کوئٹہ کی ایک مجلسی گفتگو
مولانا محمد خان شیرانی جمعیت علمائے اسلام کے اندر بڑی سطح کے رہنما ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے رکن رہے ہیں۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کے منصب پر بھی فائز رہے۔ ان کے بلوچستان کی تنظیم میں اس قدر گہرے اثرات تھے کہ مولانا فضل الرحمان بلا شک ان سے خوف زدہ تھے۔ مولانا فضل الرحمان کے خلاف پارٹی امارت کا انتخاب بھی لڑ چکے ہیں۔ گو کہ اب ان کا دائرۂ اثر پہلے جیسا نہیں ہے، مگر پھر بھی بڑی حیثیت کے حامل ہیں، حلقہ اثر بھی رکھتے ہیں۔ جماعتی پالیسیوں پر فورم سے ہٹ کر بات اور تنقید کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان پر اُن کی حالیہ نکتہ چینی بہت زور کی ہے۔ مولانا کو انہوں نے سلیکٹڈ اور جھوٹا تک کہا ہے۔ مولانا شیرانی سیاسی ایجی ٹیشن کے بالکل قائل نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مغربی طرز کے نظام جمہوریت میں انتخاب لڑتے ہیں تو پھر حکومتوں کا حصہ کیوں نہ بنیں! عالم اسلام کے حالات و مسائل پر بھی منفرد اور الگ رائے رکھتے ہیں۔ انہوں نے 20 دسمبر 2020ء کو اسرائیل کو دو ریاستی فارمولے کے تحت تسلیم کرنے کی رائے پیش کردی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عرب، اسرائیل تنازع ہے، عرب مان گئے تو ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھے لوگوں کی جذباتی باتیں غیر معقول ہیں۔ اور یہ کہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان اس بے مقصد جنگ کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ افغانستان کے اندر خارجی افواج اور ان کی مسلط حکومت کے خلاف سیاسی و عسکری مزاحمت کے بھی مخالف ہیں۔ فاٹا کے مسلح گروہ کی جانب سے کرائے گئے دو خودکش حملوں میں بال بال بچے۔ اسلامی نظریاتی کونسل میں بھی متنازع رہے۔ بہرحال اب مولانا شیرانی نے متوازی یونٹ سازی کا اعلان کررکھا ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ پارٹی کے پارلیمانی ارکان کو استعفے نہ دینے پر قائل کریں۔ وہ پارٹی رہنمائوں و کارکنوں کو کسی احتجاجی تحریک کا حصہ بننے سے گریز پر آمادہ کرنے کی سعی کریں گے۔ لمحۂ موجود میں مولانا شیرانی اور مولانا گل نصیب کے تحرک کے باعث مولانا فضل الرحمان کی توجہ اندرونِ خانہ تنازعات کی طرف مبذول ہوئی ہے۔
حال ہی میں مولانا شیرانی کی جانب سے کی گئی گفتگو دلچسپی سے خالی نہیں ہے، جس میں انہوں نے جماعتی پالیسیوں اور پی ڈی ایم کی حالیہ تحریک پر کھل کرنقطہ نظر بیان کیا ہے۔ موجودہ حکومت کے سلیکٹڈ ہونے اور اسٹیبلشمنٹ پر ملک کا نظامِ ِ کار اپنے ہاتھ میں لینے سے متعلق اپوزیشن کے الزام کے بارے میں سوال پر مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ لیگ آف نیشن کے وقت بین الاقوامی سطح پر سیاسی امور کے بارے میں تین باتیں طے کی گئیں۔ ایک یہ کہ مغربی اقوام جن خطوں پر براہِ راست حاکمیت کرتی ہیں وہ اس سے پیچھے ہٹ جائیں اور وہاں پر بالواسطہ اپنے جانشین مقرر کریں۔ کیونکہ براہِ راست حاکمیت میں خطے کے باشندوں کا مالی بوجھ برداشت کرنا پڑے گا، عداوت کا نشانہ بنیں گے اور خطوں کی سرحدوں کی حفاظت بھی کرنا پڑے گی۔ مگرجب نیابتی حکومت ہوگی تو بظاہر تو وہ آپس میں خود اُلجھے ہوئے ہوں گے، حاکمیت ہماری ہوگی اور ہماری مصیبتیں دوسرے برداشت کریں گے۔ دوسری بات انہوں نے یہ طے کی کہ جاگیر افراد کے بجائے اداروں کو دی جائے۔ تیسری بات یہ طے کی کہ جو فوجیں جہاں جہاں ہیں اب ان کے ذمے سرحدات کی حفاظت نہیں ہوگی، بلکہ مفادات کی حفاظت ہوگی۔ پھر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ مملکت کیا ہے اور جاگیر کیا ہوتی ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ جغرافیہ کے ادنیٰ طالب علم کو بھی پتا ہے کہ کوئی ایسا خطہ جس کی حدود اربع متعین ہوں، اسے مملکت کہتے ہیں۔ مگر تیسری دنیا کے ممالک کے حدود ہمیشہ کے لیے متنازع ہوتی ہیں، متعین نہیں۔ حال ہی میں پاکستان اور بھارت نے اپنے اپنے نئے سرکاری نقشے جاری کیے ہیں، جن میں ایک دوسرے کے علاقوں کو اپنا حصہ قرار دیا ہے۔ تو یہ مملکت ہے یا جاگیر؟ جاگیر ہمیشہ کے لیے جاگیردار کی ہوتی ہے۔ جاگیردار اگر اپنے مزارعین کو کہیں کہ آپس میں اپنا کوئی سربراہ چن لو تو کیا وہ مزارع ہوگا یا مالک بن جائے گا؟ تو کچھ حقیقتیں ہیں جو معلوم ہونے کے باوجود بتائی نہیں جاتیں۔ میرے خیال میں پاکستان جیسے ممالک میں تو کبھی بھی انتخابات نہ آزادانہ ہوئے ہیں، نہ آئندہ ہونے کا کوئی امکان ہے۔ اس لیے میری تجویز ہے کہ کوئی الگ سے ادارہ کھول کر اس پر بورڈ لگادیا جائے ’ادارہ برائے وزارت‘۔ جس کو بھی وزارت کا شوق ہو وہ درخواست دے، اور انتخاب کے لیے اس نے جو جمع پونجی رکھی ہو وہ کسی لفافے میں ڈال کر کہے کہ یہ میری استطاعت ہے اور یہ میری خواہش ہے۔ تو یہ الیکشن کی مصیبتوں، مار کٹائی، بھاگ دوڑ اور ناراضیوں سے بہتر اورآسان طریقہ ہے۔ باقی جو جماعتیں عمران خان کو سلیکٹڈ کہتی ہیں وہ ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں کہ آیا وہ خود سلیکٹڈ ہیں یا منتخب؟ مولانا فضل الرحمان خود سلیکٹڈ ہیں اور دوسرے کو سلیکٹڈ کہتے ہیں۔ یہ تو اس طرح ہے جیسے چھلنی لوٹے کو کہے کہ تم میں دو سوراخ ہیں۔
جب پو چھا گیا کہ جمعیت علمائے اسلام میں اختلافات پہلے سے ہی واضح تھے، اگر دوسری طرف سے جھوٹ بولا جارہا تھا، تو پھر اپنی الگ جماعت یا گروپ کیوں نہیں بنالیتے؟
اس سوال پر مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ یہ ہماری جماعت ہے ہم کیوں الگ گروپ بنائیں ! جب گھر پر قبضہ ہوجائے تو گھر نہیں قبضہ چھڑایا جاتا ہے۔ ہم نے اپنے ساتھیوں سے کہا ہے کہ جماعت کسی کی جاگیر نہیں، اور اگر کوئی اسے اپنی جاگیر سمجھتا ہے تو وہ غلطی پر ہے۔ ہم نے اپنے کارکنوں کو کہا ہے کہ وہ تمام اضلاع میں اپنے اپنے دفاتر بنائیں۔
