حکومت کی کھلی چھوٹ دینے کی حکمت عملی خاصی کامیاب رہی
اتحاد کی قیادت نے خود ہی عمران خان کو ڈھائی تین ماہ مزید برداشت کرنے کا اعلان کر دیا
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا… مینار پاکستان لاہور پر اتوار 13 دسمبر کو حزبِ اختلاف کے اتحاد پاکستان جمہوری تحریک یا پی ڈی ایم کے بڑے شہروں میں اعلان کردہ جلسوں کے پروگرام کا آخری جلسہ تھا، جس کے بارے میں حزبِ اختلاف کے قائدین دعویٰ کررہے تھے کہ یہ موجودہ حکومت کی گرتی ہوئی دیوار کے لیے آخری دھکا ثابت ہوگا اور اس کی حیثیت ’’آر یا پار‘‘ کی ہے۔ لاہور ہمیشہ ملکی سیاست میں اہمیت کا حامل رہا ہے، یہ سیاست کا رخ موڑتا بھی ہے اور آنے والے دنوں کے لیے سیاست کا نیا رخ متعین بھی کرتا ہے، اسی لحاظ سے حزبِ اختلاف کے اتحاد نے 13 دسمبر کے جلسے سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ کررکھی تھیں۔ لاہور یوں بھی نواز لیگ کا شہر سمجھا جاتا ہے، شریف خاندان قیام پاکستان کے بعد سے یہاں آباد ہے اور 13 دسمبر سے قبل مریم نواز نے جلسے کو کامیاب بنانے کے لیے زبردست مہم بھی چلائی تھی، وہ مختلف ریلیوں کی صورت میں شہر کے ایک ایک گوشے تک پہنچی تھیں اور شہریانِ لاہور سے جلسے میں بھرپور شرکت کی اپیل بھی کی تھی۔ حکومت نے بھی ماضی کی روایت خصوصاً ملتان کے جلسے سے بالکل برعکس پالیسی اختیار کی، مریم نواز کی قبل از جلسہ ریلیوں میں رکاوٹ ڈالی گئی نہ ہی جلسے کے روز کہیں کوئی کنٹینر کھڑا کیا گیا، بیرونِ لاہور پنجاب بھر کے مختلف شہروں سے آنے والی گاڑیوں کے قافلوں کو بھی راستے میں کہیں روکا ٹوکا نہیں گیا… جلسے کی قانونی طور پر اجازت نہیں دی گئی مگر اس کی تیاریوں اور انعقاد میں اتحاد کے قائدین اور کارکنوں کو مکمل طور پر آزادانہ کام کرنے کی اجازت دی گئی۔ جلسے سے دو روز قبل وفاقی کابینہ میں ردو بدل کرکے وزارت ِداخلہ گھاگ سیاست دان شیخ رشید کے سپرد کردی گئی، جس سے یہ تاثر ابھرا کہ حکومت نے شاید حزبِ اختلاف سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا ہے، اسی طرح 13 دسمبر سے ایک روز قبل قوانین میں تبدیلی کرکے بغاوت یا بغاوت پر اکسانے کے فوری مقدمات کے اندراج کا اختیار سیکرٹری داخلہ کو دے دیا گیا، اور اس ضمن میں کابینہ کو سمری بھجوانے کی پابندی ختم کردی گئی۔ وفاقی کابینہ کی ہنگامی طور پر منظور کردہ ان ترامیم کے بعد بغاوت کے مقدمات درج کرانے کا اختیار صوبائی حکومتوں کو دے دیا گیا۔ تاہم اس سارے معاملے میں اطمینان کا پہلو یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے کارکنوں نے مینارِ پاکستان کے گیٹ کا تالا توڑ کر جلسے کے انعقاد کے لیے ضروری سامان اندر پہنچایا، اسٹیج تیار کیا، سائونڈ سسٹم لگایا، روشنیوں کی تنصیب اور جنریٹر کا انتظام کیا۔ نواز لیگ کے ’’شیر جوان‘‘ اور جمعیت علمائے اسلام کے ’’انصار الاسلام‘‘ کے رضاکار مینارِ پاکستان میدان میں آزادانہ ڈنڈے تک لہراتے رہے مگر پولیس اور انتظامیہ کی جانب سے ان کو روکنے کی ضرورت تک محسوس نہیں کی گئی۔ جلسے کو تکمیل پذیر ہوئے تین دن ہوچکے ہیں مگر بغاوت کے جن مقدمات کی دھمکیاں جلسے سے قبل دی گئی تھیں حکومت نے اس ضمن میں کوئی اقدام نہیں کیا… جو بلاشبہ حکومت کی مثبت سوچ کی عکاسی ہے۔
