کشمیر کی خصوصی شناخت پر حملےکے بعدخوف کا شکار بھارت

بھارت اندرونی مسائل، بالخصوص کسان تحریک سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے سرجیکل اسٹرائیک کا سہارا لے سکتا ہے

جب سے بھارت نے کشمیر کی خصوصی شناخت پر حملہ کیا ہے، ردعمل کا احساس اندر کا خوف بن کر اُسے بے چین رکھے ہوئے ہے۔ حقیقت میں ابھی تک بھارت کو پاکستان، آزادکشمیر اور مقبوضہ وادی کے اندر سے زبانی کلامی سے زیادہ کسی ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کشمیر کے اندر عسکری کارروائیاں اسی رفتار وانداز سے جاری ہیں جس طرح یہ تین عشرے سے جاری ہیں۔ کنٹرول لائن پر ہونے والی جھڑپوں اور فائرنگ کا تبادلہ بھی مدتوں سے جاری ہے۔ پاکستان کی طرف سے عالمی ایوانوں میں کشمیر کا ذکر بھی نیا نہیں۔ گویا کہ ابھی تک بھارت نے کشمیر کی شناخت کے خاتمے کا یک طرفہ قدم اُٹھایا ہے۔ اس منظر پر اگر کچھ نیا ہوا ہے تو وہ چین کے ساتھ بھارت کی کشیدگی اور لداخ میں چینی فوج کی پیش قدمی ہے۔ یک طرفہ قدم اُٹھانے کے بعد اب بھارت اندر کے خوف کا شکار ہے۔ اس کا تعلق ردعمل سے ہے۔ نگورنو قرہ باغ میں آذربائیجانی افواج کو ترکی اور پاکستان کی مدد نے بھارت کے اندر کے خوف کو مزید بڑھا دیا ہے۔ نگورنو قرہ باغ کے تنازعے میں بھارت نے آرمینیا کا ساتھ دیا، جب کہ ترکی اور پاکستان آذربائیجان کے ساتھ کھڑے رہے۔ اس پس منظر میں یونان کے ایک اخبار’’گریک سٹی ٹائمز‘‘ میں یہ افسانہ چھپا کہ ترک صدر رجب طیب اردوان کی ہدایت پر ترکی نے شام میں لڑنے والے جنگجوئوں کو کشمیر بھیجنے کی منصوبہ بندی شروع کی ہے، اور یہ جنوبی ایشیائی مسلمانوں میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کی ترک کوششوں کا حصہ ہے۔ نگورنو قرہ باغ میں کامیابی سے حوصلہ پاکر ترکی نے کشمیریوں کی مدد کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے لیے مختلف علاقوں میں بھرتیاں بھی کی جارہی ہیں۔ ہر جنگجو کو دوہزار ڈالر معاوضہ دیا جائے گا۔ اس افسانے میں مزید رنگ آمیزی کے لیے شامی نیشنل آرمی نامی مسلح گروہ کے ساتھ لڑنے والی سلیمان شاہ بریگیڈ کے سربراہ ابو ایمشا کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ ترکی چاہتا ہے کشمیر کی مدد کی جائے۔ یونانی اخبار کی یہ افسانوی رپورٹ بھارت کے میڈیا کے لیے چند دن کی بحث وتمحیص اور الزامات کا سامان لے کر آئی۔ بھارتی میڈیا نے اس رپورٹ کا حوالہ دے کر پاکستان کو ترکی کے ساتھ مل کر کسی نئی سازش کا الزام دینا شروع کیا۔ اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھارتی میڈیا کی ان قیاس آرائیوں اور الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ بھارتی میڈیا ان رپورٹوں کو بین الاقوامی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے استعمال کررہا ہے۔
