لکی مروت جلسہ عام

سینیٹر سراج الحق، مشتاق احمد خان و دیگر کا خطاب

سابقہ شمال مغربی سرحدی صوبہ اور موجودہ خیبر پختون خوا کوپنجاب سے الگ کرکے بطور الگ انتظامی یونٹ پہلی دفعہ (1901 ) میں قائم کیا گیا تھا ۔ 1932 تک یہ انتظامی طور پر تو صوبہ تھا لیکن اسے متحدہ ہندوستان کے دیگر صوبوںکے اختیارات اور حقوق حاصل نہیں تھے، اسی لیے اسے کمشنری صوبہ کہا جاتا تھا کیونکہ اس وقت اس کا انتظامی سربراہ چیف کمشنر کہلاتا تھا البتہ 1932 میں انگریز سرکار کی جانب سے کی گئی بعض انتظامی اصلاحات جس کے نتیجے میں بعد ازاں1935 کا گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ منظور کیا گیاتھا دراصل اسی ایکٹ میں خیبر پختون خوا کو پہلی مرتبہ جہاں گور نر کا عہدہ دیا گیا وہیں پہلی دفعہ صوبائی اسمبلی قائم کرکے لوگوں کو بالواسطہ حکومتی اختیارات میں بھی شامل کیا گیا ۔ یہاں اس امر کی وضاحت مناسب ہوگی کہ جب 1935 ایکٹ کے تحت خیبر پختون خوا میں1937 میں پہلی صوبائی اسمبلی قائم ہوئی تواس کے نتیجے میں جہاں صوابی کے مردم خیز خطے سے تعلق رکھنے والے صاحبزادہ عبدالقیوم خان کو اس صوبے کا پہلا وزیر اعلیٰ بننے کا اعزاز حاصل ہوا وہاں ان دنوں یہ صوبہ اس وقت کے محض چھ انتظامی اضلاع پشاور، مردان،کوہاٹ، بنوں، ڈیر ہ اسماعیل خان اور ہزارہ پر مشتمل تھا یعنی تقریباً موجودہ پور ا ملاکنڈ ڈویژن اور ہزارہ ڈویژن کے موجودہ بالائی اضلاع بشمول کوہستان ، بٹگرام اور تور غر وغیرہ اس میں شامل نہیں تھے۔ دراصل ہمیں یہ تمہید گزشتہ دنوں ضلع لکی مروت میں جماعت اسلامی کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے ایک بڑے احتجاجی جلسہ عام اور اس میں پیش کیے جانے والے مطالبات کے تناظر میں باندھنا پڑی ہے ،جس سے جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سینیٹر سراج الحق کے علاوہ جماعت کے مرکزی نائب امیر پروفیسر ابراہیم خان، صوبائی امیرسینیٹر مشتاق احمد خان ، صوبائی نائب امیر اور صوبائی اسمبلی میں جماعت کے پارلیمانی لیڈر عنایت اللہ خان، صوبائی جنرل سیکرٹری عبدلواسع، صوبائی نائب امیر مولاناتسلیم اقبال اور ضلع لکی مروت کے امیر حاجی عزیزاللہ خان مروت نے خطاب کیا۔
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے ضلع لکی مروت کے سرائے نورنگ قلعہ گراؤنڈ میں منعقدہ اس بڑے جلسہ عام سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ نالائق طالبعلم نقل کے باوجود فیل ہو رہا ہے۔ سینیٹر سراج الحق کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی ذات پات اور موروثیت پر یقین نہیں رکھتی، ہم اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی اور پی ڈی ایم کی سیاست میں فرق ہے، پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی انگریز سامراج کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، ایک طرف بلاول اور دوسری طرف مریم نواز ہوں تو اسلام ایسے لاگو نہیں کیا جاسکتا، پی ڈی ایم میں شامل نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ ان کا عوام کو دھوکے میں رکھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں قاتلوں کو سزا نہیں تحفظ ملتا