قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت کا حادثہ

سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ کا تعزیتی اداریہ

اس مہینے مسلمانوں کو دو ایسے زبردست حادثے پیش آئے ہیں جنہوں نے ان کی قومی زندگی کو صدمۂ عظیم پہنچایا ہے۔ اس لیے ہم اُس سلسلۂ کلام کو جو گزشتہ تین اشاعتوں سے ان صفحات میں چل رہا تھا، چھوڑ کر ان حوادث پر اور ان کے اثرات و نتائج پر، اور اُن سے عہدہ برآ ہونے کی صورت پر کچھ گفتگو کریں گے۔
پہلا حادثہ بانیِ پاکستان مسٹر محمد علی جناح مرحوم کی وفات کا ہے۔ ان کی شخصیت پچھلے دس بارہ سال سے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کا مرکز و محور بنی ہوئی تھی۔ ساری قوم ان پر مجتمع تھی۔ ان کی رہنمائی پر سب کو بھروسا تھا۔ انہی کے ذاتی اثر رسوخ نے تمام مختلف عناصر کو جوڑ کر مسلمانوں کو ایک متحد قوم بنایا تھا۔ انہی کے اعتماد پر قوم نے اپنی پوری طاقت اس جدوجہد میں لگادی تھی جس کے نتیجے میں آخرکار پاکستان قائم ہوا۔ اور قیام پاکستان کے بعد اس نئی مملکت کی عمارت جس مضبوط ستون کے سہارے پر تعمیر ہورہی تھی وہ بھی انہی کی جامع اور معتمد علیہ شخصیت تھی۔ ان کے بعد کوئی دوسرا شخص، بلکہ کوئی پورا گروہ بھی ہمارے درمیان ایسا موجود نہیں ہے جس سے لوگوں کو محبت ہو، جس کا احترام دلوں میں جاگزیں ہو، جس کے اخلاص اور تدبر اور عزم و ہمت پر سب کو اعتماد ہو، جس کی آواز پر تمام قوتیں حرکت میں آجائیں، اور جس کی مقناطیسی کشش ہمارے شیرازۂ قومی کے مائل انتشار اجزا کو باہم پیوستہ رکھ سکے۔ صرف ملک کے اندر نہیں بلکہ ملک کے باہر بھی پاکستان کی جو کچھ ساکھ اور دھاک تھی وہ زیادہ تر اسی آزمودہ کار مدبر کی بدولت تھی۔ کوئی دوسری شخصیت ہمارے ہاں ایسی نہیں ہے کہ اس کے وقار اور تدبر کو بین الاقوامی برادری میں اس درجہ بھروسے اور اعتماد کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو۔ دنیا کے لیے تو مرحوم کی وفات محض ایک بڑے انسان اور مشہور رہنما کی رحلت ہی ہے، مگر ہمارے لیے یہ ایک بہت بڑی قومی مصیبت ہے، کیونکہ اس سے ہماری نوخیز مملکت کی طاقت اور ہماری قومی زندگی کو ایسا صدمہ پہنچا ہے جس کی تلافی مشکل نظر آتی ہے، اِلاّیہ کہ اللہ تعالیٰ ہی رحم فرمائے اور ہماری مدد کرے۔
’’بے وقت موت‘‘ ایک ملحدانہ اصطلاح ہے، مسلمان کے نزدیک ہر موت ٹھیک اپنے وقت پر ہوتی ہے اور خدا اس کا وقت کسی کے مشورے سے نہیں بلکہ اپنی حکمت اور مصلحت کے لحاظ سے مقرر کرتا ہے۔ ایک موت ہی پر کیا موقوف ہے، خدا کی اس خدائی میں جو کچھ بھی ہوتا ہے عین اپنے مناسب وقت پر ہوتا ہے، اور اس وقت پر اس کے صدور میں وہ مصلحتیں ہوتی ہیں جن کو ہم نہیں سمجھ سکتے۔ البتہ جو بات ہم یقین کے ساتھ جانتے ہیں وہ یہ ہے کہ موت و حیات کا یہ سارا ہنگامہ ہماری آزمائش کے لیے ہے۔ دنیا کا ہر واقعہ اور ہر حادثہ اپنے اندر خیر کا پہلو بھی رکھتا ہے اور شر کا پہلو بھی۔ انسان کی آزمائش اس میں ہے کہ وہ اس کی جانب خیر کو جذب کرتا ہے یا جانبِ شر کو۔ انفرادی حوادث میں افراد کی آزمائش ہوتی ہے اور قومی حوادث میں قوموں کی۔ جس شخص یا گروہ کا مزاج صالح ہوتا ہے وہ ہر تلخ و شیریں چیز اور ہر مرغوب و نا مرغوب واقعے سے اس کی بھلائیوں کو اخذ کرتا ہے، اور اس کی برائیوں سے بچ نکلتا ہے۔ اس کے برعکس جس کے مزاج پر فساد کا غلبہ ہوتا ہے اس کو تلخی و شیرینی، نرمی اور سختی، راحت اور مصیبت، کامیابی و ناکامی، خوشحالی اور بدحالی، ہر چیز میں شر ہی کے پہلو ملتے ہیں اور ظاہری خیر کو بھی وہ اپنے لیے شر میں تبدیل کرلیتا ہے۔ پس درحقیقت ہماری قوم اس وقت آزمائش میں ڈالی گئی ہے۔ اس کو یہ امتحان درپیش ہے کہ وہ اس حادثۂ عظیم کو اپنے حق میں سببِ خیر بناتی ہے یا وسیلۂ شر۔ اگرچہ دعا یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کے نقصانات سے بچائے۔ مگر دعا کے ساتھ خود ہماری اپنی کوشش بھی شرط ہے۔ خدا ہر ایک کو وہی کچھ دیتا ہے جس کے لیے اس نے سعی کی ہو، اور جسے اخذ کرنے کی صلاحیت و استعداد وہ اپنے اندر رکھتا ہو۔
قائداعظم کی وفات میں شر کے پہلو تو بے شمار ہیں جنہیں ہم میں کا ہر ایک چھوٹا اور بڑا اپنے اپنے تخیل کی وسعت کے مطابق محسوس کررہا ہے۔ مگر اس مصیبت سے جو بھلائیاں ہم جذب کرسکتے ہیں ان کی طرف کم لوگوں کی توجہ منعطف ہوئی ہے۔
اولین چیز جسے ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان خوب ذہن نشین کرلیں وہ یہ ہے کہ ان کے بھروسے اور اعتماد اور تفویض و توکل کا اصل مرکز کوئی دنیوی طاقت نہ ہونی چاہیے، بلکہ صرف خدائے برتر کی ذات ہونی چاہیے۔ اشخاص اور افراد ہوں یا قومی ذرائع و وسائل، بہرحال سب فنا پذیر ہیں۔ سب پر زوال آسکتا ہے اور اپنے وقت پر آجاتا ہے۔ جو قوم اس قسم کے سہاروں پر جیے گی اُس کی اپنی زندگی بھی اتنی ہی ناپائیدار ہوگی جتنے اس کے سہارے ناپائیدار ہیں۔ ہماری قومی زندگی کے لیے اگر کوئی مستقل اور انمٹ اور اٹل بنیاد ہوسکتی ہے تو وہ صرف یہ کہ ہم اس خدا سے اپنا تعلق مضبوط کریں جو غیر فانی اور لازوال ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر اپنے مشہور خطبے میں مسلمانوں کو یاد دلائی تھی کہ ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم جس کے معبود تھے اس کا دل تو واقعی ٹوٹ ہی جانا چاہیے کیونکہ اس کا بھروسا ایک فانی معبود پر تھا جو دنیا سے رخصت ہوگیا، مگر جس کا معبود خدا تھا اس کا دل ٹوٹنے کی کوئی وجہ نہیں، کیونکہ خدا زندہ ہے اور وہ بہرحال کبھی مرنے والا نہیں ہے۔‘‘
۔(ماہنامہ ترجمان القرآن۔ ذی قعدہ 1367ہجری۔ ستمبر1948ء)۔

