حال دیگر احساسات کے متعلق ہے۔ ان میں بعض داخلی احساسات جیسے درد کے جینز معلوم کرلیے گئے ہیں۔ ابتداً یہ جانوروں میں معلوم کیے گئے۔ درد کے لیے ذمہ دار جینز انسانوں میں بھی دریافت ہوچکے ہیں۔ لیکن ان میں پیچیدگی پائی جاتی ہے۔ لیکن بعید نہیں کہ سالماتی حیاتیات میں ہونے والی حیران کن ترقی ایک دن اس پیچیدگی کو بھی حل کرلے۔
حالاں کہ اس طرح کے اندیشے نئے نہیں ہیں لیکن کرسپر کے غیر معمولی حد تک درست ہونے کی وجہ سے یہ اندیشے محض اندیشے نہیں رہے۔ ان میں مزید اضافہ اُس وقت ہوجاتا ہے جب ہم سالماتی حیاتیاتیات (molecular biology) اور سالماتی جینیات (molecular genetics) کی حیران کن ایجادات کو دیکھتے ہیں۔
کرسپر ٹیکنالوجی کے ذریعے بہتری یعنی انسان کے داخلی یا ظاہری خاصوں کی تبدیلی کے اندیشے اُس وقت درست ثابت ہوگئے جب چین کے ایک سائنس داں نے 2018ء میں ایک سائنسی کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ اس نے دو انسانی جنین کو کرسپر تکنیک کے ذریعے ایڈز کے وائرس کے خلاف مزاحمت کے قابل بنادیا ہے۔ اس نے انسانی خون میں پائے جانے والے سفید ذرات کی سطح پر موجود رسیپٹر (receptor) کے جین کو ’’ساکت‘‘ کردیا، جس کی وجہ سے خون میں موجود ہونے کے باوجود یہ وائرس ان خلیات میں داخل نہیں ہوسکتا، اس کے نتیجے میں خون میں اپنی تعداد کو بڑھا نہیں سکتا اور بالآخر تباہ ہوجاتا ہے۔ یہ جنین بعد میں جڑواں لڑکیوں کی شکل میں پیدا ہوئے اور صحت مند ہیں۔ یہ اعلان سن کر امریکی اور یوروپی سائنس دانوں میں حسد و رشک کی لہر دوڑ گئی۔ حیاتیاتی اخلاقیات (bioethics) کے ماہرین ششدر رہ گئے اور پوری دنیا میں کرسپر ٹیکنالوجی پر مباحث تازہ ہوگئے۔ حالاں کہ اس چینی سائنس داں نے اپنے نتائج کسی مقالے میں شائع نہیں کیے، تاہم بیشتر سائنس دانوں کا یہ ماننا ہے کہ ایسا عین ممکن ہے۔ بہرحال چینی حکومت کو جب اس کا پتا چلا تو اس سائنس داں کو جیل جانا پڑا۔
جینوم ایڈیٹنگ کی اخلاقیات کیا ہوں؟ کیا چینی سائنس داں انسانی جنین میں تبدیلی کے حوالے سے بائیو ایتھکس کے متعلق نہیں جانتے تھے؟ یہ سوالات مزید سوالات کو جنم دیتے ہیں۔
عمومی طور پر کرسپر ٹیکنالوجی یا موروثی مادہ (ڈی این اے) کی ایڈیٹنگ یا اس میں تبدیلی کی اخلاقیات پر درج ذیل نکات ملتے ہیں:
ٹیکنالوجی کے استعمال سے ہونے والے نقصانات کا مکمل فہم نہ ہونے کی وجہ سے انسانوں میں یا جانوروں میں اس کا استعمال کیا جائے یا نہیں، اس سلسلے میں مکمل معلومات نہیں ہیں۔ اس لیے باخبر رضامندی (informed consent) حاصل کرنا ممکن نہیں، اور سائنس کی اخلاقیات کا یہ سب سے اہم پہلو ہے۔ یعنی کسی بھی سائنسی طریقۂ کار کو استعمال کرنے سے پہلے جو بھی یا جس پر بھی وہ طریقہ استعمال ہورہا ہو اُسے اس کے فوائد و نقصانات معلوم ہونے چاہئیں۔
جیسا کہ عرض کیا جا چکا ہے، یہ ٹیکنالوجی ممکنات کی ایک پوری دنیا اپنے اندر سموئے ہوئے ہے، چناں چہ اس کے استعمال کی حدود کیا ہوں؟
امراض کے علاج کے سلسلے میں بھی اسے کس حد تک استعمال کیا جا سکتا ہے؟ مثلاً کسی انسان کے خلیات میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے تبدیلی کی جاتی ہے۔ لیکن اگر یہ تبدیلی اس کے مادہ منویہ (sperm) میں بھی کی جائے تو اس کا اثر اس کی اگلی نسل پر بھی پڑے گا۔ کیا اگلی نسل میں کسی برے اثر کو منتقل کرنے کا حق ہمیں ہے؟
