پبلک سیکٹر میں خیبر پختون خوا میں قائم ہونے والا اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور پہلا اسپیشلائزڈ اسپتال ہوگا
وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا افتتاح کردیا ہے۔ واضح رہے کہ صوبے کے اس اکلوتے امراضِ قلب کے ادارے کا افتتاح دس سال بعد کیا گیا ہے، جس کا سنگِ بنیاد 2005ء میں متحدہ مجلس عمل کی حکومت میں جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر صحت عنایت اللہ خان کی قیادت میں رکھا گیا تھا، جس پر بعد میں نہ تو اے این پی اور پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں کوئی خاص پیش رفت ہوسکی تھی، اور نہ ہی پی ٹی آئی کے گزشتہ پانچ سالہ دورِ حکومت میں یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو پہنچ سکا تھا۔
گزشتہ دنوں اس ادارے کی باضابطہ افتتاحی تقریب کے مہمانِ خصوصی وزیراعظم عمران خان تھے، جب کہ اس موقع پر وزیر اعلیٰ محمود خان،گورنر شاہ فرمان اور صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا بھی موجود تھے۔ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ انسٹی ٹیوٹ خطے میں دل کے مریضوں کو معیاری طبی علاج فراہم کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ غریب عوام جو نجی اسپتالوں میں دل کی بیماریوں کے علاج کے متحمل نہیں ہوسکتے اب انہیں اس کارڈیک انسٹی ٹیوٹ میں بہترین طبی سہولیات میسر ہوں گی۔ انہوں نے کووڈ- 19 کے دوران مالی رکاوٹوں کے باوجود اس منصوبے کو مکمل کرنے پر وزیراعلیٰ کو مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے انسٹی ٹیوٹ میں اعلیٰ معیار کی سہولیات کو برقرار رکھنے کی ہدایت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ خیبر پختون خوا حکومت کا یونیورسل صحت انشورنس صوبے کے عوام خصوصاً مستحق خاندانوں کو صحت کی فراہمی کے سلسلے میں ایک اور اہم قدم ہے۔ عمران خان نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی صحت انصاف کارڈ اسکیم مستحق خاندانوں کو صحت کی سہولیات کو یقینی بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ صحت کارڈ سے غریب آدمی کو اعتماد مل جاتا ہے کہ وہ کسی بھی اسپتال میں مفت علاج معالجے کی سہولت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسپتالوں کی تعمیر کے لیے نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔
تفصیلات کے مطابق انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی 250 بستروں پر مشتمل ہے۔ اسپتال میں کارڈیو ویسکولر، سرجری اور علاج کی اسٹیٹ آف دی آرٹ سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ امراضِ دل کے اسپتال میں کُل 6 جدید لیبارٹریاں ہیں اور 6 ہی آپریشن تھیٹر بنائے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ابتدائی طور پر اسپتال 140 بستروں، 3 لیبارٹریز اور 2 آپریشن تھیٹرز کے ساتھ فعال کیا گیا ہے۔ اسپتال میں سالانہ 2500 سے 3000 دل کے آپریشن کیے جا سکیں گے، خیبر پختون خوا کے عوام اسپتال میں صحت کارڈ سے بھی مستفید ہوسکیں گے۔ اس اسپتال میں ماہرین قلب بیرونِ ملک سے تربیت یافتہ ہیں۔
