یہ جہاں چیز ہے کیا…؟۔

علامہ ابن اثیر جزریؒ نقل کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ ایرانی آتش پرستوں سے جہاد کرنے کے لیے قادسیہ پہنچے تو انہوں نے اپنے لشکر کے ایک افسر عاصم بن عمرو رضی اللہ عنہ کو کسی کام سے میان کے مقام پر بھیجا، یہ دشمن کے ملک میں ایک چھوٹی سی جگہ تھی۔ حضرت عاصمؒ یہاں پہنچے تو رسد کا سارا ذخیرہ ختم ہوگیا۔ اور ساتھیوں کے پاس کھانے کو کچھ نہ رہا۔ انہوں نے آس پاس تلاش شروع کی کہ شاید کوئی گائے بکری مل جائے مگر کافی جستجو کے باوجود کوئی جانور ہاتھ نہ آیا۔ اچانک انہیں بانس کے ایک چھپر کے پاس ایک شخص کھڑا نظر آیا۔ انہوں نے اس سے جاکر پوچھا کہ ’’کیا یہاں آس پاس کوئی گائے بکری مل جائے گی؟‘‘
اس شخص نے کہا ’’مجھے معلوم نہیں‘‘۔ حضرت عاصمؒ ابھی واپس نہیں لوٹے تھے کہ چھپر کے اندر سے ایک آواز سنائی دی۔
’’یہ خدا کا دشمن جھوٹ بولتا ہے،ہم یہاں موجود ہیں‘‘۔
حضرت عاصمؒ چھپر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں کئی گائے بیل کھڑے ہیں۔ مگر وہاں کوئی آدمی نہیں تھا اور یہ آواز ایک بیل کی تھی۔ حضرت عاصمؒ وہاں سے گائے بیل لے کر آئے اور انہیں لشکر میں تقسیم کیا۔
یہ واقعہ کسی نے حجاج بن یوسف کو سنایا تو اسے یقین نہ آیا۔ اس نے جنگ قادسیہ کے شرکا کے پاس پیغام بھیج کر اس کی تصدیق کرنی چاہی تو بہت سے حضرات نے گواہی دی کہ اس واقعے کے وقت ہم موجود تھے، حجاج نے ان سے پوچھا:
’’اس زمانے میں اس واقعے کے بارے میں لوگوں کا تاثر کیا تھا؟‘‘
انہوں نے کہا ’’اس واقعے کو اس بات کی دلیل سمجھا جاتا تھا کہ اللہ ہم سے راضی ہے اور وہ ہمیں دشمن پر فتح عطا فرمائے گا‘‘۔
حجاج نے کہا’’یہ بات اسی وقت ہوسکتی ہے جب لوگوں کی اکثریت متقی و پرہیزگار ہو’’ ۔
’’دلوں کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’لیکن اتنا ہم بھی جانتے ہیں کہ دنیا سے اس قدر بے نیاز قوم ہم نے ان کے بعد نہیں دیکھی‘‘۔
(مفتی محمد تقی عثمانی۔ تراشے)

چار حماقتیں

حضرت علیؓ کا ارشاد ہے کہ چار حماقتوں سے بچو:۔
٭ بچوں پر غصہ، ٭ امیروں کی صحبت، ٭ سنگ دل غنی کے سامنے اظہار حاجت اور ٭اللہ کے سوا کہیں اور تلاش راحت۔

برمکی اور خلیفہ ہارون

تاریخ بتاتی ہے کہ البرا مکہ (یحییٰ جعفر فضل) سے زیادہ فیاض، علم نواز، نکتہ سنج، سیاست دان اور دانش مند وزرا کبھی کسی فرماں رواں کو نصیب نہیں ہوئے۔ جب خلیفہ ہارون (786ء۔ 809ء) نے برمکیوں کو تباہ کردیا تو برسوں دنیا ان پر مرثیے لکھتی اور پڑھتی رہی۔ ایک دن ہارون دربار میں بیٹھا ہوا تھا۔ کسی نے اطلاع دی کہ آج فلاں صوبے سے اتنے اونٹ سونے اور چاندی سے لدے ہوئے آئے ہیں۔ اس خبر سے ہارون خوش ہوا اور کہنے لگا کہ برمکیوں کے زمانے میں باہر کے صوبوں سے ایک پیسہ تک نہیں آتا تھا۔ برمکیوں کا ایک مداح بول اٹھا: ’’اس وقت پیسہ جائز مالکوں کے پاس رہتا تھا‘‘۔
(ماہنامہ چشم بیدار۔ اکتوبر 2017ء)

زبان زد اشعار

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
(داغ)

اس غیرت ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
(مومن)

ان کو آتا ہے پیار پر غصہ
ہم کو غصے پہ پیار آتا ہے
(امیر مینائی)

ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہوجائے
(حفیظ جالندھری)

انداز ہُو بہُو تری آواز پا کا تھا
دیکھا نکل کے گھر سے تو جھونکا ہوا کا تھا
(احمد ندیم قاسمی)

اک فرصت گناہ ملی، وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
(فیض)