جلسہ کامیاب رہا یا ناکام… اس بارے میں ہمیشہ کی طرح فریقین کی اپنی اپنی را ئے ہے۔ جلسے کی میزبان نواز لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے جلسے میں اپنی تقریر کے دوران جلسے کی زبردست کامیابی کا اعلان ان الفاظ میں کیا کہ ’’اللہ کی قسم! لاہور والو، تم نے خوش کردیا ہے‘‘۔ پیپلز پارٹی کا جلسے کے انعقاد اور حاضری میں اگرچہ کوئی قابلِ ذکر کردار نظر نہیں آیا اور حاضرین میں نواز لیگ کے ارکانِ اسمبلی کے اپنے اپنے علاقوں سے لائے ہوئے لوگ اور جمعیت علمائے اسلام کے دینی مدارس کے طلبہ ہی نمایاں رہے، تاہم پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی یہ دعویٰ ضرور کیا کہ اس قدر بھرپور جلسے کے بعد حکومت سے مذاکرات کا وقت گزر گیا، اب کوئی ہم سے اس مقصد کے لیے رابطہ کرے نہ فون۔ اس کے برعکس حکومتی حلقوں نے جلسے کو قطعی ناکام قرار دیا۔ خود وزیراعظم عمران خان نے سینئر پارٹی رہنمائوں کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے لاہور کے جلسے کو فلاپ شو قرار دیا اور کہا کہ گیارہ جماعتوں کی عوامی قوت کھل کر سامنے آگئی ہے، گیارہ جماعتیں مل کر بھی ہمارے اکتوبر 2011ء کے مینارِ پاکستان کے جلسے کے مقابلے میں جلسہ کرنے میں ناکام رہی ہیں، عوام نے ان کے تصادم کے نظریے کو قبول نہیں کیا اور اہلِ لاہور نے پی ڈی ایم کو مسترد کردیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی جلسے کو ناکام شو قرار دیتے ہوئے لاہوریوں کا شکریہ ادا کیا ہے کہ انہوں نے اپوزیشن کے تخریبی ایجنڈے کو بے نقاب اور دفن کردیا ہے۔ اس طرح شاہ محمود قریشی، شیخ رشید احمد، اسد عمر، شبلی فراز، فواد چودھری، شہباز گل، فردوس عاشق اعوان اور فیاض الحسن چوہان سمیت سب حکومتی وزراء اور عہدیدار جلسے کے بعد بغلیں بجاتے اور ترانے کی صورت میں جلسے کو مکمل ناکام قرار دیتے سنائی دیئے جا رہے ہیں۔
جلسے کی حاضری کا جہاں تک تعلق ہے، مریم نواز اور دیگر قائدین اگرچہ اسے لاکھوں کا مجمع قرار دیتے رہے، تاہم منتظمین نے ابتدا ہی سے محفوظ کھیلتے ہوئے 150 ایکڑ پر محیط مینارِ پاکستان کے وسیع و عریض میدان میں سے صرف پانچ ایکڑ رقبے کو جلسہ گاہ کے لیے منتخب کیا، اس میں بھی کورونا کے خطرے کے جواز پر کرسیاں خاصے فاصلے پر لگائی گئیں، چنانچہ جلسے کے اگلے روز ایک ٹی وی پروگرام میں پیپلز پارٹی کے نبیل گبول اور نواز لیگ کے ملک محمد احمد دفاعی پوزیشن پر کھیلتے دکھائی دیئے، جب کہ حکمران جماعت کی فردوس عاشق اعوان کا رویہ فاتحانہ دکھائی دیا۔ نبیل گبول نے حاضری کم ہونے کی مختلف وجوہ بیان کرتے ہوئے اپنے قائدین کے لاکھوں حاضرین کے دعووں کے برعکس جلسے کی حاضری ستّر پچھتر ہزار ہونے پر اصرار کیا، جب کہ نواز لیگ کے ملک محمد احمد نے بھی مختلف اسباب کا سہارا لے کر حاضری نبیل گبول سے بھی نصف یعنی تیس پینتیس ہزار ہونے کا اعتراف کیا۔ یوں مسلم لیگ کے گڑھ لاہور جیسے شہر اور مریم نواز کی شب و روز کی محنت کے باوجود جلسے کی حاضری اتحاد کی گیارہ جماعتوں کے لیے قابلِ فخر بلکہ قابلِ اطمینان بھی یقیناً نہیں تھی۔ یوں اس جلسے سے یہ بات بھی پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی کہ ملتان میں حکومت نے پکڑ دھکڑ، مارکٹائی، کنیٹنروں کی تنصیب اور دیگر حربوں کے ذریعے جلسے میں رکاوٹ ڈالنے کی جتنی بھی کوششیں کی تھیں ان کا فائدہ حزبِ اختلاف یعنی پی ڈی ایم ہی کو ہوا۔ اس کے برعکس جلسے کی کھلی چھوٹ دینے کی پالیسی حکومت کے لیے زیادہ مفید اور کارگر ثابت ہوئی، اور حکومت بلاوجہ کی بدنامی سے بھی بچ گئی۔
