ترجمہ: ناصر فاروق
دوری کے تاثر کے باوجود ایک دوسرے کی تہذیبی زندگی سے براہِ راست آشنائی دونوں (اسلامی دنیا اور چین)جانب نظر آتی ہے۔ جیسا کہ ہمیں بتایا جاتا ہے، مثال کے طور پر کہ دوسرے عباسی خلیفہ المنصور نے جب بغداد کی بنیادیں رکھیں، یہ بات اُس کے مدنظر رہی کہ دریائے دجلہ سے جغرافیائی نزدیکی ممکن ہو۔ اُس نے اس رستے پرچین تک تجارت کی راہ ہموار کی۔ بغداد سے لگاؤ کی ایک اور وجہ دریائے فرات کے رستے مغربی مسلم زمینوں سے محصولات کا آسان حصول بھی تھا۔ یہ اور دیگر کئی وجوہات تھیں جو بغداد کی تعمیر وترقی کی بنیاد بنتی چلی گئیں۔ بغداد شہر کو سات صدیوں تک اسلامی سلطنت کی شان وشوکت کا مرکز بننا تھا۔ چینی تجارتی شاہراہ پر المنصور کا یہ خواب ثمرآور ثابت ہوا۔ دو صدیوں بعد، بغداد کے مؤرخ الندیم معروف کتاب ’’الفہرست‘‘میں، ایک ایسی قاموس جس سے وقت کا ہر محقق واقف تھا، ایک چینی طالب علم کا ذکر کرتا ہے کہ جو حصولِ علم اور تحقیق وترجمہ کے لیے بغداد پہنچا تھا، یہ دسویں صدی کا ابتدائی زمانہ تھا۔ اس چینی طالب علم نے مشہور مسلم ماہرِ طب ابو بکر رازی سے درخواست کی تھی کہ یونانی حکیم جالینوس کا علمِ طب جتنی سرعت سے ممکن ہو املا کروادیں تاکہ وہ ان یونانی متون کوچین ساتھ لے جاسکے۔
ہوسکتا ہے یہ کہانی مکمل طورپر وضعی ہو۔ تاہم یہ ایک ایسے ذہنی سانچے کی خبر دے رہی ہے جو اُس وقت کے بغداد میں علمی رجحان کوظاہرکررہا ہے، اور یہ کہ یہاں کے علماء چینی طلبہ کی قابلیت اور جستجوکے معترف نظر آتے ہیں۔ مذکورہ طالب علم یونانی علم طب چین ساتھ لے جاسکا یا نہیں ، معلوم نہ ہوسکا۔ مجھے اور جوزف نیدھم کوشبہ ہے کہ وہ ایسا نہیں کرسکا تھا۔ کیونکہ چینی علم الادویہ میں آج تک یونانی علم طب کی فلسفیانہ جھلک دکھائی نہیں دیتی۔
اگرثقافتی سطح پر دیکھا جائے اور سائنسی درستی سے قطع نظر کیا جائے، یہ یقینی بات ہے کہ ابتدائی مسلم علماء میں چینی تہذیب کے تصورات مصدقہ طورپر پائے جاتے تھے۔ دیگر عرب ذرائع علم بھی اس تعلق کی تصدیق کرتے ہیں، ان میں چینیوں کی ہرشعبہ زندگی میں حیرت انگیز مہارتوں اور علوم کا ذکرملتا ہے۔ چودہویں صدی کے ماہرِ جغرافیہ قزوینی کے الفاظ میں، ہم یہ جان سکے ہیں کہ چینیوں کی صنعتی مہارتیں کمال پر تھیں۔ اس سے قبل نویں صدی کا عالم جاحظ پہلے ہی یہ خبر دے چکا تھا کہ چینی قوم دستکاری اور صنعت کاری میں عمدہ صلاحیتوں کی حامل ہے، اورخدا تعالیٰ نے اس معاملے میں اس قوم پرخاص مہربانی کی ہے(جاحظ کا یہ مشاہدہ اور تبصرہ آج بھی کس قدر درست ہے۔ مترجم)۔