پی آئی سی کے میڈیکل ڈائریکٹر اورمعروف کارڈیک سرجن پروفیسر ڈاکٹر شاہکار احمد شاہ نے گزشتہ دنوں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ادارے میں ابتدائی طور پرتین کیتھ لیبز اور آپریشن تھیٹرز کے علاوہ 140 بستروں کی دستیابی کو یقینی بنایاگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل خیبر پختون خوا میں 80 فیصد کارڈیک مریضوں کو صوبے سے باہر علاج معالجہ کرانا پڑتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ تین کنسلٹنٹ سرجن اور امراض قلب کے سات ماہرین … جن میں برطانیہ کے دو اور امریکہ اور کینیڈا کے ایک ایک ڈاکٹر شامل ہیں… انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ہوئے ہیں جو تربیت اور تحقیق کے ایک مرکز کے طور پر کام کرے گا۔
کسی زمانے میں علاج ایک شعبے تک محدود تھا اور ہر مرض کے علاج کا ایک ہی ماہر اور طبیب ہوتا تھا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس شرح اور رفتار سے امراض کی اقسام اور تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اسی رفتار سے ان امراض کے علاج اور تشخیص کے نت نئے طریقے بھی سامنے آتے گئے۔ طبی سائنس کی اس تیز رفتار ترقی کے نتیجے میں آج کل سپر اسپیشلٹی کے شعبے معرضِ وجود میں آچکے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں ہر 34 سیکنڈ بعد دل کے امراض سے ایک فرد ہلاک ہورہا ہے جو انتہائی خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی شرح ہے۔ پاکستان جیسے پسماندہ اور ترقی پذیر ملک میں امراضِ قلب سے ہونے والی اموات کی شرح اور بھی زیادہ پریشان کن ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ ہونے والی اموات میں ہر تیسری موت امراضِ قلب کے باعث ہوتی ہے۔ اس طرح امراضِ قلب سے سالانہ شرح اموات 30فیصد ہے جو اس خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ امراضِ قلب سے بچائو بعض انتہائی سادہ اورعام فہم احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے ذریعے ممکن ہے جس کے لیے ماہرینِ امراضِ قلب نے باقاعدہ گائیڈ لائنز مقرر کی ہیں جن پر عمل درآمد کے ذریعے نہ صرف تیزی سے پھیلتے ہوئے امراضِ قلب کا سدباب ممکن ہے بلکہ اس طرح دل کے کئی امراض کا علاج بھی کیا جا سکتا ہے۔
امراضِ قلب کے علاج معالجے کے لیے ویسے تو پشاور کے تینوں بڑے تدریسی اسپتالوں میں یونٹ موجود ہیں جہاں ماہرینِ امراضِ قلب کی تربیت یافتہ ٹیمیں دن رات علاج معالجے کی خدمات فراہم کررہی ہیں اور اس ضمن میں لیڈی ریڈنگ اسپتال کا امراضِ قلب کا یونٹ ملک کے چند مایہ ناز اور مثالی یونٹو ںمیں شمار ہوتا ہے، لیکن آبادی میں ہونے والے بے تحاشا اضافے اور بالخصوص پچھلے چند سال کے دوران امراضِ قلب کی شرح میں تیزی سے ہونے والے اضافے، نیز لیڈی ریڈنگ اسپتال میں حکومتی مداخلت کے نتیجے میں کئی نامی گرامی ماہرینِ قلب کی جانب سے بطور احتجاج مستعفی ہونے کے نتیجے میں نہ صرف صوبے کے اس سب سے بڑے اسپتال میں موجود سہولیات کم پڑ رہی ہیں بلکہ ان کا معیار بھی دن بدن گرتا جارہا ہے۔
ان پہلوئوں کو مدنظر رکھتے ہوئے 2005ء میں صوبے میں برسراقتدار مذہبی جماعتوں پر مشتمل متحدہ مجلس عمل کی حکومت نے پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی)کے نام سے350 بستروں پرمشتمل ایک معیاری اور مثالی اسٹیٹ آف دی آرٹ امراضِ قلب کے علاج کا ایک ادارہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس ادارے کے قیام کے لیے مجلس عمل حکومت نے پی سی ون کی منظوری کے بعد فیز 5 حیات آباد میں 34 کنال رقبہ الاٹ کرکے یہاں ابتدائی کام کا آغاز کیا تھا۔ ایم ایم اے حکومت کے خاتمے کے بعد جب صوبے میں اے این پی اور پیپلز پارٹی کی حکومت بنی تو اس مخلوط حکومت نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایم ایم اے دور کے بعض دیگر اہم منصوبوں کی طرح صوبے کے اس اہم ترین منصوبے کو بھی کھٹائی میں ڈالنے کی حتی الوسع کوشش کی، لیکن چونکہ اس منصوبے پر خاصا کام ہوچکا تھا اور اس کو مکمل طور پر ختم کرنا آسان نہیں تھا اس لیے سابقہ حکومت نے اس منصوبے کو پوری طرح تو ختم نہیں کیا، البتہ اس کی وہ سرپرستی نہیں کی جس کا یہ اہم عوامی منصوبہ متقاضی تھا۔ واضح رہے کہ پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے زیربحث منصوبے پر اخراجات کا تخمینہ تقریباً 1794.42ملین روپے لگایا گیا تھا جس میں وقت کے ساتھ کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ صوبے میں اپنی نوعیت کے اس اہم اور منفرد اسپتال کے متعلق راقم الحروف کو اس منصوبے کے سابق پراجیکٹ ڈائریکٹر اور معروف ماہرِ امراضِ قلب پروفیسر ڈاکٹر حفیظ اللہ نے بتایا کہ اس منصوبے کی سب سے اہم بات ایک چھت تلے قلب سے متعلق تمام امراض کی تشخیص اور علاج کی سہولیات کی فراہمی ہوگی۔ انھوں نے کہا کہ یہاں معمول کا چیک اپ اور انجیو گرافی اور انجیو پلاسٹی سے لے کر بائی پاس آپریشن تک کی تمام سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ گرائونڈ فلور اوپی ڈی مریضوں کے لیے مختص کیا گیا ہے جہاں روزانہ اوسطاً 400مریض دیکھنے کی گنجائش رکھی گئی ہے۔ انجیو پلاسٹی کے لیے 6یونٹ مختص کیے گئے ہیں جہاں روزانہ اوسطاً30 انجیو پلاسٹی کی جا سکیں گی۔ ایمرجنسی مریضوں کے لیے گرائونڈ فلور پر ایک 50بستروں پر مشتمل ایمرجنسی یونٹ اس منصوبے کا اہم حصہ ہے جہاں بیک وقت کئی مریضوں کو فوری طبی امداد فراہم کی جا سکے گی۔ شدید بیمار مریضوں کے لیے 50بستروں پر مشتمل انتہائی نگہداشت کا وارڈ بھی قائم کیا جائے گا۔ اس جدید ترین اسپتال میں6آپریشن تھیٹرز کے علاوہ کارڈیٹک سرجری جنرل وارڈ، ریڈیالوجی ڈپارٹمنٹ، پیتھالوجی ڈپارٹمنٹ، نیوکلیئر کارڈیالوجی ڈپارٹمنٹ، ای ٹی ٹی ڈپارٹمنٹ، ایکوکارڈیو گرافی ڈپارٹمنٹ،کرونری کیئر یونٹ، سی ایس ایس ڈی، انجیو گرافی ڈپارٹمنٹ، بلڈبینک، میڈیکل گیسز، اوپی ڈی، انتظار گاہ، اکیڈمک بلاک، سوشل سروسز، سینٹرل ائرکنڈیشننگ، کمپیوٹرائزیشن، فائر سیفٹی اور فائرفائٹنگ سسٹم، سی سی ٹی وی سرویلنس سسٹم، کیفے ٹیریا، ریکریشن سینٹر، فارمیسی، کال سینٹر، لائبریری، ڈاکٹرز، پیرامیڈیکس اور نرسز ہاسٹل اوررہائشی فلیٹس پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے اہم حصے ہیں۔ جب کہ اسپتال کی چھت پر ایک ہیلی پیڈ کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے جہاں ہیلی کاپٹر کے ذریعے منتقل ہونے والے مریضوں کو ہینڈل کیا جائے گا۔ پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی سب سے بڑی خوبی اور اہم بات یہ ہے کہ یہ پبلک سیکٹر میں خیبر پختون خوا میں قائم ہونے والا اپنی نوعیت کا ایک منفرد اور پہلا اسپیشلائزڈ اسپتال ہوگا، جہاں امراضِ قلب سے متعلق تمام جملہ سہولیات سرکاری ریٹ پر ایک ہی چھت کے نیچے فراہم کی جائیں گی۔ پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا ایک اور منفرد اور اہم پہلو یہاں ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکس کو امراضِ قلب سے متعلق فراہم کی جانے والی تربیت ہوگی، جب کہ یہاں قلب سے متعلق امراض کی تشخیص اور تحقیق کے لیے الگ شعبے بھی قائم کیے جائیں گے۔
حرفِ آخر یہ کہ پشاور انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی جیسے اہم منصوبے کی تکمیل اور یہاں علاج معالجے کی سہولیات کے آغاز سے نہ صرف خیبر پختون خوا بلکہ ملحقہ قبائلی علاقوں، افغانستان، حتیٰ کہ کشمیر اور شمالی پنجاب کے مریضوں کو بھی استفادے کا موقع ملے گا۔