ترکی کے خلاف امریکی پابندیاں

دفاعی صنعت کے میدان میں ترکی کی کامیابی سے مصر، اسرائیل اور خلیجی ممالک کے ساتھ امریکہ و مغربی یورپ کو بھی تشویش ہے

امریکہ نے ترکی پر اقتصادی پابندیاں لگانے کا اعلان کردیا۔ ترکی شمالی اوقیانوس معاہدے (NATO) کا رکن اور اس کے ابتدائی دستخط کنندگان میں شامل ہے۔ یہ نیٹو کی 71 سالہ تاریخ میں پہلا موقع ہے جب ایک اتحادی نے دوسرے کے خلاف تادیبی پابندیاں عائد کی ہوں۔ تاہم ترکی، امریکی مطلق العنانیت کا پہلا شکار نہیں۔ ولادتِ نیٹو کے صرف 9 سال بعد یعنی 1958ء میں نیٹو پر امریکہ اور برطانیہ کے اجارہ داری کی حد تک غیر معمولی اثر رسوخ سے فرانس کو سخت شکایات پیدا ہوئیں، چنانچہ صدر چارلس ڈیگال نے امریکی صدر آئزن ہاور اور برطانوی وزیراعظم ہیرالڈ میک ملن کو ایک خط لکھا جس میں انھوں نے اتحادیوں کے درمیان غیر مساویانہ اختیارات کو ناقابلِ قبول قرار دیا۔ فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ نیٹو کی قیادت کے لیے امریکہ و برطانیہ کے درمیان معاہدہ، پیرس کو قبول نہیں، اور اس دستاویز کو سہ فریقی بندوبست یا Tripartite Directorate میں تبدیل کرکے فرانس کے مرتبے و مقام کا احترام کیا جائے۔ لندن و واشنگٹن سے تسلی بخش جواب نہ آنے پر فرانسیسی بحریہ کو نیٹو کے بحیرئہ روم بیڑے سے نکال لیا گیا۔ اسی کے ساتھ جنرل ڈیگال نے فرانس کی سرزمین سے نیٹو کی تمام جوہری تنصیبات ہٹالینے کا حکم جاری کردیا۔ فرانس نیٹو کا رکن تو رہا لیکن 1967ء کے بعد فرانس نے صرف محدود مشترکہ مشق میں حصہ لیا۔ 2001ء میں افغانستان پر حملے کے بعد فرانس اور نیٹو کے درمیان تعلقات بہتر ہوئے اور امریکی صدر اوباما کی یقین دہانیوں پر 2006ء میں صدر نکولس سرکوزی نے اپنے ملک کو دوبارہ مرکزی کمان (Structural Command)کا حصہ بنالیا۔ عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ پیرس کے سجدئہ سہو کی وجہ بحیرئہ روم پر ترک بحریہ کا بڑھتا ہوا اثررسوخ اور دفاعی مصنوعات کے میدان میں ترکی کی چشم کشا ترقی ہے۔
اپنے محلِ وقوع کے اعتبار سے مشرق کے کمیونسٹ اور مغرب کے ساہوکار دونوں ہی ترکی سے دوستانہ تعلقات کے خواہش مند ہیں۔ بحراسود سے نکلنے کا واحد راستہ ترکی سے ہوکر گزرتا ہے، چنانچہ روس کے لیے ترکی سے دوستی بہت ضروری ہے تو دوسری طرف مغربی یورپ و امریکہ بھی انقرہ سے کشیدگی کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔
ترکی و امریکہ کے درمیان مہر و محبت کا آغاز دوسری جنگِ عظیم کے دوران اُس وقت ہوا جب ترکی نے اس عالمی جنگ سے خود کو الگ تھلگ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ تزویراتی (اسٹرے ٹیجک) محلِ وقوع کی بنا پر امریکہ اور برطانیہ کی خواہش تھی کہ ترکی اس جنگ میں اتحادیوں کا ساتھ دے۔ چنانچہ امریکی و برطانوی قیادت نے ترکی یاترا کی خواہش ظاہر کی، لیکن غیر جانب داری کے عزم پر قائم رہتے ہوئے انقرہ نے معذرت کرلی۔ جس کے بعد قاہرہ میں مذاکرات کی میز بچھائی گئی جہاں دسمبر 1943ء میں امریکی صدر روز ویلٹ، برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل اور ترک صدر عصمت انونو کے درمیان دو روزہ مذاکرات ہوئے۔ عصمت انونو غیر جانب داری کے فیصلے پر ڈٹے رہے۔ آخرکار اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ ترکی غیر جانب داری پر قائم رہتے ہوئے آبنائے باسفورس تک اٹلی، نازی اور جرمنوں کی رسائی محدود کردے گا۔ ان دشمنوں کو اتحادی ”روم، برلن، ٹوکیو مثلث“ کہتے تھے۔ امریکہ کے اصرار پر فروری 1945ء میں ترکی نے اتحادیوں کا ساتھ دینے کا اعلان کردیا، جس کے نتیجے میں آبنائے باسفورس روسی جنگی جہازوں کے لیے کھول دی گئی۔ روسیوں کا اصرار تھا کہ آبنائے کے دہانے پر انھیں بحری تنصیبات قائم کرنے کی اجازت دی جائے۔ جلد ہی یہ ملتجیانہ درخواست دھمکی میں تبدیل ہوگئی اور یہیں سے ترکی اور امریکہ کے درمیان عسکری رومانس کا آغاز ہوا۔ 1947ء میں امریکی صدر ہیری ٹرومن نے روسی ”توسیع پسندی“ کے خلاف ترکی کا ساتھ دینے کا اعلان کیا جسے ٹرومن ڈاکٹرن کا نام دیا گیا۔ 1950ء میں جنگ کوریا کا آغاز ہوا تو ترکی نے امریکہ کی نصرت کے لیے اپنے فوجی بھیج دیے، جس کے بعد 1952ء میں ترکی نیٹو کا رکن بن گیا۔ کہتے ہیں کہ وزیراعظم عدنان میندریس ابتدا میں نیٹو کا حصہ بننے کے خلاف تھے لیکن جب روایتی حریف یونان نے نیٹو کی رکنیت اختیار کرنے کا فیصلہ کیا تو ترکی کے لیے نیٹو میں شامل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ روسی کشیدگی کے ساتھ یونان کی دشمنی سے ترکی کی سالمیت کو سخت خطرہ لاحق تھا، جس کے مقابلے کے لیے انقرہ نیٹو کی چھتری تلے آگیا۔ 1955ء میں ترکی نے بحیرئہ روم کے ساحل پر اضنہ کے انسرلیک فوجی اڈے کا ایک حصہ نیٹو کے لیے وقف کردیا۔ اس اڈے پر امریکہ اور برطانیہ کے ساڑھے پانچ ہزار فوجی تعینات ہیں۔ پچاس سے زیادہ مسلح بمبار طیارے ہروقت پرواز کے لیے تیار رہتے ہیں، کچھ بمباروں پر جوہری ہتھیار بھی نصب ہیں۔
ساتویں دہائی سے اُس صدی کے اختتام تک ترک انتخابات میں کسی بھی جماعت کو واضح اکثریت نہیں مل سکی اور مخلوط حکومتیں بہت کمزور رہیں۔ دوسری طرف سیکولرازم کے سرپرست اور ضامن کی حیثیت سے فوج کو سیاسی معاملات میں مداخلت کا آئینی تحفظ حاصل تھا، جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ترک جرنیلوں نے امریکہ سے براہِ راست رابطے استوار کرلیے۔ نتیجے کے طور پرامریکہ کے اثرات بہت گہرے ہوگئے۔ 2002ء کے انتخابات میں رجب طیب اردوان کی AKپارٹی نے واضح اکثریت حاصل کرکے ایک مضبوط حکومت تشکیل دی اور سویلین وزیراعظم نے نیٹو کے معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔
انقرہ واشنگٹن کشیدگی کا آغاز اُس وقت ہوا جب 2003ء میں ترک وزارتِ دفاع نے عراق پر حملے کے لیے انسرلیک سے امریکی جنگی جہازوں کے اڑنے پر پابندی لگادی۔ صدر بش خاصے ناراض ہوئے لیکن وزیراعظم اردوان کا مؤقف تھا کہ جنگ اقوام متحدہ یا نیٹو کی اجازت کے بغیر چھیڑی جارہی ہے، لہٰذا ترک سرزمین عراق پر حملے کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔
مئی 2010ء میں ترکی سے امدادی سامان کے ساتھ کشتیوں کا ایک قافلہ غزہ روانہ ہوا۔ ایک کشتی پر پاکستانی صحافی طلعت حسین بھی سوار تھے۔ اس قافلے پر اسرائیلی بحریہ نے حملہ کیا جس میں 9 سماجی کارکن مارے گئے۔ اپنے مذمتی بیان میں جناب اردوان نے صاف صاف کہا کہ ”سپرطاقت“ کی شہہ کے بغیر اسرائیل اس خونریزی کی ہمت نہیں کرسکتا تھا۔ ترکی کے اس دوٹوک مؤقف سے ترکی و امریکہ کے درمیان تعلقات میں مزید تنائو آگیا۔
شام و عراق کی خانہ جنگی اور داعش کے ظہور پر حالات مزید خراب ہوئے۔ امریکہ نے داعش کی سرکوبی کے لیے ترکی کے کرد علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کی۔ دمشق سرکار نے شامی فوجِ آزادی (SDF)کے نام سے ملیشیا تشکیل دے دی جسے امریکی فوج نے اسلحہ فراہم کیا۔ ترکی کا کہنا ہے کہ اسد حکومت نے YPGدہشت گردوں کو SDF کی وردیاں پہناکر ترک سرحد کی طرف دھکیل دیا۔ YPG کو ترکی کی عدالتِ عظمیٰ کے ساتھ خود امریکہ نے بھی دہشت گرد قرار دیا ہے۔
2015ء تک صورتِ حال یہ ہوگئی کہ ترکی کی عراق و شام سے ملنے والی سرحدوں پر SDF اور YPGنے مورچہ لگایا ہوا تھا۔ شمال مشرق میں آرمینیا سے صورت حال کشیدہ تھی۔ اسی کے ساتھ مشرقی بحیرئہ روم میں یونانی قبرص اور یونان نے آنکھیں دکھانا شروع کردیں۔ ترک ساحل کے قریب بہت سے یونانی جزائر ہیں،دو ایک جزائر کا ترکی سے فاصلہ صرف تین کلومیٹر ہے۔ یونان کا اصرار ہے کہ ان جزائر کی آبی حدود کئی سو کلومیٹر تک ہیں۔ اگر اس دعوے کو مان لیا جائے تو یونان کی آبی سرحدیں ترکی کے ساحل تک ہیں۔ یہ بات ترکی کے لیے قابلِ قبول نہیں، کہ بحیرئہ روم اور بحراسود میں ترکی کا ساحل سب سے طویل ہے۔
شمالی قبرص اور ترکی کے درمیان سمندری فاصلہ بہت کم ہے اور بحیرئہ روم کا یہ علاقہ تیل و گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔ اسرائیل اور مصر نے مشرقی بحیرئہ روم میں کئی بڑے گیس کے میدان دریافت کیے ہیں۔ یونانی قبرص کی حکومت سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کا کام کرنا چاہتی ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ تلاش و ترقی کے یہ سمندری یا Offshore Blocks اس کی آبی (maritime) حدود میں ہیں جنھیں ارضیات کی اصطلاح میں Continental Shelf کہتے ہیں۔
اس سال فروری میں اطالوی تیل کمپنی Eni کنواں کھودنے کے لیے شمالی قبرص کے قریب ایک جہاز (Drill-ship)لے آئی، لیکن ترک بحریہ نے اسے فرار پر مجبور کردیا۔ چند ماہ پہلے یونانی قبرص کی وزارتِ معدنیات نے بلاک 7 کا ٹھیکہ امریکہ کی ایکسون موبل (Exxon Mobil)کی قیادت میں بننے والے مشارکہ کو دے دیا، جس کے دوسرے حصے دار Eni اور فرانس کی ٹوٹل (TOTAL)ہیں۔ ایک دوسرا بلاک جسے نمبر 10 کا نام دیا گیا ہے ایکسون موبل اور قطر پیٹرولیم کے مشارکہ کو عطا کردیا گیا۔ جیسے ہی ایکسون موبل کے وائس چیئرمین نیل چیپمین نے اعلان کیا کہ ان کی کمپنی اس سال کے اختتام پر بلاک 10 میں آزمائشی کنووں کی کھدائی شروع کرے گی، ترک وزارت ِخارجہ نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی کو اپنے معدنی وسائل لوٹنے نہیں دیں گے اور مشرقی بحیرئہ روم میں مہم جوئی کرنے والوں کو کچل دیا جائے گا۔ اس دھمکی پر ایکسون نے کھدائی کا منصوبہ غیر معینہ مدت کے لیے مؤخر کردیا۔ ترک بحریہ نے اپنی حدود سے فرانسیسی رگز (RIGS)کو بھی ڈبونے کی دھمکی دے کر علاقے سے باہر نکل جانے پر مجبور کردیا۔ اس سال کے آغاز پر ترکی کی سائزمک کشتیوں نے تیل و گیس کی تلاش کے لیے آزمائش و پیمائش کی مہم کا آغاز کیا۔ یونان نے فرانس اور یورپی یونین کی پشت پناہی میں ترکی کو مشتعل کرنے کی کوشش کی اور کئی بار دونوں ملکوں کے بحری جہاز اور لڑاکا طیارے خطرناک حد تک ایک دوسرے کے قریب آگئے تاہم تصادم نہ ہوا۔
امریکہ اور ترکی کے درمیان سخت کشیدگی اُس وقت پیدا ہوئی جب جولائی 2016ء میں اردوان کے خلاف ناکام فوجی کارروائی کے دوران باغی طیاروں نے انسرلیک کے امریکی اڈے سے اڑان بھری، جس پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے ترک وزارتِ دفاع نے انسرلیک اڈے کا انتظام سنبھال لیا اور اب اس اڈے کی نگرانی ترک فضائیہ کے ہاتھ میں ہے۔
صدر اردوان نے اقتدار سنبھالتے ہی دفاعی پیداوار کی صنعت کی طرف توجہ دی اور بہت جلد ترک ساختہ بنکر شکن میزائل، ڈرون، آبدوز اور صحرائی ٹینک بہت مقبول ہوگئے۔ اس سال ستمبر تک ایسا لگ رہا تھا کہ روس، فرانس، اسرائیل، مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے تعاون سے کھڑی کی جانے والی حفتر ملیشیا بس چند ہی ہفتوں میں لیبیا کا دارالحکومت طرابلس فتح کرلے گی، لیکن لیبیا حکومت کے ترک ساختہ ڈرون نے پانسہ پلٹ دیا۔ ان ہی ڈرونز کی ہلاکت خیز کارروائی کے باعث آرمینیا کی فوج نے نگورنوکاراباخ میں ہتھیار ڈالے۔ دفاعی صنعت کے میدان میں ترکی کی کامیابی سے مصر، اسرائیل اور خلیجی ممالک کے ساتھ امریکہ و مغربی یورپ کو بھی تشویش ہے۔
ترکی اپنے فضائی دفاع کی جانب سے خاصا فکرمند ہے۔ اس کے پاس امریکی ساخت کے جدید حملہ آور اور بمبار طیارے تو ہیں لیکن فضائی حملوں کے خلاف دفاع کے معاملے میں ترک جرنیلوں کو ایک جدید ترین نظام کی تلاش تھی۔ امریکہ فضائی دفاع کا پیٹریاٹ نظام فروخت کرنے کے لیے تیار ہے لیکن ترک ماہرین اس کی استعداد پر مطمئن نہ تھے۔ ترک وزارتِ دفاع کو امریکیوں کی تلون مزاجی پر بھی شدید تحفظات ہیں کہ پابندیوں کی تلوار ہر وقت سر پر لٹکتی رہتی ہے۔ مشرقی بحیرئہ روم کی سمندری حدود کے معاملے میں یورپی یونین سے ترکی کے تعلقات خاصے کشیدہ ہیں اور اگر تصادم کے وقت امریکہ بہادر نے پابندیاں لگادیں تو فوج کے لیے سخت مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں، چنانچہ روسی ساختہ S-400 طیارہ شکن دفاعی نظام کا جائزہ لیا گیا۔