پی ڈی ایم کی تحریک سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ میں نے بہت پہلے کہا تھا کہ پی ڈی ایم اور اسٹیبلشمنٹ دونوں مل کر ملک کو توڑنے کا ماحول بنانے کے لیے چکی کے دو پاٹوں کا کردار ادا کررہے ہیں۔ پی ڈی ایم کی مخاصمت، مخاصمت برائے عداوت نہیں ہے، بلکہ مخاصمت برائے مفاہمت ہے، کہ ہمیں بھی کوئی حصہ ملے۔ جب پوچھا کہ ملک کو کیوں توڑنا چاہیں گے؟ تو مولانا شیرانی گویا ہوئے کہ ملک آپ کا ہے نہیں، جن کا ہے اگر وہ توڑنا چاہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اپنے پانچ سال پورے کریں گے۔ جمعیت کی مقبولیت اور مولانا فضل الرحمان کی قائدانہ صلاحیتوں سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کو قیادت کیوں دی گئی ہے، یہ گھر کی باتیں ہیں مجھ سے نہ پوچھیں تو بہتر ہے۔ مولانا شیرانی نے مولانا فضل الرحمان کے بارے میں مزید جاننے کے لیے مشورہ دیا کہ مولانا کوثر نیازی کی کتاب اور اجمل نیازی کا مضمون پڑھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری تو یہ اظہار بھی کرچکے ہیں کہ انہیں تو ووٹ ہی مذہب کی مخالفت کی بنیاد پر ملتا ہے۔ پھر ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ کس بنیاد پر مولانا فضل الرحمان کو سربراہ بنایا ہے۔ واضح ہو کہ مولانا کوثر نیازی نے اپنی کتاب’ ’اور لائن کٹ گئی‘‘ میں لکھا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹوحزبِ اختلاف کی تحریک پی این اے کی سربراہی مولانا مفتی محمود کو دیئے جانے پر خوش تھے، کیونکہ ان کے خیال میں مولانا مفتی محمود کی شخصیت میں عوام کے لیے کوئی کشش نہیں تھی اور اس بنیاد پر یہ تحریک خودبخود کمزور ہوجاتی۔ یقیناً مولانا شیرانی نے کتاب کا حوالہ دے کر اس اقتباس کی طرف ہی اشارہ کیا ہے۔
بلوچستان میں متوازی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے متعلق سوال پر جے یو آئی کے رہنماء کا کہنا تھا کہ یہ جوارکانِ اسمبلی کامیاب ہوئے ہیں کیا یہ اپنے بل بوتے پر کامیاب ہوئے ہیں یا اسٹیبلشمنٹ کی معاونت سے ہوئے ہیں۔ جب انہیں اسٹیبلشمنٹ نے ہی کامیاب کروایا ہے تو پھر ارکانِ اسمبلی کو جوابدہ بھی انہی کو ہونا چاہیے۔
پاکستان کے نظام سے متعلق رائے کا اظہار کرتے ہوئے مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ کہا جاتا ہے پاکستان میں اسلامی اور جمہوری نظام ہے۔ اسلام سے مسلمانوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہے اور جمہوریت سے مغرب کو لالی پوپ دیا جارہا ہے۔ وزیراعظم کے ذریعے سے برطانیہ کو مطمئن کررہے ہیں، صدر کے ذریعے سے امریکط کو اعتماد میں لیتے ہیں تو یہ کس طرح کا نظام ہے؟
مولانا فضل الرحمان سے اختلاف کن باتوں پر ہے؟
اس سوال کے جواب میں مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میری امت کے دو طبقے ہیں، اگر وہ راہِ راست پر ہوں گے تو پوری امت راہِ راست پر ہوگی، اور اگر وہ بھٹک گئے تو پوری امت بھٹک جائے گی۔ وہ دو طبقے علماء اور امراء ہیں۔ ہماری قسمت ایسی ہے کہ ہمارے علماء اور قومی زعماء پر جب صاف ستھرا جھوٹ ثابت ہوجائے تو نہ وہ شرماتے ہیں، نہ ان کے چہرے اور آنکھوں میں کوئی تغیر آتا ہے۔ بڑی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ یہ تو حکمت عملی ہے۔ جب وعدہ خلافی ان پر ثابت ہوجائے تو کھلکھلا کر کہتے ہیں کہ یہ تو سیاست ہے، رات گئی بات گئی۔ جب دھوکا ان پر ثابت ہوجائے تو پھر بڑے آرام سے تکیہ لگا کر کہتے ہیں کہ یہ تو مصلحتِ وقت ہے۔ جب خودغرضی ان پر ثابت ہوجائے تو کہتے ہیں کہ یہ تو دانائی ہے۔ اب جس قوم کے علماء اور قومی زعماء جھوٹ کو حکمتِ عملی کا نام دیں، وعدہ خلافی کو سیاست کہیں، دھوکے کو مصلحتِ وقت اور خودغرضی کو دانائی کہیں تو اس کا انجام کیا ہوگا؟
