اصلاح ِمعاشرہ

رکاوٹیں اور ان کا ازالہ

تحریکِ اقامتِ دین کی ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ مسلم معاشرے کی اصلاح ہو اور وہ اسلام کا عملی نمونہ بنے۔ مسلم اکثریتی ممالک کی اسلامی تحریکوں کے لیے بھی یہ ایک اہم ہدف ہونا چاہیے، اس لیے کہ معاشرے کی سطح پر اسلام کی تعلیمات کا نفاذ مکمل دین کے قیام کا نہایت اہم حصہ اور اس کی بنیادی ضرورت ہے۔ ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں بے شک دعوتِ دین اہم کام ہے لیکن خود دعوت ِدین کی ایک ضرورت یہ بھی ہے کہ مسلم معاشرہ اسلام کا نمونہ بنے۔ مسلم معاشرے کی اسلامی تعلیمات سے عملی دوری دعوت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں بھی یہی صورت ِحال درپیش ہے۔ پھر دعوت ِدین کسی ایک جماعت یا تحریک کا کام نہیں ہے، بلکہ پوری امت کا کام ہے۔ اس کام کا تقاضا بھی یہ ہے کہ امت کو داعیِ امت کے طور پر اٹھایا جائے۔ مولانا صدر الدین اصلاحیؒ نے تین وجوہات بتائی ہیں جن کے پیش نظر وہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کو تحریک کا مخاطب اوّل ہونا چاہیے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی حیثیت دراصل اس تحریک کے خاموش اقراری ارکان کی ہے۔ کیوں کہ جو شخص بھی خود کو مسلمان کہتا ہے اُس کا یہ کہنا فی الواقع اس بات کا اقرار اور اعلان ہوتا ہے کہ وہ اسلام کے مشن کا علَم بردار ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ نصح و خیر خواہی ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے۔ اور تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کا اس تحریک کے قریب آنا بڑی حد تک اس بات پر موقوف ہے کہ ان کے گردو پیش پائے جانے والے مسلمان واقعی مسلمان ہوں اور ان کی زندگیاں نمایاں طور پر اسلام کا مظہر بن جائیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات ہندوستان کے مسلمانوں کے حالات سے قریب تر تھے۔ موسیٰ علیہ السلام کو جہاں اکثریتی حکمران قوم کو دعوتِ الی اللہ کی ذمہ داری دی گئی تھی وہیں یہ کام بھی دیا گیا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کی اصلاح فرمائیں۔ ”موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا میری قوم میں میری جانشینی کرنا، اصلاح کرتے رہنا اور مفسدوں کی روش کی پیروی نہ کرنا۔“ (اعراف 142) اس نبوی اسوے سے اور وقت کے پیغمبر کو خدا کی جانب سے دی گئی ہدایت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں غیر مسلم بھی ہوں اور بگڑا ہوا مسلم معاشرہ بھی ہو، وہاں دعوت ِدین کے پہلو بہ پہلو مسلم معاشرے کی اصلاح بھی، نبوی مشن کے حاملین کی اہم ذمہ داری ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے پروگرام میں، دعوتِ دین اور اکثریتی سماج سے تعلقات اور رابطے، امت کی تعلیمی، سماجی، معاشی اور سیاسی قوت میں اضافے، ملک میں عدل و انصاف کے فروغ اور خدمت ِخلق وغیرہ کے ساتھ ، اسلامی معاشرہ کے عنوان سے تفصیلی منصوبہ شامل ہے، جس کا بنیادی مقصد مسلم معاشرے کی اصلاح اور اُسے اسلام کی تعلیمات کا عملی نمونہ بنانا ہے۔
معاشرے کی اصلاح، اس وقت ہر دینی جماعت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ بڑی دینی جماعتوں کے ساتھ ، علمائے کرام اور مصلحوں اور دانش وروں کی ایک بڑی تعداد، انفرادی طور پر بھی اصلاحی کوششوں میں مصروف ہے۔ ملک بھر میں سیکڑوں چھوٹے بڑے گروپ، ادارے، نوجوانوں کی فلاحی تنظیمیں، مسجد کمیٹیاں، اصلاحی انجمنیں وغیرہ بھی معاشرے کی اصلاح کو اپنا اہم مقصد قرار دیتی ہیں۔ لیکن ان سب کی کوششوں کے جائزے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصلاحِ معاشرہ کا کام بہت زیادہ روایتی کام بن گیا ہے اور تقریروں اور جلسوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ جلسے اور اجتماعات کرنا، معاشرتی برائیوں کی مذمت پر تقریریں کرنا، اور مختلف معاشرتی موضوعات پر اسلامی مؤقف بیان کردینا… ان کاموں کو اصلاحِ معاشرہ کی واحد سرگرمی سمجھا جانے لگا ہے۔ اب زیادہ سے زیادہ انھی تقریروں کے چھوٹے بڑے کلپ سوشل میڈیا پر عام ہونے لگے ہیں۔ اس کام کی ضرورت و افادیت سے انکار نہیں، لیکن اصلاحِ معاشرہ کی ساری ضرورتیں ان کاموں سے پوری نہیں ہوتیں۔ اس سوال پر از سرِ نو سنجیدگی سے غور ہونا چاہیے کہ آج کے دور میں معاشرے کی اصلاح کے تقاضے کیا ہیں؟ اور اس سلسلے میں جد و جہد کے کون سے پہلو مزید توجہ چاہتے ہیں؟

