سیاسی جماعتوں اور عوامی سماجی حلقوں میں تشویش
بلوچستان کا پاکستان جمہوری تحریک (پی ڈی ایم) میں مؤثر و نمایاں حصہ ہے۔ کوئٹہ میں اتوار25 اکتوبر کو ہونے والا جلسہ عام بھی ملک کے دیگر جلسوں کی نسبت پُرہجوم و پُراثر تھا۔ جمعیت علمائے اسلام صوبے کی بڑی سیاسی جماعت ہے جو پارلیمانی قوت بھی رکھتی ہے۔ بلوچستان اسمبلی کے اندر حزبِ اختلاف کی قیادت بھی اس کے پاس ہے۔ چناں چہ اسمبلیوں سے استعفوں کی نوبت آئے گی تو پی ڈی ایم میں شامل جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ارکان بھی خود کو مزید ایوانوں سے وابستہ نہیں رکھیں گے۔ عوامی نیشنل پارٹی صوبے کی مخلوط حکومت کا حصہ ہے، جس کی صوبائی قیادت بھی عندیہ دے چکی ہے کہ جب ان کی قیادت استعفے طلب کرے گی تو بھیج دیئے جائیں گے۔ البتہ پارٹی کے پارلیمانی ارکان کا تذبذب بھی عیاں ہے۔ نواب اسلم رئیسانی اسمبلی میں آزاد رُکن ہیں۔ وہ پی ڈی ایم کے ہمراہ اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہونے کا مؤقف رکھتے ہیں۔ پی ڈی ایم نے استعفوں کے لیے31دسمبر کی تاریخ مقرر کررکھی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے اراکینِ سینیٹ اور قومی و صوبائی اسمبلی نے اپنے استعفے قیادت کے پاس فوری جمع کرا دیئے ہیں۔ اگر جنوری یا فروری میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا جاتا ہے تو شاید اسمبلیوں سے استعفوں کا آپشن بھی قابلِ عمل بنایا جائے۔ جماعت اسلامی بھی بعض موقعوں پر کہہ چکی ہے کہ اگر حزبِ اختلاف کی جماعتیں اسمبلیوں سے مستعفی ہوتی ہیں تو وہ بھی استعفیٰ دینے میں دیر نہیں کرے گی۔ جماعت اسلامی حکومت مخالف احتجاج کررہی ہے، مگر اسے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے حوالے سے گہرے تحفظات ہیں، جس کا اظہار جماعت اسلامی ہر جلسے و مظاہرے میں متواتر کرتی ہے۔
یقیناً مخالف فضا سے حکومت بے چین ہے۔ وہ مخالفین کو پیچھے ہٹانے کی خاطر مختلف حربے استعمال کرچکی ہے، مزید بھی سوچ رہی ہے۔ مقدمات قائم کرنے کے لیے 12دسمبر کو وفاقی کابینہ نے ہنگامی طور پر ترمیم کی منظوری دے دی۔ قومی احتساب بیورو الگ متحرک ہے۔ وفاقی حکومت نے سیاسی و مذہبی جماعتوں کے مسلح جتھوں پر پابندی کا مراسلہ جاری کیا ہے۔ یقیناً مسلح جتھے وجود رکھتے ہیں۔ قبائلی و سیاسی شخصیات اور اسمبلیوں اور حکومتوں سے وابستہ شخصیات بھی جتھوں کی حامل ہیں۔ ایسے مسلح گروہ بھی ہیں جنہیں اداروں کا تعاون حاصل ہے، جو قانون شکنی اور مختلف جرائم میں ملوث ہیں۔ البتہ اشارہ اگرجمعیت علمائے اسلام کی انصار الاسلام کی طرف ہے تو یہ کوئی عسکری جتھہ ہرگز نہیں ہے۔ انصار الاسلام رضاکار تنظیم ہے اور جے یو آئی کے دستور کا حصہ ہے، جو جماعتی اجتماعات، جلسوں اور مظاہروں کی سیکورٹی کے فرائض نبھاتی ہے، نظم و نسق برقرار رکھتی ہے۔ اس سے بڑھ کر ان رضا کاروں کا کوئی مقصد اور کام نہیں ہے۔ غرض بلوچستان کے اندر سیاسی جماعتیں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی زیادتیوں کے خلاف بہت سارے دلائل رکھتی ہیں۔ حال ہی میں بلوچستان کی سیاسی جماعتوں اور عوامی و سماجی حلقوں نے ساحلی شہر گوادر میں باڑ لگانے کے مسئلے پر تشویش ظاہر کی ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل، نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور دیگر جماعتوں کا اس سلسلے میں سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق سیکورٹی کے پیش نظر 24 مربع کلومیٹر باڑ لگائی جارہی ہے۔ خاردار تاروں پر مشتمل یہ باڑ شہری علاقوں میں لگائی جارہی ہے، جس کے بعد شہر میں داخل ہونے کے لیے دو یا تین مقامات پر گیٹ تعمیر کیے جائیں گے۔ یہ اقدام گوادر سیف سٹی پراجیکٹ کا حصہ ہے۔ پروجیکٹ پر دو حصوں میں کام کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے پر ایک ارب47کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔اس منصوبے کے تحت ڈیڑھ سو مقامات پر 500 جدید کیمرے لگائے جائیں گے جو تاریکی میں دیکھنے اور گاڑیوں کی نمبر پلیٹ پہچاننے کی صلاحیت کے حامل ہوں گے۔