کیا مولانا نے آپ کو دھوکا دیا ہے؟ اس پر مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ دھوکا میرے ساتھ نہیں کیا، دھوکا تو اللہ کے ساتھ کیا ہے۔ صلاحیتیں اللہ کی ملکیت ہیں، جو لوگ اللہ کی ملکیت کو اس کی ہدایت اور اجازت سے ہٹ کر اپنی منشاء کے مطابق استعمال کریں تو وہ اللہ کے فریق ہیں، ہمارے نہیں۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ جھوٹوں کو اپنا مجرم قرار دیتا ہے۔ انہوں نے کسی انسان کا نہیں اللہ کا جرم ہی کیا ہے۔ ہمیں کچھ انتظار کرنا پڑے گا۔
جے یوآئی کی پالیسی و سمت سے متعلق سوال پر مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ جے یو آئی نے آزادی مارچ اور دھرنا 2019ء میں دیا جبکہ جماعت کی مجلس شوریٰ سے اب منظوری لی گئی۔ کیا اسے مشاورت سے چلنا کہتے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ میں نے دھرنے کے بارے میں اُس وقت بھی کہا تھا کہ جس طرح گئے ہیں اسی طرح آئیں گے۔ پی ڈی ایم کے بارے میں بھی سمجھتا ہوں کہ اس کا کوئی نتیجہ نظر نہیں آتا اور سودے کا بھی بظاہر کوئی ماحول نظر نہیں آتا۔
اپوزیشن کی جانب سے استعفوں اور اسلام آباد کی جانب مارچ سے متعلق مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ جو نقد چیز آپ کے ہاتھ میں ہے وہ آپ پھینک دیں اور ادھار کی امید پر بیٹھیں تو کیا یہ دانائی کی بات ہے؟ میرے خیال سے تو اپوزیشن ایسا نہیں کرے گی کہ جو کچھ ہاتھ میں ہے وہ پھینک دے، اور آگے پھر معلوم نہیں کچھ ہاتھ آئے یا نہ آئے۔ اسی لیے پیپلز پارٹی بہت حد تک استعفوں کے لیے آمادہ نظر نہیں آتی۔
جمعیت علمائے اسلام کے داخلی جماعتی انتخابات ہمیشہ تنازعے کی صورت پیدا کرتے ہیں، کیا یہ اصلاح طلب نہیں؟
اس سوال پر مولانا شیرانی کا کہنا تھا کہ اصلاح کی دو صورتیں ہوتی ہیں: یا تو مقابلہ کیا جائے یا پھر دعوت دی جائے۔ دعوت کی حد تک تو ساتھی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔
جے یو آئی کے جماعتی انتخابی قوانین میں بہتری سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھاکہ اگر جماعت شخص یا وراثت ہو تو پھر تو اصلاح کے امکانات نہیں ہوں گے۔ اگر فرد جماعت کو اپنے نام الاٹ کرے، کوئی شین، کوئی ف بنے، کوئی نون بنے تو جمعیت علمائے اسلام پاکستان تو درمیان میں سے نکل گئی۔ اسی لیے تو میں ساتھیوں سے کہتا ہوں کہ تمام گروپ چھوڑ دو، اصل جماعت میں آجائو۔ یہ جھوٹ اور جھوٹوں کی پیروی چھوڑ دو، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹوں پر لعنت بھیجی ہے اور نبی ؐ نے سچ کی تلقین کی ہے۔ جب کبھی کبھار لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ حالات کا علاج کیا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ جھوٹ مت بولو۔ جب جھوٹ ختم ہوجائے گا تو علاج ہوجائے گا۔ جھوٹوں کی پیروی چھوڑنے سے مسئلہ حل ہوجائے گا۔ سچ صاف ستھرا بولو، اس میں ملاوٹ نہ کرو، اور سچوں کا ساتھ دو۔ بس یہی فارمولا ہے اگر اس پر کوئی عمل کرے۔