تباہ حال کراچی: حکمران آج بھی سورہے ہیں؟۔

جماعت اسلامی، کراچی کے حق کے لیے مستقل جدوجہد کررہی ہے

شہر کراچی کی بربادی کا تسلسل جاری ہے۔ وقتی حکومتی اور اپوزیشن شور شرابے کے بعد پھر خاموشی چھا جاتی ہے، اور نتیجہ یہ ہے کہ کراچی کے شہری مسائل کے گرداب سے باہر نکل نہیں پارہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ کراچی کو خستہ حال اور تباہ حالت میں رکھنا صرف سیاسی کھیل نہیں بلکہ کسی بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ اس وقت سب سے زیادہ وسائل دینے والا شہر سب سے زیادہ مسائل کا شکار ہے۔ یہاں شہریوں کو پینے کا صاف و شفاف پانی میسر نہیں۔ یہاں کا 80 فیصد سے زیادہ پانی آلودہ ہے، جس کی وجہ سے بیماریوں کی شرح بڑھتی جارہی ہے۔ یہاں کا سیوریج کا نظام تباہ ہے۔ حکومتِ سندھ اعتراف کرچکی ہے کہ صنعتوں کا فضلہ اور ڈرینیج کا پانی بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے سمندر اور دریائے سندھ میں شامل ہورہا ہے۔ یہاں سارا کچرا سیوریج نظام میں شامل ہوجاتا ہے۔ یہ دنیا کا واحد شہر ہوگا کہ جہاں برساتی اور نکاسیِ آب کے نالوں پر قبضے ریاست نے خود کرائے ہیں۔ کراچی دنیا بھر میں فضائی آلودگی سے متاثرہ شہروں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے، اور شہر کی فضا ’مضر ترین‘ قرار دی گئی۔ اہم بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس شہر میں فضائی آلودگی یا اسموگ ناپنے کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں۔ کچرا ٹھکانے لگانے کے نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے لوگ کچرا جلا دیتے ہیں، اور اس کے ساتھ صنعتی اخراج فضائی آلودگی میں کردار ادا کررہا ہے، لیکن یہاں کوئی نظام ہی نہیں ہے، جس کا جیسے دل چاہتا ہے مقامی انتظامیہ اور پولیس کو حصہ دے دلا کر اپنا کام کرتا رہتا ہے۔ یہاں کے مسائل میں سڑکوں پر گاڑیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد بھی ہے۔ سڑکوں کی عدم دیکھ بھال اور مرمت نہ ہونے، دوسری طرف پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی نے شہریوں کو سخت مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ شہر میں رہائش کا مسئلہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔ یہاں صحت و تعلیم کی سہولیات کی کمی ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ ہے۔ شہر کا بے ہنگم پھیلاؤ ہے۔ شہر میں کھلی جگہیں اور کچی زمین تو غائب ہی ہوگئی ہے۔ ماضی کے ہرے بھرے درخت ختم ہوگئے ہیں۔ الغرض اس وقت شہر کراچی میں مسائل ہیں اور کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔اور ماضی کا شاندار ترین شہرِبے مثال تباہ حال ہے۔ہمیں تو اس شہر کی درست آبادی کا ہی نہیں معلوم ہے۔
2017ء میں کی گئی مردم شماری کے مطابق شہر کراچی کی آبادی ڈیڑھ کروڑ ہے، جبکہ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس شہر کی آبادی ڈھائی کروڑ سے تین کروڑ ہے۔ بنیادی مسائل کیسے حل ہوسکتے ہیں جب تک آبادی کے ٹھیک اعداد و شمار معلوم نہ ہوں؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ کراچی کے ایشوز پر اگر کسی نے تاریخی طور پر آواز اٹھائی ہے اور کام کیا ہے وہ جماعت اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی نے ہمیشہ بے غرض ہوکر کام کیا ہے۔ عبدالستار افغانی ہوں یا نعمت اللہ خان… ان کے دور میں کراچی ہمیشہ آگے بڑھا ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ایم کیو ایم اس شہر پر تیس سال سے زائد عرصہ قابض رہی لیکن اس شہر کے حصے میں بربادی ہی آئی، یہاں تک کہ صرف شہر کا انفرااسٹرکچر ہی نہیں بلکہ نوجوان نسل بھی تباہ ہوگئی۔ پیپلز پارٹی کی کراچی دشمنی سب کے سامنے ہے، اور اس کے بعد پی ٹی آئی سے شہر کے لوگوں کی امید بندھی، لیکن وہ بھی پیپلز پارٹی کے نقشِ قدم پر چل رہی ہے، بلکہ شہر کی تباہی میں حصہ ڈالنے میں دو قدم آگے ہی ہے۔ اس وقت جماعت اسلامی پھر میدانِ عمل میں ہے۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن کا اس صورتِ حال پر کہنا ہے:۔
”کراچی کے عوام ڈیڑھ کروڑ نہیں، تین کروڑ ہیں۔ ٹوٹا پھوٹا اور تباہ حال کراچی بھی پورے ملک کو 70 فیصد ریونیو مہیا کررہا ہے، لیکن اس کے باوجود کراچی کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ کراچی منی پاکستان ہے، اگر کراچی ترقی کرے گا تو پورا ملک ترقی کرے گا۔ ایک طرف گورنر سندھ کہتے ہیں کہ ماضی میں کراچی کی آبادی صحیح نہیں گنی گئی، لیکن دوسری جانب وفاقی کابینہ میں 2017ء کی مردم شماری کی منظوری کے فیصلے پر اتفاق کرلیا گیا! جب شہر کی مردم شماری ہی درست نہ ہو تو اس کا انفرااسٹرکچر کس طرح ٹھیک ہوسکتا ہے؟ ایم کیو ایم مردم شماری کے حوالے سے صرف زبانی جمع خرچ کررہی ہے، پیپلز پارٹی بھی کراچی کی آبادی کے حوالے سے دوٹوک اور واضح مؤقف اختیار نہیں کررہی۔“