ہے، کراچی میں پولیس نے 400 لوگوں کو مارا، غیرت اور ہمت والے نقیب اللہ کو بھی مارا گیا، آج تک نقیب اللہ کے قاتلوں کو گرفتار نہیں کیا گیا، یہ نظام قاتلوں، ظالموں، شوگر مافیا، لینڈ مافیا اور آٹا چوروںکے لیے ہے، یہاں ان ظالموں کو کوئی سزا نہیں دے سکتا، ہم اسلامی نظام چاہتے ہیں جہاں قانون سب کے لیے یکساں ہو۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ وزیراعظم کہتے ہیں تیاری نہیں تھی، تیاری نہیں تھی تو امتحان میں کیوں بیٹھے، اگر تیاری نہیں تھی تو وزارت عظمٰی کیوں لی، یہ ناکارہ طالبعلم عمران خان اور ان کی کابینہ نقل کے باجود فیل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج ملک پر خطرات کے بادل ہیں، پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے دباؤ ہے، عمران خان نے کہا تھا کہ کشمیر کا سفیر بنوں گا، کشمیر کے سفیر نے کشمیر کو مودی کے حوالے کر دیا۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ آئی ایم ایف کا پاکستان پر دباؤ ہے جس کے باعث بجلی اور گیس مہنگی کی جا رہی ہے، حکومت کے پاؤں عوام کے گردنوں پر ہیں، ہمیں موقع ملا تو ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کریں گے۔قدرتی وسائل سے مالامال جنوبی اضلاع کو اُن کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے ،موجودہ حکومت میں جنوبی اضلاع کے عوام ہر قسم کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور پتھر کے زمانے میں زندگی گزار رہے ہیں ، ایک ڈویژن فوج کی موجودگی میں وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ کیسے ہو رہی ہے۔
جیسا کہ ہم درج بالا سطور میں عرض کر چکے ہیں کہ 1935 میں صوبے کا درجہ ملنے اور 1937 کے پہلے صوبائی انتخابات حتی ٰکہ 1947 میں قیام پاکستان کے وقت خیبر پختون خواہ جن چھ انتظامی اضلاع پر مشتمل تھا ان میں تین یعنی کوہاٹ، بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان کاتعلق صوبے کے جنوبی حصے سے تھا جبکہ باقی سارے صوبے سے کل ملاکر تین اضلاع یعنی ہزارہ،مردان اور پشاورشامل تھے لیکن اگر دوسری جانب تعمیر و ترقی، طبی سہولیات، سڑکوں کی تعمیر اور معاشی ترقی کا جائزہ لیاجائے تو آزادی کے73 سال بعد صوبے کے جنوبی اضلاع ہر لحاظ سے قرون وسطیٰ کے تصویر پیش کرتے ہیں ۔ واضح رہے کہ پچھلی سات دہائیوںکے دوران ان اضلاع کی تعداد سیاسی بنیادوں پر تین سے بڑھ کر گیارہ تو ہو چکی ہے جن میں نئے شامل ہونے والے چار قبائلی اضلاع کرم، اورکزئی، شمالی اور جنوبی وزیرستان کے علاوہ ہنگو، کوہاٹ، کرک، بنوں، لکی مروت، ڈیر ہ اسماعیل خان اور ٹانک شامل ہیں جبکہ ان اضلاع کی مجموعی آبادی ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے جو محسود، وزیر،بیٹنی،بلوچ،مروت،داوڑ،میاںخیل ،گنڈاپور،خٹک،بنگش،طوری،اورکزئی اورآفریدی اقوام پر مشتمل ہیں لیکن اگر سہولیات کے حوالے سے دیکھاجائے تو یہ اضلاع انتہائی زبوں حالی کے شکار نظر آئیںگے۔
