مردم شماری اور کراچی

ترجمہ : ابو الحسن اجمیری
وفاقی کابینہ نے 2017 کی مردم شماری کے نتائج کی منظوری دے دی ہے۔ جن کے مفادات کراچی سے غیر معمولی حد تک وابستہ ہیں متعدد سیاسی جماعتوں نے وفاقی کابینہ کے فیصلے کو مسترد کردیا ہے۔ مردم شماری کے عبوری نتائج کے اعلان کے بعد سے اب تک کراچی کی آبادی سے متعلق اعداد و شمار کو قبول کرنے سے گریز کیا جاتا رہا ہے۔ سرکاری سطح پر دعوٰی کیا جاتا رہا ہے کہ کراچی کی آبادی ایک کروڑ 65 لاکھ تک ہے جبکہ سیاست دان، آبادی کے اعداد و شمار کے ماہرین، ترقیاتی ماہرین اور سیاسی و معاشرتی کارکن حکومتی اعداد و شمار پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتے آئے ہیں کہ کراچی کی آباد ی دو تا تین کروڑ ہے۔ قومی سیاست کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ معاملہ ایسی آسانی سے طے نہیں ہوسکے گا۔
کراچی ایک منفرد شہری خطہ ہے جس میں غیر معمولی سطح پر سماجی، نسلی، لسانی، مذہبی (مسلکی) اور سیاسی تنوع پایا جاتا ہے۔ یہ غیر معمولی طاقت یا انفرادیت اعداد و شمار کی زبان میں بھی درست طریقے سے بیان کی جانی چاہیے۔ سندھ کے دور افتادہ اضلاع، جنوبی پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے علاوہ بیرون ملک سے کراچی کی طرف نقلِ مکانی ہوتی رہی ہے اور اب بھی جاری ہے۔ اس عمل سے کراچی کو جن سیاسی، سماجی اور معاشی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اُن کا درست اندازہ لگانے کے لیے لازم ہے کہ متعلقہ اعداد و شمار بالکل درست ہوں۔
کراچی اور باقی سندھ کی آبادی کے درمیان پائے جانے والے غیر معمولی طور پر منفرد تعلق کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ کراچی سندھ کی مجموعی آبادی کے ایک تہائی کے مساوی ہے۔ کسی اور صوبے میں کسی ایک شہر اور باقی صوبے کی آبادی کے درمیان اس نوعیت کا تعلق نہیں پایا جاتا۔ لاہور اگرچہ بڑا شہر ہے اور اُس کی آبادی بھی بڑھتی رہی ہے مگر اب بھی اُس کی آبادی صوبے کی مجموعی آبادی کا کم و بیش 8 فیصد ہے۔ 1947 سے اب تک کراچی کو جس نوعیت کی تبدیلیوں اور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے اُن کا سامنا لاہور کو نہیں کرنا پڑا۔ کراچی چونکہ قیامِ پاکستان کے وقت وفاقی دارالحکومت تھا اِس لیے باقی سندھ سے اِسے الگ رکھنے پر توجہ دی گئی۔ تب سے کراچی اور باقی سندھ کے درمیان ایک طرح کی مخاصمت یا کشیدگی پیدا ہوئی جو اب تک جاری ہے۔
کراچی کی مردم شماری سے متعلق اعداد و شمار میں کئی طرح کے شبہات اور خدشات پائے جاتے ہیں۔ کراچی میں غیر معمولی سیاسی مفادات رکھنے والی جماعتوں کو ووٹ بینک سے محروم ہوجانے کا خدشہ لاحق ہے۔ نسلی گروہوں کو آبادی کی نوعیت کے تعین سے متعلق خدشات لاحق ہیں۔ اردو بولنے والوں ہی کو لیجیے جو خود کو کراچی کے فطری نمائندے تصور کرتے ہیں۔ اردو بولنے والے ووٹرز ایم کیو ایم پاکستان اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان منقسم ہیں۔ نسلی و لسانی گروہوں کو نقلِ مکانی سے فائدہ پہنچا ہے جس سے ایم کیو ایم پاکستان کو اپنے مستقبل کی فکر لاحق ہے۔ کئی عشروں کے دوران جاری رہنے والی نقلِ مکانی سے کراچی میں پشتونوں کی آبادی بھی اچھی خاصی ہوچکی ہے۔ پشتونوں کے سیاسی رجحانات سیکولر جاعتوں (عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان تحریک انصاف، پختونخوا ملی عوامی پارٹی) اور مذہبی جماعتوں (جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعتِ اسلامی پاکستان) کے درمیان منقسم ہیں۔ سندھ کے اندرونی اضلاع اور جنوبی پنجاب سے نقلِ مکانی کا بظاہر پاکستان پیپلز پارٹی کو زیادہ فائدہ پہنچا ہے۔ ہر سیاسی جماعت کو اپنے لیے جامع لائحۂ عمل مرتب کرنے کی خاطر مردم شماری کے درست ترین اعداد و شمار درکار ہیں۔