معاشرہ اور معاشرتی کنٹرول

معاشرہ یا سماج کیا ہے؟ یہ سوال ماہرینِ سماجیات کے درمیان ہمیشہ زیر بحث رہا ہے۔ ہم یہاں اس سلسلے کی تیکنیکی بحثوں سے تعرض نہیں کریں گے۔ متعدد ماہرینِ سماجیات کے اس خیال سے ہمیں اتفاق ہے کہ معاشرہ صرف افراد کا مجموعہ نہیں ہوتا۔ افراد کے علاوہ، معاشرے کی شناخت زیادہ تر اس تعلق کی نوعیت پر منحصر ہوتی ہے جو معاشرے کے افراد ایک دوسرے سے اور ساتھ ہی دیگر انسانوں، دیگر مخلوقات اور وسائلِ کائنات (اور سب سے بڑھ کر خالق ِکائنات) کے ساتھ رکھتے ہیں۔ تعلق کی اس نوعیت کے تعین میں دو چیزوں کا بہت اہم رول ہوتا ہے۔ ایک معاشرے کے ادارے (institutions) اور دوسرے معاشرے کی تہذیب (culture)۔ اداروں میں سب سے بنیادی ادارہ خاندان ہوتا ہے، اور پھر گاؤں کی پنچایت سے لے کر، تعلیمی ادارے، رفاہی ادارے، مذہبی ادارے اور ان سے منسلک ذیلی ادارے… یہ سب ان میں شامل ہوتے ہیں۔ معاشرے کا سب سے بڑا اور بااثر ادارہ ریاست (state) ہوتا ہے۔ تہذیب میں سماج کی روایات، رسوم، مذہب، سے لے کر ملک کا قانون تک… یہ ساری چیزیں شامل ہیں۔ کسی معاشرے کو بنانے والے اُس معاشرے کے افراد بھی ہوتے ہیں اور اُس کے ادارے اور تہذیب بھی۔ جہاں افراد معاشرے پر اثرانداز ہوتے ہیں وہیں معاشرہ بھی افراد پر اثرانداز ہوتا ہے۔ معاشرے کی تہذیب اور اُس کے ادارے، افراد کے اخلاق اور ان کے رویوں کو متعین کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بعض ماہرینِ سماجیات نے یہ بات بھی کہی ہے کہ معاشرے کا بھی ایک ذہن اور ضمیر ہوتا ہے جو افراد کے ذہن سے الگ ہوتا ہے۔ اس ذہن اور ضمیر کی تشکیل معاشرے کے عقائد، اس کی تہذیب، روایات اور قدروں کے ذریعے ہوتی ہے۔
سوشل کنٹرول بھی علم سماجیات کا ایک اہم موضوع ہے، جس میں اس بات سے بحث کی جاتی ہے کہ کسی معاشرے کے اخلاق اور اس کے رویوں کی تشکیل کیسے ہوتی ہے؟ کیا چیزیں معاشرے کے لیے قابلِ قبول ہیں اور کیا نہیں ہیں، اس کا تعین کیسے ہوتا ہے؟ سماجی رویوں کی تشکیل میں ایک بڑا اہم اور کلیدی کردار حکومت، حکومت کے اداروں اور حکومت کے قوانین کا ہوتا ہے۔ اسی لیے اسلام نے حکومت کا اصل مقصد ہی یہ قرار دیا ہے کہ ”یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے“( الحج41)۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلامی تحریکوں نے حکومتوں اور ریاستوں کی اصلاح کو بھی اپنا ایک اہم مقصد قرار دیا ہے۔ اس لیے کہ اس کے بغیر معاشرے کی مکمل اصلاح ممکن نہیں ہوتی۔
اس وقت ہم ایک غیر اسلامی، سیکولر یا ہمہ مذہبی ریاست میں رہتے ہیں اور اس میں اپنے مسلم معاشرے کو ممکنہ حد تک اسلامی قدروں کا آئینہ دار بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ چناں چہ اس وقت ہم زیادہ تر ان عوامل کو زیرِ بحث لائیں گے جو ہمارے کنٹرول میں ہیں اور جن کا تعلق حکومت سے نہیں ہے۔
ہر سماج کے پاس قابلِ قبول رویوں کی حدود ہوتی ہیں۔ ان حدود سے متجاوز رویّے سماج کے لیے ناقابلِ قبول ہوتے ہیں۔ سماج میں پیدا ہونے والا ہر فرد، بلکہ اس سماج میں باہر سے آنے والا فرد بھی، ان حدود کی پابندی کے لیے کسی قانون و جبر کے بغیر بھی مجبور ہوتا ہے۔ ان حدود کا تعین سماج کی روایات اور اس کی تہذیب سے ہوتا ہے۔ ادارے ان کی حفاظت بھی کرتے ہیں اور ان کی تخلیق و تجدید میں بھی کردار ادا کرتے ہیں۔ اس لیے معاشرے کے رویّے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تہذیب اور اس کے اداروں پر بھی توجہ دی جائے۔
روس (Ross) جیسے بعض ماہرینِ سماجیات نے پُرزور طریقے سے یہ نقطۂ نظر پیش کیا ہے کہ انسانی رویوں پر سب سے زیادہ کنٹرول نظامِ اعتقاد (belief system) کا ہوتا ہے،جسے ہم ایمان کہتے ہیں۔ نظامِ اعتقاد کا کنٹرول حکومت اور اس کے قوانین سے بھی زیادہ مضبوط اور ہمہ گیر ہوتا ہے۔
یہ اہلِ اسلام کی بہت بڑی طاقت ہے کہ ان کے پاس اسلامی عقیدے کی صورت میں سماجی کنٹرول کی نہایت مؤثر طاقت موجود ہے۔ اس طاقت کی موجودگی میں اسلام کی قدروں کا رواج معاشرے میں بہت آسان ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود معاشرے کی اصلاح نہیں ہوپا رہی ہے تو اس کے اسباب کیا ہیں، یہ موضوع سنجیدہ غور اور گہرے سماجیاتی مطالعے کا تقاضا کرتا ہے۔