حیرت ہے کہ یہ اضلاع شروع دن سے خیبر پختونخوا کا حصہ ہونے کے باوجود ترقی اور خوشحالی کی دوڑ میں صوبے کے ان علاقوں اور اضلاع سے بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں جو قیام پاکستان سے بہت بعد میں خیبر پختون خوا میں شامل ہوئے تھے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ان اضلاع کے زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہنے اور ان کی اس پسماندگی کی وجہ کیا ہے اور ان کی اس احساس محرومی کا ذمہ دار آخر کون ہے۔ بظاہر تو ان اضلاع کے ساتھ روا ررکھے جانے والے امتیازی سلوک کی ذمہ دار صوبے کی وہ اشرافیہ نظر آتی ہے جو پچھلے73 سال سے اس صوبے کے سیاہ و سفید کی مالک رہی ہے لیکن دوسری جانب اس ذمہ داری سے جنوبی اضلاع کے ایک کروڑ عوام بھی خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ہیں ،جو نہ صرف گروہی اور قبائلی تعصب کا شکار بناکر ایک مرکز اور وحدت سے محروم رکھے گئے ہیں بلکہ ان کو تعلیم اور سیاسی شعور سے بھی دور رکھا گیا ہے جبکہ تیسری جانب اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو ہنگو سے لے کرٹانک ڈیرہ اسماعیل خان تک جنوبی اضلاع کی سیاست پر پچھلی سات دہائیوں کے دوران چند مخصوص سیاسی اور مذہبی گھرانے ہی قابض نظر آتے ہیں جو اگر ایک طرف خود ہر طرح کی سہولیات سے بہرہ ور ہیں تو دوسری جانب ان کی اولادیں اندرون و بیرون ملک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں زیر تربیت رہ کر جنوبی اضلاع کی آیندہ نسلوں کی گردنوں پر مسلط رہنے کی تیاری کے مراحل سے گزر رہی ہیں ۔ اس ضمن میں یہاں کسی مخصوص خاندان اور خانوادے کا نام لینا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ ان کی حقیقت سے ہر کوئی بخوبی واقف ہے۔ جنوبی اضلاع کے حقوق اور وسائل پر بات کرتے ہوئے ہمیں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ قدرت نے ان اضلاع کوکئی قیمتی معدنیات سے مالا مال کر رکھا ہے جن میں تیل اور گیس سے لے کر کوئلے، تانبے ، کرومائٹ، لائم سٹون او رلوہے کے وسیع ذخائر قابل ذکر ہیں ۔اسی طرح یہاں کی لاکھوں ایکٹر وسیع و عریض بنجر زمین کو اگر سیراب کیا جائے تو یہ زمین ہر قسم کی غذائی اجناس اگانے کی صلاحیت رکھتی ہے جن سے نہ صرف اس خطے کی غذائی ضروریات پوری ہوسکتی ہیں بلکہ یہ صوبے کے دیگر علاقوں کی خوراک کی ضروریات بھی پور ی کر سکتی ہیں۔ جنوبی اضلاع کو ویسے تو زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے رکھا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ انفرااسٹرکچر کی ترقی میں جو سوتیلا سلوک روا رکھا گیا ہے اس کا اندازہ ان گیارہ اضلاع کو باہم مربوط کرکے صوبے کے وسطی اضلاع اور خاص کر صوبائی دارلحکومت سے جوڑنے والی مرکزی شاہراہ انڈس ہائی وے کی زبوں حالی سے لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہم بچپن سے جس چشمہ رائٹ بینک کینال کا ذکر تواتر سے سنتے آ رہے ہیں اور جس کے بارے میں ماہرین بار بار کہہ چکے ہیں کہ اس کی تعمیر سے کم از کم ڈھائی تین لاکھ ایکڑ بنجر زمین سیراب ہونے کا امکان ہے کی تکمیل کے آثار تا حال دور دور تک دکھائی نہیں دیتے ہیں۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ چراغ تلے اندھیرے کے مصداق جنوبی اضلاع پورے ملک کو تو تیل اور گیس فراہم کر رہے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان اضلاع کے لاکھوں گھر آج بھی گیس کے گھریلو استعمال اور تیل کی رائلٹی سے محروم ہیں۔