رفتید ولے نہ از دلِ ما

ڈاکٹر ندیم شفیق ملک

تحریک پاکستان، آل انڈیا مسلم لیگ، قائداعظم اور علامہ اقبال پر 70 سے زائد کتابوں کے مصنف و مرتب

۔2020ء کا حشر ساماں سال جاتے جاتے ‘وفیات الاعیان کا ایک باب اور رقم کرگیا۔ اقبال کے عاشق، جناح کے پرستار، محقق، مؤرخ، علم دوست اور علم پرور ڈاکٹر ندیم شفیق ملک نے 24 دسمبر 2020ء کو اس جہانِ فانی کو الوداع کہا۔
ڈاکٹر ندیم شفیق ملک( مرحوم)، تحریک پاکستان، آل انڈیا مسلم لیگ، قائداعظم ، علامہ اقبال اور دیگر موضوعات پراردو اور انگریزی زبانوں میں 70 سے زائد تحقیقی کتابوں کے مصنف و مرتب تھے۔ تاریخ، بین الاقوامی تعلقات، قومی سلامتی، زبان و ادب اور اقبالیات کے مطالعے سے گہری دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے تاریخ میں ایم۔ ایس سی۔، ایم ۔فل۔ اور پی ایچ ۔ڈی ۔کی اسناد حاصل کیں۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم۔ اے ۔(پنجابی) اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے پاکستانی زبانیں اور ادب میں ایم۔ فل ۔کی اسناد حاصل کیں۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد نے آپ کو اقبالیات میں ایم۔ فل اور پی ایچ۔ڈی ۔کی اسناد بھی عطا کیں۔ علاوہ ازیں اسی یونیورسٹی سے ویمن اسٹڈیز میں ایم۔ ایس سی۔ اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے بین الاقوامی تعلقات میں ایم۔ فل ۔کی اسناد بھی حاصل کیں۔
ڈاکٹر صاحب اس وقت مینجنگ ڈائرکٹر پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان کے عہدے پر فائز تھے جبکہ اس سے پہلے وفاقی سیکریٹری، قومی تاریخ و ادبی ورثہ ڈویژن، چئیرمین نیشنل کونسل آف سوشل ویلفیر، سکریٹری پریزیڈنٹ سیکرٹریٹ آفس بھی رہ چکے تھے۔آپ گزشتہ تیس برس سے سول سروس سے وابستہ تھے۔ اعلیٰ ترین سرکاری مناصب پر فائز رہنے کے باوجود سر عجز سے جھکا رہتا تھا۔نشست و برخاست ، رفتار و گفتار کہیں سے بھی غرور و تکبر کا شائبہ تک نہ ہوتا تھا۔ پاکستان، قائداعظم ، علامہ اقبال اور تحریک پاکستان کے دیگر رہنماؤں سے والہانہ محبت رکھتے تھے۔ ان موضوعات پر کام کرنے والوں کے لیے آپ کی ذات مشعل راہ کی حیثیت رکھتی تھی۔
ڈاکٹر ندیم شفیق ملک کی اصل شناخت بطور ایک محقق، مورخ ، علم دوست اور دردمند انسان کی تھی۔آپ نے اسلام آباد میں “ایسٹ پاکستان ہاؤس” سے موسوم اپنے گھر میں اپنی والدہ کے نام سے ایک لاکھ سے زائد کتابوں پر مشتمل نہایت شاندار کتب خانہ “کتب خانہ صفیہ رفیق” کے نام سے قائم کیا ،جو نادر و نایاب اور انتہائی قیمتی کتابوں سے مزین ہے۔ تحریک پاکستان کے حوالے سے ہر کتاب اور مقالہ ، سرکاری دستاویزات یہاں تک کہ اخباری تراشے بھی اس کتب خانے میں موجود ہیں۔ پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کارروائیوں کی رپورٹیں بھی ڈاکٹر صاحب کے اس کتب خانے کا ایک امتیازی وصف ہیں۔کتابوں کا ایسا شاندار موضوعاتی ذخیرہ شاید ہی کسی ذاتی کتب خانے میں ہو۔ ڈاکٹر صاحب کے دل اور قیام و طعام کی تمام سہولتوں سے آراستہ اس کتاب خانے کے دروازے محققین کے لیے ہمیشہ کھلے رہے۔
فروری 2020ء میں وفاقی جامعہ اردو اسلام (آباد کیمپس) کے شعبہ اردوکے ایم۔ اے ۔ کے طالب علم محمد احسان حسن نے اپنا تحقیقی مقالہ بعنوان “کتب خانہ صفیہ رفیق میں قائد اعظم پر اردو کتب کا توضیحی اشاریہ” بھی تحریر کیا۔