مادہ منویہ اور بیضہ میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال کس حد تک کیا جا سکتا ہے؟
علاج و معالجہ سے آگے بڑھ کر اور دوسرے خصائص کو انسانوں یا جانوروں میں پیدا کرنے کے لیے اس ٹیکنالوجی کے استعمال کی حدود کیا ہوں؟
اس ٹیکنالوجی سے پوری دنیا کے لوگ برابری کے اعتبار سے مستفید ہوں، اس بات کی ضمانت کیسے دی جائے گی؟
مندرجہ بالا حیاتیاتی اخلاقیات کے نکات سے کئی قسم کے سوالات کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مثلاً:
ٹیکنالوجی کے استعمال کی حدود کون طے کرے گا؟ اور جو بھی آج طے کررہا ہے وہ ان کے نفاذ میں اکثر ناکام ہے تو پھر اس کا نفاذ کیسے ممکن بنایا جائے؟ ان حدود کے طے کرنے میں کن اصولوں کو مدنظر رکھا جائے گا؟ سیکولر ہیومنزم کے وہ اصول —(مختصراً) جن کے اعتبار سے یہ مانا جاتا ہے کہ ٹیکنالوجی ایسی ہو جس سے
٭ماحول کو نقصان نہ پہنچے
٭انسانوں اور دیگر جان داروں کو نقصان نہ پہنچے
٭ٹیکنالوجی پائیدار ہو
کے باوجود مختلف قسم کے جی ایم او وجود میں آ چکے ہیں جو ان اصولوں کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ چناں چہ نفاذی قوت اور اصول دونوں جہتیں حیاتیاتی اخلاقیات کے میدان میں نئی سوچ کی منتظر ہیں، کیوں کہ حیاتیاتی اخلاقیات کے علی الرغم بعض چوٹی کے سائنس داں یہ کہہ رہے ہیں کہ کرسپر ٹیکنالوجی کے ذریعے ہر قسم کے تجربات کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، چاہے وہ جینیاتی ترمیم سے انسانی بہتری ہی کے تجربے کیوں نہ ہوں! بقول ایک مشہور و معروف جینیاتی ماہر کے بہت زیادہ جانچ کے بعد اگر ٹیکنالوجی محفوظ ثابت ہوتی ہے تو پھر اس کا ہر میدان میں استعمال کیا جانا مناسب ہے۔
انسانی جنین میں اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے تبدیلی فی الوقت حیاتیاتی اخلاقیات کے ضابطے کے خلاف ہے۔ لیکن جو کچھ چین میں ہوا وہ اس بات کا واضح اظہار ہے کہ اس طرح کا ضابطۂ اخلاق خاص قسم کے رویوں پر کنٹرول چاہتا ہے اور یہ کنٹرول مخصوص نظریہ حیات (ورلڈ ویو) کو ماننے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح کے ضابطۂ اخلاق کی پامالی سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ ورلڈ ویو رویّے پر کنٹرول کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔
سیکولر انسان پسند ورلڈ ویو کی بنیاد بالطبع اضافی ہے۔ ان بنیادوں پر کھڑی حیاتیاتی اخلاقیات کی عمارت بہت کمزور ہے۔ اس لیے کچھ ابدی بنیادوں کی ضرورت ہے۔
کرسپر ٹیکنالوجی اسلامی نقطۂ نظر سے
ٹیکنالوجی کے اسلامی ورلڈ ویو پر لکھا گیا ہے، لیکن وہ بہت عمومی نوعیت کا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی بالعموم اور جینیاتی ایڈیٹنگ کی ٹیکنالوجی (یا سالماتی حیاتیاتی ٹیکنالوجی) بالخصوص بہت تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔ اس لحاظ سے اسلامی نقطۂ نظر سے غیر معمولی دقتِ نظر اور اجتہاد کی ضرورت درپیش ہے۔ بعض مسلم محققین اس کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔
