قلعہ بہت اونچا تھا۔ فصیل پر ہزارہا ہندو کھڑے چیخنے کے انداز میں کہہ رہے تھے: ’’ہمارا دیوتا لوگوں کو یہاں کھینچ لایا ہے تاکہ تم سب کو ایک ساتھ ختم کردیا جائے اور تم سب سے ان تمام بتوں کا بدلہ لے جن کو تم نے پاش پاش کردیا‘‘۔ اور وہ قلعہ تھا سومنات کا۔ یہ قلعہ ہندوؤں کا سب سے بڑا مندر ہے۔ اس کو سومنات کا مندر کہا جاتا ہے۔ سلطان محمود غزنوی کے حملے سے اس کو بچانے کے لیے لاکھوں ہندو چاروں طرف آکر جمع ہوئے تھے۔ ان میں ہندوؤں کا راجا پریم دیو سب سے آگے تھا۔ ہندوؤں کے لشکر کے مقابلے میں سلطان محمود غزنوی کے لشکر کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی، اس کے باوجود سلطان نے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر سومنات پر حملہ کردیا، اس کی فو ج نے سومنات پر تیروں اور پتھروں کی بارش کردی۔ شہر کی فصیل پر جتنے ہندو موجود تھے وہ ان تیروں اور پتھروں سے بچنے کے لیے نیچے اتر گئے۔ مسلمان مجاہد سیڑھیاں لگاکر قلعہ پر چڑھ گئے اور نعرۂ تکبیر بلند کرتے ہوئے ہندوؤں پر حملہ آور ہوئے۔ مجاہدین شام تک بے شمار ہندوؤں کو موت کے گھاٹ اتار چکے تھے۔ رات کے آثار شروع ہوئے تو سلطان نے مجاہدین کو واپس بلالیا۔ دوسری صبح پھر پہلے دن کی طرح حملہ کیا گیا۔آج بھی وہ سیڑھیوں کے ذریعے قلعہ کی دیوار پر چڑھنے میں کامیاب ہوگئے۔ ادھر ہندو اپنے بت سومنات سے چمٹ چمٹ کر دعائیں کررہے تھے۔ آخر ہندوؤں نے تیسرے دن باہر نکل کر سلطان پر حملہ کردیا۔ شہر کے چاروں طرف ہندوؤں کا ایک سمندر نظر آرہا تھا۔ ہندوؤں کی اتنی بڑی تعداد دیکھ کر سلطان ایک کونے میں گیا اور اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا کر دعا کرنے لگا کہ مسلمانوں کو فتح مبین نصیب ہو۔ دعا سے فارغ ہوکر اس نے مسلمانوں کو جوش دلایا اور پوری قوت سے حملہ کرنے کا حکم دیا۔ اس روز بہت خونریز جنگ ہوئی۔ آخر اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی۔ ہندو شکست کھا کر بھاگے اور مسلمان قلعہ میں داخل ہوگئے۔
سومنات کا مندر بہت بڑا تھا۔ اس کی چھت بھی بہت اونچی تھی۔ سلطان مندر میں داخل ہوا۔ وہ اتنے بڑے بت کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔ اس نے حکم دیا کہ بت کو توڑ دیا جائے۔ اُس وقت ہندوؤں کے بڑے بڑے سردار اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوگئے۔ انھوں نے کہا: ہم سارے ہندوستان کی دولت آپ کے قدموں میں ڈھیر کردیتے ہیں، آپ ہمارے بت کو نہ توڑیں۔
یہ سن کر سلطان محمود غزنوی نے اُس وقت یہ تاریخی جواب دیا: ’’میں چاہتا ہوں کہ قیامت کے دن بت شکن کے نام سے پکارا جاؤں، نہ کہ بت فروش کے نام سے‘‘۔ پھر جب بت توڑا گیا تو اس کے اندر سے اس قدر ہیرے جواہرات اور سونا ہاتھ آیا کہ وہ اس دولت سے زیادہ تھا جو ہندو دے رہے تھے۔ اس موقع پر مجاہد ملا عمر کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔
انھوں نے جب افغانستان میں بت توڑنے کا حکم دیا تو اسی طرح کافر ملکوں نے پیش کش کی تھی کہ اتنے کروڑ ڈالر لے لیں بت نہ توڑیں۔ انھوں نے بھی سلطان کی طرح جواب دے کر صاف انکار کردیا اور بت توڑ دیے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقع پرتمام بتوں کو توڑنے کا حکم دیا تھا اور جو بت دور دراز فاصلوں پر تھے ان کو توڑنے کے لیے صحابہ کرام ؓ کو بھیجا تھا۔ سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر 17 حملے کیے ۔ ان میں سب سے بڑا حملہ سومنات پر تھا۔ سومنات کا یہ مندر ہزاروں سال پرانا تھا۔ اس کی عمارت 56 ستونوں پر کھڑی تھی۔ یہ ستون ساگوان کی لکڑی کے تھے۔ ان میں سیسہ بھرا ہوا تھا۔ مندر کی عمارت کے اوپر سونے کے 14 لٹو تھے، اور یہ لٹو دور سے چمکتے نظر آتے تھے۔ سومنات بت کی اونچائی 5 گز تھی، اس میں سے 2 گز زمین کے اندر تھے۔ یہ سیاہ پتھر کو تراش کر بنایا گیا تھا۔ اس میں اَن گنت ہیرے جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ ہندوؤں کا یہ عقیدہ تھا کہ سارے ہندوستان کے بت اس بڑے بت کے ماتحت ہیں، اور یہ کہ تمام روحیں انسانوں سے جدا ہوکر سومنات میں آتی ہیں۔ چاند گرہن کے دن دو لاکھ کے لگ بھگ ہندو اس مندر میں جمع ہوتے تھے۔ سلطان محمود 63 سال کی عمرمیں 421 ہجری میں اس دنیا سے رخصت ہوا لیکن آج بھی اس کی یادیں باقی ہیں۔
بیادِ مجلس اقبال
عزیز تر ہے متاعِ امیر و سلطاں سے
وہ شعر جس میں ہو بجلی کا سوز و براقی
علامہ اقبال اپنے کلام میں مختلف مقامات پر مختلف انداز میں اپنے کلام کی حقیقت اور اہمیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ اس شعر میں بھی وہ بتارہے ہیں کہ اگر ایسا شعر جس میں جذبوں کو جلا بخشنے اور مشکلات کو حل کرنے کے لیے روشنی اور رہنمائی کا پیغام ہو تو ایسا شعر حقیقت میں بادشاہوں کے خزانوں سے زیادہ قیمتی ہوتا ہے، اس لیے کہ اس میں روشنی ہوتی ہے، حرارت ہوتی ہے اور حیات آفرینی کا درس ہوتا ہے۔ علامہ اپنے کلام کے سوزو گداز سے بخوبی آگاہ ہونے کی بنا پر بجا طور پر اپنے مخاطب کو متوجہ کرتے ہیں کہ میرے کلام کے معنی سمجھو اور اس میں بتائی گئی حکمت و دانائی سے فائدہ اٹھا کر اپنے دور کی مشکلات کا مقابلہ کرو۔