حکومت، سیاسی جماعتیں اور’’ہائبرڈ‘‘ جمہوریت‘‘!۔

ترجمہ: اُسامہ تنولی
۔ 29دسمبر 2020ء معروف کالم نگار مسلم میرانی نے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر جو خامہ فرسائی کی ہے، اس کا اردو ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
ملکی تاریخ گواہ ہے کہ ملک میں سیاسی تبدیلی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر نہیں آئی ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر 2020ء تک ملک کی سیاسی تاریخ کی کتاب پر واضح طور سے لکھا ہوا ہے کہ ملک میں کوئی بھی سیاسی تبدیلی اسٹیبلشمنٹ کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ سابق وزیراعظم شہید ذوالفقار علی بھٹو جنہیں عوامی طاقت، ذہانت اور مقبولیت کی وجہ سے تاریخ ’’قائد عوام‘‘ کے نام سے جانتی ہے، وہ بھی بمشکل اپنے اقتدار کی میعاد مکمل کرسکے تھے۔ حیدر آباد بغاوت کیس، بلوچستان آپریشن اور قوم پرست قوتوں کو محصور کرنے کی پالیسی پر چلتے ہوئے بھی بھٹو صاحب ملک کی طاقتورقوتوں کو پسند نہیں آسکے تھے ، بھی جال میں اسی طرح سے پھنس کر اسی شیر کا شکار بن گئے تھے، جس پر وہ سواری گانٹھا کرتے تھے۔ ملکی سیاست اور خارجہ پالیسی کو دیکھتے ہوئے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو یہ سمجھ گئی تھیں کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے، لیکن اس کے باوجود محترمہ اور میاں نواز شریف کی حکومتیں اسٹیبلشمنٹ کی ناراضی کی وجہ سے اپنی مدت اقتدار مکمل نہیں کرسکیں، بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے رویے اور اسٹیبلشمنٹ کے طریقۂ کار میں بھی تبدیلی دکھائی دی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے صدقے اور خیرات کرکر کے اپنی پانچ سالہ اقتدار کی مدت پوری کی لیکن پی پی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کبھی پہاڑوں سے دور اور کبھی سمندر کے کنارے رہتے ہوئے اس قدر تنگ آگئے تھے کہ موصوف کہتے رہے کہ ’’ہم سے دور ہوجائو ورنہ ہم تمہاری اینٹ سے اینٹ بجادیں گے۔‘‘ لیکن پھر سبھی نے بعد میں یہ بھی دیکھا کہ خود انہی کی پارٹی کی ’’اینٹ سے اینٹ‘‘ بج گئی۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نے بھی آصف علی زرداری سے طے شدہ ملاقات کرنے سے انکار کردیا اور زرداری صاحب اتنے تو کمزور ہو گئے کہ سندھ کی زمینوں سمیت سب کچھ ہی بطور جرمانہ دینے پر راضی ہوگئے۔ جس کی وجہ سے اس وقت کی پاکستان مسلم لیگ نواز کی بلوچستان حکومت کا تختہ الٹنے سمیت سینیٹ کے انتخابات میں چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کو مسترد ہونا پڑا اور اسی طرح سے پی ایم ایل (ن) کے صدر شہباز شریف نے مفاہمت اور منت سماجت پر مبنی پالیسی کو چلاتے ہوئے اپنے بڑے بھائی میاں نواز شریف کو یہ سمجھاتے رہے کہ بالآخر وقت تبدیل ہوجائے گا، بس آپ صبر کیجیے، ’’کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں‘‘ کے مصداق نواز شریف حکومت کی گاڑی اور اسٹیبلشمنٹ ایک ہی پیج پر چلتے چلتے بالآخر میاں نواز شریف کی گاڑی ہی پٹری سے نیچے اُتر گئی۔ نواز شریف پاناما کے کیس میں نااہل قرار پائے اور میاں صاحب کی حکومت میاں شہباز شریف کی شرافت کے سبب چلتی نظر آئی۔ پاکستان کی تاریخ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں کئی سیاسی اور غیر سیاسی اور مذہبی جماعتیں بنتی اور گرتی رہی ہیں۔ جسے دیکھ کر یہ ضرور محسوس ہوتا رہا ہے کہ سیاسی انجینئرنگ کمال مہارت سے کی گئی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کی تشکیل کی داستان گجرات کے چودھری برادران بڑے مزے لے لے کر سنایا کرتے ہیں کہ کس طرح سے پاشا صاحب نے یہ کارنامہ کر دکھایا تھا، اور پی ٹی آئی کی حکومت کے قیام اور وزیراعظم عمران خان کے طرز حکمرانی سے بھی واضح ہوتا ہے کہ یہ ریاست مدینہ کہلوانے کی دعویدار حکومت اور ’’ہائبرڈ جمہوریت‘‘ کیوں مقبول ہے۔ وزیراعظم عمران خان عوام کو خطاب کرنے کے بجائے اپنے ترجمانوں ہی سے مخاطب (یا خطاب کرتے) ہوتے دکھائی دیتے ہیں، کیوں کہ پی ٹی آئی حکومت کی ترجیحات میں یہ شامل ہے کہ اپنی کارکردگی دکھانے کے بجائے اپوزیشن کو عوام کے سامنے خوار کیا جائے۔ اسی لیے کچھ عرصہ گزارنے کے بعد وزیراعظم موصوف اپنی کارکردگی کے حوالے سے مختلف النوع بیانات دیتے رہتے ہیں اور پی ٹی آئی کے وزرا اور مشیر بھی بجائے عوامی سیاست کرنے کے آئے روز نت نئی تھیوریز ایجاد کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔
پی ٹی آئی کی طرز حکمرانی سے یہ امر واضح ہوگیا ہے کہ ان کا دھیان عوامی جمہوریت پر کم اور ’’ہائبرڈ جمہوریت‘‘ پر کہیں زیادہ ہے۔ اسی لیے عوامی سیاست کرنے اور کوئی کارکردگی دکھانے کے بجائے وہ ٹی وی ٹاک شو اور پریس کانفرنسوں میں ’’چور چور‘‘ کی صدائیں بلند کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے وجود میں آنے اور حکومت کے خاتمے کے لیے منعقدہ جلسے جلوسوں سے یہ صاف ظاہر ہے کہ حکومت خواہ جائے یا نہ جائے لیکن ان جلسے جلوسوں اور لانگ مارچ کے سبب حکومت کی ساکھ متاثر اور مجروح ہورہی ہے اور سی پیک سمیت ملک میں غیر ملکی سرمایہ کاری اور ملکی ترقی، کورونا وائرس سے کم اور پی ڈی ایم کے جلسے جلوسوں سے کہیں زیادہ متاثر ہورہی ہے۔ اگر یہ صورتحال اسی طرح سے جاری رہی تو ملکی ترقی اور خوشحالی کے خواب بدحالی کے اندھیروں میں تبدیل ہونے میں زیادہ وقت درکار نہیں ہوگا۔ پی ٹی آئی کی حکومت ایک طرف تو یہ کہہ دیتی ہے کہ حزب اختلاف کا قائم کردہ اتحادی پی ڈی ایم ناکام ہوچکا ہے اور دوسری طرف وزیراعظم عمران خان یہ کہتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں کہ اپوزیشن دبائو ڈال رہی ہے کہ اسے این آر او دیا جائے۔ وزیراعظم کے ان بیانات سے ہی یہ واضح ہوجاتا ہے کہ حکومت دبائو میں ہے اور زیادہ عرصے تک وہ یہ دبائو برداشت نہیں کرپائے گی۔ حکومی خراب کارکردگی، مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے عوامی سطح سے لے کر کاروباری سطح تک بیزاری کا عام اظہار ہورہا ہے۔ تنخواہ دار لاچاری اور دہاڑی دار بھوک اور بدحالی کا شکار ہوتے جارہے ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت کا اپنے سیاسی منشور اور 100 دن پر مشتمل اپنے کیے گئے اعلان اور وعدوں پر عمل پیرا ہونے کے کوئی امکانات دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے پی ڈی ایم کے اندر اختلافات کی بات بھی کسی حد تک واضح اور عیاں ہے۔ پی پی، سندھ حکومت سے استعفیٰ نہ دینے پر زور دے رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا پی ڈی ایم کے مردان جلسے میں شرکت نہ کرنے اور مولانا فضل الرحمن کا محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے جلسہ عام یں شرکت نہ کرنا بھی متعدد سوالات کو جنم دے رہا ہے جسے مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ بے نظیر بھٹو کی برسی پر پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے کیے گئے خطاب سے بھی یہ صاف نظر آتا ہے کہ پی پی ابھی موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو وقت اور مہلت دینے کے موڈ میں ہے تا کہ سینیٹ کے انتخابات اور ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے بعد صورتحال کا جائزہ لے کر سودے بازی کی جائے، لیکن جے یو آئی (ف) کے سربراہ اور پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن، عوامی نیشنل پارٹی اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی، بی این پی مینگل سمیت پی ڈی ایم کے اتحاد میں شامل دیگر جماعتیں شاید ہی پی پی پی کی اس پالیسی سے جو وہ اپنائے ہوئے ہے متاثر ہو کر راضی ہوسکیں بلکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کی قیادت کے تبدیل شدہ بیانات اور شہباز، بلاول ملاقات کے بعد گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی دُرّانی تھیوری سے یہ لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی اپوزیشن سے اس وقت بات کرنے کے موڈ میں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ابھی عمران خان کی حکومت کو بھی مزید وقت دلانا چاہتی ہے۔پی ایم ایل (ن) کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کو بھی سیاسی پنڈت اسٹیبلشمنٹ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مابین ایک بڑا بریک تھرو قرار دے رہے ہیں، جس سے یہ لگ رہا ہے کہ پی پی اور مسلم لیگ (ن) محترمہ بے نظیر بھٹو کے میثاق جمہوریت پر ایک مرتبہ پھر عمل پیرا ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں، لیکن پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) اگر مولانا فضل الرحمن کو اپنی پالیسی پر راضی کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو پھر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ملک میں حقیقی اپوزیشن کا کوئی کردار ادا کرنے میں کامیاب ہو کر عوام میں مقبول ہونے کا سوچ سکیں اور عوامی جمہوریت کے نعرے بلند کرسکیں۔