زیر نظر مجلہ تحصیل کا شمارہ نمبر6 ہے، اس کے اداریے میں ’’جامعات کے تحقیقی مجلوں میں مشترکہ مقالہ نگاری کا منفی رویہ‘‘ کے زیر عنوان مدیران تحریر فرماتے ہیں:۔
’’پاکستان میں تحقیق اور بالخصوص جامعات میں تحقیقی مطالعات کو جن متعدد مسائل کا سامنا ہے ان میں شریک مقالہ نگاری (Co-Authorship) کو بھی ایک مسئلے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ اس مسئلے نے شریک محققین کی نااہلی، جاہ و منصب کی لالچ اور شہرت پسندی کو حالیہ ایک دو دہائیوں میں نمایاں کیا ہے، اور اس طرح جامعات میں بددیانتی اور نااہلی کو فروغ بھی ملا ہے!۔
متعلقہ قوانین یا ضوابط کی عدم موجودگی میں، کہ اگر یہ موجود بھی ہوں لیکن ان کی سرکاری سطح پر عدم تشہیر نے نااہل اور بددیانت عناصر کو کھل کھیلنے کا سنہرا موقع فراہم کردیا ہے۔ ایسے نام نہاد مقالہ نگاروں کی بھرمار کے سبب، جو اصل مقالہ نگار کے مطالعات میں بطور شریک مقالہ نگار نہ صرف اپنا نام شامل کرنے میں کامیاب ہیں بلکہ کبھی کبھی اصل مقالہ نگار فہرست کے اندراج میں نیچے یا ثانوی حیثیت میں نظر آتا ہے اور یہ نام نہاد مقالہ نگار مقالے یا مطالعہ و تحقیق کے سارے مادی فوائد حاصل کرتے نظر آتے ہیں! جبکہ اکثر بلکہ ہمیشہ ہی تحقیقات کے عمل میں ان کی کوشش صفر بھی نہیں ہوتی۔ ان نام نہاد مقالہ نگاروں میں بالعموم سینئر اساتذہ، عہدے دار اور مقالے کے نگران شامل ہوتے ہیں، جو اپنی زیر سرپرستی مقالہ نگاروں کی اخلاقی مجبوریوں سے خوب فائدہ اٹھانے کی پوری پوری اہلیت رکھتے ہیں اور اپنی نااہلی کے باوجود مطلوبہ فوائد حاصل کرتے رہتے ہیں۔ اگر اپنے اطراف دیکھا جائے تو اکثر شریک مقالہ نگاروں کا کردار اور طرزِعمل اس سے مختلف نہ ہوگا۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان (ایچ ای سی) نے اس ضمن میں جو ہدایات جاری کی ہیں وہ اس درجے ناکافی اور سرسری ہیں کہ کسی بھی جعل ساز کو روکنے کے لیے مؤثر نہیں۔ ایچ ای سی کے پاس ایسا بھی کوئی نظام نہیں جو اپنے دائرۂ اختیار کے کسی بھی مجلے کا مواخذہ کرے اور مجلے کے عدم معیار یا اصولی بے قاعدگیوں پر سرزنش کرے اور ساتھ ہی مدیر کو پابند کرے کہ اگر مجلے میں کوئی مقالہ یا مقالات مشترکہ کوششوں کا نتیجہ ہیں تو وہ شریک مقالہ نگاروں کے باہمی اشتراکِ عمل کو بھی جانچے اور پرکھے، اور ضروری فیصلہ کرے۔ چنانچہ مجلات کے مدیران کے لیے ضروری ہے کہ شریک مقالہ نگاروں کے بارے میں شفاف اور قطعی غیر جانب دارانہ حکمت عملی اختیار کریں، اور ممکنہ طور پر یہ بھی فیصلہ کریں کہ کس شریک مقالہ نگار کی کوشش زیادہ مستحسن ہے۔
اس ضمن میں ذیل میں کچھ سفارشات دی جارہی ہیں تاکہ شریک مقالہ نگاروں کے ممکنہ منفی عمل کو روکا جاسکے اور آئندہ کے لیے اس طرح کے منفی عمل کا تدارک ہوسکے:۔
٭شریک مقالہ نگار کی جانب سے ایک حلف نامے کا اہتمام ہو، کہ اس مقالے کی تصنیف میں اس کا کتنا اور کیا حصہ ہے؟ یا اس کی شراکت کی نوعیت کیا ہے؟
٭ اسی مناسبت سے بلالحاظِ منصب مقالہ نگاروں کے ناموں کی ترتیبِ اندراج ہونی چاہیے۔
٭جعل سازی یا دروغ گوئی کے مرتکب شریک مقالہ نگار کے خلاف تفتیش کے بعد کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے تاکہ عبرت ہو۔
٭مدیران کے لیے لازم کیا جانا چاہیے کہ ہر شریک مقالہ نگار کے کام کی واقعی نوعیت ظاہر کریں۔