کشمیر میں نریندر مودی نے مسائل کا جو پنڈورا باکس کھولا ہے اُس سے نکلنے والی بلائوں کا خوف اب اسے دامن گیر ہے۔ بظاہر حالات میں کسی غیر معمولی تبدیلی کا امکان نہیں۔ کشمیر پر بھارت نے اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے۔ قوانین کی تبدیلی کے نام پر آبادی اور جغرافیہ پر اثرانداز ہونے والے دوررس فیصلوں کا اختیار بھی حاصل کرلیا ہے۔ وادی کی مزاحمتی مسلمان قیادت جیلوں میں بند ہے اور روایتی سیاست دان بھی بے اثر بناکر رکھ دئیے گئے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے نام پر بھارتیہ جنتا پارٹی زدہ سیاست کی نئی پنیری لگائی جارہی ہے۔ مسلمان اکثریتی علاقے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہمنوا کلاس تیار کی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود بین الاقوامی منظر اور گردوپیش کا کوئی بھی غیر معمولی واقعہ بھارت کو خوف کا شکارکیے ہوئے ہے۔ القاعدہ اورداعش کی کشمیر آمد اور منتقلی کا افسانہ سنتے سنتے کان پک گئے۔ داعش کشمیر نامی تنظیم کا وجود بھی تلاش کیا جا چکا تھا، اور یہ سلسلہ 2014ء سے جاری ہے، مگر داعش کا نقشِ قدم کشمیر کی زمین پر کہیں تلاش نہیں کیا جا سکا۔ اس سے پہلے القاعدہ کے کشمیر منتقل ہونے کی افواہیں بھی وقفے وقفے سے اُڑائی جاتی رہیں۔ افسانہ طرازی کے اس سلسلے کا مقصد کشمیر کی خالص سیاسی تحریک کے ڈانڈے عالمی دہشت گردی سے جوڑنا اور اسے دنیا میں بدنام کرنا تھا۔ یہ مقاصد کامیاب ہوسکے نہ کشمیر کے معاشرے نے القاعدہ اور داعش کی آمد کی اطلاعات پر جوش وخروش کا مظاہرہ کیا۔ کشمیر کی سیاسی اور مزاحمتی قیادت نے ہمیشہ القاعدہ اور داعش کے بیانات کے جواب میں انہیں کشمیر کے معاملات سے دور رہنے کا مشورہ دیا۔
اب نگورنو قرہ باغ جنگ کے نتائج اور اثرات نے بھارت کے پرانے خوف کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ کشمیر میں بھارت نے جو اقدامات کیے ہیں یہ خوف بڑھتے بڑھتے ایک نفسیاتی عارضہ بن جائے گا۔ شامی گوریلوں کو کشمیر منتقل کرنے کا افسانہ بھی اسی عارضے کا حصہ ہے۔ جہاں یہ رجب طیب اردوان اور ترکی کو بدنام کرنے کی مہم کا حصہ ہے وہیں مغربی دنیا سے ہمدردی سمیٹنے کی خواہش کا آئینہ دار بھی ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ بھارت اندرونی مسائل، بالخصوص کسان تحریک سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے لیے کنٹرول لائن پر جس فالز فلیگ آپریشن کی منصوبہ بندی کررہا ہے، یہ خبر اس سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ کنٹرول لائن پر حریت پسندوں کے ٹھکانوں پر حملوں کے ذریعے نریندر مودی سکھ کسانوں کے ہاتھوں اپنے’’ مردِ آہن‘‘ کے مصنوعی مجسمے کو تباہی اور کرچی کرچی ہونے سے بچانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔کسان تحریک اور مطالبات کی گونج برطانیہ اور کینیڈا جیسے ممالک کے ایوانوں میں سنائی دے رہی ہے۔ خود پاکستان کے فوجی ذرائع نے یہ خبر بریک کی ہے کہ بھارت اندرونی حالات سے توجہ ہٹانے کے لیے کنٹرول لائن پر سرجیکل اسٹرائیک کا سہار ا لے سکتا ہے، جس کے بعد افواج کو ہائی الرٹ کیا گیا ہے۔ سرجیکل اسٹرائیک کے اقدام کو جواز دینے کے لیے کنٹرول لائن کے قریب حریت پسندوں کے ٹھکانوں کا واویلا کیا جاتا ہے، اور اب ان ٹھکانوں میں شام اور ترکی کے شہریوں کی موجودگی سے اسے دوبارہ بین الاقوامی دہشت گردی کی تحریک ثابت کیا جارہا ہے۔