ہزارہ برادری تین دہائیوں سے نشانے پر ہے
۔3جنوری2021ء کو کوئٹہ کے جنوب میں تقریباً 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ’’مچھ‘‘ میں انسان دشمنوں نے کوئلہ کانوں میں محنت مزدوری کرنے والے دس کانکنوں کو نیم شب گہری نیند سے اٹھا کر چن چن کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ سفاک دہشت گردوں نے اپنے حرام و مذموم مقصد کے لیے قومی شاہراہ پر مچھ شہر کو ملانے والے مقام سے کچھ آگے دائیں طرف ’’گشتری‘‘ کے مقام پر پہاڑوں کے اندر کوئلہ کانوں کے آس پاس مقیم مزدوروں کا انتخاب کیا۔ یہ سب افراد کوئٹہ کے ہزارہ ٹائون کے باسی اور ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے تھے۔ دن بھر کی محنت مشقت سے تھک ہار کر گہری نیند سورہے تھے، کہ مسلح گروہ کے کارندوں نے محاصرہ کرلیا۔ نیند سے بیدار کرنے کے بعد آنکھوں پر پٹیاں اور ہاتھ پائوں باندھ دیے اور پھر تیز دھار آلے سے بے دردی کے ساتھ ایک ایک کرکے ذبح کردیا۔ صبح ہی مقامی لیویز اور قومی شاہراہوں پر موجود فرنٹیئر کور کو اس دلدوز واقعے کی اطلاع ہوئی۔ ہزارہ عوام نے مچھ قومی شاہراہ پر پہلے پہل میتیں رکھ کر احتجاج کیا۔ کوئٹہ میں مغربی بائی پاس بند کرکے مرد و خواتین نے صدائے احتجاج بلند کی۔ اس واقعے کی ذمہ داری داعش گروہ قبول کرچکا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان، داعش اور لشکر جھنگوی افغانستان سے آپریٹ ہورہی ہیں۔ یہ گروہ کوئٹہ اور صوبے کے مختلف علاقوں میں کئی بھیانک وارداتیں کرچکے ہیں۔ ہزارہ عوام تین دہائیوں سے نشانے پر ہیں۔ سینکڑوں مرد و خواتین پیوندِ خاک ہوچکے ہیں۔ چناں چہ یہ المناک خونیں واردات بھی ان کی شناخت مدنظر رکھ کر کی گئی ہے۔ یقیناً ریاست اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو تحفظ فراہم کریں۔ کس کی کتنی ناکامی و نااہلی ہے، اس سے بڑھ کر یہ امر پیش نظر رکھنا چاہیے کہ ملک کو دہشت گردی کے مختلف النوع واقعات و خطرات کا سامنا ہے۔ آپریشن ضرب عضب کے بعد یہ گروہ افغانستان فرار ہوئے ہیں۔ جون 2017ء میں کوئٹہ سے اغوا کیے گئے دو چینی باشندوں کی بازیابی کے لیے مستونگ کے علاقے’’اسپلنجی‘‘ کے پہاڑی سلسلے میں داعش کے کیمپ کے خلاف آپریشن ہوا۔ یہ داعش کا بلوچستان، سندھ اور پنجاب کا مرکزی کیمپ تھا۔ یہاں ان کے بارہ لوگ مارے گئے، گرفتاریاں بھی ہوئیں، کچھ فرار ہوکر افغانستان چلے گئے۔ چینی جوڑے کے صرف ڈھانچے ملے۔ مچھ گشتری میں مزدوروں کا قتل انہی مفرور افراد نے کیا ہے۔ یہ علاقہ اسپلنجی سے ملحقہ ہے۔ بلوچستان کے اندر ان کے خلاف کئی کامیاب آپریشن ہوئے ہیں۔ کمین گاہیں اور تربیتی مراکز مسمار کیے گئے ہیں۔ کئی کارندے پکڑے جاچکے ہیں۔ ایک بڑی تعداد ماری جاچکی ہے۔ مگر جب تک افغانستان کے اندر ان کا تحفظ کیا جائے گا،تب تک ایسے سانحات کے خطرات منڈلاتے رہیں گے۔ افغانستان کے اندر امن مذاکرات کامیاب ہوں گے تو یقیناً اس کے بعد ان گروہوں کے لیے ٹھکانہ نہ رہے گا۔ ایک بلوچ عسکریت پسند تنظیم (بی ایل اے)کے افغانستان میں موجود سربراہ نے ہزارہ مزدوروں کے ہدفی قتل کو ریاست پاکستان کے سر تھوپنے کی کوشش کی ہے۔ اول یہ تنظیم اس نوعیت کی کئی کارروائیوں کی خود مرتکب ہے۔ دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے افراد علی الخصوص پنجاب اور خیبر پختون خوا کے باشندوں کی بڑی تعداد ان کے ہاتھوں قتل ہوئی ہے۔ جولائی 2012ء میں اسی تنظیم نے کوئٹہ سے متصل’’سورینج‘‘ کے علاقے میں خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے سات کانکنوں کو اغوا کے بعد گولیاں مار کر قتل کردیا تھا۔ تعمیراتی کمپنیوں کے کیمپوں پر حملہ کرکے مزدوروں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ مسافر بسوں سے اتار اتار کر شناخت کے بعد بیک وقت کئی کئی بے گناہوں کا خون کیا ہے۔ ریل گاڑیوں پر چھوٹے اور بڑے خودکار اسلحہ سے حملے کیے۔ اس مچھ شہر پر پہاڑوں سے راکٹ برسائے ہیں۔ ان کے ہاتھوں سینکڑوں بے گناہوں کا خونِ ناحق ہوچکا ہے۔ دوئم، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ افغانستان کے خفیہ ادارے ’’این ڈی ایس‘‘ اور انڈین جاسوس ادارے ’’را‘‘ کا اشتراک کیا گل کھلا رہا ہے۔ داعش کابل اور افغانستان کے دوسرے علاقوں میں کئی بہیمانہ کارروائیاں کرچکی ہے۔ تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، سیاسی و عوامی اجتماعات پر حملے کرچکی ہے۔ وہاں ہزارہ عوام پر کئی حملے کرچکی ہے۔ اور خود ’را‘ کی شہ پر گزشتہ چند دنوں میں پانچ صحافی قتل ہوچکے ہیں۔ سماجی کارکن اور علماء کا ہدفی قتل ہوا۔ حملے کی ذمے داری داعش بھی قبول کرچکی ہیں۔ البتہ ان صحافیوں، علماء اور سماجی کارکنوں کی موت پر سکوت سوالیہ نشان ہے۔ کابل کی حکومت بھارتی مفادات کے لیے الزامات بڑی بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ افغان طالبان پر عائد کرتی ہے۔ افغانستان کے شہریوں کی طرح ایک جاپانی ماہر اور سماجی کارکن ڈاکٹر ناکامورا کا قتل ہوا تاکہ اس کے لیے افغان طالبان کو مورد الزام ٹھیرایا جائے۔ مگر افغان عوام اس تخریبی سیاست سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ افغان طالبان کے ساتھ امن بات چیت کابل حکومت کو ناگوار ہے، کہ امن کے قیام کے بعد ان کی حکمرانی نہیں رہے گی۔ نئی دہلی اس لیے سبوتاژ کی کو ششیں کررہا ہے کہ پاکستان کے خلاف کابل اس کا اہم مورچہ بن چکا ہے۔ اس گھنائونے اور سیاہ کھیل کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جس میں معصوم و بے گناہ تختہ مشق بنائے جاتے ہیں۔ کابل اور نئی دہلی کے خلاف آواز بلند ہونی چاہیے جو اپنے سیاسی اور تزویراتی مقاصد کے حصول کے لیے دہشت گردوں کو پال رہے ہیں۔ ہزارہ عوام کا یہ احتجاج برحق ہے کہ ان کے پاس اپنے تحفظ کو یقینی بنانے اور شنوائی کے لیے کوئی اور راستہ ہے نہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید، ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کے ہمراہ کوئٹہ آئے اور دھرنے کے شرکاء سے مذاکرات کیے۔ مقتولین کے لواحقین کو فی کس پچیس پچیس لاکھ روپے امداد دینے اور جوڈیشل کمیٹی بنانے کا اعلان کیا اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی۔
مگر دھرنے کے شرکاء نہ مانے اور میتوں کے ہمراہ سخت سردی میں بیٹھے رہے۔ مطالبہ صوبائی حکومت کے استعفے اور وزیراعظم عمران خان کو بلانے کا کیا۔ صوبائی حکومت کے استعفے کا مطالبہ اس لیے بھی درست نہیں کہ صوبے میں حکومتی فورسز سمیت کئی طبقے دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ مسیحی برادری کے گرجا گھروں پر حملے ہوئے ہیں۔ جنوری2013ء میں علمدار روڈ خودکش حملے کے بعد 86لاشوں کے ہمراہ دھرنا دیا گیا تو وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کو ذمہ دار قرار دے کر ان کی حکومت برطرف کی گئی، دو ماہ کے لیے گورنر راج نافذ ہوا، لیکن اسی گورنر راج میں ایک اور المناک سانحہ ہزارہ ٹائون خودکش حملے کی صورت میں ہوا جس میں سو سے زائد افراد لقمہ اجل بنے۔ معروضی حقیقت یہ بھی ہے کہ خود نواب اسلم رئیسانی اور ان کے خاندان کو خطرات کا سامنا ہے۔ نواب اسلم وزیراعلیٰ تھے تو خود ان پر کوئٹہ میں بم حملہ ہوا۔ پھر مستونگ میں ان کا جواں سال بھتیجا حقمل رئیسانی بم حملے میں قتل ہوا۔ اور پھر 2018ء کی انتخابی مہم کے دوران مچھ میں ہزارہ مزدوروں کے قتل میں ملوث نیٹ ورک یعنی داعش نے ان کے بھائی نواب زادہ سراج رئیسانی کو خودکش حملہ کرکے کئی لوگوں سمیت پیوند خاک کردیا۔