کیا استعفوں کی سیاست ممکن ہوسکے گی؟۔

لاہور کے جلسے کے بعد پی ڈی ایم کی نئی حکمت عملی کیا ہوگی

حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان بداعتمادی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ کوئی بھی فریق دوسرے کے سیاسی وجود کو قبول کرنے سے عملاً انکاری ہے۔ حزبِ اختلاف کے اتحاد ’’پی ڈی ایم‘‘ کا ہدف عمران خان کی حکومت کا خاتمہ، نئے انتخابات اور اسٹیبلشمنٹ سے جڑے اداروں کے سربراہان ہیں۔ اس کے رہنمائوں کے بقول عمران خان حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو گٹھ جوڑ ہے اسے ہر صورت توڑنا ہوگا۔ حکومت کے خاتمے یا وزیراعظم کی تبدیلی کے لیے تین راستے ہیں:
(1) وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرکے اسے کامیاب بنانا، اور وزیراعظم کو رخصت کرکے کسی متبادل وزیراعظم کی طرف پیش رفت، تاکہ سیاسی نظام چلتا رہے۔
(2) اجتماعی طور پر پی ڈی ایم کی جماعتیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہوکر ایک بڑا سیاسی بحران پیدا کریں تاکہ حکومت کو مجبور کیا جاسکے کہ وہ نئے انتخابات کرائے۔
(3) ملک میں ایک بڑی تحریک کے نتیجے میں ریاستی و حکومتی نظام کو مفلوج کردیا جائے، اور حکومت کو ہر محاذ پر مجبور کیا جائے کہ وہ انتخابات کا راستہ اختیار کرے۔
حزبِ اختلاف کی پہلی حکمت عملی یہ تھی کہ کسی طریقے سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان دوریاں یا تلخیاں اس انداز سے پیدا کی جائیں کہ فیصلہ ساز، حکومت کی حمایت سے دست بردار ہوکر کوئی متبادل راستہ اختیار کریں۔ اسی حکمتِ عملی کے تحت اداروں کے سربراہان کو نشانہ بھی بنایا گیا تاکہ اداروں کے اندر سے بھی اپنے سربراہان کے خلاف ردعمل پیدا ہو۔ یہ تاثر بھی دیا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ حکومت اور وزیراعظم سے نالاں ہے اور متبادل کا سوچ رہی ہے۔ لیکن یہ حکمتِ عملی کامیاب نہ ہوسکی۔
دوسری حکمتِ عملی کے تحت اسٹیبلشمنٹ سے مطالبہ کیا گیا کہ ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن یہ مذاکرات حکومت سے نہیں، اسٹیبلشمنٹ سے ہوں گے، اور اس کی شرط حکومت کا خاتمہ ہے۔ یعنی اسٹیبلشمنٹ ہی سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ عمران خان کو باہر نکالے۔
اب پی ڈی ایم کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے اجتماعی استعفوں کی ایک نئی حکمتِ عملی سامنے آئی ہے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے بقول حزبِ اختلاف کی تمام جماعتوںکے اراکین اسمبلی 31 دسمبر تک اپنے استعفے پارٹی قیادت کو جمع کروا دیں تاکہ مناسب وقت پر یہ استعفے اسپیکر قومی و صوبائی اسمبلیوں کو بھیجے جاسکیں۔ پی ڈی ایم کا خیال ہے کہ جب بڑی تعداد میں اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے سامنے آئیں گے تو ضمنی انتخابات نہیں بلکہ عام انتخابات کا راستہ ہموار ہوگا۔ اصولی طور پر تو جب تک پارلیمانی ارکان کے استعفے اسپیکر کے پاس جمع نہیں ہوں گے، استعفوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔ فی الحال پارٹی قیادت تک استعفوں کی سیاست کے پیچھے یقینی طور پر دبائو ڈالنے کی حکمتِ عملی نظر آتی ہے۔
یہ بات بھی بہت حد تک بجا نظر آتی ہے کہ پی ڈی ایم کے اتحاد میں اسمبلیوں سے استعفے کے معاملے میں اختلافات موجود ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکمت عملی اسمبلیوں سے استعفی دینے کے بجائے پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر جدوجہد کی ہے۔ پیپلز پارٹی اس وقت سندھ کی حکومت اپنے پاس رکھتی ہے، وہ کسی بھی طور پر وقت سے قبل اپنی حکومت کے خاتمے کے حق میں نہیں ہے، اور اسے لگتا ہے کہ اگر وہ پی ڈی ایم کے فیصلے کے تحت اسمبلیوں سے استعفیٰ دیتی ہے تو اسے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو نے اپنے ارکان کو استعفوں پر بات کرنے سے روک دیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) میں بھی شہبازشریف سمیت بہت سے لوگ اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کے حق میں نہیں ہیں، اور ان کے بقول یہ حکمتِ عملی کارگر نہیں ہوسکے گی۔ اس لیے دیکھنا ہوگا کہ جب معاملہ واقعی اسپیکر کے پاس استعفے جمع کروانے کا آیا تو کتنے مسلم لیگی اس فیصلے کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔
ہماری سیاسی تاریخ میں عمومی طور پر استعفوں کا کھیل ایک ہتھیار کے طور پر ہی استعمال ہوا ہے۔ کیونکہ ایسا عمل اسی صورت ممکن ہوسکتا ہے جب پسِ پردہ قوتیں اس کھیل کا حصہ ہوں، یا ان کو کسی کی حمایت یا سیاسی تھپکی ہو تو یہ کھیل سامنے آسکتا ہے۔ کوئی بھی سیاسی فریق سیاسی تنہائی میں استعفوں کا فیصلہ کرکے سیاسی خودکشی نہیں کرے گا۔ خطرہ یہ ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) یا پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن استعفوں پر بضد رہتے ہیں تو اس کا نتیجہ پی ڈی ایم میں تقسیم کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اگرچہ وزیراعظم عمران خان کے بقول وہ حزبِ اختلاف کی جانب سے استعفوں کے بعد ضمنی انتخابات کروا دیں گے، لیکن یہ اتنا آسان کام نہیں ہوگا۔ اگر واقعی اجتماعی طور پر استعفے آتے ہیں تو سیاسی بحران مزید بڑھے گا بھی، اور اس میں شدت بھی پیدا ہوگی۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کا اصل نشانہ مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات ہیں۔ خود مولانا فضل الرحمٰن کے بقول موجودہ اسمبلیوں سے سینیٹ کے انتخابات کی کوئی سیاسی ساکھ نہیں ہوگی اور ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔ یعنی پی ڈی ایم کسی بھی صورت میں موجودہ سیاسی صورت حال میں سینیٹ کے انتخابات کے حق میں نہیں۔ ان کے بقول سینیٹ کے انتخابات اسی طرح ہوگئے تو اس سے وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کمزور نہیں بلکہ زیادہ مضبوط ہوگی۔ پی ڈی ایم کو خطرہ ہے کہ سینیٹ جہاں حکومت کو عددی برتری حاصل نہیں، وہ سینیٹ میں برتری حاصل کرکے نیب یعنی احتساب کے حوالے سے اپنی مرضی کی قانون سازی کرنا چاہتی ہے، جو یقینی طور پر حزبِ اختلاف کے حق میں نہیں ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت سیاسی ہدف سینیٹ کے انتخابات کو روکنا ہے۔ پی ڈی ایم کے بقول اگر اجتماعی استعفے قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے آتے ہیں تو سینیٹ کے انتخابات ممکن نہیں ہوسکیں گے۔
اب دیکھنا یہ بھی ہوگا کہ لاہور کے جلسے کے بعد پی ڈی ایم کی نئی سیاسی حکمتِ عملی استعفوں کے علاوہ کیا ہوگی؟ کیونکہ بقول پی ڈی ایم کے، ہمیں ہر حال میں جنوری کے آخر میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرنا ہے۔ اگر اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جاتا ہے تو کیا واقعی پیپلز پارٹی بھی اس سخت پالیسی کا حصہ ہوگی؟
کیا اسلام آباد کا لانگ مارچ واقعی حکومت کی رخصتی کا سبب بن سکے گا؟ اور اگر وہاں پی ڈی ایم کی دال نہیں گلتی تو اس کا اگلا قدم کیا ہوگا؟کیا اسلام آبادسے حکومت گرائے بغیر واپسی سیاسی خودکشی نہیں ہوگی؟ اسی طرح ادارے جن کے سربراہان کو براہِ راست نشانہ بنایا جارہا ہے وہ کیوں پی ڈی ایم کے مؤقف کی حمایت کریں گے؟
اگر تمام معاملات پی ڈی ایم کی خواہش کے مطابق حل ہوجائیں اور عمران خان کی حکومت کو طاقت کے زور پر گھر بھیج دیا جائے تو کیا عمران خان خاموش رہیں گے؟ یقیناً نہیں، اور پھر بحران ختم نہیں ہوگا بلکہ بدستور باقی رہے گا۔ اس لیے بظاہر یہ لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کے پاس بھی سیاسی آپشن زیادہ نہیں۔ استعفوں کی سیاست بھی سیاسی دھمکی سے زیادہ نہیں ہوگی، اور پیپلز پارٹی کی طرف سے اس حکمتِ عملی کا ساتھ نہ دینے پر پی ڈی ایم خود کہاں کھڑا ہوگا یہ بھی غور طلب پہلو ہے۔ واحد راستہ بحران کے حل کے لیے سیاسی ڈائیلاگ ہے، اس کا ایجنڈا بھی سامنے آنا چاہیے اوراس پر اتفاقِ رائے بھی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ڈائیلاگ میں پہل حکومت کو ہی کرنی ہے، اور پی ڈی ایم کو ڈائیلاگ کے لیے حکومتی مینڈیٹ کو قبول کرنا ہوگا، وگرنہ ڈائیلاگ بھی پیچھے چلا جائے گا۔