خوبصورت اور روشن چہرہ، جسم بھرا ہوا، گھنی داڑھی سفید براق، جو چہرے پر خوب جچتی۔ رفتار ایسی تھی کہ چلتے تو ساتھ ساتھ چلنے والے ساتھ نہ دے پاتے۔ شخصیت وجیہ، قد درمیانہ، گفتگو کرتے تو علم کے موتی لٹاتے، سننے والوں کی طلب کم نہ ہوتی۔ گفتگو مدلل ہوتی، جس میں قرآن و سنت کے حوالہ جات اور تاریخی امثال ہوتیں۔ حالاتِ حاضرہ پر بات کرتے تو معلومات کے دریا بہا دیتے۔ کارکنان کو عزم دینا ہوتا تو اپنے ہاتھ کو مُکّا بناکر کہتے ’’میرے عزیزو‘‘…اور کارکنان میں بجلیاں بھر دیتے، جذبات گرما دیتے۔ سننے والے اپنے ہوتے یا غیر، یکساں امید پاتے۔ قاضی صاحب کو اپنی بات کہنے کا فن ہی نہیں آتا تھا، بلکہ وہ دل و دماغ میں اتارنا بھی جانتے تھے۔ تحرک، جدوجہد اور بے قراری ان کی شخصیت کے جوہر تھے۔ ان کی زندگی شہادتِ حق اور اقامتِ دین کا چلتا پھرتا نمونہ تھی۔ تمام عمر فریضہ اقامت ِ دین… دن دیکھا نہ رات، جدوجہد کرتے رہے۔ جہاد ان کی محبت تھی، اس محبت کوفراواں کرنے اور دیوانگی میں بدلنے کے لیے معرکہ آزما رہے۔ جہادِ افغانستان ہو یا جہادِ کشمیر،وہ حقیقی معنوں میں ان کے پشی بان اور معمار تھے۔ جدوجہدِ آزادیِ کشمیر کو انہوں نے نیا آہنگ دیا۔جماعت اسلامی کے امیر منتخب ہوئے تو جماعتی کاز آگے بڑھانے، جماعت کی مقبولیت میں اضافے اور دعوت و خدمت کی سیاست کو عوامی رنگ دینے کے لیے مجاہدانہ انداز اپنایا۔ عوامی مہمات ہوں یا روڈ کارواں، یا ٹرین مارچ…عوامی جلسے ہوں یا جلوس اور دھرنے، انہوں نے ان پروگرامات کا طوفانی سلسلہ شروع کیا۔ پاکستان میں دھرنا سیاست ان کی ایجاد کردہ ہے جسے انہوں نے عوامی تحرّک اور عوامی مسائل کے حل کے لیے استعمال کیا۔ پاکستان اسلامی فرنٹ بناکر عوام کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح پاسبان کا آئیڈیا خوبصورت اور نوجوانوں کی توجہ حاصل کرنے والا آئیڈیا تھا۔ پاکستان اسلامی فرنٹ اور پاسبان جیسے آئیڈیاز جماعت ہم آہنگ کرپاتی تو شاید آج پاکستانی سیاست کے انداز ہی اور ہوتے، اور جماعت اسلامی پاکستان سیاست میں پیش قدمی کی راہ پر ہوتی۔ قاضی حسین احمد ذاتی زندگی میں اجلے اور مضبوط کردار کے عملی انسان تھے۔ ایک بار ایک مجلس میں کسی صاحب نے انہیں بتایا کہ ڈاکو ہم سے گاڑی چھین کر لے گئے، تو قاضی صاحب نے کہا کہ اگر میں ہوتا تو ڈاکوئوں کو ہرگز گاڑی نہ لے جانے دیتا۔ سفر میں ہوتے تو جہاں ذکر و اذکار کرتے، وہیں رابطوں کا کام بھی جاری رہتا۔ نمازوں کے بارے میں بہت حساس تھے۔ نماز کا وقت ہوجاتا تو فوری ادائیگی کا اہتمام کرتے۔ رات کی نماز ان کو بہت محبوب تھی۔ چاہے گھر میں ہوتے یا سفر میں، رات کو لازمی اٹھتے اور تہجد کا اہتمام کرتے۔ ان کا چہرہ شب زندہ دار ہونے کی گواہی دیتا۔ روشن روشن، توجہ کھینچنے والا، پُرکشش اور پُرامید اور عزم سے معمور! تعلق بااللہ کی یہ کیفیت جدوجہد میں عزم، امید اور روشنی کی علامت بن جاتی۔ ان سے ملنے والے جہاں ان میں کشش محسوس کرتے، وہیں ان کی گفتگو میں چاشنی اور جاذبیت۔ ان کے پاس چند لمحات گزارنے والا اپنائیت اور اخلاص محسوس کرتا۔ وہ کھرے، صاف ستھرے اور انمول آدمی تھے۔ ایسی شخصیات اور کردار معاشرے سے ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ بڑے قد اور وژن کے لوگوں کے چلے جانے سے قحط الرجال کا سماں ہے۔ معاشرے میں ایسے کردار اور اعمال کے لوگ کم ہوتے جارہے ہیں جو خود نیکی پر کاربند تھے اور نیکی کی آبیاری کرتے تھے۔ بدی کی روک تھام اور اس کا قلع قمع کرنے کے لیے کمربستہ رہتے۔ اپنی اقدار و روایات کی نہ صرف حفاظت کرتے بلکہ ان پر عمل پیرا رہتے۔ قاضی حسین احمد اگلے زمانے کے انسان تھے۔ پاک نظر و پاک باز، بندۂ مولا صفات۔ مولانا ظفر علی خان نے اگلے زمانے کے مسلمانوں کا نقشہ کھینچا:۔
اب کہاں وہ مسلماں اگلے زمانے والے
گردنیں قیصر و کسریٰ کی جھکانے والے
بات کیا تھی کہ روما سے نہ ایران سے دبے
چند بے تربیت سے اونٹوں کے چرانے والے
جن کو کافور پہ ہوتا تھا نمک کا دھوکا
بن گئے خاک کو اکسیر بنانے والے
اقبال کے اشعار اردو ہوں یا فارسی، قاضی صاحب کی گفتگو کا حصہ ہوتے۔ ان کی مسکراہٹ دل آویز اور دلنواز ہوتی۔ ”جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا، لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ“ ان کی شخصیت کا وصف تھا۔ وہ اقبال کے کتنے ہی اشعار کا نمونہ تھے۔