جب مردم شماری کرائی جارہی تھی تب بھی متعدد حلقوں نے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ معروف ٹیکنو کریٹس اور آبادی کے اعداد و شمار کے ماہرین نے کئی خامیوں کی نشاندہی کی تھی مگر تب اصلاحِ احوال کے لیے کچھ زیادہ نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ عام انتخابات سر پر تھے۔ جب انتخابات ہوئے تو پاکستان تحریکِ انصاف کراچی سے ملنے والے غیر معمولی ووٹس سے بہت خوش تھی۔ اُسے یہ اندازہ نہ تھا کہ حالات و معاملات کو درست کرنے کی مخلصانہ کوشش کے بغیر یہ کامیابی کسی کام کی ثابت نہ ہوگی۔
ٹیکنوکریٹس نے متعدد تجاویز پیش کی تھیں جو بہت حد تک اب بھی قابلِ عمل ہیں۔ پہلے مرحلے میں 5 فیصد تک آڈٹ کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اسے یہ اندازہ ہوسکتا تھا کہاں کہاں گنتی میں غلطی ہوئی ہے اور کہاں اعداد و شمار کی رپورٹنگ غلط ہوئی ہے۔ اس تجویز پر عمل سے کراچی کو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچتا مگر یہ آڈٹ کیا ہی نہیں گیا۔ سندھ حکومت نے معنی خیز خاموشی اختیار کی اور مشترکہ مفادات کی کونسل میں یہ معاملہ نہیں اٹھایا جبکہ سندھ میں بھی آبادی کے اعداد و شمار درست نہیں تھے۔
کراچی میں ترقیات سے متعلق چیلنجز کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس حوالے سے معاملات درست کرنے کی غرض سے جو اقدامات ناگزیر ہیں اُن کے لیے درست اعداد و شمار درکار ہیں۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کا براہِ راست تعلق ووٹرز کی فہرستیں اپ ڈیٹ کرنے، ترقیاتی عمل کے لیے وسائل کے مختص کرنے، ترقیات سے متعلق ترجیحات کے تعین اور ترقی و خوش حالی کے حوالے سے پیش گوئی سے ہے۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کا تعلق صحتِ عامہ، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے میں کی جانے والی پچھلی سرکاری سرمایہ کاری کے تجزیے سے بھی ہے۔ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے جیسے حسّاس معاملات پر بھی آبادی کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے بھی آبادی کے اعداد و شمار درکار ہوتے ہیں۔
کراچی کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ وفاق کو اُس کا خیال آگیا ہے۔ وزیر اعظم نے 1100 ارب روپے کے جس ترقیاتی پیکیج کا اعلان کیا ہے اُس سے کراچی میں بہت کچھ کیا جاسکتا ہے۔ ایک اہم سوال البتہ یہ ہے کہ کیا اس پیکیج سے کراچی کے عام آدمی کو درپیش مسائل بہت حد تک حل کیے جاسکیں گے یا نہیں۔ اگر خالص غیر جانب داری سے مرتب کیے جانے والے آبادی کے اعداد و شمار سامنے ہوں تو متعلقہ ماہرین کو درست فیصلے کرنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ایسی حالت میں کسی بھی بے جا مداخلت کو اطمینان بخش حد تک محدود رکھنا ممکن ہوسکے گا۔
کراچی کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ رہائشی ضرورت پوری کرنے کے لیے زمین بہت کم ہے۔ لاکھوں غیر تربیت یافتہ یا نیم تربیت یافتہ مزدوروں کے لیے معاشی کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ بچوں کو غذا اور غذائیت دونوں کی کمی کا سامنا ہے۔ تعلیم و صحتِ عامہ کا معاملہ بگڑا ہوا ہے۔ بزرگ شہریوں کو بہتر حالاتِ زندگی فراہم کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ ان تمام مسائل کا حل اُسی وقت تلاش کیا جاسکتا ہے جب آبادی سے متعلق قابلِ اعتبار اعداد و شمار دستیاب ہوں۔ اہلِ کراچی کو سچائی درکار ہے۔ پوری کی پوری سچائی اُن کے سامنے لائی جانی چاہیے۔
(مصنف کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی میں شعبۂ فنِ تعمیر و منصوبہ بندی کے سربراہ ہیں۔)