معاشرتی اصلاح اور سوشل انجینئرنگ

موجودہ دنیا میں سماجی تبدیلی لانے کے لیے کئی ترقی یافتہ طریقوں کا استعمال عام ہوگیا ہے۔ علم سماجیات (sociology)، اجتماعی نفسیات (social psychology)، ڈیٹا سائنس، نیورو سائنس، وغیرہ علوم کے انتہائی ترقی یافتہ تصورات کا استعمال کرکے سماجی تبدیلی کے لیے گہری منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ سوشل انجینئرنگ سماجیات کی وہ شاخ ہے جس میں اُن تکنیکوں کو زیر بحث لایا جاتا ہے جن کا استعمال کرکے منصوبہ بند طریقے سے کوئی سماجی تبدیلی لائی جاتی ہے۔ سوشل انجینئرنگ کے طریقوں کا سب سے زیادہ استعمال اس وقت بڑی تجارتی کمپنیاں اور ان کے مارکیٹنگ اور اشتہارات (advertising) کے شعبے کر رہے ہیں تاکہ اپنی مصنوعات کی فروخت کے لیے لوگوں کے تصوراتِ زندگی، ان کے تہذیبی معیارات، ان کے فطری جذبات، اخلاقی تصورات، حتیٰ کہ ان کی حسیات کو بھی متاثر کیا جائے۔ اس سے قبل ترکی میں اسلامی تہذیبی روایتوں کی جگہ مغربی طرزِ زندگی کو عام کرنے اور سماجی رویوں اور عادتوں کو بدلنے کے لیے نہایت منظم طریقے سے سوشل انجینئرنگ کا استعمال کیا جاچکا ہے۔(اب بعض عرب ممالک میں ان کو بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں)۔
سوشل انجینئرنگ اور اس کی تکنیکوں کو آئندہ کسی وقت ہم تفصیل سے زیربحث لائیں گے اور اسلامی نقطۂ نظر سے ان تکنیکوں کے حسن و قبح پر بھی بات کریں گے اور اس بات پر بھی اپنا نقطۂ نظر پیش کریں گے کہ ان میں سے کیا باتیں، اسلام کی روشنی میں، ہمارے لیے قابلِ قبول ہوسکتی ہیں اور کون سی نہیں، اور اسلامی مقاصد کے لیے سوشل انجینئرنگ کا قابلِ عمل اور قابلِ قبول ماڈل کیا ہوسکتا ہے؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ غیر اسلامی تہذیبی قوتیں، مسلمان معاشرے کو منفی رخ پر لی جانے کے لیے سوشل انجینئرنگ کا جو استعمال کررہی ہیں، ان کا رد کیسے ہوسکتا ہے؟ مغربی تہذیبی یلغار کے بعد اب ملک کی فرقہ پرست طاقتیں بھی ان طریقوں کو منظم طریقے سے استعمال کرنے لگی ہیں۔ ان شاء اللہ ہم ان موضوعات کو زیر بحث لائیں گے اور اہلِ علم سے بھی درخواست ہے کہ ان پر غور کریں اور اپنا حاصلِ فکر روانہ فرمائیں۔
اس وقت اس موضوع کے صرف ایک پہلو کو ہم قدرے تفصیل سے زیربحث لانا چاہتے ہیں۔ وہ یہ کہ سماجی اصلاح کی راہ میں کچھ بڑی رکاوٹیں کیا ہیں؟ اور ان رکاوٹوں کا ازالہ کیسے ہوسکتا ہے؟