ابھی حال ہی میں  جماعت اسلامی ضلع ائرپورٹ کے تحت درست مردم شماری، بااختیار شہری حکومت، فوری بلدیاتی انتخابات اور شہر کے گمبھیر مسائل کے حل کے سلسلے میں شارع فیصل اسٹار گیٹ پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس مظاہرے سے امیر جماعت اسلامی کراچی اور امیر جماعت اسلامی ضلع ائرپورٹ توفیق الدین صدیقی و دیگر نے خطاب کیا۔ مظاہرین ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے جن پر تحریر تھا ”حق دو کراچی کو“، ”پورا ٹیکس اور آدھی گنتی نامنظور نامنظور“، ”تین کروڑ عوام کا نعرہ مردم شماری دوبارہ“، ”وفاق کے ارادے چکناچور۔۔۔ آدھی گنتی نامنظور“، ”وفاق کا خواب چکنا چور۔۔۔ آدھی گنتی نامنظور“، ”لولی پاپ نہیں بااختیار شہری حکومت“، ”کوٹہ سسٹم ختم کرو“، ”کراچی کے نوجوان بے روزگار کیوں؟“، ”اتحادی جماعتوں کی سیاست بازی نہیں چلے گی“، ”کراچی کا مطالبہ۔۔۔ مردم شماری دوبارہ“۔
حافظ نعیم الرحمٰن نے اس موقع پر کہا کہ کراچی کو پیکیجز کی خیرات نہیں اس کا حق چاہیے، اعلانات نہیں اقدامات چاہئیں، وفاقی حکومت کی جانب سے پیٹرول، ایل پی جی اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ قابلِ مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلزپارٹی تعصبات کو ختم کرکے حق اور انصاف کے ساتھ ملازمتیں مہیا کرے۔ اس وقت ملک میں چینی مافیا، آٹا مافیا، میڈیکل مافیا اور بجلی مافیا موجود ہے۔ سال 2020ء کے آخر میں وفاقی حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرکے عوام کو نئے سال کا تحفہ دیا ہے۔ حکمران آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے غلام بنے ہوئے ہیں جو قرضہ حاصل کرنے کے لیے ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سال 2020ء رخصت ہوگیا ہے، نئے سال میں بھی حکمرانوں کے موجودہ رویّے کے باعث مسائل حل ہونے کی امید نہیں، ہر گزرتے دن کے ساتھ مسائل میں اضافہ ہورہا ہے، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، گٹر ابل رہے ہیں، ٹرانسپورٹ کا نظام موجود نہیں ہے، شہر میں اس وقت 28 لاکھ موٹرسائیکلیں ہیں اور بہت بڑی تعداد میں شہری کاروں میں سفر کررہے ہیں، اگر شہریوں کو ٹرانسپورٹ کا نظام دے دیا جائے تو اس کے نتیجے میں ٹریفک کا مسئلہ بآسانی حل ہوجائے گا، ایم کیو ایم نے دو ماہ قبل پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر ایس آر او کے ذریعے کوٹہ سسٹم کی مدت میں اضافہ کیا، پی ٹی آئی کی کراچی میں 14اور ایم کیو ایم کی 4 نشستیں ہیں، ایم کیو ایم نے مردم شماری کے مسئلے پر صرف تحفظات کا اظہار کیا اور حکومت کو چھوڑنے کا صرف سوچ رہے ہیں۔ کراچی کے عوام کو ایسے سیاست دانوں کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کراچی میں کے سی آر اور کے فور منصوبہ بنانا چاہتے ہیں، ہم اُن سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ یہ منصوبہ ڈیڑھ کروڑ لوگوں کے لیے ہے یا تین کروڑ لوگوں کے لیے؟ دنیا بھر میں پراجیکٹس بنانے کے لیے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق فیصلہ کیا جاتا ہے، لیکن کراچی کے عوام کو پورا گنا ہی نہیں گیا تو پھر یہ منصوبے کیسے درست ہوسکتے ہیں؟ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی نے شہری انتخابات نہ کرانے پر اتفاق کیا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں لوکل باڈیز کا غاصبانہ ایکٹ ختم ہونا چاہیے، 6 ہزار سرکاری آسامیوں میں سے کراچی کے لیے صرف 343 ملازمتیں کراچی کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی تعصب اور لسانیت کو فروغ دے رہی ہے، ہم سب کو متحد کرنا چاہتے ہیں۔ جماعت اسلامی کی ”کراچی کو حق دو“ تحریک کراچی میں رہنے والے تمام زبان بولنے والوں کی تحریک ہے۔ اس وقت جماعت اسلامی، کراچی کے عوام کا مقدمہ لڑرہی ہے اور اس کا مطالبہ ہے کہ کراچی کے عوام کو ان کا حق دیا جائے اور کراچی کے عوام کو صحیح گنا جائے۔ یہ مطالبہ نہ صرف درست ہے، بلکہ اس کو تسلیم کیے بغیر کراچی شہر ترقی کی طرف گامزن بھی نہیں ہوسکتا۔ شہر کے لوگوں اور نوجوانوں کا غصہ بڑھ رہا ہے، بے روزگاری کے اثرات چوری اور ڈکیتی کی صورت میں سامنے آرہے ہیں، یہی صورتِ حال رہی تو اس شہر کا شمار انارکی میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہوگا۔