حکومت ،پی ڈی ایم سیاسی دنگل

پی ڈی ایم کی قیادت حکومت کو 2021ء کا سورج نہ دیکھنے کا خواب چکنا چور

سیاسی دنگل اس وقت ملک بھر میں زوروں پر جاری ہے، حکومت اور حزب اختلاف گلا پھاڑ پھاڑ کر ایک دوسرے کو للکارنے میں مصروف ہیں۔ وزیر اعظم اور ان حواریوں یا ترجمانوں کا زور بیان اس بات پر صرف ہو رہا ہے کہ حزب اختلاف کے بھان متی کے کنبے کی احتجاجی تحریک کا واحد مقصد اپنے خلاف قائم بدعنوانی کے مقدمات اور نیب کی کارروائیوں کو رکوانا یعنی این آر او حاصل کرنا ہے جو وزیر اعظم عمران خان کسی صورت نہیں دیں گے کیونکہ یہ ملک و قوم سے غداری ہو گی۔دوسری جانب کچھ عرصہ پہلے تک ایک دوسرے کے خون کے پیاسے، ایک دوسرے کو بدعنوانی کا بادشاہ اور مسٹر دس فیصد سے مسٹر ایک سو دس فیصد تک کے القابات سے نوازنے، پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت برآمد کرنے اور گلے میں رسہ ڈال کر سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعویدار ایک ہی سٹیج پر باہم شیر و شکر وزیر اعظم عمران خاں کی حکومت ختم کرنے کے لیے مشترکہ تحریک چلانے میں مصروف ہیں کل تک ایک دوسرے کے خاندانوں پر دشنام طرازی کرتے نہ تھکنے والے شریف اور زرداری خاندان کے چشم و چراغ آج ایک دوسرے کی میزبانی اور مہمانی کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے ماضی میں بے حیائی سے، غداری تک کون سا الزام تھا جو مرحومہ بے نظیر بھٹو پر عائد نہیں کیا تھا مگر اب میاں صاحب کے صاحبزادی، مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر بلکہ مدار مہام مریم نواز صاحبہ اسی بے نظیر بھٹو کی برسی کی تقریب میں شرکت کے لیے لاہور سے خصوصی طور پر لاڑکانہ تشریف لے گئیں، جلسے میں مرحومہ کی شان میں قصیدے پڑھے اور بلاول بھٹو زرداری اور ان کی ہمشیرہ آصفہ کے ہمراہ بے نظیر بھٹو کی قبر پر حاضری دے کر پھولوں کی چادر بھی چڑھائی، اسی کو کہتے ہیں انقلابات ہیں زمانے کے۔
حکومتی زعما اگر حزب اختلاف کے اس اتحاد و احتجاج کا مقصد این آر او کا حصول قرار دے رہے ہیں تو حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کے قائدین جواب میں بتکرار یہ سوال دہرانے میں مصروف ہیں کہ این آر او مانگا کس نے ہے؟ بلکہ اب تو ایک قدم آگے جا کر وہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہماری احتجاجی تحریک سے خوفزدہ ہو کر اب وزیر اعظم عمران خان ہم سے این آر او کی بھیک مانگ رہے ہیں۔فریقین کے دعوے اور جوابی دعوے اپنی جگہ مگر ہماری رائے یہ ہے کہ دونوں اصل میں عوام کو بے وقوف بنانے میں مصروف ہیں اور سیاسی میدان میں جو دنگل برپا دکھائی دیتا ہے یہ حقیقت میں نورا کشتی کے سوا کچھ نہیں، وہ ایک دوسرے کو این آر او دے اور لے چکے ہیں ورنہ میاں نواز شریف اور مریم نواز شریف، جیل کی سلاخوں سے ہسپتال، وہاں سے گھر اور پھر میاں نواز شریف جاتی عمرہ سے لندن، کیا این آر او کے بغیر ہی چلے گئے ہیں؟ ڈاکٹر عاصم اور آصف علی زرداری پس دیوار زنداں سے اپنے محلات تک حکومت کی مرضی کے بغیر ہی پہنچ گئے ہیں۔ اسی طرح حزب اختلاف اگر حکومت کے خلاف سنجیدہ ہوتی تو حکومت کی آدھی مدت تک خاموش رہنے کے بعد کیا اسی طرح کی ٹھنڈی ٹھنڈی اور ڈھیلی ڈھالی تحریک چلا رہی ہوتی، جناب عمران خاں کی حکومت کا خاتمہ اگر اس کا ہدف ہوتا تو جلسے، جلوس اور نعروں کی بجائے قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ سے اپنے ارکان کے استعفوں کا متعلقہ ایوانوں کے اندر اعلان کر کے حکومتی عمل کو پہلے روز ہی مفلوج کر سکتی تھی، احتجاجی جلسوں اور ریلیوں وغیرہ کے ذریعے عوام کو پریشان کرنے اور شہریوں کے معمولات زندگی میں تعطیل پیدا کرنے کی کوئی ضرورت ہے نہ جواز…!!!۔
محترمہ مریم نواز کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر ہیں اور بار بار حکومت سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں کریں گے، کی رٹ لگائے ہوئے ہیں مگر اسے پارٹی کے اندر دو عملی کا نام دیا جائے یا شخصیات کا باہمی تصادم و تضاد کہ پارٹی کے صدر محترمہ مریم کے چچا جان، میاں شہباز شریف جیل میں حکومت سے مذاکرات کی داغ بیل ڈال چکے ہیں، حکومت کے اتحادی، سابق وفاقی وزیر محمد علی درانی، پیر صاحب پگاڑا کا پیغام لے کر جیل میں میاں شہباز شریف سے ملے۔ اس ملاقات میں انہوں نے نہ صرف مفاہمت اور مصالحت کی سیاست کے اپنے پرانے موقف کا اعادہ کیا بلکہ درانی صاحب کے ذریعے یہ پیغام بھی مقتدر حلقوں تک پہنچایا کہ سیاسی مفاہمت کے لیے فضا ساز گار اور ماحول بہتر بنایا جائے۔ اس ملاقات پر چچا پر گرجنے برسنے کی بجائے محترمہ مریم نواز نے حکومت کو ہدف تنقید بنایا کہ خاندان والوں کو تو ملاقات کے لیے ہفتہ ہفتہ انتظار کرایا جاتا ہے مگر محمد علی درانی کو فوری طور پر جیل میں ملاقات کی اجازت دے دی گئی، محترمہ کو کیا معلوم کہ اس ملاقات کے لیے کب سے سلسلہ جنبانی جاری تھا اور پھر بڑی سیدھی سی بات ہے کہ اگر میاں شہباز شریف نہ چاہتے تو کیا محمد علی درانی یا کوئی اور ان سے زبردستی ملاقات کر سکتا تھا؟
یہاں یہ تذکرہ بھی بے جا نہ ہو گا کہ میاں نواز شریف اور محترمہ مریم نواز تو سزا یافتہ ہونے کے باوجود جیل سے باہر آ چکے ہیں، میاں صاحب بیرون ملک بیٹھ کر اپنی ’’مبینہ بیماری‘‘ کا علاج کرانے سے گریزاں ہیں اور پاکستان کی اندرونی سیاست میں بھر پور حصہ ہی نہیں لے رہے بلکہ بہت سی حدود و قیود بھی پھلانگ چکے ہیں، یہی حال محترمہ کا اپنا بھی ہے جو اندرون ملک سیاسی دھما چوکڑی میں مصروف ہیں۔ میاں شہباز شریف تو ابھی تحقیق و تفتیش کے مراحل میں ہیں ان کی ضمانت تو آسانی سے ہو سکتی ہے مگر انہوں نے از خود عدالت عالیہ لاہور سے اپنی درخواست ضمانت واپس لے کر جیل میں سکون کرنا مناسب سمجھا یہی حال ان کے فرزند حمزہ شہباز کا ہے جو ضمانت کے لیے سنجیدگی سے ملک کی اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کرنے کی بجائے’’گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے‘‘ کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ کیا یہ سب کھیل کے طے شدہ مسودہ کا حصہ تو نہیں…؟؟؟
