حکومت پاکستان کا ایک اور امتحان
آزادکشمیر میں مسلم لیگ (ن) اور راجا فاروق حیدر خان کی حکومت اب چند ماہ کی مہمان ہے۔ رواں برس جولائی میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات منعقد ہونا ہیں، اور گلگت بلتستان کے انتخابی نتائج اور ماضی کی روایات کو دیکھیں تو مسلم لیگ (ن) دوبارہ اقتدار میں آتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ یوں نیا سال شروع ہوتے ہی آزادکشمیر میں انتخابی گہما گہمی کا آغاز ہونا ہے۔ بیوروکریسی کی نظریں ابھی سے اسلام آباد کے بادنما پر جم چکی ہیں، اور ہوا کا رخ معلوم ہوتے ہی بیوروکریسی کو نظریں پھیر لینا ہیں۔ صرف بیوروکریسی ہی نہیں، خود حکمران جماعت کے عملیت پسندوں کی نظریں بھی اسلام آباد کے بادنما پر مرکوز ہیں۔
ایک طرف حکومت کو درپیش یہ مشکلات ہیں، تو دوسری طرف ایک عدالتی بحران کو آواز دی جانے لگی ہے، جو سراسر ’’آبیل مجھے مار‘‘ والی صورتِ حال ہے۔ اس بحران کا تعلق آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے وجود اور عدم وجود سے ہے۔ حکومت آزاد جموں وکشمیر کے قائم مقام چیف جسٹس جناب سعید اکرم کے خلاف اسی انداز میں ریفرنس لانا چاہتی ہے جس طرح وفاق میں کچھ جج صاحبان کے خلاف شکایات کا پنڈورا باکس کھولنے کی کوشش کی گئی، جسے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں خود عدلیہ نے ہی واپس باکس میں بند کردیا تھا۔ یہ خبریں عام ہیں کہ حکومت ایوانِ صدر کو ایک درخواست دینے کی تیاریاں کررہی ہے، جس کے بعد ایوانِ صدر یہ ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل کو سماعت کے لیے بھیج دے گا۔ اس کے بعد بحرانی کیفیت کا آغاز ہونا یقینی ہے۔ حکومت کا فیصلہ بارودی سرنگ پر قدم بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
اس عدالتی اُلجھن کی کہانی یوں ہے کہ آزاد جموں وکشمیر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چودھری ابراہیم ضیاء کی ریٹائرمنٹ کے بعد چیف جسٹس کا منصب خالی چلا آرہا ہے۔ آئینی تقاضوں کے عین مطابق اورالجہاد ٹرسٹ اور یونس طاہر کیس کے فیصلوں کی روشنی میں چیف جسٹس کی اسامی کو ایک ماہ کے اندر پُر کیا جانا لازمی تھا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں اسد علی بنام وفاق پاکستان مطبوعہ PLD1998,SC161 اور الجہاد ٹرسٹ کیس PLD1996SC324 کو آزادکشمیر عدلیہ نے بھی مثال کے طور پر اپنا رکھا ہے، جس کے تحت سینئر ترین جج کو چیف جسٹس تعینات کیا جاسکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کے بعد سے نو ماہ تک دو ججوں پر مشتمل اعلیٰ ترین عدالت ایک جج کے بغیر کام کرتی رہی، اور اب عدالت کے ایک اور سینئر جج غلام مصطفیٰ مغل کی ریٹائرمنٹ کے بعد تو سپریم کورٹ صرف ایک معزز جج جناب جسٹس سعید اکرم پر مشتمل رہ گئی ہے، جن کا تقرر سینئر ترین جج ہونے کی بنا پر عمل میں آیا ہے۔ قائم مقام چیف جسٹس کا عہدہ وقتی طور پر تو معاملات چلانے کے کام آسکتا ہے، مگر یہ مستقل سربراہ کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔ قانون اور آئین کا تقاضا مستقل چیف جسٹس کا تقرر ہے۔ آزاد کشمیر کے عبوری آئین ایکٹ 74کی روشنی میں سپریم کورٹ کی تشکیل چیف جسٹس اور دو ججوں سے ہی تکمیل پاتی ہے، اور موجودہ حالات میں یہ نامکمل ادارہ سپریم کورٹ کی تشریح اور روح پر پورا نہیں اُترتا۔ ماضی کی نظیروں کی روشنی میں اس عمل میں تاخیر سے عدلیہ کا ادارہ ایک بے مقصد اور مصنوعی بحران کی طرف بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اس رویّے سے مختلف قیاس آرائیاں اور افواہیں بھی پھیلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ اس کیس میں بھی افواہوں اور شکوک وشبہات سمیت یہ سب کچھ ہونے لگا ہے۔ کوئی ایسا خفیہ ہاتھ حکومت کو ہلہ شیری دے کر پاکستان کی طرح عدالتی پنڈورا باکس کھولنے کی طرف لے جا سکتا ہے، مگر موجودہ حالات میں یہ عمل حکومت کو بندگلی میں پہنچا سکتا ہے۔ اس تاخیر کی وجہ آزادکشمیر کے عبوری آئین میں تیرہویں ترمیم کو قرار دیا جاتا رہا ہے، جس کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے تقرر کے معاملے میں وزیراعظم پاکستان یا چیئرمین کشمیر کونسل کے اختیارات کو ختم کرتے ہوئے کونسل میں بدل دیا گیا تھا۔ گزشتہ دنوں آزادکشمیر اسمبلی کا اجلاس طلب کرکے تیرہویں ترمیم کے ابہام کو دور کرنے کے لیے چودہویں ترمیم کردی گئی، اور اس معاملے میں فیصلہ کن اتھارٹی ایک بار پھر ادارے کے بجائے چیئرمین کونسل کے پاس چلی گئی۔ یہ مشکل حل ہوتے ہی حکومت کو حالات کے دھاگے کو مزید اُلجھانے کے بجائے قانون اور آئین کی روح کے عین مطابق قائم مقام چیف جسٹس جناب سعید اکرم کی بطور مستقل چیف جسٹس تقرری کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ جسٹس سعید اکرم ریاست کے ایک معروف خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک ماہر وکیل کی شناخت رکھتے ہیں۔عدلیہ میں بھی ان کی شناخت ایک دیانت دار،معاملہ فہم، اصول پسند اوردرویش منش جج کے طور پر قائم ہے جو اپنے فیصلوں میں قانون کی بالادستی کو ملحوظ رکھتے ہیں۔ان کی شخصیت گروہ بندی اور برادری ازم جیسی قباحتوں سے پاک ہے۔اس پس منظر کی بنا پر جسٹس سعید اکرم سے توقع جا سکتی ہے کہ وہ اپنے فیصلوں سے آزادکشمیر کی اعلیٰ عدلیہ کے وقار میں اضافہ کریں گے۔
آزادکشمیر کے حوالے سے یہ تقرر اور فیصلہ چیئرمین کشمیر کونسل عمران خان کا پہلا امتحان ہے۔ان کے اس ایک فیصلے سے یہ بات طے ہوجائے گی کہ وہ آزادکشمیر میں قانون اور آئین کی پاسداری اور سیاسی ضرورتوں اور مصلحتوں میں سے کس راہ پر چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