اس عمل و اہتمام سے یہ کچھ یقینی ہوسکتا ہے کہ شریک مقالہ نگاری کی روایت میں جو جعل سازی اور مفاد پرستی عام ہورہی ہے، وہ رک جائے اور تحقیق کا صلہ حقیقی مقالہ نگار ہی کو پہنچ سکے، کہ یہی دیانت داری کا تقاضا بھی ہے‘‘۔
اس شمارے میں جو مقالات شامل کیے گئے ہیں وہ درج ذیل ہیں:
٭لایق جونپوری کی مثنوی ’’سادہ پُرکار۔ عارف نوشاہی
٭تاریخِ مشائخِ چشت (جلد پنجم):استدراک وتسامحات۔ عبدالعزیز ساحر
٭کردار ساز اساتذہ اور ان کے چند واقعات۔ محمد راشد شیخ
٭مولانا محمد اکرم خاں: علمی، ادبی وصحافتی خدمات۔ تنزیل الصدیقی الحسینی
گوشہ خطوطِ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ:
٭مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودی کے تین نادر اور غیر مطبوعہ خطوط۔ ارشد محمود ناشاد
٭خطوطِ سید ابوالاعلیٰ مودودی بہ نام چودھری غلام محمد (12 خطوط)۔ ظفر حسین ظفر
٭ خطوطِ سیدابوالاعلیٰ مودودی بہ نام حکیم قاری احمد پیلی بھیتی (4 خطوط)۔ مجلس ادارت
٭مکاتیب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی بہ نام معین الدین عقیل (2 خطوط)۔ معین الدین عقیل
ترجمہ: محسن حامد کا ناول اور عالمگیریت کا تناظر۔ ڈیوڈ واٹر مین/ منیب الحسن رضا
گوشہ نوادر: ایک قدیم فہرست ِ کتب۔ اکرام چغتائی
For Consideration of the Muslim Elite for World Peace a proposal.. Anwar Moazzam.
Maulana Rahmatullah Kairanvi: Turkish Facets of his Life and Work. Syed Tanvir Wasti.
Iqbal`s Visions of Civilization, Modernity and Nationalism: Are his Ideas Relevant Today?. Muhammad Suheyl Umar.
تھوڑی سی محتویاتِ تفصیل پیش خدمت ہے۔
ڈاکٹر عارف نوشاہی نے صاحبزادہ عبدالمعید خان ڈائریکٹر راجستھان مولانا ابوالکلام آزاد عربک پرشین انسٹی ٹیوٹ ٹونک مثنوی سادہ پُرکار مصنفہ عبدالقادر بیدل عظیم آبادی کے عنوان سے شائع شدہ مثنوی کا انتساب بیدل عظیم آبادی سے غلط قرار دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ یہ مثنوی لائق جونپوری کی ہے۔ دوسرا تبصراتی مقالہ ہے جس میں ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر نے پروفیسر خلیق احمد نظامی کی کتاب تاریخ مشائخ چشت جلد پنجم کے محاسن و معائب کی جملہ تفصیلات مستند اور معتبر مصادر اور مراجع کی روشنی میں تحقیق کرکے تحریر کی ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں:۔
’’تاریخ مشائخ چشت اُن کتابوں میں سے ایک ہے، جنہیں راقم نے بار بار پڑھا، اور ان کے مندرجات سے اخذ و استفادہ کیا۔ پچھلے پچیس تیس برسوں سے یہ کتاب مستطاب سفر و حضر میں میرے ساتھ رہی۔ اس کی طرف بار بار مراجعت کی وجہ سے اس کے مندرجات حافظے کی لوح پر تقریباً نقش ہوگئے۔ چشتیہ سلسلے کی دیگر کتابوں کے مطالعے کے دوران جب بھی کوئی تفاوت نظر نواز ہوا تو راقم نے اس کتاب کی طرف مراجعت کی، اور یوں اس طرح کے تقابلی مطالعات سے توجہ ان تسامحات کی طرف مبذول ہوئی جو ’’تاریخ مشائخ چشت‘‘ میں راہ پاگئے اور اس کتاب کی وساطت سے دیگر تحقیقی مطالعات میں دکھائی دینے لگے۔ اس کتاب میں کہیں سنہ و سال کی ترقیم میں اغلاط در آئیں اور کہیں اسمائے معرفہ اپنی درست صورت میں نقل نہیں ہوئے۔ بعض کتابوں سے فکری استفادہ کرتے ہوئے خلیق احمد نظامی صاحب نتائج کی تخریج میں کامیاب نہیں ہوئے، اور کہیں غلط نتائج کا استنباط کیا۔ کئی صوفیہ کے احوال میں ایسے قطعہ ہائے تاریخ درج کیے گئے، جن کے مصرعوں سے درست سنہ کا استخراج نہیں ہوتا، اور کہیں رواروی میں صرف مادہ ہائے تاریخ کو نشان زد کرنے کے بجائے پورے مصرع کو نشان زد کردیا۔ کہیں شعر لفظی تصرفات سے مملو ہوگئے، اور کہیں لفظ چھوٹ جانے سے شعر خارج از آہنگ ہوئے۔ کہیں کہیں صاحبِ کتاب نے ثانوی ماخذ سے اقتباس نقل کیے، لیکن حوالہ بنیادی مآخذ کا دیا۔ کہیں مصادر اور مآخذ ان کی دسترس میں تھے، لیکن عدم توجہ سے حقائق مجروح ہوئے۔ ذیل میں ایسے تمام تسامحات کی نہ صرف نشان دہی کی جارہی ہے بلکہ اس سلسلے کے مستند مآخذ اور مصادر کی روشنی میں ان کی درستی بھی کی جائے گی۔ کاش وہ زندہ ہوتے اور ان کی زندگی میں یہ تبصرہ اشاعت پذیر ہوتا تو یقین واثق ہے کہ وہ راقم کی حوصلہ افزائی فرماتے اور آئندہ ایڈیشن میں ان گزارشات کی روشنی میں متعلقہ مقامات کی تصحیح کرکے اس کتاب کو شائع کرتے۔ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔‘‘
تیسرا مقالہ جناب محمد راشد شیخ کا تحریر کردہ ہے، عنوان ہے ’’کردار ساز اساتذہ اور ان کے چند واقعات‘‘۔ اس میں انہوں نے مولانا محمد اسحاق رامپوری، شمس العلما مولوی سید میر حسن، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ خاں، علامہ عبدالعزیز میمن، ڈاکٹر محمد حمید اللہ، ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی، ڈاکٹر سید عبداللہ، ڈاکٹر سید معین الحق، ڈاکٹر ابواللیث صدیقی، چودھری عبدالرحمٰن، مولانا عبدالسلام قدوائی، مولانا سید مرتضیٰ ادیب، مولانا معین الدین اجمیری، ڈاکٹر ذاکر حسین، ڈاکٹر ضیا الدین احمد کا تذکرہ کیا ہے۔ محمد راشد شیخ صاحب لکھتے ہیں:۔
’’جیسا کہ اوپر ذکر آیا، راقم نے ذاتی مطالعے کی روشنی میں محض چند اساتذۂ کرام کے چیدہ چیدہ واقعات بیان کیے ہیں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اس موضوع پر کتب لکھی جاسکتی ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مادہ پرستی، ذاتی اغراض اور دنیاوی حرص کی دلدل میں پڑ کر ہم ایسے عظیم اساتذہ سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ آج جب میں پرائیویٹ اسکولوں کی لوٹ کھسوٹ اور تعلیم کے نام پر جہالت پھیلانے اور اخلاق و کردار سے عاری نسلیں تیار کرنے کے واقعات سنتا اور دیکھتا ہوں تو مایوسی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے اور خدشہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید آئندہ کبھی ہم ایسے باکردار اساتذہ نہ دیکھ سکیں گے۔ ساتھ ہی جب کسی ایسے مرحوم عظیم استاد کا کوئی واقعہ پڑھتا ہوں اور اس کا آج کے مادہ پرستانہ ماحول سے موازنہ کرتا ہوں تو بے اختیار علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آجاتا ہے:۔
مرنے والے کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں‘‘
اگلا مقالہ جناب تنزیل الصدیقی الحسینی کا ہے جو انہوں نے ’’مولانا محمد اکرم خان: علمی، ادبی و صحافتی خدمات‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا ہے۔ مولانا محمد اکرم خان بن عبدالباری خان (8 جون 1868ء۔ 18اگست 1968ء) برعظیم پاک و ہند کے نامور عالم، مفسر، سیرت نگار، صحافی اور سیاسی شخصیت تھے۔ بنگال میں مسلم صحافت کے بانی اور تحریک پاکستان کے رہنما تھے۔