اسمبلیوں سے استعفوں کا بھی عجیب مخمصہ ہے جسے معمہ بنا کر رکھ دیا گیا ہے لاہور کے مینار پاکستان پر منعقدہ ’’آر یا پار‘‘ مگر ٹھس جلسہ میں اپنے کلیدی خطاب کے دوران پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اعلان کیا کہ 31 دسمبر تک تمام جماعتیں اپنے اپنے ارکان اسمبلی سے استعفے لے کر پارٹی سربراہان کے پاس جمع کر لیں گی پھر ہم ان استعفوں سمیت جنوری کے آخر یا فروری کے شروع میں اسلام آباد کی جانب مارچ کریں گے۔ جلسے کے اگلے روز جاتی عمرہ میں مریم نواز صاحبہ کی میزبانی میں پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس منعقد کیا گیا تو اس میں یہ نوید سنائی گئی کہ وزیر اعظم عمران خان 31 جنوری تک از خود استعفے دے دیں ورنہ ہم فروری کے اوائل میں اپنا سربراہی اجلاس پھر منعقد کریں گے جس میں آئندہ لائحہ عمل لانگ مارچ اور استعفوں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا اس طرح جو ’’آر یا پار‘‘ 13 دسمبر کے مینار پاکستان پر جلسے میں ہونا تھا اسے پی ڈی ایم کی قیادت نے حکومت کی درخواست کے بغیر ہی شاید کسی کی ہدایت پر کم از کم دو ماہ کے لئے موخر کر دیا اور اب بھی کسی کو یہ معلوم نہیں کہ استعفوں کا فیصلہ کن اقدام ، کب اٹھایا جائے گا یہ قدم اٹھ بھی پائے گا یا نہیں کیونکہ اس سے بہت پہلے مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علماء اسلام اندرونی چپقلش اور بغاوت سے دو چار ہو چکی ہے اور مولانا نے اپنی قیادت سے اختلاف کرنے والے چار سینئر ترین رہنمائوں کو جماعت سے خارج کر دیا ہے، ملک میں جمہوریت اور آزادی اظہار کے علمبردار اپنی جماعت میں اختلاف رائے کے اظہار کی آزادی دینے اور جماعت کو موروثیت سے نکال کر جمہوریت کی پٹڑی پر ڈالنے کے لیے کسی صورت آمادہ نہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت سے متعلق بھی یہ خبریں سامنے آ رہی ہیں کہ وہ استعفوں کے حتمی اقدام پر فی الحال آمادہ نہیں کم از کم سینٹ کے انتخابات کا موقع وہ ضائع کرنا نہیں چاہتے کہ انہیں سندھ سے سینٹ کی نشستوں پر واضح اکثریت حاصل ہونا یقینی نظر آ رہا ہے اور مجموعی طور پر بھی سینٹ میں پیپلز پارٹی کو اپنی تعداد بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اس لیے وہ پی ڈی ایم کی خاطر استعفوں کے آپشن کو اختیار کرنے سے گریزاں ہے خود نواز لیگ کے بھی بہت سے ارکان پارٹی قیادت کو استعفوں سے متعلق اپنے تحفظات سے آگاہ کر رہے ہیں کہ عام انتخابات اب کروڑوں کا کھیل ہے اور گزشتہ دو اڑھائی برس میں چونکہ انہیں بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا موقع بھی نہیں ملا اس لیے وہ کروڑوں کے نئے خرچہ سے بچنے کا محفوظ راستہ اختیار کرنے کے حق میں ہیں۔ چنانچہ نواز لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ بھی فروری میں شدید سردی کے باعث لانگ مارچ اور استعفوں کے معاملہ کو ملتوی کرنے کا عندیہ دے چکے ہیں اور ان کی رائے میں یہ معاملات اکتوبر 2021 ء تک موخر ہو سکتے ہیں۔ یوں پی ڈی ایم کی قیادت کے حکومت کو 2021ء کا سورج نہ دیکھنے دینے کے خواب تو پہلے ہی چکنا چور ہو چکے ہیں اب 2021 میں بھی پی ڈی ایم، اس کی قیادت اور اس کے ’’آر پار‘‘ کے دعوئوں کا حشر بھی جانے کیا ہو…؟ دیکھنا یہ ہے کہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہتا ہے اور عوام بے چارے، مہنگائی کے مارے اور بے روز گاری کے ستائے کب تک بے وقوف بنائے جاتے رہیں گے۔ اس دوران دیکھئے کیا گزرے ہے قطرے پر گہر ہونے تک…!!!۔