ایک کروڑ نوکریوں کا اعلان اور روزگار چھیننے کے حکومتی جواز

اگر حکومت کا کام افراد کو ملازمتیں فراہم کرنا نہیں تو پھر یہ کس کا کام ہے؟

معروف کالم نگار ابراہیم کنبھر نے پیر 30 نومبر 2020ء کو اپنے تحریر کردہ اس کالم میں تحریک انصاف کی موجودہ وفاقی حکومت اور وزیراعظم عمران خان کی تضاد فکری اور قول و فعل میں باہم نامناسبت کو بڑی عمدگی سے اجاگر کیا ہے، جس کا ترجمہ قارئین کی معلومات اور دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے۔
…٭…٭…

ترجمہ: اسامہ تنولی

’’ایک کروڑ سرکاری نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر، تحریک انصاف کے انتخابی منشور کا اہم جزو ہیں۔ الیکشن سے قبل جب عمران خان اور اُن کی پارٹی کے دیگر رہنما کسی کے اشارے پر میاں نوازشریف کو وزیراعظم آفس سے باہر نکالنے کے منصوبے کی تشکیل کے بعد باہر نکلے تھے، اُس وقت بھی دیگر باتوں کے ساتھ ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کا واویلا کرتے ہوئے یہ بھی اعلان کیا جاتا تھا کہ انہیں لوگوں کو فراہمیِ روزگار کی فکر لاحق ہے۔ حکومت کو عوام کو نوکریاں دینے میں دلچسپی نہیں ہے۔ پھر جب انتخابی مہم شروع ہوئی تو ہر جلسۂ عام میں ایک کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان کیا گیا۔ ویسے اگر عمران خان کے اس طرح کے وعدوں کی بات کی جائے تو پھر اس کی فہرست تو درحقیقت بڑی طولانی ہے۔ لیکن تحریک انصاف کے جلسوں میں کچھ اعلانیہ وعدوں کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ خان صاحب کا وعدہ تھا کہ ہمارا ملک کیوں کہ زرعی ملک ہے اس لیے پہلے مرحلے میں ملک کے اندر زرعی ایمرجنسی کا نفاذ کیا جائے گا۔ یہ زرعی ایمرجنسی ایسی ثابت ہوئی کہ اہلِ وطن پھر چینی اور گندم تک کے لیے ترس گئے۔ ان دونوں چیزوں کے لیے بیرونی ممالک کو درخواست کی گئی۔ بھاری بھرکم ٹیکس اور ڈیوٹیاں عائد کرنے کے بعد باہر سے گندم اور چینی منگوائی گئی اور زرعی ملک ہونے کے باوجود ملک میں دو سال کے دوران کوئی بھی زرعی ہدف حاصل نہیں کیا جا سکا۔
ملک میں ٹیکس نیٹ بڑھانے کا اعلان کیا گیا، دو برس کے عرصے میں ٹیکس کے مقرر کردہ اہداف بھی پورے نہیں ہوسکے۔ پہلے تو ایک ایسے شخص کو ایف بی آر کا چیئرمین مقرر کیا گیا جس پر لوگوں کو ٹیکس کے جھوٹے گوشوارے بناکر دینے کے حوالے سے انگلیاں اٹھائی جاتی رہی ہیں۔ اسی شبر زیدی نے جب ٹیکس وصولی کی پالیسیوں میں تبدیلی کی تو ہر فرد ہی عمران خان کا ڈونر نکل آیا۔ ان پر ہاتھ ڈالنے سے ایف بی آر حکام کو منع کردیا گیا۔ سیاحت کے شعبے میں بھی ترقی کی بات اور وعدہ کیا گیا۔ یہ وعدے مالم جبہ اور دیگر اسکینڈلز کی بھینٹ چڑھ گئے۔ متعدد وزیر اور مشیر اس کیس میں نیب کے ہاں جکڑے ہوئے ہیں، لیکن جیسا کہ نیب کو مضبوط کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا، اس لیے حکومتی وزراء اور مشیر سب اس گرفت سے بھی اب مضبوط ہوچکے ہیں۔ نیب کو مضبوط کرنے کا وعدہ محض اپوزیشن کے لیے کیا گیا جو سچ ثابت ہوگیا، اور اگر اپوزیشن کے ہر دوسرے رہنما پر ریفرنس داخل نہیں تو تحقیقات اس کے خلاف بہرحال ضرور جاری ہیں۔ کئی رہنما عدالتوں میں پیشیاں بھگتنے پرمجبور ہیں۔ سب پر ہی زور ہے کہ وہ پیسے واپس کریں۔ سیاحت کے لیے بھی نئے مراکز کا وعدہ کیا گیا تھا، لیکن یہ وعدہ بھی لاپتا ہوچکا ہے۔ سارا ملک ہی کچھ اس طرح سے خراب و خستہ مناظر پیش کرتا دکھائی دیتا ہے کہ ماہرین آثارِ قدیمہ اسے دیکھنے کے لیے بے چین اور بے قرار ہیں۔ سیاحتی مراکز سے آمدنی بڑھانے کے جو وعدے کیے گئے تھے اُن پر بھی عمل درآمد ہوتا ہوا ہم سب بہ چشمِ خود ملاحظہ کررہے ہیں۔ موجودہ حکمرانوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ نجی تعلیمی اداروں کے معیار کو سرکاری اسکولوں میں لاگو کیا جائے گا۔ باقی ملک تو رہا ایک طرف، اسلام آباد کے اسکولوں کی بھی حالت خراب ہے۔ معیارِ تعلیم بڑھانا تو کجا، اس کے برعکس عمران خان کی حکومت نے تعلیم کے بجٹ میں سالانہ 20 ارب روپے کی کٹوتی کر ڈالی ہے۔ گزشتہ مالی سال میں تعلیم کا بجٹ 97 ارب روپے تھا، جس کا بریک اَپ یوں تھا کہ 10 ارب روپے ابتدائی تعلیم، 12 ارب ثانوی تعلیم، جب کہ باقی رقم اعلیٰ تعلیم کے لیے مختص تھی۔ ’’تعلیم دوست‘‘ سرکار نے حالیہ برس ابتدائی تعلیم کے لیے صرف دو ارب روپے ہی رکھے ہیں۔ ثانوی تعلیم کے لیے رقم میں سے 6 ارب روپے کاٹے گئے۔ اسی طرح سے اعلیٰ تعلیمی کمیشن کے بجٹ میں سے 9 ارب روپے کی کٹوتی کردی گئی ہے۔ یہ ہے ہماری تحریک انصاف کی موجودہ وفاقی حکومت کی تعلیمی پالیسی۔ صنعتی انقلاب برپا کرنے کا بھی وعدہ کیا گیا تھا، لیکن برآمدات کی صورتِ حال پر نظر ڈالی جائے تو رونا آتا ہے۔ اسی طرح سے پچاس لاکھ سرکاری گھر تعمیر کراکے دینے کی بات بھی کی گئی، جس کے بارے میں تاحال عرصہ سوا دو برس میں کوئی واضح حکمت عملی تشکیل نہیں پا سکی ہے۔ بعض مقامات پر اگرچہ زمین کی نشان دہی تو کردی گئی ہے تاہم معاملہ ’’ہنوز دلّی دُور است‘‘ جیسا ہی نظر آیا ہے۔ پولیس میں اصلاحات کی کیا بات کی جائے! پنجاب میں سوا دو برس کے دوران 6 آئی جی تبدیل کیے جا چکے ہیں۔ اسلام آباد میں 3 آئی جی مقرر ہوئے۔ محض اپنے بہنوئی کی زمین کا قبضہ دلانے کے لیے میرٹ کے نام پر لاہور میں ایک شخص کو سی سی پی او مقرر کیا گیا۔ سندھ میں آئی جی کو اغوا کیا گیا۔ پولیس اصلاحات کی اس سے بڑھ کر مزید حد کیا ہوگی؟ سارے ملک کے اندر انصاف ہیلتھ کارڈ دینے کا وعدہ کیا گیا۔ اب ان کارڈز کا استعمال صرف سرکاری اسپتالوں میں اور مخصوص صورتِ حال ہی میں ممکن ہے۔ اس کارڈ کے استعمال کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے کسی بھی فرد کا تشویش ناک حد تک اور حد درجہ بیمار ہونا لازمی ہے۔ اہم وعدوں میں سے ایک وعدہ گورنر ہائوس، وزیراعظم ہائوس اور عوامی مقامات کو جامعات میں تبدیل کرنے کا تھا۔ وزیراعظم ہائوس جوں کا توں موجود ہے۔ گورنر ہائوس میں معلوم نہیں کون کسے پڑھا رہا ہے؟ کوئی بھی عوامی مقام یونیورسٹی میں تبدیل نہیں ہوسکا ہے۔ عمران خان نے ہی وعدہ کیا تھا کہ سول مقدمات کا فیصلہ ایک سال کے اندر کرنے کے لیے قانون سازی کی جائے گی۔ کون سی قانون سازی ہوئی؟ سال ہا سال سے سول اور دہشت گردی کے مقدمات معلق چلے آرہے ہیں۔ جیل کے بے سہارا اور غریب قیدیوں کی قانونی امداد کے لیے قانون بنا، لیکن اس پر ذرہ برابر بھی عمل نہیں ہوا ہے۔ انہی میں سے ایک وعدہ تھا پی آئی اے، پی ایس او، ریلوے اور اسٹیل مل کی بہتری کے لیے اقدامات کرنے کا۔ اسٹیل مل کو جس طور سے ’’بہتر‘‘ بنایا گیا ہے وہ دن اب دور نہیں ہے کہ باقی اداروں کو بھی اسی طرح سے ’’سدھارا‘‘ اور ’’بہتر‘‘ بنایا جائے گا۔