گوادر بندرگاہ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبوں کی بنا پر حفاظتی بندوبست کی یقیناً متقاضی ہے۔ ماضی میں اس شہر میں کئی ناخوشگوار واقعات پیش آچکے ہیں۔ چین کے تعاون سے پورٹ کی بڑھتی ترقی کے بعد اس شہر اور متصل علاقوں کی حساسیت مزید بڑھ گئی ہے۔ پاک بحریہ جدید ڈرون، ایئر کرافٹس اور ہتھیاروں سے لیس ٹاسک 88 کے نام سے الگ یونٹ 2016ء میں قائم کرچکی ہے۔ معروضی حقائق و ضروریات کے باوجود ساحلی پٹی کے عوام کے مفادات اپنی جگہ اہمیت کے حامل ہیں۔ گوادر اور ساحلی علاقوں کے بارے میں بلوچ سیاسی جماعتیں برسوں سے تحفظات کا اظہار کرتی آرہی ہیں۔ چناں چہ فینسنگ حل نہیں ہے، وہ اس لیے کہ گوادر کی دیہی و شہری آبادی اور پورٹ منسلک ہیں۔ اب اگر عمل درآمد کیا جاتا ہے تو (1)شہر دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا، اور (2) لوگ اپنے خاندان، قرابت داروں اور زرعی زمینوں سے کٹ جائیں گے۔ گویا آئندہ دنوں میں شہریوں کے لیے مزید مشکلات خارج از امکان نہیں ہیں۔ لوگوں نے پورٹ کے قیام کے پیش نظر بڑے پیمانے پر رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ بیشتر اسکیمیں باڑ سے باہر رہ جائیں گی۔ اس طرح ان کی زمینوں اور تعمیراتی اسکیموں کی قیمتیں بھی یقینی طور پر گر جائیں گی۔ چناں چہ حالیہ باڑ لگانے کے ضمن میں عوام کے مفادات کے برعکس پیش رفت حکومت اور سیکورٹی اداروں کے لیے مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔ اب حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ساحلی علاقوں کے عوام اور سیاسی و سماجی حلقوں کو باور کرائے کہ انہیں اپنے جدی پشتی وطن اور اراضیات سے مختلف انداز و طریقوں سے بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ سیاسی جماعتیں آواز ضرور بلند کریں گی۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے بھی احتجاج ہوا۔ لاہور کے جلسے میں بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اس پر بات کی۔ قرارداد بھی منظور کی گئی جس میں باڑ ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔ نیشنل پارٹی کے نائب صدر سینیٹر کبیر محمد شہی اور جنرل سیکریٹری جان محمد بلیدی نے جمعرات 10دسمبر کو کوئٹہ میں پریس کانفرنس میں اسے گوادر کو بلوچستان سے الگ کرنے کی سازش کا آغاز کہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ساحلی شہر کو وفاق کے تصرف میں دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بلوچستان کی وکلا تنظیموں بلوچستان بار کونسل اور کوئٹہ بار ایسوسی ایشن نے 12دسمبر کو باڑ لگانے کے فیصلے کو گوادر شہر کی تقسیم کی سازش قرار دیا اور اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا۔ وکلا کے مطابق گوادر شہر کے اندر پہلے سے ہی عوام کی سیکورٹی گیٹ سے انٹری ہوتی ہے، جس کے بعد باڑ لگانے کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے؟ ان کے مطابق اس قدم سے لوگوں کے آزادانہ رابطے اور بنیادی حقوق نظرانداز ہورہے ہیں، اور یہ عمل بلوچستان کی ساحلی پٹی کو وفاق میں شامل کرنے کی کوششوں کا تسلسل ہے۔