ہم نے سورج کو بجھتے دیکھا ہے

شمس الرحمن فاروقی

دورِ جدید کی بلائے جاں آخر ہمارے عہد کی تاریخ کے ایک ممتاز تر بلکہ اپنے نظریے اور کتابِ جدت کے مصنف کو بھی ہم سے چھین لے گئی مگر یہ اپنےعمل میں نامراد و ناکام ہی کہی جائے گی کہ جانا تو سب کو ہے کوئی بہت کم عمری میں رخصت ہوجاتا ہے اور کوئی عمرِ طویل پاتا ہے مگر یہاں توجہ طلب امریہ ہے کہ عمرِ عزیز جو ہمارے عقیدے کے مطابق پھر نہیں ملنے والی اس کو کیسے اور کہاں خرچ کی جائے سارا کھیل اسی عمل میں مخفی ہے بعض لوگ اس رمز کو جان لیتے ہیں اور بعض جا نے انجانے کہیں اور اسراف ہو جاتے ہیں۔ شمس الرحمان فاروقی نے اپنی عمر ہوش مندی اور پوری پروگرامنگ کے ساتھ بِتائی اور وہ بہر طور کامیاب بھی رہے،یہ جو سال2020 جمعہ25دسمبر کوہمارے’ شعر ِ شور انگیز‘ کو لے گیا ہے اس کےہاتھ تو جسدِ خاکی ہی لگا ہے اور یہ جسد توآخر ایک دن خاک کی نذر ہونا ہی تھا،تاریخ کا وہ ورق جو 30ستمبر1935 کوقدرت نے لکھنا شروع کیا تھا اسے یہ رخصت پذیر سال بظاہر تمام کر چکا مگروہ تاریخ جو خود شمس الرحمان فاروقی کے وجود نے لکھی وہ تو دائم متحرک رہے گی یہی سچ ہے کہ زندگی اسی کو کہتے ہیں ورنہ لوگ اکثر معمر تو ہوتےہیں یعنی انھیں عمر تو نصیب ہوتی ہے مگر زندگی اور زندگی کی بزرگی نصیب نہیں ہوتی ، شمس الرحمان فاروقی اپنے اور ہمارے عہد کے،ہماری زبان و ادب اور ہمارےمعاشرے کے ایک حقیقی ممتاز و منفرَ دزِندہ و بزرگ شخص تھے اوررہیں گے یہ زندگی انھیں کسی نے یونہی کسی سرکار دربار سے نہیں دلا دِی۔ یہاں ہمیں سحر انصاری کا ایک شعر یاد آتا ہے جو فاروقی کے پورے علمی وادبی کردار پر صادق ہے:۔
” فصیلِ شہر میں پیدا کیا ہےدَر مَیں نے **کسی بھی بابِ رعایت سے مَیں نہیں آیا”
یہ قدرت و فطرت کا قاعدہ اور اصول ہے کہ اس خاکدانِ عالَم میں جو آتا ہےوہ اپنے وقتِ مقررہ پرجاتا بھی ہے مگر اس میں وہ لوگ ممتاز و منفرَد یوں بن جانتے ہیں کہ جو اپنی عمر عزیز کے ساتھ صحیح سمت میں سفر کرتے ہیں تو قدرت بھی اُن پر مہربان ہوجاتی ہے۔ فاروقی صاحب نے اپنا راستہ خود چنا اور صحیح وقت پر درست سمت بھی اختیار کی ورنہ ہم نے نجانے کتنے ایسےاصحابِ اہلِ علم و ادب دیکھے ہیں جو اپنے آپ میں بہر طورکمال تو رکھتے ہیں مگر صحیح راہ اور درست سمت کے ادراک و عمل سے عاری رہے، سو سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ، اپنےعلم و فن میں کمال و عروج کے باوجود کسی منزل یا کسی مثبت نتیجے کے حامل نہیں ہو سکے۔ بعض لوگ اسے قسمت سے بھی تعبیر کرتےہیں، ہو سکتا ہے کہ ان کا خیال غلط نہ ہو مگر دانا تو یہ بھی کہہ گئے ہیںکہ قدرت اپنے بعض بندوں کو یہ موقع بھی دیتی ہے کہ وہ اپنی قسمت خود لکھ لیں ہمارا خیال ہے کہ شمس الرحمان فاروقی انہیں ممتاز بندوں میں سے ایک تھے بلکہ اس میں بھی ان کو ایک امتیاز حاصل تھا کہ وہ عمر کے اخیر اخیرتک کام کرتے رہے۔ فضیل جعفری جیسا سخت مزاج شخص کہتا تھا کہ’’ فاروقی اور ہم نے ایک ساتھ کام شروع کیامگر جتنا اور جیسا کام انہوں نے کیا وہ مثالی بن گیا۔‘‘ ادب میں اپنے ہم عصروں اور ہم عمروں سے ایسی داد ِ تسلیم بھی سب کو نصیب نہیں ہوتی۔فاروقی کے اوصافِ شمسی میں یہ امربھی نئے لوگوں کےلیے کسی درس سے کم نہیں کہ وہ زمانہ شناس تو تھے ہی مگر زمانہ ساز بھی تھے۔ ہمیں بڑی حیرت ہوئی تھی جب ایک ملاقات میں انہوں نے بتایا کہ وہ کمپیوٹر پر خود کام کرتے ہیں اور پھریوں ہوا کہ ایک بار اُن کے ہاں (سوِل لائن ،الہ ٰ آباد)ہمارا جانا ہوا تو ہم نے اُن کے دفتر میں اُن کی میز پر کمپیوٹر پر انھیںکام کرتے بھی دیکھا۔ ورنہ اس عمر کےہمارے اکثر لوگ جدید آلات سے مجتنب ملتے ہیں۔ فاروقی اُردو ادب میں جدیدیت کے بانی تو تھے ہی لیکن یہ کہاجائے تو ہرگز غلط نہ ہوگا کہ جدت ان کی روح میں سانس لے رہی تھی۔ماہنامہ’’ شب خون‘‘ اور فاروقی ایک ہی سکے کے دو رُخ تھے کسی ایسےجریدے کو جو ایک خاص نظریے اور تحریک کا حامل ہو، تادیر بلکہ کم وبیش نصف صدی تک جاری رکھنا اپنے آپ میں خو د ایک کارنامہ ہے اور پھر یہ کہ اس کےساتھ ساتھ تحقیق و تنقید و لسانیات اور تصنیف کے میدان میں بھی اپنے قلم کو سر پٹ دوڑایا ہی نہیں بلکہ ان میں بھی ان کی جو پیشکش ہیں وہ بھی ان کے تشخص کو مستحکم ہی نہیں کرتیں بلکہ اُردو ادب کو متمول کرنے کا سبب بھی بنیں۔لسانیات سے لے کر تاریخ ِادب میں ان کی نظریں بہت گہرائی تک صرف اتریں نہیں بلکہ اس عمق سے انہوں نے جو جواہر ریزے برآمد کیےوہ کم غواصِ ادب کے ہاتھ آئے۔ ہم نے ایک مدت اخبار میں ادبی امور انجام دِیے ہیں ہمیں اس کام کی شد بدہے، سو اپنے تجربےکی روشنی میں عرض ہے کہ فاروقی ادبی صحافت میں بھی ایک ممتاز مقام رکھتے تھے’شب خون ‘صرف ایک ادبی جریدہ ہی نہیں تھا وہ نئی نسل کی تربیت گاہ اور ان کا نمائندہ بھی تھا ،ہمارے ناقص خیال میں نیازؔفتح پوری کے ’ نگار ؔ‘ کے بعد فاروقی کا’ شب خون‘ ہی وہ جریدہ ہے کہ جس میں کسی کی نگارش کا چھپ جانا ہی ایک سند اور وقار کا سبب ہوتا تھا ایک وقت آیا کہ ’شب خون‘ تو بند ہو گیا مگر فاروقی کی طبعِ صحافت نے پھرزور مارا اور انہوں نے خبر نامۂ شب خون‘ جاری کیا، یہ نہایت سادہ سا سہ ماہی تھا مگر اپنی سادگی میں اس قدر معنویت لیے ہوئے تھا کہ ہند تا پاکستان بلکہ کہنا تو یہ چاہیے کہ دُنیائے ادب کا وہ کون حقیقی ادب دوست ہوگا جسے ’خبر نامۂ شب خون‘ کا انتظار نہ رہتا ہو بالآخر اپنی نزاکتِ صحت کی بِنا پر اسے بھی انہوں نے بند کردیا مگر ہم جیسے بے شمار افراد کے ذہن میں اس خبر نامے کے نقوش ثبت ہیں۔شمس الرحمان فاروقی نے خاصی عمر پائی اور خوشی کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی اس عمر کا صحیح استعمال کیا ورنہ 84 برس کیا لوگوں نے تو اس سے بھی زیادہ عمر اس دارِ فانی میں پائی مگر آٹھ کام بھی ایسے نہیں کر سکےجنہیں ’ کام ‘ کہا جاسکے البتہ خوش فہمیوں کے پہاڑ ضرور کھڑے ہوئے اور وہ کب کافور ہوئے اس کی’ خبر‘ بھی کسی’ نامے‘ میں جگہ نہ پاسکی۔ اُردوزبان و ادب میں فاروقی اپنی جدت ِ طبع ، ایک نظریے کے بانی اورموسس کے طور پر یاد رکھے جائیں گے ،انہوں نے اُردو ادب میں جدیدت کا جو علَم اٹھایاتھا وہ اپنی بلندی پر لہرا رہا ہے، ان کے وقت کے اعلیٰ دماغ جوانوں کی ایک بڑی اکثریت ان کے ساتھ تھی بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان میں سے اکثرانہیں کے تربیت یافتہ اور انھیں کے زیر اثر رہے ہیں۔ ادب میں اختلاف عجب نہیں ہوتا بلکہ یہی وہ اختلاف ہے جو ادب کی رنگینی میںتنوع کا سبب بنتاہے البتہ کچھ لوگ اس رنگ میں بھنگ کرنے کا سبب بھی بنتے ہیں مگر یہ عمل زندگی کے مقدسات تک میں ہوا ہے البتہ کہیں اسے دبا دِیا گیا اور کہیں اس سے (مثبت اور منفی) دونو ں طرح کے کام لیے گئے ،نیتوں کا حال تو رب ہی جانے۔ہمارے ادب کے بعض ثقہ حضرات کو فاروقی سے اختلاف بھی رہا ہے مگرجیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا کہ ادب میں اختلاف نہ ہو تو تعجب کا مقام ہوگا ۔ اُن اختلافات کو یہاں بیان کرنے کا فی الوقت کوئی محل نہیں مگر ہمارا خیال ہے کہ اختلاف در و دیوار سے نہیں ہوتا اس کے لیے بھی ’کچھ‘ہونا چاہیے اور فاروقی کے ہاں تو ’کچھ‘ نہیں بہت کچھ (مثبت)تھا اس کے باوجود گفتگو کرنے والوں نے ’گفتگو‘ بھی کی ہے۔ بس یہ ایک اتفاق ہےکہ کل ہمارے دوست شعیب نظام نے (کانپور سے فون پر)فاروقی کی کتاب ’ شعر شور انگیز‘ کی تقریبِ اجرا کی کچھ باتیں سنائیں جن میں جو ہمارے دل کو لگی وہ یہ تھی کہ فاروقی نے ان سے کہا کہ اس تقریب میں کتاب کے مصنف کی مدح سرائی نہ ہو بلکہ اس جلسے کی خصوصیت یہ ہوکہ کچھ اشخاص کو پہلے کتاب فراہم کردی جائے اور اس جلسے میں وہ سوالات کریں جوکتاب کے مطالعے کے دوران ان کے ذہن میں در آئے ہوں۔ ذرا سوچیے کہ ہمارےبزرگوں کی روایت سے یہ بھی سراسر انحراف ہی تھا، ورنہ اس طرح کی تقریبات کی روایت تو یہ رہی ہےکہ تعریف کی نہریں بہائی جاتی ہیں۔ شعیب نظام کاکہنا ہے کہ یہ تقریبِ اجرا یوں ہی انجام پذیر ہوئی۔ اگر آپ توجہ کریں تو اس میں بھی فاروقی کی جدتِ طبع کار فرما رہی بلکہ کامیاب بھی مگر فاروقی کی اس روایت کو ہم جیسے اپنے خول میں بند، اپنی تعریف سننے کے عادی لوگوں نے اپنایا نہیں کہ اس کےلیے بھی بڑاظرف درکار ہوتا ہے اور وہ ہمارے پاس نہیں سو وہ بڑائی بھی دور ہی سے ہمارا منہ تک رہی ہے ۔ فاروقی مغربی ادب کے گہرے غواص تھے مغرب کے ادبی کلچر پر بھی اُن کی نگاہ بڑی گہری تھی۔ ممبئی یونی ورسٹی میں منعقدہ ایک ادبی نشست میں انہوں نے مغرب کی ایک ایسی علمی خوبی بیان کی تھی کہ جو ہمارے ذہن میں چپک کررہ گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمیں اپنی طالب ِعلمی کے زمانے کی بعض باتیں اور اکثر اساتذہ اور ان کے رویے یاد آگئےجو فاروقی کے بیان کے عین مطابق تھے۔ فاروقی بیان کر رہے تھے:(مفہوم) ’’ہمارے(مشرقی) مزاج اور مغربی مزاج میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ ہمارے ہاںطلبہ کے ذہنوں کو’جَلا‘ دیا جاتا ہےجبکہ مغرب میں اس کے بر عکس طالب علم کے ذہن کو ’ جِلا‘ دِی جاتی ہے ۔ہمارا تعلیمی کلچر یہ رہا ہے کہ اگر کسی طالب علم نے بھرے درجے میں استاد سے سوال کر لیا تو استاد اسے اپنی توہین سمجھتا تھا ،سمجھتا ہے اور شاگرد کی سرزنش ہوتی ہے لہٰذا نتیجے میں طالب علم کے تجسس ِعلمی کے جراثیم اُسی وقت دَم توڑ دیتے ہیں اور مغرب میں اس کے بر عکس یہ ہوتا ہے اگر کوئی طالبعلم سوال نہ کرے تو اس کی ذہنی حالت کمزور و ناتواں سمجھی جاتی ہے اور سرپرستوں یا والدین کو اس کےعلاج و معالجے کی طرف متوجہ کیا جاتاہے۔‘‘ فاروقی جدت طراز تو تھے ہی مگر وہ اپنی روایت سے آگاہ ہی نہیں بلکہ وہ اپنے بزرگوں کی روایات کی جز ٔیات کی شاخ اور پتوں کی بھی واقفیت رکھتےتھے اور اُن کی نگاہ روایات کی جڑوں تک پہنچی ہوئی تھی یعنی وہ روایت کے پیش و پس کی بھی پوری آگاہی رکھتے تھے( فاروقی کے ناول ’کئی چاند تھےسرِآسماں‘ میں ہماری بات کی ایک دو نہیں کئی دلیلیں ہیں) مگر وہ روایت پرست نہیں بلکہ روایت شکن کے طور پر پہچانے گئے مگر ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ طب کا کوئی ماہر ہو یا ادب کا، جہاں جراحی کی ضرورت ہو وہ وہاںآپریشن ہی کرے گا کہ مرض کا تقاضا بھی یہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دور کے اس جدت طرازناقد نے روایتی ادب کے جسد سے فاسد مقامات کا بڑی حدتک کامیاب آپریشن کیا البتہ سرجن بھی آدمی ہوتا ہے اس سے کوئی فروگزاشت کوئی سہو کا ہوجانا بھی ہرگز عجب نہیں اور فاروقی کے اس سہو اور فروگزاشتوں کی بھی گِرِفت کرنے والوں نے گرفت کی ہے۔ ادب کی عدالت کسی کوبھی یوں ہی نہیں جانے دیتی البتہ بعضوں کے مقدمات ’ڈِس مِس‘ ضرور کردیے جاتے ہیں کہ یہ بھی تادیب و تعزیر ہی کی ایک صورت ہوتی ہے۔ہماری ادبی تا ریخ میں ایسے مقدمات بھی درج ہیں جو عبرت کا سبق بن گئے ہیں۔ فاروقی کی ادبی خدمات اور اُن کے مضامین اور ان کی کتابوں کی فہرست سازی ہمارا مقصود نہیں کہ انہوں نے جو کچھ لکھا اس میں عموماًایسا ہے کہ اب اتنی کثرت اور معنی خیزی شاید و باید ہی کسی کے ہاں ہمیں ملے۔ یہ تو متفقہ علیہ ہے کہ فاروقی اگر کچھ نہ لکھتے تو صرف ان کا ناول ’کئی چاندتھے سرِ آسماں‘ ہی انھیں آسمانِ ادب پر آفتاب بنائے رکھتا۔ یاد آتا ہے کہ اُردو کے ممتاز شاعر و ادیب عزیز قیسی ہسپتال میں زیرِعلاج تھے کینسر کے اس مریض کی عیادت کو فضیل جعفری پہنچے اورجب وہاں سےرخصت ہونے لگے تو دونوں کی حالت مغموم تھی کہ دونوں کو مرض و مریض کی حالت کا ادراک تھا ۔ عزیز قیسی مرض کی گِرِفت میں تو تھے ہی مگر ان کے مزاج کو کسی کی گِرِفت گراں تھی مگر ’’ہائے رے انسان کی مجبوریاں۔۔۔‘‘فضیل جعفری نے بتایا تھا کہ جب ہماری آخری بار آنکھیں چار ہوئیں توعزیز قیسی کی زبان سے اتنا ہی نکلا کہ رخصت کے وقت آنکھیں تو نم ہو ہی جاتی ہیں۔!! جمعہ25 دسمبر کی دوپہر جب کلکتے سے امین میاں سےفاروقی کی سناونی ملی تو’ وقت ِرخصت ‘کی یہ کیفیت قلب سے آنکھوں تک محسوس ہوئی۔ لیکن فاروقی کی تحریریں مردہ نہیں ان میں فاروقی زندہ ہیں اب ہم پر ہے کہ ہم ان سے کب کب اور کیسے استفادہ کرتے ہیں ، فاروقی جو چراغ روشن کر گئے ہیں ان کی روشنی کو ہم کتنی دور تک بڑھاتے ہیں کہ فاروقی کے تئیں یہی ہمارا حقیقی خراج ہو گا۔ بعض لوگ ایسے مصرع کہہ جاتے ہیں کہ وہ نجانے کتنوں کی پیش گوئی بن جاتے ہیں ،اس موقع پر جگر(مراد آبادی) اپنےمصرع کے ساتھ ہمارے روبرو ہیں:ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں۔

پروفیسرظفراحمد صدیقی کا انتقال

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق صدر پروفیسر ظفر احمد صدیقی 29 دسمبر دوپہر 2:30 بجے کے قریب رضائے الٰہی سے وفات پا گئے ۔پروفیسر ظفراحمد صدیقی کا شمار اعلی پائے کے محققین میں ہوتا ہے ۔ وہ تقریباً 40 سال تک درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہے اوربطور استاد ان کی اعلی خدمات کا ہر سطح پر اعتراف کیا گیا ۔تحقیق سے خاص دلچسپی کے تحت وہ طویل عرصہ سے اردو اور فارسی کے شعراءو ادباءپر تحقیقی کام انجام دے رہےتھے اور انھوں نے اس درمیان اردو کی ادبی تاریخ میں اہمیت کے حامل متون کی کھو ج کرکے انھیں شائع بھی کرایا. ان کا امتیاز یہ بھی تھ کہ وہ تقریبا 40 سال تک کلاسیکی متن(نثر اور شاعری) کی تعلیم دیتےرہے۔انھوں نے اردو کے کلاسیکی شاعروں کے ان پہلووں پر تحقیقی روشنی ڈالی جن کو اب تک نظر انداز کیا جاتا رہا تھا۔ساتھ ہی اردو کی اہم صنف قصیدہ کی ہیئت اور حدود سے بھی بحث کی ۔ پروفیسر ظفر احمد صدیقی کی ۷۱ کتابیں،جن میں ” شبلی شناسی کے اولین نقوش، تحقیقی مقالات ،دیوان ناظم،افکار و شخصیات،شبلی کی علمی و ادبی خدمات،شرح دیوان اردو غالب،شبلی معاصرین کی نظر میں،انتخاب مومن،نقش معنی وغیر ہ شامل ہیں۔ ان کے ۵۳۱ سے زائد مقالات ملک اور بیرون ملک خصوصاپاکستان(نقوش،لاہور۔اقبالیات،لاہور۔صحیفہ، لاہور۔قومی زبان ،کراچی،تحصیل،کراچی وغیرہ) کے معیاری علمی جرایدمیں شائع ہو چکے ہیں۔پروفیسر ظفر احمد صدیقی کو ”نقوش ایوارڈ ،لاہور(پاکستان)کے علاوہ ہندوستان کی مختلف اردو اکیڈمیوں کی جانب سے انعامات و اعزازات سے نوازا گیا،انھیںمتعدد اسکالرشپ اور فیلوشپ بھی تفویض ہوئی ہیں۔انھوں مختلف سیمیناروں میں ۳۳۱ مقالات متعدد کلیدی اور صدارتی خطبے پیش کیے۔ اکتوبر 2019 تک ان کے زیر نگرانی ۷۱ پی ایچ ڈی اور ایم فل مقالات پر ڈگریاں تفویض ہوئیں ۔(بہ شکریہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پیج)۔