والدین کا احترام

رشد و ہدایت
رشد و ہدایت

قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ۔
’’کسی بندے نے اللہ تعالیٰ کے نزدیک غصہ کے گھونٹ سے بڑھ کر کوئی گھونٹ نہیں پیا جس کو وہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے پی جاتا ہے‘‘۔ (احمد)۔

حقیقی مسلمان کی ایک نمایاں صفت یہ ہے کہ وہ والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا ہے، اور ان کے ساتھ خوش معاملگی سے پیش آتا ہے۔ والدین کے ساتھ حُسنِ سلوک ان جلیل القدر اور عظیم کاموں میں سے ہے جن پر اسلام نے اکسایا ہے، اور اس کے نصوص میں ان پر بہت زور دیا گیا ہے۔ قرآن و سنت میں یہ نصوص بکثرت مذکور ہیں، اور ان سب میں والدین کے ساتھ نیک سلوک اور حسنِ مصاحبت کا حکم دیا گیا ہے۔ اس وجہ سے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک ایک باشعور مسلمان کی ایک ممتاز خصلت اور نمایاں عادت ہوتی ہے۔

والدین کی قدر و منزلت اور ان کے حقوق پہچاننا

اسلام نے والدین کے مقام کو اتنا بلند کیا ہے جتنا اس دین کے سوا دوسرے ادیان و مذاہب میں انسانیت نے کبھی نہیں دیکھا۔ اسلام نے ان کے ساتھ نیک برتائو اور حسنِ سلوک کو خدا پر ایمان اور اس کی بندگی کے درجے کے بعد متصل رکھا ہے۔ قرآن کریم کی بکثرت پے درپے اور مسلسل آیات مذکور ہیں جو خدا کی خوشنودی کے بعد والدین کی خوشنودی کا درجہ قرار دیتی ہیں اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کو، خدا پر ایمان کی فضیلت کے بعد سب سے بڑی انسانی فضیلت قرار دیتی ہیں:
’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، اور ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو-‘‘ (النسا: 4: 36)۔
اس لیے سچا اور باشعور مسلمان دنیا میں ہر انسان سے زیادہ اپنے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرتا ہے۔
قرآن کریم نے والدین کے مقام کی بہترین تصویر کشی کی ہے اور وہ بلند اخلاقی اسلوب بتلایا ہے جسے ایک مسلمان کو والدین کے ساتھ معاملہ برتنے میں اختیار کرنا چاہیے۔ اگر دونوں یا کسی ایک کی عمر طویل ہوجائے اور وہ بڑھاپے، کمزوری اور بے چارگی کے مرحلے میں پہنچ جائیں، تو اسلام نے ان کے ساتھ ایسا برتائو کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ اس دین کے آنے سے پہلے انسانیت نے کبھی نہیں دیکھا:
’’تمہارے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ سوائے اس کے کسی کی عبادت نہ کرو، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں تو انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو۔ بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو، اور دعا کیا کرو کہ ”پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا‘‘۔ (بنی اسرائیل: 17: 23۔24)۔
مسلمان کے خدا کا یہ زندہ جاوید ارشاد حتمی فیصلے کی صورت میں ہے جس سے چھٹکارا اور خلاصی ممکن نہیں (تمہارے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم لوگ سوائے اس کے کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو)۔ آیت میں اللہ کی عبادت اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کے درمیان مضبوط تعلق پایا جارہا ہے۔ اس طرح والدین کے مقام کو اتنی بلندی اور ان کی قدر و منزلت کو اتنی رفعت حاصل ہوتی ہے جہاں تک حکما و مصلحین اور معلمینِ اخلاق کبھی نہیں پہنچ سکے ہیں۔
آیت کا سیاق والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی یہ روش اور عظیم تصویر کھینچنے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ وہ وجدانی، رقیق اور محبت آمیز تعبیر کے ذریعے جس سے رِقت، سلاست اور انسیت ٹپکتی ہے بیٹوں کے دلوں میں رحم و ہمدردی اور حسنِ سلوک کے جذبات موجزن کردیتا ہے (اگر تمہارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں) تو وہ تمہاری دیکھ بھال، نگرانی اور حفاظت میں رہتے ہیں اور وہ بوڑھے، ضعیف اور کمزور ہوتے ہیں، اس لیے احتیاط کرو کہ کہیں تمہارے منہ سے ناراضی، ملامت، اکتاہٹ اور تنگی کا کوئی کلمہ نہ نکل جائے (تو انہیں اف تک نہ کہو، نہ ہی انہیں جھڑک کر جواب دو) بلکہ کوئی بات کہنے سے پہلے دیر تک سوچ لو اور ایسی بات کہو جو ان کی پسندیدہ ہو اور جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ بلکہ (ان سے احترام کے ساتھ بات کرو) ان کے ساتھ پورے احترام اور انتہائی ادب کے ساتھ کھڑے ہو، جس طرح انتہائی عاجزی و فروفتی اور خشوع و خضوع کے ساتھ کھڑا ہوا جاتا ہے (اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو) اور ان کے لیے تمہاری زبان سے دعا نکلنی چاہیے، کیونکہ انہوں نے تم پر ایسا احسان کیا ہے جسے بھلایا نہیں جاسکتا، اور تمہاری اُس وقت پرورش کی ہے جب تم چھوٹے، کمزور اور ناتواں تھے (اور دعا کیا کرو کہ پروردگار ان پر رحم فرما جس طرح انہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا)۔