اب ہم ایک کروڑ ملازمتوں اور اسٹیل مل کی بہتری کے اقدامات پر مبنی وعدوں پر براہِ راست بات کرتے ہیں۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر برائے صنعتی امور حماد اظہر نے دورانِ پریس کانفرنس کہا ہے کہ اسٹیل مل کے ساڑھے نو ہزار ملازمین میں سے پہلے مرحلے میں ہم ساڑھے چار ہزار ملازمین کو ان کی نوکریوں سے فارغ کررہے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں دیگر ملازمین کو بھی نکال دیا جائے گا۔ اس طرح سے اسٹیل مل کو کسی نجی سرمایہ کار کے سپرد کردیا جائے گا۔ وہ ظاہر ہے کہ اپنے افراد ہی بطور ملازم تعینات کرے گا۔ وزیر موصوف نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ سرکار کا کام نوکریاں دینا نہیں ہے۔ اسی طرح کی بات عمران خان نے بھی کی ہے کہ انہوں نے دو سال میں ایک کروڑ ملازمتیں دینے کی کوئی بات نہیں کی تھی۔ عمران خان تو ہر بات ہی سے پھر گئے ہیں جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا، لیکن ساری حکومت بھی اب وہی بات دہرا رہی ہے۔ وفاقی وزیرصنعت نے تو صاف صاف کہہ دیا ہے کہ سرکار کا کام نوکریاں دینا نہیں ہوا کرتا بلکہ ایسے مواقع فراہم کرنا ہوتا ہے جن سے نوکریاں پیدا ہوسکیں۔ حکومت نے جو مواقع پیدا کیے ہیں وہ بھی سب کے سامنے ہیں۔ معاشی اداروں کی اصلاحات کے نام پر اب لوگوں کو برطرف کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ اسٹیل مل سے پہلے ریڈیو پاکستان کا نمبر تھا۔ اس کے حوالے سے بھی وفاقی سرکار نے فرمایا تھا کہ گنجائش سے کہیں زیادہ لوگ بھرتی کیے ہوئے تھے۔اس کے بعد پی ٹی وی اور پی آئی اے کا نمبر ہوگا۔ سارے ریاستی اداروں کو ایک ایک کرکے نجکاری کے نام پر بالآخر اپنے من پسند افراد ہی کو فروخت کردیا جائے گا۔ اگر حکومت کا کام افراد کو ملازمتیں فراہم کرنا نہیں تو پھر یہ کس کا کام ہے؟ یہ بات درست ہے کہ بھرتیوں کا طریقہ اس طرح کا ہونا چاہیے کہ لوگ بغیر کسی سفارش کے ملازمت حاصل کرسکیں۔ لیکن یہ کام بھی بہرکیف حکومت ہی کا ہے۔ باقی صرف سیمنٹ کی ریکارڈ فروخت کی بنیاد پر نوکریوں کی آس لگانا اور اس پر ہی تکیہ کرکے بیٹھ جانا انتہائی درجے کی بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اگر حکومت لوگوں کوملازمتیں دینے کی پابند نہیں ہے تو پھر وہ انہیں بجلی، گیس، پیٹرول، روٹی، کپڑا اور مکان دینے کی پابند بھی نہیں ہے۔ خیر یہ ساری ’’خوبیاں‘‘ تو ہماری موجودہ سرکار میں موجود ہیں جس نے عوام سے ہر شے چھیننے کی پوری سعی کی ہے۔ یہ بات تو اب ثابت ہوچکی ہے کہ موجودہ حکومت نے عوام کو ایک کروڑ ملازمتیں دینے سمیت جتنے بھی وعدے کیے تھے وہ محض طفل تسلیاں اور جھوٹے وعدے تھے۔ اگر ریاست کی ذمہ داری عوام کو ملازمتوں سمیت دیگر بنیادی ضروریاتِ زندگی بہم پہنچانا نہیں ہے تو پھر اس کے ساتھ یہ بھی بتادیا جائے کہ آخر یہ کس کی ذمہ داری ہے؟ بات تو فلاحی ریاست کی کی گئی لیکن اسی ریاست میں عوام کو بے روزگار کرنے کا عمل جاری ہے۔ حکومتی پالیسیوں اور حکمت عملیوں کی بنا پر عوام کو نیا روزگار تو نہیں ملا، الٹا لاکھوں افراد کو بے روزگار کردیا گیا ہے، اور اب تو حکومت لوگوں کو بے روزگار کرنے کے لیے جواز پیش کرنے میں لگ گئی ہے۔ اگر عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام نہیں کرنا ہے تو پھر یہ اصلاحات، معاشی بہتری کے اقدامات، یہ پیکیجز، یہ اسکیمیں وغیرہ آخر کس کے لیے ہیں؟ کسی ادارے کی بہتری لوگوں سے ان کا روزگار چھین لینے کی قیمت پر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے ممکن ہے کہ اسٹیل مل کے ملازمین کو بے روزگار کرنے سے پیشتر ہی موجودہ حکومتی ٹیم خود بے روزگار ہوجائے۔