چین اور اسلامی تہذیب علوم کا تبادلہ

ترجمہ: ناصر فاروق

خلیج فارس، اور اس کے ساتھ ساتھ گزرتی قدیم گزرگاہیں… چین مسلسل ہم عصر قدیم تہذیبوں سے رابطے میں محسوس ہوتا ہے۔ تہذیبِ وادیِ سندھ، عراقی تمدن اور چین کے درمیان تجارتی قافلوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ ایک شاندار سفری ادب ملتا ہے جو چین کوبیان کرتا ہے، اُس کی ثقافت، حکمرانوں، مذاہب اور عجائبات سے ملواتا ہے۔ یقیناً اس سفری ادب نے خلیج فارس کے شہری مراکز کی تفریحِ طبع کا خاطرخواہ سامان اُس عہد میں بہم پہنچایا ہوگا، یہ باذوق ادبی روایت دجلہ کنارے سے شہر تیسفون اور بغداد تک جاتی نظر آتی ہے۔
سفری ادب کی ان ابتدائی روایات اور دانش کا جمع شدہ ذخیرہ زیادہ تر داستان گوئی پر مبنی ہے۔ یہ نویں، دسویں صدی قبل مسیح میں خلیج فارس سے گزرتے ملاحوں کے سفرنامے ہیں۔ اکثر چین کو عجائبات کی دنیا بیان کرتے ہیں، جو دوردراز ہے، مگر قابلِ دید ہے۔ یہ ادب، جوعصری تہذیبوں کو داستان گوئی کی تصوراتی دنیا میں پیش کرتا ہے، مشکل ہی سے کسی سائنسی اور تیکنیکی علم کے تہذیبی تعامل کی خبر دیتا ہے۔ حالانکہ زیادہ تر سائنس، ٹیکنالوجی، علم الادویہ، اور کیمیا ممکنہ طور پر اُن ہی رستوں سے ہوگزرے، جہاں سے تاجروں کی آمد و رفت تھی۔
اسلام کی آمد کے آس پاس، ساتویں صدی عیسوی کے وسط میں چین کی باتیں شہری مراکز اورتجارتی بندرگاہوں سے جُڑی آبادیوں میں گردش کررہی تھیں۔ یہ سارا وہ علاقہ ہے، جسے آج مشرق وسطیٰ کہا جاتا ہے۔ ان باتوں میں چین ایک دُور کا دیس دکھائی دیتا ہے، اور دیکھنے والوں پر شاندار تہذیب کا تاثر چھوڑتا ہے، وہ لوگ کہ جو عصرحاضر کی عظیم اسلامی تہذیب کے شاہد بھی تھے۔ کوئی تہذیب اگر ایک بار خیال کی لو ح پرکندہ ہوجائے تو ہمیشہ قائم رہتی ہے، اور تاریخی حالات و روایات کے ساتھ ساتھ پرورش پاتی ہے، وہ حالات و روایات جو تہذیبی تعامل اور ہم آہنگی میں رہنما کردار ادا کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر مسلمانوں میں ابتدا سے ایک روایت ’’علم حاصل کرو چاہے چین جیسے دور افتادہ دیس بھی جانا پڑے‘‘ گردش میں رہی ہے (یہ حدیث ضعیف بیان کی جاتی ہے، تاہم نفسِ مضمون کی اہمیت کے سبب قلم انداز نہیں کی جاسکتی۔ مترجم)۔ اسلام کی آمد کے دو صدیوں بعد، ایک سننے والا کسی کو یہ کہتے ہوئے سُن سکتا ہے کہ ایک کتاب ہے ’’جواس قدر اہم ہے کہ جس کے لیے چین کا سفر کیا جانا چاہیے‘‘۔ یہ ساری روایات اور حوالے ’دور کے دیس چین‘ کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ مگر وہ اس بابت بہت ہی کم کچھ کہتے ہیں کہ وہاں پہنچنے والے نے کیا پایا! یہ معلومات بعد میں سامنے آنی تھیں۔
قرآن حکیم جن یاجوج ماجوج کا ذکر کرتا ہے، وہ بھی اسی خطہ چین سے متعلق متصور کیے جاتے ہیں۔ یہ اور اس طرح کے دیگر حوالے ظاہر کرتے ہیں کہ چین اور چینی تہذیب مسلمانوں کے لیے نامعلوم نہ تھے۔ جب اسلامی تہذیب نے دنیا کے نقشے پرپیش قدمی کی، ساتویں آٹھویں صدی میں تیزی سے پھیلی، چین اور اسلامی ریاست کا براہِ راست رابطہ ہوا، سفری داستانیں تاریخی حقائق بننے لگیں۔ نئی اسلامی تہذیب چین کی مغربی سرحدوں کے ساتھ ساتھ فروغ پانے لگی، اور تیزی سے مغربی سرحد کا سارا علاقہ اسلام کے زیر اثر آگیا۔ آج کے وسطی ایشیا میں، یہ علاقہ وہ ہے جو جزیرہ نما آئبیریا تک جاتا ہے، جو یورپ کا نچلاحصہ ہے۔ اس نئے انتظام میں اسلام اور چین کی تہذیبوں کی باہمی سرگرمیاں سامنے آئیں۔ گو اب بھی دونوں جانب کے ذرائع بڑا بُعد ظاہر کررہے تھے۔
