حزب اختلاف کا آخری جلسہ

وفاقی کابینہ میں تبدیلی اور سیاسی عدم استحکام

جلسہ کوئی ایشو نہیں، مگر حکومت اور اپوزیشن نے مل کر اسے ایک ایشو بنادیا ہے۔ یہ حکمتِ عملی ہر لحاظ سے تضادات کا مظہر ہے، مگر دونوں اس پر متفق نظر آتے ہیں کہ عوام کے حقیقی مسائل نظروں سے اوجھل ہی رہیں۔ بظاہر تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ حکومت اور پی ڈی ایم ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑے ہیں، مگر دونوں ناکامی کی جانب بڑھتی ہوئی ایک ہی کشتی کے سوار ہیں، دایاں چپو پی ڈی ایم کے ہاتھ میں ہے اور بایاں چپو حکومت کے ہاتھ میں… اور دونوں باری باری اپنا چپو چلارہے ہیں۔ لہٰذا جو بھی اپنی باری پر چپو چلاتا ہے تو سمجھتا ہے کہ کشتی اس کے بیانیے کے مطابق ہی چل رہی ہے۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ این آر او نہیں دے گی، پی ڈی ایم کا مؤقف ہے کہ این آر او مانگ کون رہا ہے؟ اپوزیشن اور حکومت کی ساری سیاسی جنگ اسی کے گرد گھوم رہی ہے۔ حقائق یہ ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے دعوے بے بنیاد ہیں۔ یہ سیاسی کشمکش ملکی سیاسی عدم استحکام کا سبب بن رہی ہے جو معیشت کی حقیقی ترقی کے خلاف ہے۔ تحریک انصاف کا سیاسی نابالغ پن ہے کہ وہ اس نظام کے خالقوں کی غیر مشروط اور اندھی حمایت سے فائدہ نہیں اٹھا سکی، اسے ملکی معیشت اور خارجہ امور کی کمزوریاں دور کرنی چاہیے تھیں، مگر معیشت منفی سطح پر چلی گئی اور وزارتِ خارجہ نے کشمیر کے بارے میں بھارتی اقدامات پر خاموشی اختیار کرلی۔ ایسا کیوں ہوا، اور کون ذمہ دار ہے؟ ، بہتر یہی ہے کہ حکومت کابینہ میں تبدیلی کی طرح ان سوالوں کے جواب کے لیے بھی صف بندی کرے۔
پارلیمنٹ کی نصف آئینی مدت گزر جانے کے بعد تحریک انصاف حکومت ایک بار پھر اپنی ٹیم میں تبدیلی لے آئی ہے، وزیراعظم عمران خان نے اپنی کابینہ میں ایک بار پھر ردو بدل کیا ہے۔ مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو وزیر بنا دیا گیا ہے۔ کابینہ میں دوسری اہم تبدیلی شیخ رشید احمد کی ہے جنہیں وزارتِ داخلہ کا قلم دان سونپ دیا گیا ہے۔ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ کو انسدادِ منشیات کی وزارت دی گئی ہے، اعظم سواتی ریلوے کے وزیر بنادیے گئے ہیں۔ کابینہ میں مزید تبدیلیاں بھی متوقع ہیں۔ وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ پارلیمنٹ کے کسی ایوان کے رکن نہیں ہیں، اس لیے آئین کے آرٹیکل91 کے تحت اُن کا عہدہ عبوری ہے، انہیں وزیر خزانہ بنائے جانے سے یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ حکومت مارچ میں سینیٹ کے انتخابات میں انہیں سینیٹر منتخب کرانا چاہتی ہے تاکہ وہ پارلیمنٹ میں آجائیں۔ ان کے منصب کی تبدیلی کی فوری وجہ بظاہر اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ بنا ہے جس میں قراردیا گیا تھا کہ کوئی مشیر یا معاونِِ خصوصی کسی کابینہ کمیٹی کا سربراہ یا رکن نہیں بن سکتا۔ عبدالحفیظ شیخ چونکہ کابینہ کی ایک کمیٹی کے سربراہ تھے، اس لیے انہیں بدستور اس عہدے پر رکھنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا۔ وفاقی کابینہ میں دوسری اہم تبدیلی شیخ رشید احمد کی ہے جن سے ریلوے کی وزارت واپس لے کر انہیں وزیر داخلہ بنادیا گیا ہے، یوں کابینہ میں تحریک انصاف کے پاس جو آخری بڑی وزارت تھی وہ بھی اتحادی جماعتوں کے پاس چلی گئی ہے۔ یہ تبدیلی کس حد تک سودمند ثابت ہوگی؟ کامیاب حکومت کا معیار تو یہی ہوتا ہے کہ وہ عوام کی بھلائی کے لیے کام کرتی ہے۔ حکومت کوئی بھی ہو، عوام اسے تعلیم، صحتِ عامہ، روزگار کی فراہمی جیسی بنیادی سہولتوں اور امن و امان کی میزان پر پرکھتے ہیں۔ اس حالیہ تبدیلی کے اثرات عوام میں محسوس ہوں نہ ہوں، تحریک انصاف میں ضرور محسوس کیے جائیں گے۔ پارلیمنٹ میں تحریک انصاف عددی لحاظ سے بڑی پارلیمانی جماعت ہے۔ متحدہ، جی ڈی اے، مسلم لیگ (عوامی) اور مسلم لیگ(ق) کے ساتھ مل کر وفاق میں حکومت بنائی ہوئی ہے۔ حکومت میں وزارتِ عظمیٰ اور وزارتِ خارجہ کے سوا دیگر تمام اہم وزارتیں اب اتحادیوں کے پاس چلی گئی ہیں۔ تحریک انصاف جب حکومت میں آئی تو اسد عمر کی قیادت میں اپنی معاشی ٹیم لائی تھی، مگر یہ فیصلہ پہلے چھے ماہ میں ہی تبدیل کرنا پڑا، اور ڈاکٹر حفیظ شیخ مشیر خزانہ کی حیثیت سے ٹیم کا حصہ بنائے گئے، تحریک انصاف نے انہیں مشیر خزانہ بناکر اپنے منشور میں معاشی انقلاب لانے کا جو وعدہ کیا تھا اسے اپنے ہاتھوں ہی دفن کردیا۔ خارجہ، خزانہ اور اطلاعات کے بعد وزارتِ داخلہ بہت اہم سمجھی جاتی ہے، کابینہ میں حالیہ تبدیلی کے بعد یہ وزارت بھی اب اتحادی جماعت مسلم لیگ (عوامی) کے پاس چلی گئی ہے۔ شیخ رشید احمد کی وزارتِ ریلوے سے وزارتِ داخلہ میں تبدیلی نیا نہیں بلکہ پرانا منصوبہ تھا جس پر اب پارلیمنٹ کی نصف مدت گزر جانے کے بعد عمل درآمد ہوا ہے۔ اس کے مثبت اور منفی پہلو بھی ہیں، اسے وزیراعظم عمران خان کی نہایت اسمارٹ موو بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ اس کی ٹائمنگ بہت اہم ہے۔ ڈھائی سال میں ریلوے میں شیخ رشید احمد کی وزارت کے دوران کم و بیش ایک سو سے زائد حادثات ہوئے، اور ان میں سے کسی ریل حادثے کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش نہیں کی گئی، یوں اس طرح انہیں این آر او ملا۔ اب حکومت کے حق میں فرنٹ فٹ پر کھیلنے والے اہم اتحادی رہنما شیخ رشید احمد سے اُس وقت ریلوے کی وزارت واپس لی گئی جب چین کی مدد سے ریلوے کا بہت ہی اہم منصوبہ ایم ایل ون شروع ہونے والا ہے۔ ریلوے میں اس اہم منصوبے کے شروع ہو جانے سے سیاسی فوائد سمیٹنے کا جو سنہری موقع شیخ رشید احمد کو مسیر تھا وہ اب ان کے ہاتھ نہیں رہا۔ اس تبدیلی کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ شیخ رشید احمد، جہاں تعلقات بہت ضروری ہوتے ہیں وہاں اُن کے تعلقات ہیں، اور چونکہ وہ سیاسی ٹریک ریکارڈ رکھتے ہیں لہٰذا انہیں حکومت اب اپوزیشن کے خلاف استعمال کرنا چاہتی ہے، لہٰذا وزارتِ داخلہ کا یہ محاذ اُن کے لیے نیا بھی ہے اور ایک کڑا امتحان بھی۔ اگر انہوں نے پتھر مارا تو جواب میں بھی پتھر ہی آئے گا۔
اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ نے لاہور میں آخری جلسے کے ساتھ ہی عوامی رابطے کا اپنا پہلا مرحلہ مکمل کرلیا ہے۔ اب پہیہ جام ہڑتال، شٹر ڈائون اور چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں ریلیوں کا دوسرا مرحلہ شروع ہوگا۔ پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے فیصلے سے متعلق بھی ذہن بنالیا گیا ہے، کسی مناسب وقت پر عمل درآمد بھی کرلیا جائے گا۔ پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کے ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی کو استعفے اپنی قیادت کو جمع کرانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے استعفے مولانا فضل الرحمٰن کو پیش کرنے کی تجویز دی تھی، لیکن پیپلزپارٹی نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا تھا، وہ اپنی سیاسی حکمت عملی خود طے کرنا چاہتی ہے۔ پی ڈی ایم نے بھی اسے رعایت دے دی ہے۔ پہیہ جام ہڑتال، شٹر ڈائون اور ریلیاں بھی احتجاج کا حصہ تھا، تاہم پی ڈی ایم کی لیڈر شپ نے اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا، اور31 جنوری2021ء تک حکومت کو مستعفی ہوجانے کا الٹی میٹم دے دیا ہے، اس کے بعد فروری میں اسلام آباد لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا ہے۔ دوسری جانب حکومت مذاکرات کے لیے رضامند ہے، اور وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کو احتجاج دو ماہ کے لیے ملتوی کرنے کی اپیل کررہے ہیں۔
حکومت پہلے اپوزیشن کو اہمیت نہیں دے رہی تھی، اب اس سے مذاکرات چاہتی ہے۔ رویّے میں اس تبدیلی پر اپوزیشن کہہ رہی ہے کہ حکومت این آر او مانگ رہی ہے۔ کابینہ کے اہم وزرا نے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں سے بات چیت کا راستہ بنانے کی کوشش کی ہے، گورنر پنجاب چودھری سرور کے لیے یہی ٹاسک ہے، انہیں بھی کہا گیا ہے کہ اپوزیشن سے رابطے کریں۔ شیخ رشید احمد کا امتحان ہے کہ وہ کس طرح مولانا فضل الرحمٰن تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کی کابینہ میں شیخ رشید احمد ہی ایسے وزیر ہیں جن کے اہم سیاسی وغیر سیاسی حلقے میں رابطے ہیں، خیال ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے کہا گیا ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے کو مذاکرات کے ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے تو بات آگے بڑھ سکتی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس کے مشترکہ اعلامیے میں وزیراعظم عمران خان کا استعفیٰ بھی شامل ہے۔ ایسا کام ماضی میں ہوا، نہ اب ہوگا، صرف بات چیت ہوسکتی ہے۔ حکومت اپوزیشن کے ساتھ انتخابی اصلاحات، نیب قوانین میں ترامیم اور وسط مدتی انتخابات کی تاریخ کے تعین پر بات چیت پر آمادہ ہے، لیکن مذاکرات کے وقت کیا اپوزیشن میں پی ڈی ایم سے باہر کی اپوزیشن جماعتیں بھی شامل کی جائیں گی؟ یا حکومت اور پی ڈی ایم مل کر میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کے مصداق سب کچھ سمیٹ لے جانا چاہتے ہیں؟ حکومت نے مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بعض رہنمائوں کو بامعنی مذاکرات کی یقین دہانی کرائی ہے، حال ہی میں قائد حزبِ اختلاف شہبازشریف سے ایک اہم شخصیت نے بھی تعزیت پر سیاسی حالات پر گفتگو کی ہے۔ یہ ملاقات منظرعام پر نہیں لائی گئی۔ اسی ملاقات کی وجہ سے شہبازشریف کے پیرول میں ایک روز کی توسیع کی گئی تھی۔ ۔
ایک بڑی پیش رفت یہ بھی ہے کہ حکومت نے بغاوت کے مقدمات فوری درج کرانے اور ان کی عدالتوں میں پیروی کو تسلسل دینے کے لیے طریقہ کار تبدیل کرنے پر غور شروع کردیا ہے۔ وزارتِ داخلہ کے ذرائع کی جانب سے میڈیا کو فراہم کی گئی معلومات میں بتایا گیا ہے کہ نئے طریقہ کار کے تحت اب ایسے مقدمات درج کرانے میں آسانی کے لیے کابینہ کا اختیار سیکرٹری داخلہ کو دے دیا گیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی تحریک اور حکومت کے ساتھ سیاسی تناؤ کے دنوں میں اس فیصلے کو اہم قرار دے رہے ہیں جس کے تحت ریاست کے خلاف بغاوت، اور بغاوت پر اکسانے پر فوری کارروائی کی جائے گی۔ وزارتِ داخلہ کے حکام نے میڈیا کے نمائندوں کو واٹس ایپ پیغام میں بتایا کہ ایسے مقدمات میں کارروائی کا اختیار اب وفاقی کابینہ کے بجائے وزارتِ داخلہ کو مل گیا ہے۔ وزارتِ داخلہ کے حکام کے مطابق پہلے اس طرح کے مقدمات پر کارروائی اُس وقت تک نہیں ہوتی تھی جب تک وفاقی کابینہ اس کی منظوری نہ دے، جس کی وجہ سے تاخیر ہوجاتی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے ایک سرکلر کے ذریعے اختیار سیکرٹری داخلہ کو تفویض کرنے کی منظوری دی ہے جس کے بعد بغاوت کے مقدمات درج کرنے کی منظوری دینے کا اختیار اب سیکرٹری داخلہ کے پاس آگیا ہے۔ نئی منظوری کے بعد اب صوبائی حکومتیں بھی ریاست کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کروا سکیں گی۔ میڈیا کو فراہم کی گئی معلومات میں بتایا گیا ہے کہ ضابطہ فوجداری کے سیکشن 196 کے تحت وفاقی حکومت کا اختیار سیکرٹری داخلہ کو دیا گیا۔ اس اقدام کا مقصد ان مقدمات میں فوری شکایت کرنا اور مقدمات کی پیروی کرنا ہے۔ رواں سال اکتوبر میں سابق وزیراعظم نوازشریف اور پارٹی کے دیگر رہنمائوں کے خلاف صوبائی دارالحکومت لاہور کے تھانہ شاہدرہ میں ’غداری‘ اور ’ریاست کے خلاف بغاوت پر اُکسانے‘ کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ تاہم بعد میں دیگر لیگی رہنمائوں کے نام مقدمے سے خارج کردیے گئے تھے۔
اس وقت ان تمام امور سے زیادہ اہمیت والا معاملہ پاکستان کے خلاف بھارت کی ڈس انفارمیشن وار اور پروپیگنڈا مہم ہے، جس میں یورپی پارلیمنٹ بھی استعمال ہوئی۔ یورپی یونین کے تحت ڈس انفارمیشن کی مکروہ کوششوں کا سراغ ملا ہے۔ ’ای یو ڈس انفو لیب‘ نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت اقوام متحدہ اور یورپی یونین پر اثرانداز ہونے کے لیے گزشتہ کئی سال سے’’انڈین کرونیکلز‘‘ کے نام سے جعلی میڈیا اور این جی اوز کا نیٹ ورک چلا رہا ہے، اس نیٹ ورک میں 750 جعلی اور فرضی ادارے شامل ہیں، ڈس انفارمیشن مہم کا بنیادی ہدف پاکستان ہے، جس کے لیے بھارت نے یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے نام کو بھی استعمال کیا ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں اس ادارے نے بھارتی ڈس انفارمیشن نیٹ ورکس پر پہلی تحقیقی رپورٹ جاری کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ بھارت کی جانب سے 65 سے زائد ممالک میں 265 سے زائد مقامی ویب سائٹس چلائی جا رہی ہیں جن کے ذریعے بھارت پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرتا ہے۔ رواں برس کی رپورٹ اسی تحقیق کا دوسرا حصہ ہے۔ تحقیقات کے پہلے مرحلے میں سامنے آنے والے حقائق کی روشنی میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ بعض ویب سائٹس، ڈومین نیمز اور ای میلز پر مزید تحقیق کی جائے گی۔ جعل سازی میں بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے اداروں اور اہم شخصیات کے نام اور شہرت کو بھی بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا ہے، یہاں تک کہ ایسے افراد جو انتقال کر چکے تھے یا اداروں کو چھوڑ چکے تھے، ان کے نام بھی اس پروپیگنڈا مہم میں استعمال کیے گئے۔
دورِ جدید میں جب دنیا گلوبل ویلیج کا روپ دھار چکی ہے، انفارمیشن برق رفتاری سے اثرانداز ہوتی ہے۔ اس لیے دنیا کو ڈس انفارمیشن کے معاملے میں زیادہ سنجیدہ ہونا ہوگا۔ ای یو ڈس انفولیب نے اپنی رپورٹ میں جو سفارشات پیش کی ہیں یہ صورت حال پالیسی ساز حلقوں کے لیے سوال اور امتحان ہے۔ اگر ایک برس قبل کی رپورٹ پر عالمی برادری اور بااثر اداروں نے کوئی ایکشن لیا ہوتا تو ممکن تھا بھارت کا یہ ڈارک ویب توڑا جاچکا ہوتا، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان ای یو ڈی انفولیب کی رپورٹ پر توجہ دے اور حالات کی سنگینی کا ادراک کیا جائے۔ ای یو ڈس انفولیب کی رپورٹ کی روشنی میں مؤثر حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ قومی سلامتی یقینی ہوسکے۔