ترک ماہرین کا خیال ہے کہ S-400 امریکی پیٹریاٹ سے بہتر، استعمال میں آسان، سستا اور زیادہ مؤثر ہے۔ سب سے بڑی بات کہ روس اس میزائل شکن نظام کی ترکی میں تیاری پر نہ صرف رضامند ہے بلکہ معاہدے کے تحت ترک و روسی ماہرین اس کی بہتری کے لیے مل کر کام کریں گے۔ ان پُرکشش شرائط کی بنا پر ترکی نے S-400خریدنے کا معاہدہ کرلیا۔ سودے کی خبر سامنے آتے ہی امریکہ بہادر آپے سے باہر ہوگئے اور اردوان مخالف سینیٹروں نے ترکی کو نشانے پر رکھ لیا۔ 2017ء میں امریکی مقننہ نے ”پابندیوں کے ذریعے دشمنوں سے مقابلے کا ایکٹ“ یا CAATSAمنظور کیا ہے۔ اس قانون کے تحت امریکہ کے نامزد تین بڑے دشمنوں یعنی ایران، شمالی کوریا اور روس سے فوجی تعاون، اسلحہ کی خریداری اور خفیہ و عسکری معلومات کا تبادلہ غیر قانونی ہے۔ سودے پر معترض سینیٹرز کا کہنا ہے کہ روس سے اسلحہ خرید کر ترکی CAATSAکی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا، چنانچہ انقرہ کے خلاف سخت پابندیاں لگنی چاہئیں۔ صدر ٹرمپ نے کانگریس کی قرارداد پر کان نہ دھرا۔ ان کا کہنا تھا کہ اردوان ایک اہم اتحادی ہیں اور اس قسم کی تادیبی کارروائی سے علاقے میں امریکی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ مزے کی بات کہ ترکی کے ساتھ ہندوستان نے بھی S-400 خریدنے کا معاہدہ کیا ہے لیکن اُس کے خلاف کارروائی کی کوئی قرارداد تو دور کی بات، رسمی مذمت کی بازگشت بھی سنائی نہ دی۔
اس ماہ کے آغاز پر جب امریکی کانگریس کے سامنے دفاعی بجٹ پیش ہوا تو اس میں CAATSAکے تحت ترکی کے خلاف پابندی اور افغانستان سے امریکی فوج کے واپسی کے لیے امن و امان کی شرط بھی لگادی گئی ہے۔ ایک سے زیادہ امور کو واحد بل میں سمونے کے عمل کو امریکہ کی پارلیمانی اصطلاح میں اومنی بس بل کہتے ہیں۔ اومنی بس بل کا بنیادی مقصد مختلف مفادات کو یکجا کرکے اعتراضات کے بغیر بل کی جلد از جلد منظوری ہے۔ یہ بل ایوانِ زیریں سے 78 کے مقابلے میں 335 اور سینیٹ سے 13 کے مقابلے میں 84 ووٹوں سے منظور ہوگیا اور 14 دسمبر سے ترکی پر پابندیاں عائد کردی گئیں۔
پابندیوں کے تحت ترکی کو F-35طیاروں کے ترقیاتی پروگرام سے الگ کردیا گیا ہے۔ اس غیر مرئی (Stealth) بمبار کی تیاری میں امریکہ، فرانس، برطانیہ اور ترکی شامل ہیں۔ اس کا بیرونی ڈھانچہ یا شیل ترک فولاد سے بنایا جاتا ہے۔ اب تک یہ بات واضح نہیں کہ طیارہ ساز ادارہ لاک ہیڈ مارٹن اب بھی یہ شیل ترکی سے بنوائے گا یا اسے متبادل ڈھونڈنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔ ترک دفاعی صنعت SSBکے سربراہ اسماعیل دمیر اور ادارے کے تین سینئر افسران پر سفری پابندیاں بھی عائد کردی گئی ہیں۔
پابندیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ترک صدر اردوان نے کہا کہ جب سے CAATSAمنظور ہوا ہے پہلی بار اس کا اطلاق کیا جارہا ہے اور وہ بھی نیٹو کے مخلص ترین رکن پر۔ ہم ترک عوام کو کیا بتائیں کہ یہ کس قسم کا اتحاد ہے؟ ترک صدر نے کہا کہ ان پابندیوں کا مقصد ترک دفاعی صنعت کو نقصان پہنچانا ہے تاکہ ہم اپنے دفاع کے لیے بڑی طاقتوں کے رحم و کرم پر رہیں۔ ترک ملت اسے اپنی سلامتی و خودمختاری پر حملہ سمجھتی ہے جس کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔ جناب اردوان نے کہا کہ کس ملک سے کیا خریدیں اس کا فیصلہ صرف اور صرف منتخب ترک قیادت کرے گی، ہمیں کسی سے اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جناب اردوان نے واضح کیا کہ اللہ کی مہربانیوں سے ترکی اس مقام تک پہنچ چکا ہے جب پابندیاں ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں اور اب ہم اپنے دفاع کو خودمختار بنانے کے لیے دگنی محنت کریں گے۔ ترک صدر نے کہا کہ امریکہ ترکی کی دفاعی ضروریات پوری کرنے میں ناکام رہا ہے اور ترک قوم اپنے دفاع کی طرف سے غافل نہیں رہ سکتی۔
امریکی حکومت کے فیصلے پر نیٹو نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اتحاد کے سربراہ جینس اسٹولٹن برگ نے برسلز میں اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ اتحادیوں کے درمیان تمام تنازعات بات چیت کے ذریعے حل ہونے چاہئیں اور پابندیاں لگانے سے قابلِ قبول اور مثبت حل کی راہ مسدود ہوسکتی ہے۔ روسی وزیرخارجہ سرجی لاوروو(Sergey Lavrov)نے پابندیوں کو امریکی تکبر کی ایک مثال قرار دیا۔
ترک وزیر خارجہ مولوت چاوش اوگلو نے دھمکی دی ہے کہ امریکہ نے ترکی پر جو پابندیاں عائد کی ہیں، ان کے ردعمل میں جوابی اقدامات کیے جائیں گے۔ ترکی نے روس سے میزائل دفاعی نظام کی خریداری کا فیصلہ ضرورت کے تحت کیا ہے، کیونکہ اسے نیٹو کے کسی اتحادی ملک سے اطمینان بخش شرائط پر میزائل نہیں مل رہے تھے۔
نیٹو اتحادی پر پابندیوں کا فیصلہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب امریکہ میں ایک ماہ بعد نئی انتظامیہ اختیارات سنبھال رہی ہے۔ نومنتخب صدر جوبائیڈن صدر اردوان کو امریکہ و اسرائیل مخالف سمجھتے ہیں اور انتخابی مہم کے دوران کہہ چکے ہیں کہ وہ آئندہ انتخابات کے دوران ترکی میں اقتدار کی تبدیلی یا Regime Changeکی کوشش کریں گے۔ دوسرے ملکوں میں دخل اندازی کا یہ بھونڈا انداز اب چلنے والا نہیں۔ ترکی میں حکمرانی کس کی ہوگی اس فیصلے کا حق صرف اور صرف ترک عوام کو ہے۔ 2013ء میں جوبائیڈن اپنے باس بارک اوباما سے مل کر مصری تاریخ کی پہلی منتخب حکومت اور جمہوریت پر شب خون مار چکے ہیں۔ لیکن ترکی اب 1960ء والا نہیں جب منتخب وزیراعظم عدنان میندریس کو پھانسی دے دی گئی۔ دنیا جمہوریت و آزادی سے ترک عوام کی وابستگی جولائی 2016ء میں دیکھ چکی ہے جب امریکہ نواز مسلح وردی والوں کی نہتے عوام نے مشکیں کس دی تھیں۔

…………
آپ مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم masoodabdali.blogspot.comاور ٹویٹر Masood@MasoodAbdaliپربھی ملاحظہ کرسکتے ہیں۔ ہماری ویب سائٹwww.masoodabdali.comپر تشریف لائیں