ٹیکنالوجی کے اسلامی نقطۂ نظر کے لیے ہم جب قرآن کو اصولی رہنمائی کے لیے کھولتے ہیں تو درج ذیل نکات بڑی صراحت کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔ یہ نکات ہمیں بالعموم ٹیکنالوجی اور بالخصوص جینوم ایڈیٹنگ کی ٹیکنالوجی کو منضبط (regulate) کرنے کے لیے اصولی رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔
٭لاتفسدوا فی الارض (زمین میں فساد برپا نہ کرو): فساد ایک وسیع الاطراف لفظ ہے۔ ہمارے نزدیک کرسپر ٹیکنالوجی میں بالطبع اس بات کی صلاحیت موجود ہے کہ وہ محدود پیمانے پر یا غیر منضبط ہونے کی صورت میں لامحدود پیمانے پر فساد فی الارض کا سبب ہوجائے۔ مثلاً جینیاتی ترمیم سے انسانی بہتری کا حقیقی خطرہ۔ اس ٹیکنالوجی سے انسانی جنین میں بہت ساری ایسی تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں جن کا اس سے پہلے تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ مثلاً ایسے جنگجو انسانوں کی تخلیق جن میں رحم کا جذبہ سرے سے غائب ہو۔ ایسے سائی بورگ (انسان اور مشین کو ملا کر تخلیق کیے گئے انسان) جو بنیادی انسانی احساسات سے عاری ہوں، جیسے محبت، اخوت، ہمدردی جیسے جذبات۔ اب اس طرح کی تخلیقات جب سماج میں عام ہوجائیں گی تو ان کے اثرات انسانی سماج پر کیا ہوں گے۔ اس سے کیا کچھ فساد برپا ہوگا اس کا تصور ہی دل دہلا دینے والا ہے۔ اس سے قبل صنفی اختیار (sex selection) کی ٹیکنالوجی سے بطور خاص ایشیا میں جو فساد برپا ہوا ہے جس کے اثرات اب ہر طرف دیکھے جاسکتے ہیں وہ ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ابتداً بےضرر اور انتہائی کارآمد ایکسرے ٹیکنالوجی نے بالآخر کہاں کہاں فساد برپا کیا، وہ ظاہر ہے۔ پورے ایشیا میں مرد و عورت کا وہ تناسب جو فطری طور پر قائم تھا زبردست طریقے سے بدل گیا ہے، اور اس کے لازمی اثرات کا خمیازہ اب پوری نسلِ انسانی بھگت رہی ہے۔ یہ محض ایک مثال ہے۔ اس طرح کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ ایکسرے ٹیکنالوجی تو اصلاً بے ضرر تھی، کرسپر بالطبع بے ضرر نہیں ہے۔
٭ الا تطغوا فی المیزان (میزان میں خلل نہ ڈالو): یہ دوسرا تاکیدی نکتہ ہے جو بتاتا ہے کہ انسان کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اللہ کی بنائی ہوئی میزان میں خلل نہ ڈالے۔ میزان ایک بامعنی لفظ ہے جس کا قریب ترین ترجمہ ترازو یا ناپ تول کے تناظر میں لیا جاتا ہے۔ لیکن قرآن اسے بیلنس کے مفہوم میں بھی استعمال کرتا ہے۔ چناں چہ انسان کی کوئی بھی سرگرمی اور کوئی بھی ٹیکنالوجی ایسی نہ ہو جو توازن یا بیلنس میں خلل ڈالے۔ ہمارے نزدیک کرسپر ٹیکنالوجی میں یہ امکان بدرجہ اتم موجود ہے کہ وہ توازن میں خلل ڈال سکے، بلکہ دیگر ٹیکنالوجیوں کے مقابلے میں یہ ٹیکنالوجی اس بات کا زیادہ امکان رکھتی ہے۔ کیڑے مکوڑے، حشرات، پودے جو بظاہر نقصان دہ ہیں ان کی تخلیق اور ان کے تناسب کا بھی ایک توازن ہے۔ اس میں بھی خلل اندازی سے بالآخر میزان میں خلل پڑتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پھر موذی جانوروں اور موذی حشرات وغیرہ کو بھی نہیں مارنا چاہیے۔ ایک سیب بھی نہیں توڑنا چاہیے کہ یہ بھی میزان میں خلل ہے۔ لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی مصالح ومفاسد کے پیش نظر جن چیزوں میں جس قدر تصرف کی اجازت ہے ایسی ٹیکنالوجی کا عمل اس حد تک مباح رہے گا۔ شریعت کا ایک اہم اصول یہ بھی ہے کہ ’’مضرت‘‘ (نقصان) اور ’’منفعت‘‘ (فائدہ) میں تناسب کو ہمیشہ مدِنظر رکھا جائے گا۔ یعنی اگر نقصان بہت زیادہ ہو تو ایسے کسی فعل یا ٹیکنالوجی کو اختیار نہیں کیا جائے گا۔ اگر فائدہ نقصان کے مقابلے میں زیادہ ہوگا تو ایسے کسی فعل اور ٹیکنالوجی کو احتیاط سے اختیار کیا جائے گا، اور یہ صورت میزان میں خلل ڈالنے والے نکتے سے مستثنیٰ رہے گی۔
اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ حشرات جو فصلوں یا انسان کو نقصان پہنچاتے ہیں اُن کے ذریعے پہنچائے جانے والے نقصان کو کم سے کم کیا جائے، نہ کہ ان کی انواع کا خاتمہ کیا جائے، (اسی لیے اگر مچھر دانی کا استعمال کرکے مچھروں سے بچا جاسکتا ہو تو مچھر کُش دوائی کی ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔) کرسپر ٹیکنالوجی انواع کا صفایا کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ یہ مضر جان داروں (حشرات، بیکٹیریا، پودے) میں ایسے جینز داخل کرسکتی ہے جو بالآخر ان کی انواع کا صفایا کردیں گے۔ لیکن ان انواع کا صفایا کس طرح سے نئی انواع کو جنم دے گا جو ہوسکتا ہے ان سے بھی خطرناک ہوں اس کا کوئی میکنزم ہمارے پاس نہیں ہے۔ اس لیے ہوسکتا ہے کہ اس کی منفعت اس کے نقصان سے بہت کم رہ جائے۔
٭ الذی خلق فسوی (وہی ہے جس نے تخلیق کی اور تناسب قائم کیا): تخلیق اور تناسب اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہے، وہ بہتر طور پر جانتا ہے کہ خلق کیسی ہو اور اس کا تناسب کیا ہو۔ کس خطے میں کیسا تناسب ہو، اور کس خطے میں کیسی مخلوق ہو، اور ان کے خصائص کیا ہوں۔ مخلوقات اور تناسب محض ماحول اور فطری انتخاب اور تنازع للبقا ہی کے نتیجے میں وجود میں نہیں آئے ہیں۔ یہ تنوع اور اس کی تشریح مذکورہ تینوں جہات کے علاوہ اور بھی جہات کی متقاضی ہے۔ چناں چہ ایسی کوئی ٹیکنالوجی یا انسانی فعل جو اس ’’تسویۃ‘‘ پر اثر انداز ہوگا وہ قابلِ قبول نہیں ہوگا۔
کرسپر ٹیکنالوجی بالاصل اس بات کے لیے ذمہ دار بنے گی کہ اس تناسب میں بگاڑ آجائے۔ مثلاً مخصوص جلد کی رنگت والے لوگ، آنکھوں کے مخصوص رنگ والے، مخصوص جثہ وجسامت والے لوگ، مخصوص ذہن رکھنے والے لوگ۔ غرض ہر خاصّے کے لیے ایک تناسب ہے۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے زیادہ ذہانت (آئی کیو) کے حامل بچوں کے حصول کے لیے عوام میں ایک دوڑ لگ جائے گی۔ امریکہ میں پہلے ہی ایسے اسپرم عطیہ دہندگان(sperm donors) کی بہت مانگ ہے جن کا آئی کیو زیادہ ہو، یا جو پی ایچ ڈی سند یافتہ ہوں۔ بیضہ سے بار آور کرکے کرائے کی بچہ دانی (surrogacy) سے کوئی بھی ماں/باپ بننے کا شرف حاصل کرسکتا ہے!۔
چناں چہ ڈیزائنر بی بی اب محض خواب نہیں ہے۔ امریکہ و یورپ میں بعض اسپرم/بیضہ بینک ایسی تفصیلات کو جن کے ذریعے بہتر بچے کا حصول ہوسکتا ہے جیسے زیادہ ذہانت، نیلی آنکھیں، اونچا قد، مخصوص نسل، اونچی قیمت پر بیچتے ہیں۔ حالاں کہ اس طرح کے بیضہ اور اسپرم کے ملاپ سے ان خصوصیات والا بچہ پیدا ہو، ایسا ضروری نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں کچھ ناکامی کے بھی امکانات ہوتے ہیں۔ لیکن باور کیا جاتا ہے کہ کرسپر ٹیکنالوجی کے ذریعے ایسے بچوں کے حصول میں ناکامی کے امکانات صفر کی حد تک ہوجائیں گے۔ چناں چہ وہ خلق اور تناسب جو اللہ کے لیے خاص ہے اس میں ہم مداخلت کریں گے، اور یہ بات بگاڑ کا ہی سبب بنے گی۔
