کے ڈی اے عدالت کے ’’نرغے میں ‘‘۔

سابق ملازمین کی پنشن کی رقم کہاں گئی؟

کراچی پورے پاکستان کے لیے اقتصادی اور جغرافیائی لحاظ سے اہمیت کا حامل دنیا کا چھٹا بڑا شہر ہے، اور یہ ہمیشہ سے مسائل کا شکار رہا ہے، جس کی بنیادی وجہ کرپشن، نااہلی اور ناانصافی ہے۔ اس شہر کی تعمیر کے لیے جتنے بھی منصوبے بنے اُن پر یا تو ٹھیک طرح سے عمل درآمد نہیں کیا گیا، یا پھر اہلیت کا مسئلہ سامنے آیا۔ جو ادارے شہر کی ترقی کے لیے بنائے گئے، وہی کرپشن اور اقربا پروری کا شکار رہے۔ ان ہی میں سے ایک ادارہ کے ڈی اے (ادارہ ترقیات کراچی) ہے جو شہری منصوبہ بندی اور ترقیات کا خودمختار ادارہ ہے۔ اس ادارے کا قیام 1957ء میں عمل میں آیا تھا۔ اس کا دائرۂ اختیار صرف کراچی شہر تک محدود ہے، اس کے نصب العین میں شہری منصوبہ بندی کے اصول و ضوابط کا اطلاق اور تعمیرات کی پائیداری کی جانچ پڑتال ہے۔ شہری منصوبہ بندی کے پس منظر میں اس ادارے کی کراچی شہر میں بڑی اہمیت تھی، لیکن بدقسمتی سے کسی بھی سیاسی و فوجی حکومت نے اس ادارے کو میرٹ کی بنیاد پر چلانے کی کوشش نہیں کی، جس کا نتیجہ آج شہر کی ابتر صورتِ حال کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ کے ڈی اے اور لینڈ مافیا کی کئی داستانیں اور واقعات موجود ہیں، اس کی کارکردگی ہمیشہ سوالیہ نشان بنی رہی ہے اور وقتاً فوقتاً اس کے ایشوز سامنے آتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں ایک اہم مسئلہ اس کے ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن اور دیگر واجبات کی عدم ادائیگی کے عنوان کے ساتھ سامنے آیا، جس پر ہائی کورٹ میں ایک درخواست پر اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ31 دسمبر تک واجبات ادا نہ کیے تو اعلیٰ افسران کی تنخواہیں روک دیں گے۔ بینچ نے کے ڈی اے کی 6ماہ دیئے جانے کی درخواست کو مسترد کردیا اور کہاکہ تمام سرمایہ (سیونگ سرٹیفکیٹ، NIT) اور KDA کی املاک کو فروخت کرکے تمام واجبات ادا کئے جائیں۔ عدالت نے حکم دیا کہ یکم جنوری سے ہماری اجازت کے بغیر کے ڈی اے میں تبادلے اور تقرریاں نہیں ہوں گی۔ سندھ ہائی کورٹ نے یکم جنوری سے اپنے آفیشل اسائنی کو کے ڈی اے کے سیلری اکائونٹس کو تحویل میں لینے کا حکم دے دیا ہے۔ اکائونٹس میں تنخواہوں سمیت جو بھی رقم ہو اس سے ریٹائرڈ ملازمین کو ادائیگی کی جائے گی۔ عدالتی حکم کے مطابق ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی ادائیگی کے لیے اثاثے بھی فروخت ہوں گے۔ واجبات کی عدم ادائیگی پر صرف گریڈ 17 سے اوپر کے افسران کی تنخواہیں روکی جائیں گی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پنشن کی رقم جو تنخواہوں سے ہر ماہ منہا کی جاتی ہے اور اسے کسی اور مد میں خرچ نہیں کیا جاسکتا ہے، وہ رقم کہاں گئی اور کس نے خرچ کی اس کی تحقیق کی ضرورت ہے۔
کے ڈی اے کے ملازمین کی تنخواہیں اور خاص طور پر جو ملازمین ریٹائر ہوچکے ہیں اُن کی پنشن کا معاملہ عدم ادائیگی پر اور سنگین ہوجاتا ہے۔ وہ پہلے ہی مشکل حالات سے گزر رہے ہوتے ہیں اور پھر روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی مہنگائی ان کی مشکل اور تکلیف روزانہ کی بنیاد پر بڑھاتی ہے۔ اس حوالے سے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن نے بھی سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے کے ڈی اے کے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات اور پنشن کی ادائیگی کے لیے کے ڈی اے کو 31دسمبر تک کی ڈیڈلائن دینے اور بینک اکاؤنٹس عدالتی تحویل میں لینے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے سے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن اور واجبات کی ادائیگی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تاکہ ہزاروں ریٹائرڈ ملازمین سُکھ اور چین کا سانس لے سکیں۔ ساتھ ہی ان کا یہ مطالبہ کرنا بھی بروقت ہے، ان کی سندھ ہائی کورٹ سے یہ بھی درخواست بروقت اور درست ہے کہ عدالت ساتھ ہی واجبات اور پنشن کی عدم ادائیگی کے اصل ذمہ داران اور اُن فیصلہ سازوں کے خلاف سخت کارروائی کرے جن کے غلط فیصلوں اور پالیسیوں کے باعث یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ اس شہر کراچی کو ٹھیک اور درست سمت میں چلانے کے لیے یہ ضروری امر ہے کہ اس بات کی تحقیقات کرائی جائے کہ یہ صورت حال کیوں اور کن کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے؟ پنشن اور واجبات کی رقم کسی اور مد میں کیوں استعمال کی گئی؟ حافظ نعیم الرحمٰن نے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ تمام افسران کی تنخواہیں روکنے کے بجائے جو اس کے ذمہ دار ہیں اُن افسران اور ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے، عوام کے سامنے انہیں بے نقاب کیا جائے اور سخت سزا دی جائے۔ کیونکہ اصل مسئلہ اس بات کا جائزہ لینا ہی ہے کہ کے ڈی اے اس مقام پر کیوں اور کس وجہ سے پہنچا؟ جب تک اس کے ذمہ داروں کا تعین نہیں ہوگا ہر دوسرے دن کے ڈی اے سمیت شہر کے دیگر اداروں کے ایشوز اور کرپشن کی کہانیاں سامنے آتی رہیں گی، وقتی طور پر شور اٹھے گا اور معاملہ کچھ عرصے میں ٹھنڈا ہونے کے بعد پھر وہی پرانا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مافیا کو لگام دینے کے لیے سخت اقدامات کیے جائیں۔ حکومت تو اس میں ناکام ہوچکی ہے، اگر عدلیہ ڈنڈے کے زور پر ہی کچھ کام کروا سکے تو یہ شہر کراچی کے لوگوں کے لیے ایک اچھا ریلیف ہوگا، کیونکہ شہر کے لوگ ان اداروں کی لوٹ مار اور کرپشن کے باعث سخت اذیت کا شکارہیں۔ امید ہے عدالت 19 جنوری تک ملتوی سماعت میں اس حوالے سے تفصیل سے کے ڈی اے کی کارکردگی کا جائزہ لے گی۔