اصلاحِ معاشرہ کا خالص مقامی پروگرام

معاشرے کی اصلاح کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ خالص مقامی سطح پر سوچا جائے اور حکمت عملی بنائی جائے۔ قومی یا ریاستی سطح پر موضوعات کا تعین کرکے تقریروں اور جلسوں کا سلسلہ، کسی زمانے کی ضرورتوں کے لیے یقیناً مناسب تھا، لیکن آج کے مسائل کے حل کے لیے یہ کافی نہیں ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اصلاحِ معاشرہ کی حکمت ِعملی ایک ایک مقام، شہر یا بستی پر توجہات کو مرکوز کرکے بنائی جائے۔ بستی کے مخصوص حالات پر غور کرکے وہاں کی خرابیوں کی تشخیص، اُن خرابیوں کے اسباب کی تعیین اور اس کے مطابق اصلاح کی حکمت عملی، پھر اس حکمت عملی کو اصلاح کا عمل مکمل ہونے تک صبر و استقلال کے ساتھ روبہ عمل لانا، ہمارے خیال میں اصلاحِ معاشرہ کی اس اپروچ کی اس وقت ضرورت ہے۔ ہر علاقے میں کچھ ایسی بستیوں کو ترقی دینے کی ضرورت ہے جو اسلام کی تعلیمات کی زیادہ سے زیادہ آئینہ دار اور عملی نمونہ ہوں اور دیگر بستیوں کے لیے بھی روشنی کا مینار بن سکیں۔ اس کام کے لیے مرکزی سطح پر ضروری تربیت، تحقیق اور غور و فکر (think tank) اور عملی تعاون و رہ نمائی کا نظام ضرور ہو، لیکن منصوبہ بندی خالص مقامی سطحوں پر ہو۔ منصوبہ بندی کے لیے یہ ضروری ہے کہ زیربحث برائی کے اصل سبب یا اس کی اصلاح کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا اندازہ لگایا جائے اور ان رکاوٹوں کے حسبِ حال حکمتِ عملی بنائی جائے۔