مسلمان (جو کھلے دل اور روشن بصیرت کا حامل ہوتا ہے) اس قسم کے خدائی ارشاد کو متعدد آیتوں میں پاتا ہے۔ چنانچہ اپنے والدین کے ساتھ اس کے احترام اور حسنِ سلوک میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے:
’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، اور ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو‘‘ (النسا: 36)۔
’’ہم نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے۔‘‘ (العنکبوت:29:8)۔
’’ہم نے انسان کو اپنے والدین کا حق پہچاننے کی تاکید کی ہے۔ اس کی ماں نے ضعف پر ضعف اٹھا کر اسے اپنے پیٹ میں رکھا۔‘‘ (لقمان: 31: 14)۔
’’والدین کے ساتھ حسنِ سلوک‘‘ کے سلسلے میں وارد نصوص میں غور کرنے والا شخص دیکھتا ہے کہ قرآنی آیات کے ساتھ ساتھ احادیثِ شریفہ بھی والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی فضیلت کو پورے زور و تاکید سے ثابت کرتی ہیں، اور ان کی نافرمانی اور بدسلوکی سے ڈراتی ہیں، خواہ اس کے اسباب کچھ بھی ہوں۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ:۔
’’میں نے نبیؐ سے پوچھا کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے؟ فرمایا: وقت پر نماز ادا کرنا۔ میں نے کہا: پھر کون سا؟ فرمایا: والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا۔ میں نے کہا: پھرکون سا؟ فرمایا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا‘‘۔(صحیح بخاری)۔
تربیت کرنے والے عظیم رسولؐ نے والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کو اسلام کے دو عظیم اعمال کے درمیان رکھا ہے اور وہ ہیں وقت پر نماز کی ادائیگی اور خدا کے راستے میں جہاد۔ اور نماز دین کا ستون ہے اور جہاد اسلام کا سب سے بلند حصہ ہے۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے والدین کو کتنا عظیم اور معزز مقام عطا فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آتا ہے اور عرض کرتا ہے کہ میں آپؐ سے ہجرت اورجہاد پر بیعت کرنا چاہتا ہوں اور اللہ سے اس کے اجر و ثواب کی امید رکھتا ہوں۔ آپؐ کچھ دیر کے بعد اس سے سوال کرتے ہیں ’’کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟‘‘ وہ شخص کہتا ہے ’’ہاں دونوں زندہ ہیں‘‘۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’کیا تم اللہ تعالیٰ سے اجر چاہتے ہو؟‘‘ وہ شخص جواب دیتا ہے: ”ہاں“۔ رحم دل اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی تعلیم دینے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں”اپنے والدین کے پاس واپس جائو اور ان کے ساتھ اچھا برتائو کرو‘‘۔
بخاری و مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جہاد کی اجازت چاہی۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں۔ فرمایا: تو پھر انہی کی خدمت جہاد سمجھ کر کرو۔
رسول قائد صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کے لیے فوجوں کی ٹولیاں تیار کرتے ہوئے والدین کی کمزوری کو فراموش نہیں کرتے ہیں اور ان کا انسانی اور رِقت پذیر دل یہ یاد رکھتا ہے کہ والدین اپنے بیٹے کے محتاج ہیں۔ چنانچہ آپؐ جہاد کے لیے آنے والے شخص کو اس سے واپس لوٹا دیتے ہیں اور اس کو نرمی کے ساتھ والدین کی خدمت کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ جب کہ آپؐ کو اُس وقت ایسے لوگوں کی شدید ضرورت تھی جو جنگ کرسکیں۔ اس لیے کہ آپؐ کو پورا اندازہ تھا کہ اسلام کے کامل، متوازن اور منفرد نظام میں جسے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی سعادت کے لیے نازل فرمایا ہے، والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کے کام بحسن و خوبی انجام دینے کو کتنی اہمیت حاصل ہے۔