٭اسلامی شریعت کا ایک اصول ’’لاضرر ولا ضِرار‘‘ کی صورت میں مشہور و معروف ہے۔ حالاں کہ لفظ ’’ضِرار‘‘ کے مفہوم میں محققین میں اختلاف ہے، لیکن ’’ضِرار‘‘ کا ایک مفہوم جانتے بوجھتے ہوئے نقصان پہنچانے کا بھی ہے۔ کرسپر ٹیکنالوجی کو اگر غیر منضبط رکھا جائے یا اسے عوام و خواص سب کے لیے یکساں طور پر ہر فیلڈ میں ہر طرح کی تبدیلی کے لیے، ہر قسم کے جان داروں میں تبدیلی کے لیے، انسان کے خصائص بدلنے کے لیے، سائی بورگ اور humanoide اور negative enhancement کے لیے کھلا رکھا جائے تو یہ انسان اور ماحول دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگی، اور یہ محض اندازہ نہیں ہے، بلکہ دیگر جینوم ایڈیٹنگ کی ٹیکنالوجی کے ذریعے بنائے گئے جینیٹکلی ماڈیفائڈ آرگنزم (تبدیل شدہ جینیات) پہلے ہی سے دردِ سر بنے ہوئے ہیں اور ان کے نقصان سامنے آنے لگے ہیں (بہت ہی عام مثال بی ٹی کاٹن ہے۔) چناں چہ ’’لاضِرار‘‘ کے تحت ہم اس ٹیکنالوجی کے بے لگام استعمال کے قائل نہیں ہوسکتے۔
کرسپر ٹیکنالوجی کے تناظر میں اسلامی نقاطِ نظر کے مذکورہ بالا مقدمے سے اس ٹیکنالوجی کی اسلامی اخلاقیات کے ضمن میں درج ذیل نکات اخذ کیے جا سکتے ہیں۔
ٹیکنالوجی بقدر ضرورت ہو: حالاں کہ یہ پہلو minimalist افراد بھی پیش کرتے ہیں، لیکن اسلام بطور خاص اسراف کے معاملے میں بہت حساس ہے۔ چناں چہ ہر وہ ٹیکنالوجی جو ضرورت کے فریم سے آگے بڑھتی ہو اُس کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ ضرورت خود ایک اضافی شے ہے۔ لیکن اس ٹیکنالوجی کے سلسلے میں یہ اضافی نہیں رہی۔ صرف ایک مثال ملاحظہ فرمائیے۔
اس ٹیکنالوجی کے ذریعے جین ڈرائیو استعمال کرکے فصلوں کو نقصان پہنچانے والے حشرات کا صفایا کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ غیر ضروری ہے۔ کیوں کہ جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے اور اب تقریباً ثابت شدہ ہے کہ ماحولیاتی توازن میں ہر شے کا اپنا رول ہے۔ جب ہم جین ڈرائیو کے ذریعے مکمل طور پر اس کی انواع کا صفایا کریں گے تو بالکل نئی قسم کے انواع کے وجود میں آنے کا حقیقی خطرہ ہے۔ اس کے جواب میں مخالفین یہ کہتے ہیں کہ تو پھر کیا فصلوں کو برباد ہونے دیں اور انسان کو بھوکا مرنے دیں؟ ہمارا جواب ہے کہ نہیں، جین ڈرائیو اور کرسپر کا استعمال کرکے ان حشرات کی انواع کا صفایا کرنے کے بجائے حشرات سے integrated pest management کا استعمال کیا جائے جو فصلوں کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔ اس میں انواع مکمل تباہ نہیں ہوتیں اور فصلوں کا نقصان نسبتاً بہت کم ہوجاتا ہے۔
کرسپر ٹیکنالوجی میں ظاہری خاصے تبدیل کیے جا سکتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ واضح طور پر غلط ہے۔ اسلامی نقطۂ نظر سے مخلوق کی ساخت میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔
جنین میں بیماری کے لیے ذمہ دار جین درست کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اُس وقت جب اس سے نقصان کا اندیشہ اس کے فائدے سے بہت کم ہو۔ یہاں پر ایک پیچیدہ سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ بیماری کے جین سے بیماری پیدا ہوتی ہے جس سے اذیت ہوتی ہے۔ لیکن ایک سفید فام تہذیب میں کالا ہونا بھی اذیت کا باعث ہے۔ ایک جسمانی اذیت ہے، دوسری نفسیاتی۔ تو بیماری کے جین اگر درست کرنے کی اجازت آپ دیتے ہیں تو جلد کی رنگت کی تبدیلی کی اجازت کیوں نہیں دیتے؟ بالآخر دونوں صورتوں میں جین کی وجہ سے مستقبل میں اذیت ہی تو ہوگی۔ دونوں صورتوں میں آپ مخلوق کی ساخت میں تبدیلی کررہے ہیں۔ یہاں مثبت انسانی جینیاتی ترمیم اور منفی انسانی جینیاتی ترمیم کی بحثیں ہیں، جن کا یہ مضمون متحمل نہیں ہے۔
ہمارے نزدیک اس طرح کے پیچیدہ سوالات کا کافی و شافی جواب موجود ہے، بلکہ بعض تشریعی اصول تو اس طرح کے معمہ جاتی نوعیت کے سوالات کا شاندار جواب دیتےہیں۔
یوجینکس اور انسانی جینیاتی ترمیم دراصل انسان کے خود کو مختارِ کُل سمجھنے کے نقطۂ نظر کا اظہار ہے۔ جب کہ اسلامی نظریے کے مطابق مختارِ کُل صرف اللہ کی ذات ہے۔ اس لیے اس طرح کی کسی بھی ٹیکنالوجی کے استعمال کی اجازت نہیں ہوگی جو بالآخر یوجینکس اور انسانی جینیاتی ترمیم پر منتج ہو۔
کرسپر کے ذریعے ایسے پودوں کی تخلیق جو موجود پودوں کی بعض انواع کو ہٹاکر ماحول میں امپلانٹ کی جائیں گی، اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
کرسپر کے ذریعے somatic cellsمیں تبدیلیوں کی گنجائش محض جینیاتی امراض کی حد تک ہوگی۔
واضح رہے کہ ٹیکنالوجی کی اخلاقیات کا یہ بیانیہ کرسپر ٹیکنالوجی کو مکمل طور پر رد کردینے یا اس ٹیکنالوجی میں مزید تحقیقات کو بند کردینے کے موقف میں بالکل نہیں ہے۔ جیسا کہ متشدد عیسائی تخلیق پسند بیانیے کے ماننے والے یا الٹرا آرتھوڈوکس یہودی حضرات کا ماننا ہے، بلکہ یہ بیانیہ اس ٹیکنالوجی کو صحیح سمت دینے اور اسے زیادہ بہتر طور پر منضبط کرنے کے لیے ٹھوس بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کی اخلاقیات میں خالق و مالک کے تئیں احساسِ ذمہ داری اور اس کے سامنے پیش ہونے کے تصور کو جگہ دیتا ہے۔ اور اس ٹیکنالوجی کو اپنی عقلِ محض یا ہوائے نفس کا استعمال کرکے زحمت بنانے کے بجائے وحی کی رہنمائی میں اپنی عقل کا استعمال کرکے رحمت بنانے پر زور دیتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کرسپر ٹیکنالوجی اور اس سے وابستہ اخلاقیات اور حیاتیاتی اخلاقیات ایک وسیع تر سائنس ہے۔ اس سائنس میں اسلامی نقطہ ہائے نظر کو پروان چڑھانا بے حد ضروری ہے۔ بطور خاص جب کہ دنیا میں ’’قوانین‘‘ اور معیارات کی دلچسپ بحث چھڑ چکی ہے۔ کہیں قوانین ہیں تو معیارات غائب ہیں، کہیں معیارات ہیں تو قوانین ندارد ہیں۔ کہیں دونوں موجود ہیں تو ان کے نفاذ کی بنیادیں بہت کمزور ہیں۔
قرآن کا ایک اعجاز یہ بھی ہے کہ وہ قوانین بھی دیتا ہے اور معیارات بھی، اور ان کے ساتھ ان کے عملی نفاذ کی ٹھوس بنیادیں بھی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ موجود نسل تدبرِ قرآن اور تدبرِ سیرت کی اپنی ذمہ داری پوری کرے اور دنیاکو اس کی روشنی سے منور کردے۔