معاشرے کی اصلاح کی راہ میں رکاوٹیں

معاشرے کی اصلاح کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ برائی کے حقیقی سبب پر غور کیا جائے اور اس کے مطابق اصلاح کی مناسب حکمت ِعملی تشکیل دی جائے۔ تمام برائیوں کے لیے ایک ہی حکمتِ عملی یا ایک ہی تدبیر کارگر نہیں ہوسکتی۔ ذیل کی سطور میں ہم معاشرتی خرابیوں کے چند اہم اسباب بیان کریں گے۔ بعض خرابیوں میں ان میں سے ایک سے زیادہ اسباب بھی کارفرما ہوسکتے ہیں۔ ان میں سے ہر سبب اصلاح کی ایک جداگانہ حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے۔
غلط عقیدے اور تصورات: کسی نامناسب معاشرتی رویّے کا پہلا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ معاشرے میں غلط سوچ گھر کر گئی ہو، جس کے نتیجے میں مصلح جس چیز کو برائی سمجھ رہا ہے، معاشرہ اس کو سرے سے برائی ہی نہیں سمجھتا ہو۔ مغربی معاشرے جنسی اباحیت، عریانی، اور ہم جنسی وغیرہ کو سرے سے برائی ہی نہیں سمجھتے، بلکہ انھیں انسانی آزادی (human freedom) کا جزو سمجھتے ہیں، جو ان کے نزدیک ایک مثبت قدر ہے، اس لیے یہ برائیاں وہاں عام ہیں۔ اگر ان برائیوں کی اصلاح درکار ہو تو پہلی ضرورت یہ ہے کہ ان کی سوچ بدلی جائے اور یہ یقین پیدا کیا جائے کہ یہ برائی ہے۔
ہمارے ملک میں انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے اوائل کی بہت سی اصلاحی تحریکات (مسلم معاشرے میں اٹھنے والی بھی اور غیر مسلم معاشرے میں برپا ہونے والی بھی) کا نشانہ ایسی ہی برائیاں تھیں۔ ہندو سماج میں چھوت چھات ایک سماجی قدر تھی۔ معاشرہ ذات پات کی بنیاد پر تفریق کے نظریے کا قائل تھا۔ اسی طرح بیوہ کی شادی ناپسندیدہ تھی۔ ستی کو ایک پسندیدہ عمل سمجھا جاتا تھا۔ ہندو سماج کے مصلحین نے اس سوچ کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ آریہ سماج، برہمو سماج، امبیڈکر، پھلے، گاندھی وغیرہ نے ان غلط تصورات کی اصلاح کی منصوبہ بند کوششیں کیں۔
مسلمانوں میں اصلاح کی سب سے کامیاب کوشش وہ تھی جس کا بیڑا اُس زمانے کے علماء نے اٹھایا تھا، اور جس کا ہدف بدعات و خرافات تھا۔ معاشرہ قبر پرستی اور بدعات و خرافات کو دین کا جز سمجھتا تھا۔ علما نے اس غلط تصور کی اصلاح کی کوششیں کیں اور اس محاذ پر قابلِ قدر کامیابی حاصل کی۔ آج امت کا بڑا حصہ خرافات سے دور ہے۔ اسی طرح جدید تعلیم کو ایک برائی سمجھا جاتا تھا۔ سرسید اور ان کے دیگر ساتھیوں نے جدید تعلیم کی تحریک چلائی اور اس محاذ پر بھی قابلِ لحاظ کامیابی ان کو ملی۔