جیسا کہ پہلے ذکر جاچکا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ستر سےزائدتحقیقی مقالوں اور کتابوں کے مصنف و مرتب تھے۔ یہاں اس کی فہرست نگاری مقصود نہیں ہے۔ قارئین کی آگاہی کے لیے چند کتابوں کے نام درجذیل ہیں:
علامہ محمد اقبال کی زندہ یادیں۔علامہ اقبال کا خطبہ الہٰ آباد: مقدمہ، حواشی، تعلیقات، دستاویزات۔اقبال شاعر رنگیں بیان۔حیات اقبال کے چند نادر گوشے۔نوادراتِ علامہ اقبال۔سرسید احمد خان: حیات و خدمات۔مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح ، حیات وخدمات۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی: یادیں ، تاثرات، شخصیات۔ صدائے بام دنیا ( وخی زبان ، ادب و معاشرت پر ایک نظر) ۔
Brethren in Faith (The All India Muslim League and the Palestine Issue India vs China, The All India Muslim League (1906-1947)( The Children’s Correspondence with the Quaid e Azam Muhammad Ali Jinnah, Jammu And Kashmir Issue And The Parliament Of Pakistan, Iqbal and English Press of Pakistan, The formative period of All India Muslim League (1906-1919), The Voice of the Muslim India, etc,
ڈاکٹر ندیم شفیق سادہ مزاج اور انسان دوست شخصیت کے حامل تھے۔ لوگوں کے کام آکر خوشی محسوس کرتے تھے۔قائداعظم کے افکار کی روشنی میں آپ بلاکسی تفریق پاکستان کے ہر شہری سے محبت کرتے تھے اس کا احترام کرتے تھے۔ آپ جب پہلی بار پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان لاہور کی عمار ت میں داخل ہوئے تودیکھا وہاں بہت سے ساتھی ان سے ملنے کے لیے کھڑے تھے۔ لوگوں کے پیچھے خاصے فاصلے پر نذیر مسیح کوبھی انھوں نے کھڑے دیکھا جو وہاں خاکروب کے فرائض سرانجام دیتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے کمال شفقت سے اسے اپنے پاس بلایا اور درخواست کی کہ میرے ساتھ بیٹھ کر ایک تصویر کھنچواؤ۔ اس موقعے پر نذیر مسیح اور اس کی کمیونٹی کی خدمات کے سلسلے میں اسے ایک ماہ کی اعزازی تنخواہ بھی دی۔ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ اس کی مسکراہٹ نے میرادن خوش گوارکردیا۔بعد ازاں ڈاکٹر صاحب نے نذیر مسیح کے ساتھ اپنی تصویر فیس بک پر #SweepersAreSuperheroes کے عنوان سےپوسٹ کی اور لکھا :” ڈیر نذیر! تمھاری خدمات کے سلسلے میں یہ کافی نہیں ہے۔ لیکن ایک دن آئے گا جب تمھاری اولاد اور اولاد کی اولادیں ہر لحاظ سے قابل فخراور ترقی یافتہ پاکستانی ہوں گی دیگر تمام شہریوں کی طرح جیسا کہ قائداعظم اور علامہ اقبال کا تصور تھا۔ ان شاء اللہ۔”
ڈاکٹر صاحب کا یہ کہنا تھا کہ میرے والدین اور میرے صوفی اساتذہ نے مجھے بلاکسی تفریق انسانوں یہاں تک کہ جانوروں ، پرندوں اور پودوں سے بھی محبت کرنا سکھایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی دو کتابوں کا انتساب بھی اپنےدو بہترین عیسائی اساتذہ کے نام کیا ہے۔
