حکومت کے لیے چیلنج نہ بن سکا…
حزب اختلاف کے سیاسی اتحاد پی ڈی ایم کا 13 دسمبر کا جلسہ جس سے اپوزیشن کی بے پناہ امیدیں وابستہ تھیں، جو خود حکومت کے لیے ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا تھا، اور جس کے بارے میں کئی سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ یہ مستقبل کی سیاسی سمت کا تعین کرے گا، اس انداز میں اختتام پذیر ہوا کہ نہ حکومت کے لیے کوئی بڑا چیلنج بنا، نہ اپوزیشن کی امیدیں بر آئیں، اور نہ ہی یہ مستقبل کی سیاسی سمت کے تعین کا باعث بن سکا۔ پی ڈی ایم کے پہلے مرحلے کا لاہور میں ہونے والا یہ آخری جلسہ اگرچہ ایک بڑا جلسہ تھا، لیکن کوئی بہت بڑا جلسہ نہیں تھا، بلکہ پہلے مرحلے کے جلسوں میں یہ جلسہ نتائج کے اعتبار سے ایک کمزور جلسہ ثابت ہوا، اور اس نے حکومت کو خوف کے حصار سے باہر نکال دیا۔ پی ڈی ایم کے پہلے پانچ جلسے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے پریشانی اور کسی حد تک خوف کا باعث بنے تھے، لیکن لگتا یہ ہے کہ اس جلسے نے حکومت پر قائم خوف کو خاصا کم کردیا ہے۔ 1970ء اور 1977ء میں پیپلز پارٹی کا گڑھ قرار پانے والا لاہور شہر 1985ء سے اب تک مسلم لیگ (ن) کا قلعہ ثابت ہوا ہے۔ یہ نہ صرف نوازشریف اور شہبازشریف کا آبائی شہر ہے، بلکہ اب بھی اس شہر کی قومی اسمبلی کی 13 میں سے 11 نشستیں مسلم لیگ (ن) کے پاس ہیں، جبکہ تقریباً 26 صوبائی نشستوں میں سے حکمران تحریک انصاف صرف 4 نشستیں جیت سکی ہے، اور اس خجالت کو مٹانے کے لیے تحریک انصاف نے ان چاروں کامیاب ارکان کو صوبائی کابینہ میں شامل کررکھا ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا یہ گڑھ لاہور ہی نہیں پنجاب بھر سے اتنے حاضرین و سامعین اکٹھے نہیں کرسکا جو حکومت کو کچھ سوچنے پر مجبور کردیتے۔ حاضرین میں اگر جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے کارکنان اور حامی شامل نہ ہوتے تو جلسہ یقیناً ناکام قرار پاتا۔ اس جلسے کو کامیاب کرانے میں جمعیت العلمائے اسلام (ف) کا کردار اپنی سیاسی حیثیت سے بڑھ کر تھا۔ یہاں سے کبھی اس جماعت کا کوئی ایم پی اے منتخب نہیں ہوسکا۔ جلسے میں 11 جماعتی اتحاد میں باقی جماعتوں کی شمولیت صرف ان جماعتوں کے لیڈروں کی تقاریر کی حد تک تھی۔ باقی ماندہ 8 جماعتوں نے مجموعی طور پر سو دو سو حاضرین بھی اس جلسے کو نہیں دیے۔ 13 دسمبر کا جلسہ اصل میں مسلم لیگ (ن) کا شو تھا، جس کے لیے اِس وقت مسلم لیگ (ن) کی اصل قائد محترمہ مریم نواز ہفتہ بھر سے مہم چلا رہی تھیں۔ وہ شہر بھر میں ریلیاں نکال کر کارکنوں کو متحرک کررہی تھیں، بار بار اجلاس طلب کرکے جلسے کی تیاریوں کا جائزہ لے رہی تھیں، لیکن 11 اراکین قومی اسمبلی، 22 اراکین صوبائی اسمبلی اور بیسیوں سینیٹرز، بلدیاتی ناظمین اور پارٹی عہدیداران کے ہوتے ہوئے یہ جلسہ خود مریم نواز کی توقعات پر پورا نہیں اُتر سکا۔ جلسے کی کامیابی کے سلسلے میں اُن کے بیانات محض کارکنوں کا مورال مزید گرنے سے بچانے کے لیے ہیں۔ شہر میں موجود 33 ارکانِ قومی و صوبائی اسمبلی، 50 سے زائد سابق لیگی ارکانِ اسمبلی، بیسیوں سابق اور موجودہ سینیٹرز، 300 سے زائد ناظمین اور 3 ہزار سے زائد کونسلرز اگر جلسے کے لیے حقیقی کوششیں کرتے تو شرکاء کی تعداد دوگنا ہوتی۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس جلسے کے زیادہ کامیاب نہ ہونے میں شہبازشریف اور حمزہ شہباز کی خفیہ کوششوں کا بڑا دخل ہے۔ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ شہبازشریف جو اسٹیبلشمنٹ سے کسی قسم کی محاذ آرائی کے بجائے مفاہمت کے علَم بردار ہیں انہوں نے اپنے دھڑے کے ارکانِ اسمبلی اور پارٹی ارکان کو یہ پیغام دیا تھا کہ وہ جلسے کی کامیابی کے لیے زیادہ سرگرمی نہ دکھائیں، محض اپنی حاضریاں لگوائیں۔ چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ اس طرح لاہور اور اس کے گردونواح کی حد تک مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں اور رہنمائوں نے شہبازشریف کے بیانیے کا ساتھ دیا، اور نوازشریف اور مریم نواز کے بیانیے کی مخالفت نہ کرنے کے باوجود عملی حمایت نہیں کی۔ اس طرح یہ تجربہ مریم نواز کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں ہے۔ دوسری جانب مریم نواز کا یہ دعویٰ کہ 13 دسمبر (جلسے کے دن) کو آر ہوگا یا پار… لیکن اس جلسے سے نہ کوئی آر ہوسکا اور نہ پار۔ اور اب رانا ثنا اللہ یہ کہتے پھر رہے ہیں کہ آر یا پار سے مراد یہ تھی کہ ہم جلسہ کرکے رہیں گے۔ یہ محض اُن کا عذرِ لنگ ہے، کیونکہ لاہور کے جلسے کے لیے حکومت نے نئی حکمت عملی اپنائی ہے۔ جلسے سے صرف دو روز قبل شیخ رشید احمد کو وزیر داخلہ کا قلمدان سونپا گیا تھا اور انہوں نے فوری طور پر اعلان کیا تھا کہ حکومت جلسے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔ گویا انہوں نے ملتان سے مختلف حکمت عملی اپنانے کا اعلان کیا، جہاں حکومت کی رکاوٹوں کے باوجود جلسہ بھی ہوگیا اور حکومت کی سبکی بھی ہوئی۔ اس طرح ملتان کا جلسہ پی ڈی ایم کے لیے ایک کامیاب پیش قدمی تھا، جبکہ حکومت کی ناکامی اس میں واضح ہوگئی تھی۔ لاہور میں حکومت نے نہ کنٹینر لگائے، نہ پارک میں پانی چھوڑا، نہ پکڑ دھکڑ کی۔ اس طرح لاہور کا جلسہ بطور وزیر داخلہ شیخ رشید کی پہلی کامیابی تھی جس میں اُن کا کردار کم اور اپوزیشن کا زیادہ تھا۔ اس جلسے میں… جسے مسلم لیگ (ن) نے اپنی بقا کا مسئلہ بنایا ہوا تھا اور یہ تاثر دیا تھا کہ جیسے اس جلسے کے بعد حکومت ختم ہوجائے گی… مسلم لیگ (ن)، جمعیت العلمائے اسلام اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے سوا باقی پارٹیوں کے کارکنوں کی نمائندگی کم ہی نظر آئی۔ لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی اس ساری صورت حال میں اپنے لیے راستہ نکالنے کی کوشش میں ہے۔ ملتان کے جلسے میں آصفہ بھٹو کی رونمائی مریم نواز کی مقبولیت توڑنے کے لیے کی گئی تھی۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں دوبارہ اپنے قدم جمانے کے لیے کوشاں ہے اور اس کے لیے وہ کچھ بھی کرسکتی ہے۔ ایسی صورت میں جب اس کی حریف مسلم لیگ (ن) دبائو اور مشکلات کا شکار ہے، پیپلز پارٹی اپنی بحالی میں آسانی محسوس کرے گی اور یقینی طور پر اس کے لیے ضروری کوششیں بھی کرے گی۔ وہ عسکری رہنمائوں پر نوازشریف کی تنقید کی حامی نہیں ہے، اور بلاول بھٹو نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے نوازشریف کے بیانیے کی مخالفت کرکے اسٹیبلشمنٹ کو خیرسگالی کا پیغام دے دیا ہے۔ اس صورت حال میں خورشید شاہ کو نیب کیسوں میں کچھ سہولت مل سکتی ہے۔ بدقسمتی سے نوازشریف کے اس بیانیے کی جس میں عسکری قیادت کے نام لے کر اُن پر تنقید کی گئی تھی، پی ڈی ایم کی کسی سیاسی جماعت نے مکمل تائید نہیں کی۔ خود مسلم لیگ (ن) کے اندر ایک حلقہ اس بیانیے کے ساتھ نہیں۔ پی ڈی ایم کے جلسوں اور تحریک نے مولانا فضل الرحمٰن کو ایک بڑے اپوزیشن لیڈر کے طور پر نمایاں کیا ہے۔ پی ڈی ایم کی پالیسی بھی وہی جاری کرتے ہیں۔ اب انہوں نے جنوری کے آخر یا فروری کے اوائل میں استعفوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ پی ڈی ایم نے اپنے ارکانِ اسمبلی سے 31 دسمبر تک استعفے طلب کیے ہیں۔ سردست مسلم لیگ (ن) کے سوا کسی کے استعفے نہیں آئے۔ اس معاملے میں پی ڈی ایم کو خاصی مشکلات کا سامنا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے اندر شہبازشریف اور مفاہمت کے قائل دوسرے لوگ استعفے دینے سے ہچکچارہے ہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ حکومت سرنڈر کرنے کی قیمت پر استعفیٰ نہیں دے گی۔ شاید مسلم لیگ (ن) کے سخت گیر مؤقف رکھنے والے ارکان کے ساتھ جے یو آئی اور اچکزئی کی پارٹی کے استعفے آجائیں۔ گویا اگر اپوزیشن کے استعفے 25 سے 30 فیصد تک آئے تو یہ حکومت پر کوئی دبائو نہیں ڈال سکیں گے۔ اسپیکر کے پاس پہنچنے کے بعد اسپیکر ان کو منظور کرنے کا کام مارچ تک لے جائیں گے اور ایسی صورت میں اپوزیشن اپنے اہداف حاصل نہیں کر پائے گی۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ 13 دسمبر کے جلسے سے حکومت کو سُکھ کا ایک سانس مل گیا ہے۔ اپوزیشن اپنے معاملات کا دوبارہ جائزہ لے گی اور دسمبر کے آخر میں مسلم لیگ(ن) کے یوم تاسیس کے موقع پر مزید شو آف پاور کرنے کی کوشش کرے گی۔ اگر یہ شو عمران خان کے جلسہ لاہور جیسا ہوگیا تو حکومت سخت دبائو میں ہوگی، اور اگر یہ شو بھی 13 دسمبر جیسا رہا تو حکومت اگلے انتخابات کی تیاری کرے گی،جس کے لیے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے لاہور بھر میں اپنی حکومتی کارکردگی اور مستقبل کے منصوبوں پر مشتمل بینرز اور تشہیری مہم پہلے ہی شروع کردی ہے۔