چوں کہ ان ساری برائیوں کا اصل سبب جہالت، غلط تصورات اور غلط عقیدے تھے اس لیے ان کو دور کرنے کے لیے صحیح معلومات عام کرنے، اور عوام میں بیداری لانے کے طریقے اختیار کیے گئے۔ مضامین اور کتابوں کی اشاعت، جلسوں اور تقریروں کے ذریعے عوام میں صحیح معلومات اور صحیح سوچ عام کرنے کی کوشش ہوئی۔ آج بھی وہ برائیاں جو معلومات کی کمی کی وجہ سے، یا غلط سوچ اور عقیدے کی وجہ سے مسلمانوں میں عام ہیں، ان کے علاج میں جلسوں اور تقریروں کا طریقہ مفید ہوسکتا ہے۔
ایسی برائیوں کی مثالوں میں طلاق کا بدعی طریقہ، وراثت کی عدم تقسیم، لڑکیوں کو وراثت میں حصہ نہ دینا، بیویوں اور دیگر خواتین کی حق تلفی، وغیرہ برائیاں شامل ہیں۔ یہ سب وہ برائیاں ہیں جن کے رواج کا ایک اہم سبب معلومات کی کمی یا غلط تصورات کا عام ہونا ہے۔ اس لیے صحیح معلومات کی ترویج سے ان پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ مہمات کے ذریعے، جلسوں اور پروگراموں، تقاریر و مواعظ کے ذریعے اور پیغام کی ترسیل کے دیگر ذرائع کو استعمال کرکے ان کے تعلق سے بیداری لائی جائے۔
معلومات کی ترویج و اشاعت کے لیے بھی دورِ جدید میں بہت سے ترقی یافتہ اور زیادہ مؤثر طریقے موجود ہیں۔ ثقافتی ذرائع، گیت اور نغمے، ڈرامے اور فلمیں وغیرہ ذرائع کا ابھی بھی مسلم معاشرے کی اصلاح کے لیے بہت کم استعمال ہوپاتا ہے۔ عوام کو کوئی بات سمجھانے کے لیے سب سے مؤثر زبان کلچر کی زبان ہوتی ہے۔ اسی طرح اب سوشل میڈیا کے ذرائع خصوصاً سوشل میڈیا پر پھیلائے جارہی ویڈیوز، کامیڈی وغیرہ معلومات کی ترسیل اور سوچ کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کررہی ہیں۔ مصلحین کو یہ ذرائع بڑے پیمانے پر استعمال کرنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔
لیکن اب مسلم معاشرے میں بہت کم برائیاں ایسی ہیں جن کے چلن کا اصل سبب معلومات یا بیداری کی کمی ہے۔ اکثر برائیاں وہ ہیں، جن کا برا ہونا سب جانتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ رائج ہیں۔ اُن کے ازالے کے لیے کچھ اور تدابیر درکار ہیں۔

روایات

برائی کی دوسری بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ برائی یا غلط ّے کو مستحکم روایت کی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ معاشرہ اپنی ایسی غلط روایتوں کو بھی پوری قوت سے تھامے رکھتا ہے اور ان روایات کو بدلنا ایک مشکل عمل ہوتا ہے۔ بہت سی برائیاں ایسی ہوتی ہیں جن کے تعلق سے معاشرے میں کسی کو ان کے برائی ہونے پر کوئی شبہ نہیں ہوتا۔ لیکن روایت کی گہری جڑیں تبدیلی کی راہ میں مزاحم ہوتی ہیں۔