بعض سیاسی مبصرین لاہور کے جلسے کے توقعات پر پورا نہ اترنے کو اس حوالے سے دیکھ رہے ہیں کہ جلسہ گاہ میں نواز لیگ کے صدر میاں شہبازشریف اور ان کے فرزند حمزہ شہباز اسٹیج پر موجود نہیں تھے، سبب اس کا اگرچہ یہی تھا کہ وہ جیل میں تھے، مگر ان کا جیل میں ہونا بھی اس لحاظ سے معنی خیز ہے کہ میاں شہبازشریف نے پہلے اپنی ضمانت کی درخواست عدالت میں دائر کی، مگر جب اس کی سماعت شروع ہوئی تو انہوں نے اپنی یہ درخواست واپس لے کر خود ہی فی الحال اپنی رہائی کا قانونی راستہ اپنے لیے بند کرلیا۔ گویا یہ ایک واضح پیغام تھا کہ وہ جیل سے باہر آکر مریم نواز اور پی ڈی ایم کی جارحانہ اور تصادم کی سیاست کا حصہ بننا نہیں چاہتے، کیونکہ اگر وہ جیل سے باہر رہ کر ان جلسوں، جلوسوں اور ریلیوں میں شریک نہ ہوتے تو پارٹی بلکہ شریف خاندان کے تصادم کی سیاست اور مفاہمت کی سیاست سے متعلق باہمی تضادات کھل کر سامنے آجاتے۔ اس طرح جیل میں رہ کر شہباز اور حمزہ شہباز نے واضح طور پر محفوظ راستہ اختیار کیا ہے، اور جلسے میں حاضری کا معاملہ بھی پارٹی کے اس اندرونی انتشار اور اختلاف کا شاخسانہ ہے کہ پارٹی میں شہبازشریف کی مصالحت کی سیاست کے حامی ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی اگرچہ کھل کر سامنے نہیں آئے تاہم جلسے میں عدم دلچسپی کے ذریعے انہوں نے اپنے مؤقف اور قوت کا بھی اظہار کردیا ہے۔
جلسے کی تقریروں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں بھی ماضی کے جلسوں جیسی جارحانہ زبان سننے کو نہیں ملی، حتیٰ کہ میاں نوازشریف کی تقریر جو ذرائع ابلاغ سے تو حکومتی یا قانونی پابندیوں کے باعث نشر نہیں کی گئی، اس میں بھی پہلے والی تقریروں کے مقابلے میں زبان خاصی نرم تھی، اور دلچسپ بات یہ بھی تھی کہ جلسے کے حاضرین نے بھی اُن کی تقریر سننے میں کسی گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ جلسے کے سامعین جو مریم نواز کی تقریر ختم ہونے کے بعد ہی جلسہ گاہ سے جانا شروع ہوگئے تھے، مولانا فضل الرحمٰن کی تقریر کے بعد جب میاں نوازشریف کی تقریر شروع ہوئی تو جلسہ گاہ کی حاضری خاصی کم ہوچکی تھی، حتیٰ کہ اسٹیج پر موجود سیاسی قائدین کی بڑی تعداد بھی نوازشریف کی تقریر سنے بغیر ہی اسٹیج سے اتر گئی تھی۔
جہاں تک لاہور کے جلسے کو فائنل رائونڈ اور ’’آر یا پار‘‘ قرار دینے کا تعلق ہے اس کی نفی خود پی ڈی ایم کی قیادت نے کردی۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے جلسے سے اپنے خطاب کے دوران اعلان کیا کہ وہ جنوری کے آخر یا فروری کے آغاز میں استعفے ساتھ لے کر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کریں گے۔ گویا انہوں نے ازخود موجودہ حکومت کو کم از کم ڈیڑھ ماہ کی مہلت دے دی تھی، حالانکہ قبل ازیں وہ یہ دعوے کرتے رہے تھے کہ دسمبر اس حکومت کا آخری مہینہ ہے اور اسے نئے سال کا سورج دیکھنا نصیب نہیں ہو گا، مگر فائنل رائونڈ میں وہ اپنا یہ اعلان اور الٹی میٹم قطعاً بھول گئے، جب کہ جلسے کے اگلے روز 14 دسمبرکو پی ڈی ایم کے سربراہ اجلاس کے بعد اتحاد کی گیارہ جماعتوں کے قائدین کے دستخطوں سے جو ’’اعلانِ لاہور‘‘ جاری کیا گیا اُس میں حکومتی مہلت مزید بڑھاتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ 31 جنوری تک ازخود مستعفی ہوجائے، ورنہ یکم فروری کو اتحاد کے سربراہوں کا نیا اجلاس طلب کیا جائے گا جس میں ’’لانگ مارچ‘‘ کی نئی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔ اب یہ بات تو ظاہر ہے کہ یکم فروری کے اگلے روز ہی تو ’’لانگ مارچ‘‘ شروع نہیں کردیا جائے گا، اس کی تیاری کے لیے مہینہ، پندرہ دن تو کارکنوں کو دیئے ہی جائیں گے۔ یوں حکومت کو اتحاد کی جانب سے دی گئی مہلت میں ازخود کم و بیش ایک ماہ کا اضافہ تو ہو ہی جائے گا۔ اس طرح گویا پی ڈی ایم کی قیادت عمران خان حکومت کو ڈھائی تین ماہ مزید برداشت کرنے پر راضی ہوگئی ہے، وقت آنے پر اس مہلت میں مزید اضافہ بھی ناممکن نہیں ؎۔
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