خطوطِ مودودی کا گوشہ بھی نہایت قیمتی معلومات پر مشتمل ہے۔
مجلہ سفید کاغذ پر خوبصورت طبع کیا گیا ہے۔
اسلام اور مشرق و مغرب کی تہذیبی کشمکش
یہ گراں قدر کتاب صدر جمہوریہ بوسنیا ہرزیگووینا جناب علی عزت بیگووچ کی Islam Between East And West کا اردو ترجمہ ہے جو جناب محمد ایوب منیر نے نہایت عمدگی سے کیا ہے۔ یہ اس کی چوتھی اشاعت ہے۔ اس کی پہلی اشاعت 1994ء میں ہوئی، دوسری 1997ء میں، تیسری 2004ء۔ یہ چوتھی اشاعت 2020ء میں۔ جناب خلیل حامدی تحریر فرماتے ہیں:۔
’’زیر نظر کتاب کے مصنف علی عزت بیگووچ اب کسی تعارف کے محتاج نہیں رہے۔ وہ گو نصف صدی سے میدانِ جہاد میں اترے ہوئے ہیں، مگر دنیا کی نظر میں اُس وقت آئے ہیں جب سابقہ یوگوسلاویہ شکست و ریخت سے دوچار ہوگیا اور اس کے اندر پائی جانے والی جہموریتوں نے اپنی آزادی اور استقلال کا اعلان کردیا۔ ان میں جمہوریہ بوسنیا ہرزیگووینا بھی ہے جس کے صدر علی عزت بیگووچ ہیں۔ وہ نصف صدی سے ’’سابقہ یوگو سلاویہ‘‘ کے اندر کمیونسٹ اقتدار کے دور میں اسلام کو بچانے اور مسلمانوں کے تشخص کو بحال رکھنے کے لیے مصروفِ جہاد رہے ہیں۔ اس غرض کے لیے انہوں نے اپنے چند ساتھیوں سے مل کر… جن میں علامہ قاسم دوبراچا خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں… نوجوانوں کی تنظیم قائم کی، اور ان کی اسلامی تربیت شروع کردی، اور ساتھ ہی ان کے اندر آزادی کی روح پھونکی۔ کمیونسٹ اقتدار کے تحت یہ کام کرنا آسان نہ تھا۔ چنانچہ موصوف کو دوبار بغاوت کے الزام میں حوالۂ زنداں کیا گیا، اور وہ طویل عرصے تک آہنی سلاخوں کے پیچھے بند رہے۔ یہ آزمائش ان کے عزم کو کمزور کرنے کے بجائے مزید مستحکم کرنے کا موجب بنی، اور انہوں نے کسی بھی موقع پر ساتھیوں کو مایوسی کا شکار نہیں ہونے دیا۔
عملی سرگرمیوں کے ساتھ اُن کا علمی و فکری پہلو بھی بڑا روشن نظر آتا ہے۔ یورپ کی تہذیبی یلغار، ادلتے بدلتے نظریات، اور مادہ پرستانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے انہوں نے اسلامی فکر کو پوری قوت کے ساتھ پیش کیا ہے۔
ان کی شخصیت کا تیسرا پہلو ان کے موجودہ منصب میں آفتاب نصف النہار کی طرح چمکتا نظر آتا ہے۔ موصوف اس وقت ایک جمہوریہ کے صدر ہیں جس پر تین پڑوسی جمہوریتوں نے مل کر حملہ کر رکھا ہے۔ جمہوریہ سربیا (آرتھوڈکس)، جمہوریہ مانٹی نیگرو (آرتھوڈکس) اور جمہوریہ کروشیا (کیتھولک)۔ یہ تو براہِ راست حملہ آور ہیں جبکہ یورپ کے تمام ممالک صلیبی تعصب میں اندھے ہوکر اپنی ڈپلومیسی اور درپردہ سازشوں کے ذریعے بوسنیا کو تختۂ زمین سے محو کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
زیر نظر کتاب کا مطالعہ کرتے وقت یہ بات ضرور پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ اُس شخص کی تصنیف ہے جو کمیونزم کی فضا میں رہتا رہا ہے، جو یورپ کی تہذہبی چکاچوند کے عین قعر میں پلا بڑھا ہے، اس لیے ہوسکتا ہے کہ اپنی تحریروں میں کسی جگہ وہ اسلام کا پورا معیار قائم نہ رکھ سکا ہو۔ مگر یہ واضح ہے کہ اس کے دل میں اسلام اور اسلامی نظام کا درد ہے اور وہ اسی راستے کا مسافر ہے جس پر عہدِ حاضر کے مصلحینِ امت چلے ہیں یا چل رہے ہیں۔‘‘
کتاب اس حیثیت کی ہے کہ اس کا بغور مطالعہ کیا جائے۔ کتاب سفید کاغذ پر طبع کی گئی ہے، مجلّد ہے، قیمت مناسب ہے۔