وزارتِ خزانہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ سابق حکومتوں کی جانب سے لیے جانے والے قرضوں پر سود کی ادائیگی نے موجودہ حکومت کو قرضہ لینے پر مجبور کیا۔ سابق قرضوں پر سود کی مد میں 57 کھرب روپے ادا کیے، حقیقی قرضوں میں اضافہ نہیں ہوا۔ حکومت نے جاری مالی سال میں سرکاری قرضوں پر نگرانی میں کامیابی حاصل کی۔ وزارتِ خزانہ کے ترجمان نے قرضوں کے حوالے سے وضاحتی بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ حکومت کو قرضوں کے حوالے سے غیر یقینی اور مشکل صورتِ حال ورثے میں ملی۔
وزارتِ خزانہ کے ترجمان کا بیان کوئی انکشاف نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کی پوری انتخابی مہم اس نکتے پر مرکوز رہی ہے کہ گزشتہ 40/35 برسوں میں ملکی معیشت پر قرضوں کے بوجھ میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے جس نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے، ملکی معیشت تباہی کی انتہا پر پہنچ چکی تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ ’’تبدیلی‘‘ کے علَم بردار ہیں اور ’’اسٹیٹس کو‘‘ ختم کریں گے۔ اس کے لیے انہیں معیشت کو تباہی سے بچانے اور اسے وینٹی لیٹر پر جانے سے روکنے کے لیے ایسے معالجوں کا انتخاب کرنا تھا جو آزادانہ ذہن کے ساتھ اقدامات کرتے۔ کسی بھی ناقد یا مبصر کی یہ رائے نہیں ہے کہ نئی حکومت کے پاس کوئی الٰہ دین کا چراغ ہے جس کے رگڑتے ہی ساری مصیبتیں ختم ہوجائیں گی۔ لیکن موجودہ حکومت کا پہلا قدم ہی غلط ثابت ہوا، وزیراعظم عمران خان بھی ان ہی لوگوں کے پاس گئے ہیں جن کی وجہ سے ملک قرضوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ وزیراعظم کی سطحی نظر کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ میری غلطی یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس دیر سے جانے کا فیصلہ کیا۔ معیشت کی اصلاح کے لیے آئی ایم ایف کے جتنے بھی مشورے ہیں اُس کا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کے حکمران عوام کی فلاح کے لیے آزادانہ فیصلے نہ کرسکیں۔ عوام کے معاشی حالات کی اصلاح کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ پاکستان کو سیاسی اور اقتصادی آزادی سے ہم کنار کیا جائے، لیکن جو حکومت آزادی کے ساتھ بجلی، گیس، پیٹرول کے نرخوں کا تعین نہ کرسکتی ہو، محصولات کی اقسام اور شرح کے لیے عالمی ساہوکار کے احکامات کو ماننا مجبوری ہو، قوم کو اس بات کی اجازت نہ ہو کہ وہ اپنے دین کے مطابق اپنی معاشی زندگی بسر کرے جس کا بنیادی حکم یہ ہے کہ اللہ نے سود کو حرام کردیا ہے۔ اس حکم کے بعد جو بھی فرد، سماج، نظام اپنی معیشت کو سود کی بنیاد پر چلائے گا وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے برسرِجنگ تصور کیا جائے گا۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ سے فلاح کیسے حاصل ہوسکتی ہے،اتنی شدید وعید کے باوجود حکومتی سطح پر اللہ اور اس کے رسولؐ کے دین کے ساتھ کھلواڑ کیا جارہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے آقائوں نے دنیا بھر میں ساہوکارانہ عالمی اداروں کے ذریعے ہر ملک کی اقتصادی آزادی کو غلامی میں تبدیل کردیا ہے۔ یاد رہے کہ سیاسی آزادی اور اقتصادی آزادی ایک دوسرے سے براہِ راست منسلک ہے۔ ایک طرف امریکہ اور عالمی طاقتوں کی سیاسی و تہذیبی غلامی اور دوسری طرف عالمی مالیاتی اداروں کی اقتصادی غلامی۔ اس غلامی نے ملک کے اندر آمریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی بحث کو بے معنی کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طویل عرصے کی سیاسی جدوجہد ملک کے لیے کسی خیر کا سبب نہیں بن سکی ہے۔ حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ ہمارے ملک میں سیاسی تقسیم کی کوئی نظریاتی اور اصولی بنیادیں باقی نہیں رہ سکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قومی امراض بالخصوص معیشت کی تباہی کا کوئی علمی تجزیہ بھی موجود نہیں ہے، اور نہ ایسے ماہرین موجود ہیں جو پے چیدہ سماجی، اقتصادی اور سیاسی بحران کا حل تلاش کرسکیں۔ پاکستان میں حکومت ہو یا حزبِ اختلاف… ان کی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ایک تسلسل سے ایسے ماہرین بیرونِ ملک سے درآمد کیے جارہے ہیں جو ہیں تو پاکستانی نژاد، لیکن عملاً وہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک یا کسی اور عالمی ادارے کے ملازم ہوتے ہیں اور پاکستانی معیشت کے چارہ ساز بناکر فیصلہ کن مناصب پر بھیج دیئے جاتے ہیں چاہے جنرل پرویز مشرف کی صورت میں جرنیلوں کی براہِ راست حکومت ہو، یا سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی نام نہاد جمہوری حکومت۔ پاکستان کی معیشت کی تباہی میں تیزی کا آغاز اُس وقت ہوا جب پاکستان کے سیاسی انتشار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عالمی مالیاتی اداروں نے اپنے نمائندے معین قریشی کو وزیراعظم بنواد یا ۔ اس کے بعد سے عالمی سود خور اداروں سے وابستہ افراد ہی ملکی معیشت کو چلاتے رہے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کی تباہی میں ایسے ہی نام نہاد ماہرینِ معیشت کا دخل ہے جو صرف عالمی سود خوروں کے مفادات کے نگہبان ہیں۔ موجودہ حکومت نے بھی ’’تبدیلی‘‘ کے نام پر ان ہی مالیاتی اداروں کے تربیت یافتہ ماہرین کو درآمد کیا ہے اور اب وہ ان سے یہ توقع رکھتی ہے کہ وہ پاکستان کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی زنجیروں سے آزاد کرائیں گے۔ پہلے مرحلے کی ناکامی ہی یہ ہے کہ غیر ملکی قرضوں کا سود ادا کرنے کے لیے قرضے لیے گئے ہیں۔ اب چاہے وہ کتنا ہی یہ جواز پیش کریں کہ ہمیں تباہ کن معیشت ورثے میں ملی ہے، سوال یہ ہے کہ تباہ کن معیشت کو بحال کرنے کے لیے ان کے پاس قلیل المدت اور طویل المدت منصوبہ ہے کہ نہیں؟ کیا وہ عالمی مالیاتی اداروں کی مزاحمت کا ارادہ بھی رکھتے ہیں؟