وہ تاریخی بیانیے جو اس تہذیبی تعامل کی تفصیل بیان کرتے ہیں، اُن میں عظیم چینی بادشاہ اورآخری فارسی بادشاہ یزدگرد سوم کے سفیر کے درمیان مکالمہ بہت اہم ہے۔ اس تاریخی دستاویز کی معتبریت پردنیا بھر کے مؤرخین کا اتفاق ہے۔ ہجرت کے بائیسویں سال عظیم مسلمان مؤرخ طبری، جس کا تعلق فارسی علاقہ طبرستان سے تھا، لکھتا ہے: ۔
’’جب مسلمان فوج نے مشرق کی جانب پیش قدمی کی، یہ ساسانی سلطنت کی سرحدوں پر شدید دباؤ تھا۔ آخری ساسانی بادشاہ یزدگرد سوم گرفتاری سے بچنے کے لیے مشرق کی طرف فرار ہوا۔ مایوسی کے اس عالم میں یزدگرد نے ایک سفیر چین روانہ کیا، کہ شاید وہاں کا بادشاہ مسلمانوں کے خلاف اُس کی مدد پرآمادہ ہوجائے۔ جب ساسانی سفیر اور چینی بادشاہ روبرو ہوئے تو ایک تاریخی مکالمہ ہوا۔
سب سے پہلے چینی بادشاہ نے کہا’’اگرچہ یہ بادشاہوں کے ذمہ ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کے لیے آگے بڑھیں، تاہم میں چاہتا ہوں کہ تم میرے سامنے اُن لوگوں کا حال بیان کرو کہ جن سے تمہارا مقابلہ ہے۔ سنا ہے کہ وہ تعداد میں بہت تھوڑے ہیں، اس کے باوجود انھوں نے تمہیں تمہارے ملک سے نکال دیا جبکہ تم لوگ بڑی کثرت میں تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ کسی خیر کے ساتھ ہیں، اور تم کسی بُرائی میں مبتلا ہو۔‘‘
’’آپ پوچھیے، میں آپ کو ہربات کا جواب دوں گا‘‘ ساسانی سفیر نے کہا۔
چینی بادشاہ نے سوال کیا ’’کیا وہ (مسلمان) اپنے وعدوں کا پاس کرتے ہیں؟‘‘
’’جی بالکل، وہ وعدوں کے پابند ہیں‘‘ ساسانی سفیر نے جواب دیا۔
’’وہ جنگ شروع کرنے سے پہلے کیا مطالبات سامنے رکھتے ہیں؟‘‘ بادشاہ نے پوچھا۔
’’وہ کہتے ہیں ہمارا دین قبول کرلو، اور اگر ہم اسلام قبول کرلیں تو ہم اُن کے بھائی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو پھر جزیہ دو، اس کے بدلے تمہیں امان دی جائے گی۔ اور اگر یہ بھی قبول نہیں توپھر تلوار ہمارے تمہارے درمیان فیصلہ کرے گی‘‘۔ سفیر نے بتایا۔
تب بادشاہ نے سوال کیا کہ’’وہ اپنے قائدین سے کتنے وفادار ہیں؟‘‘
’’وہ انتہائی وفادرا اور تابعدار لوگ ہیں‘‘ جواب آیا۔
’’کیا وہ کبھی کبھی اُن اعمال کا ارتکاب کرتے ہیں کہ جن سے انھیں روکا گیا ہے؟ یا اُن چیزوں سے رُکتے ہیں کہ جن کی اجازت انھیں دی گئی ہے؟‘‘
’’کبھی نہیں‘‘۔
تب چینی بادشاہ نے کہا ’’ان لوگوں کو کبھی بھی شکست نہیں دی جاسکتی، اِلاّ یہ کہ وہ کام کریں کہ جن سے انھیں روکا گیا ہے، اور اُن چیزوں سے رک جائیں کہ جن کی اجازت ہے‘‘ (حلال وحرام کی تفریق، احکام خداوندی کی خلاف ورزی۔ مترجم)۔
چینی بادشاہ نے سفیر کے ہاتھ یزدگرد کوخط روانہ کیا، جس میں لکھا تھاکہ ’’میں ایک ایسی فوج تمہاری مدد کے لیے بھیجنے سے اس لیے گریز نہیں کررہا کہ جس کی وسعت مرو سے چین تک ہے، یا پھرمیں تمہاری طرف سے اپنی ذمے داریوں سے غافل ہوں، بلکہ میرا یہ فیصلہ اس لیے ہے کہ جن لوگوں سے تمہارا سامنا ہے، جن کا حال تمہارے سفیر نے میرے سامنے بیان کیا ہے، یہ اُن اوصاف کے حامل لوگ ہیں کہ اگر چاہیں تو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کردیں، یہاں تک کہ مجھے میرے اقتدار سے بھی بے دخل کردیں۔ میرا مشورہ ہے تم ان سے امن معاہدہ کرلو، اور اُن کے ساتھ امن وامان سے عافیت کی زندگی بسر کرو، جب تک یہ تم سے تعرض نہ کریں تم بھی الجھنے سے گریز کرو۔‘‘
یہ قصہ چینی فرماں روا کی ایک روشن اور مثبت تصویر پیش کرتا ہے، ایک دوست اور اتحادی کی تصویر۔ اس بیانیے میں چینیوں کی جانب سے کسی قسم کی پرخاش یا بدنیتی محسوس نہیں ہوتی۔ حالانکہ یہ چینی اصنام پرست تھے۔‘‘
مزید یہ کہ ابتدائی مسلمانوں کی جانب سے چینیوں کے لیے باہمی احترام دیکھا جاسکتا ہے۔ دیگر کئی واقعات بھی اس ضمن میں بیان کیے جاسکتے ہیں۔ مذکورہ واقعہ چینی بادشاہ کی انصاف پسندی ظاہر کرتا ہے، اور اُس کے بارے میں کسی بھی طرح کی بُری رائے سامنے نہیں آتی۔
(جاری ہے)