اسی طرح ماضی میں افغانستان سے اربوں روپے کی دوطرفہ تجارت کے لیے استعمال ہونے والے جنوبی اضلاع کے سرحدی تجارتی پوائنٹس پاڑہ چنار،غلام خان اور انگوراڈہ قریب ترین اور سستے روٹس ہونے کے باوجود پچھلی دو دہائیوں سے بند پڑے ہیں۔جنوبی اضلاع میں اس وقت کوئی ہوائی اڈہ فنکشنل نہیں ہے حالانکہ یہاں ڈیرہ اسماعیل خان اوربنوں کے علاوہ کوہاٹ میں بھی ہوائی اڈا موجود ہے لیکن یہ فضائی مستقر کئی سالوں سے بند پڑے ہیں، جن کا نقصان یہاں کے لاکھوں شہریوں کو بیرون ملک روزگار اور حج وعمرے کے لیے اسلام آباد اور پشاور کے طویل سفر اور اخراجات کی صورت میں برداشت کرنا پڑرہا ہے۔ جنوبی اضلاع کے ساتھ ایک اور نا انصافی کا اندازہ ان کی سی پیک کے اربوں ڈالر کے اقتصادی منصوبے سے محرومی سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ سی پیک کے حوالے سے یہ بات خوش آئندہ ہے کہ اس کےنتیجے میں صوبے کے شمال اور وسطی اضلاع اور ہزارہ ڈویژن میں بین لاقوامی معیار کی شاہراہیں اور اقتصادی زونز بنائے جا رہے ہیں لیکن اس منصوبے سے پہلے سے خستہ حال جنوبی اضلاع کو محروم رکھنا ظلم اور نا انصافی کی ایک اور انتہائی ہے۔
حیرت ہے کہ موجودہ حکومت جو سارے صوبے میں یکساں اور برابری کی بنیاد پر ترقیاتی کاموں کا ڈھنڈورا زور وشور سے پیٹ رہی ہے کی جانب سے جنوبی اضلاع کواب تک کوئی بڑا اقتصادی اور ترقیاتی پیکج نہیں دیا گیا البتہ اب جب جماعت اسلامی نے ان مظلوم اضلاع کی زبان بن کر ان کے حقوق کے حصول کے لئے جنوبی اضلاع حقوق کونسل کے پلیٹ فارم سے جد جہد شروع کی ہے تو حکومت کوپشاور تا ڈیرہ اسماعیل خان موٹروے بنانے کا اعلان کرنا پڑگیاہے البتہ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس اعلان کو عملی جامہ کب اور کیسے پہنایا جاتا ہے ۔ اسی طرح توقع ہے کہ حکومت جنوبی اضلاع کے دیگر مسائل کو بھی ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے پر توجہ دے گی۔ یہاں اس امر کی نشاندہی بھی خالی از دلچسپی نہیں ہوگی کہ جماعت اسلامی کا نہ تو کبھی جنوبی اضلاع سے کوئی ممبر صوبائی یا قومی اسمبلی منتخب ہوا ہے اور نہ ہی جماعت یہاں کوئی موثر ووٹ بینک اور تنظیمی قوت رکھتی ہے لیکن جماعت نے چونکہ ہمیشہ مظلوم عوام اور مفلوک الحال خطوں کی پشت پناہی اور پشتیبانی کا حق ایک دینی اور سماجی فرض سمجھ کر ادا کیا ہے، جس کی بہترین مثال قبائل کی دادرسی اور پشتیبانی کے لیے جماعت کی طویل جدوجہد ہے اسی طرح جماعت اسلامی نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے جنوبی اضلاع کے مظلوم عوام کی پشتیبانی کا جو بیڑ ااٹھایا ہے اس ضمن میں گزشتہ دنوں منعقد ہونے والے طویل عوامی دھرنے کے بعد حالیہ جلسہ عام کاانعقاد اور اس میں مقامی جماعتوں اور سیاسی خانوادوں کی شدید مخالفت حتیٰ کہ ان کی جانب سے روڑے اٹکائے جانے کے باوجود بڑے پیمانے پر عام لوگوں کی شرکت نے یہ بات ثابت کردیا ہے کہ اگر جماعت اسلامی ان علاقوں پر اپنی توجہ مرکوز رکھے تودنیا کی کوئی طاقت جماعت اسلامی کو ان اضلاع کی مقبول ترین سیاسی قوت بننے سے نہیں روک سکتی ہے۔