راقم کی ڈاکٹر صاحب سے پہلی ملاقات فروری 2018ء میں ہوئی جب ڈاکٹر صاحب، برادرم ڈاکٹر داؤد عثمانی کے ہمراہ کچھ کتابوں کے حصول کے لیے شعبہ اسلامی تاریخ، جامعہ کراچی میں راقم کے دفتر تشریف لائے۔اس کے بعد یہ تعلق مستقل استوار رہا اور تبادلۂ کتب کا سلسلہ جاری رہا۔ دوسال قبل ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آباد جانا ہوا ۔ ڈاکٹر صاحب کو خبر ہوئی تو آپ نے کانفرنس ختم ہوتے ہی اپنی گاڑی بھیج کر ہمیں (راقم اور ڈاکٹر نگار سجاد ظہیر صاحبہ) اپنے گھر بلوالیا۔ اپنے شاندار کتب خانے کا دورہ بھی کرایا اور خوب خاطر مدارات بھی کی۔ دوران گفتگو ہمارے سوالات کے بڑے سادہ اور دلنشین انداز میں جواب دیتے رہے۔ دوران گفتگو ایک لمحے کے لیے بھی یہ تاثر نہیں دیاکہ وہ کوئی بہت بڑے سرکاری افسر ہیں۔
اسی طرح مارچ2019 ء میں ہزارہ یونیورسٹی کی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو علم ہوا تو آپ نے بہت اصرار کیا کہ ایک رات ان کے کتب خانے میں ضرور قیام کیا جائے۔ چنانچہ کانفرنس ختم ہونے کے بعد ایک رات اسلام آباد میں ان کے گھر قیام کیا۔ کتب خانے کو تفصیل سے دیکھنے کا موقع ملا۔ صبح ناشتے پر خوب گپ شپ بھی ہوئی۔ دوپہر کے وقت ڈاکٹر صاحب کو ایک ضروری میٹنگ میں شرکت کے لیے جانا تھا۔ لیکن آپ جاتے ہوئے اپنی اہلیہ کو تاکید کرگئے تھے کہ دوپہر کا کھانا کھائے بغیر نہ جانے دیا جائے۔ ڈرائیور کو بھی تاکید کردی تھی کہ وقت پر ایئر پورٹ چھوڑ کر آئے۔ چند روز قبل انھیں راقم کے بحیثیت صدر شعبہ اسلامی تاریخ ،تقرر کی اطلاع ملی تو خود مبارک دینے کے لیے فون کیا اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک بھرپور ، متحرک اور فعال زندگی گزاری۔70 سے زائد ملکوں کا سفر کیا۔اپنی سرکاری ذمے داریوں کی انجام دہی کے سلسلے میں اکثر اندرون ملک بھی سفر میں رہتے تھے۔دوماہ قبل ڈاکٹر صاحب کراچی بھی تشریف لائے تھے اس حوالے سے معروف صحافی محمد احمد ترازی نے ہمیں بتایا کہ “25اکتوبر کو ڈاکٹر صاحب کراچی تشریف لائے تو انہوں نےختم نبوت اور رد قادینت کے حوالے سے بالخصوص رابطہ کیا تھا اس حوالے سے ان کے زیر غور برطانوی ڈاکومنٹس کی روشنی میں ایک بہت اہم پروجیکٹ تھا جس میں تعاون اور علمی مدد کے حوالے سے ایک سیر حاصل گفتگو رہی اور اس کے سیاق و سباق پر غور خوض کیا گیا۔ صد افسوس کہ وہ معاملہ اور اس کے ساتھ اوربہت سےپروجیکٹ ،جو اسلام ،تحریک پاکستان ،قائد اعظم اور علامہ اقبال کے حوالے سے زیر تکمیل تھے ، بھی سر دست داخل دفتر ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب چاہتے تھے کہ ایک مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرکے باہم مربوط اور منظم انداز میں اسلام، پاکستان، قائد اعظم اور علامہ اقبال مخالف سرگرمیوں کے رد کے لیے کام کریں تاکہ اس منفی پروپیگنڈے کا بطلان کیا جاسکے جو نئی نسل کے ذہنوں میں زہر گھول رہا ہے اور انھیں متنفرا ور گمراہ کررہا ہے۔”
قائداعظم سے والہانہ محبت و عقیدت رکھنے والے ڈاکٹر ندیم شفیق ملک کی نمازہ جنازہ 25 دسمبر کو قائداعظم کے یوم پیدائش کے موقعے پرادا کی گئی اور راولپنڈی میں اس گوہر ِنایاب کو سپر دخاک کیا گیا۔
ع

ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ قائد اعظم ؒو اقبال ؒکے اس بے لوث سپاہی اور عاشق کو جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے اور بیش از بیش نعمتوں سے نوازے۔ آمین