روایتیں کیسے بنتی ہیں؟

اس پر بھی محققین نے کافی کام کیا ہے۔ بعض روایتیں حکومتوں کے قوانین بناتے ہیں، بعض کسی زمانے کی مخصوص تمدنی ضرورتوں کے پیش نظر رواج پاتی ہیں اور پھر سماج میں گہری جگہ بنالیتی ہیں۔ لیکن اکثر روایتیں سماج کے بااثر افراد اور خاندانوں کے طور طریقے ہوتے ہیں۔ یہ طور طریقے لوگوں کے ذہنوں پر بچپن سے نقش ہوجاتے ہیں اور ذہنی ماڈل (mental models) بنادیتے ہیں۔ لوگ ان طریقوں کو ناگزیز سمجھنے لگتے ہیں۔ ایک عام آدمی ان طریقوں کی اتباع میں تہذیب، شائستگی، خوشی و طمانیت محسوس کرنے لگتا ہے۔ سماج میں لوگ ایک دوسرے سے ان طریقوں کی توقع کرنے لگتے ہیں۔ اس طرح وہ گہری روایت کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی روایت کو نہ اپنانا چاہے تو اسے بہت سے عزیزوں اور پورے سماج کی توقعات کو توڑ کر ان کی دل شکنی کا سبب بننا پڑتا ہے۔ عام آدمی کے لیے یہ ایک مشکل عمل ہوتا ہے اس لیے کم زور لوگ، غلط روایت کو غلط سمجھنے کے باوجود، اس کو اختیار کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں اور ایسی غلط روایتیں چاہ کر بھی ختم نہیں ہوپاتی ہیں۔
اس کی سب سے نمایاں مثال شادی بیاہ کی رسوم، تکلفات، جہیز اور جوڑے گھوڑے کے چلن وغیرہ ہیں۔ یہ شادی بیاہ سے جڑی سماجی روایات ہیں۔ آج ہر مسلمان یہ جانتا ہے کہ یہ غلط رواج ہیں۔ اس لیے تقریر کرکے انھیں غلط کہنے سے لوگوں کی سوچ اور علم پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ یقیناً بار بار ان برائیوں کی شناعت بیان کرتے رہنا بھی ضروری ہے تاکہ معاشرے کے اجتماعی ضمیر اور اس کے لاشعور میں ان برائیوں سے نفرت جاگزیں ہوسکے، لیکن صرف تقریر و تذکیر یا ان کاموں کے برے ہونے سے آگاہی، اس طرح کی برائیوں کے خاتمے کے لیے کافی نہیں ہے۔ روایات کو ختم کرنے کے عملی طریقوں کی تفصیل میں جائے بغیر ہم اپنے معاشرے کی صورتِ حال کے حوالے سے خاص طور پر درج ذیل دو طریقوں کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں طریقوں کو جدید سماجیات میں بھی تسلیم کیا گیا ہے اور اسلامی روایات میں بھی ان کو اہمیت دی گئی ہے۔