بیادِ مجلس اقبال

میسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندۂ حُر کے لیے جہاں میں فراغ

ضربِ کلیم کی ایک غزل کا یہ شعر اپنے اندر بہت بڑا سبق اور مکمل فلسفہ رکھتا ہے۔ علامہ نے آزاد اور غلام انسان کی زندگی کا ایک خاص پہلو اس شعر میں بیان کیا ہے کہ وقت بہت قیمتی چیز ہے مگر صرف آزاد انسان کے لیے۔ وہ اس لیے کہ کوئی نہ کوئی بڑا مقصد اور اس کے حصول کے لیے جدوجہد کا لائحہ عمل اس کے پاس موجود ہوتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی ایک امانت ہے۔ اس کا ایک ایک لحظہ قیمتی ہے۔ اور اسی مناسبت سے مصروفِ عمل رہنا ہی انسان کو زیب دیتا ہے۔ اس کے برعکس ایک غلام کی زندگی اس سے یکسر مختلف ہوتی ہے۔ حقیقت میں وہ انسانیت کے شعور سے ہی بے خبر ہوتا ہے، اور اُس کے پاس اپنے آقا کے فرمان کی تعمیل کے سوا کوئی چوائس ہی نہیں ہوتی۔ نہ تو اس کے پاس اپنا کوئی منصوبہ کار ہوتا ہے اور نہ اس کے کوئی تقاضے۔ وقت ہی تو زندگی ہے، اور وقت کے ضیاع کا تصور ایک آزاد اور خودمختار انسان ہی کے پاس ہوتا ہے۔