اعلیٰ چینی مہارتوں کا تصور اُن تیکنیکیات سے مزید مستحکم ہوا جو چین کا تجارتی سفر کرنے والے مسلمان اپنے ساتھ اسلامی دنیا لائے، اور انھیں صنعت وحرفت میں استعمال کیا۔ خاص طور پر جہاز رانی سے متعلق آلات سازی چینیوں کی دین تھی۔ مقناطیسی کمپاس چینیوں نے ایجاد کیا تھا، جسے اسلامی دنیا میں بہتر سے بہتر بنایا گیا، اور پھر وہاں سے یہ یورپ پہنچا۔
چینی کاغذ کا حصول بھی اسی رستے سے ہوا۔ چینیوں کی یہ ایجاد آٹھویں صدی کے وسط میں مسلمانوں میں عام ہوئی، اور پھر یہاں سے یورپ پہنچی۔ چینی ریشم کی صنعت بھی اسلامی دنیا میں رواج پاگئی۔ یہ وہ دور تھا کہ جب دنیا بارود کے عسکری استعمال سے ناواقف تھی، مگر یہ بھی براستہ اسلامی دنیا یورپ تک پہنچا۔ جب کوئی قرون وسطیٰ اور اس سے پہلے کے اسلامی دور پر نظر کرتا ہے، اُسے معاشرے میں گردش کرتی چینی اشیاء کی سحر انگیزی نمایاں نظرآتی ہے۔ یہ اسلامی دنیا میں چینی صناعی کی قدردانی ظاہر کرتی ہے۔ سترہویں صدی کا اندلسی مؤرخ احمد المقری التلمسانی ’’نفح الطیب‘‘ میں لکھتا ہے:’’اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے تین انسانی اعضاء کو بے مثل صلاحیتوں سے نوازا ہے: یونانیوں کے دماغ، چینیوں کے ہاتھ، اور عربوں کی زبان‘‘۔
یوں فطری طور پر چند چینی ایجادات اور فنی کاموں کے اسلامی دنیا پر اثرات نسبتاً زیادہ نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر کاغذ کی کلیدی اہمیت کو بروقت سمجھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بڑی سرعت سے اسلامی دنیا میں کاغذ کا استعمال عام ہوا۔ یوں آٹھویں اور نویں صدی میں اسلامی دنیا میں علم کا خالص انقلاب آگیا۔ اتفاقاً جس عالم نے چینی طالب علم کے سفر ِتحقیق کا ذکر کیا ہے، وہ وراق (کاغذ بنانے والا، بیچنے والا) کی بابت بھی تفصیل سے لکھتا ہے۔
چودہویں صدی کے شاہی افسر اور عالم شہاب الدین القشندی نے کاغذ کے لیے چھے عربی نام شمار کیے ہیں، اور پھر معیارات پر اُن کی درجہ بندی کی ہے، اور بغدادی کاغذ بہترین، جبکہ یورپی کاغذ بدترین قرار دیا۔ مزید اہم بات یہ کہ کاغذ کی ثقافتی وعلمی اہمیت بیان کرنے سے پہلے وہ کاغذ کی ایجاد کا سہرا چین کے سر باندھنا نہ بھولا تھا۔ اُس نے اس ضمن میں کاغذ کی اُن تمام اقسام کا ذکر کیا، جن سے کہ وہ واقف تھا۔ یہ بطور مسلمان شاہی افسر اُس کے لیے لازم تھا۔ اُس نے واضح طور پر اس بات پر زوردیا کہ قرآن کی طباعت کے لیے بغدادی کاغذ سب سے معیاری ہے، کیونکہ یہ ویلم کی مانند آسانی مٹایا یا بدلا نہیں جاسکتا۔ یہی وہ رجحان ہے جو ہارون رشید کے ہاں نظر آتا ہے، کہ جب اُس نے ساری سرکاری دستاویزات کو کاغذ پرمنتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
(جاری ہے)