سماج کی کچھ بااثر شخصیات کا عمل

ہر سماج میں کچھ بااثر افراد اور خاندان روایتوں کو بنانے اور بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ ان کا عمل اور رویہ یا تو روایت کو جواز اور استحکام بخشتا ہے یا اس روایت کے سلسلے میں سماج کی بیزاری اور نفرت کو بڑھاتا ہے۔ اس لیے کسی روایت کو ختم کرنے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ ایسے بااثر افراد آگے بڑھیں۔
رسول اللہ ﷺ نے سماج کی بعض روایات کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے خود کو اور اپنے خاندان کو پیش کیا۔ خطبہ حجتہ الوداع میں آپؐ نے بعض اہم سماجی اصلاحات کا اعلان فرمایا تو یہ ضروری سمجھا کہ خطبے ہی میں اپنے خاندان کی جانب سے سب سے پہلے اس پر عمل کا بھی اعلان فرمائیں۔ جاہلیت کے زمانے میں بہائے گئے خون معاف فرمانے کا اعلان کیا:”جاہلیت کے تمام خون اب بے اثر ہوگئے“، تو ساتھ ہی فرمایا کہ”سب سے پہلا خون جو میں معاف کرتا ہوں وہ (آپﷺ کے چچا زاد) ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کے بیٹے کا خون ہے“۔ (ربیعہؓ کے بیٹے آدم کا بنو بکر اور بنو ہذیل کے درمیان قبائلی جنگ میں ناحق قتل ہوا تھا اور ربیعہؓ اس خون کا مطالبہ رکھتے تھے) سود کی حرمت کا اعلان فرمایا کہ”اللہ نے فیصلہ کردیا ہے کہ اب کوئی سود نہیں ہوگا“ توساتھ ہی یہ اعلان بھی فرمادیا کہ ”پہلا سود جو میں ختم کرتا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا سود ہے۔ اب وہ پوری طرح کالعدم ہوگیا ہے“۔
روایات کے خاتمے کے سلسلے میں ام المومنین زینب بنتِ جحشؓ کا کردار خاص طور پر توجہ طلب ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ سماج کی گہری روایات کو توڑنے میں سب سے کلیدی کردار کچھ بااثر لوگوں کا حوصلہ مند اقدام ہوتا ہے۔ ام المومنین کا تاریخی کردار اس اصول کو سند عطا کرتا ہے۔ وہ قریش کے ایک نہایت معزز خاندان کی دختر تھیں اور خود آپﷺ کی پھوپھی زاد تھیں۔ آپﷺ کے حکم پر انھوں نے آپ ﷺ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ کے ساتھ نکاح فرمایا۔ یہ عرب معاشرے کی ایک بہت ہی مضبوط روایت کی بیخ کنی تھی۔ اُس معاشرے میں یہ تصور بھی ممکن نہیں تھا کہ اونچے خاندان کی کوئی شریف زادی کسی غلامی کا پس منظر رکھنے والے شخص سے شادی کرے۔ یہ مضبوط روایت صرف تقریر و تذکیر سے ختم ہونے والی نہیں تھی۔ آپ ﷺ نے خود اپنے خاندان کو آگے بڑھا کر، انسانی مساوات کے اسلامی نظریے کو سماج کے لیے قابل قبول بنادیا۔ بعد میں اللہ کے فیصلے کے تحت حضرت زیدؓ سے ان کی طلاق ہوئی اور ایک اور غلط روایت کو توڑنے کے لیے رسول اللہ ﷺ اور حضرت زینب نے اپنے آپ کو پیش کیا۔ آپؐ نے اللہ کے حکم سے زینبؓ سے نکاح فرمایا جو آپؐ کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے کی مطلقہ تھیں۔ عرب معاشرے میں منہ بولے بیٹے کو وہی مقام حاصل تھا جو حقیقی بیٹے کا ہوتا ہے اور اس کی مطلقہ یا بیوہ سے نکاح بھی بہو سے نکاح کی طرح ناقابلِ تصور حد تک ناپسندیدہ اور معیوب تھا۔ آپؐ نے خود آگے بڑھ کر سماج کی اس گہری روایت پر کاری ضرب لگائی۔ مخالفین کے اس طعنے کی پروا نہیں کی کہ نعوذ باللہ آپؐ نے اپنی بہو سے نکاح کیا ہے۔ آپؐ کے اس عمل پر آج تک معاندینِ اسلام آپؐ کی کردار کشی کی ناپاک کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اسلام کے اس اصول کو عملاً نافذ کرنے کے لیے کہ منہ بولے بیٹے حقیقی بیٹے نہیں ہوتے، کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ آپؐ نے اس عمل کو، جو سماج کے نزدیک ناپسندیدہ تھا، خود انجام دے کرسماج میں اسے قابلِ قبول بنادیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کا قرآن میں بھی ذکر فرمایا ہے:”پس جب زید نے اس سے اپنا رشتہ کاٹ لیا تو ہم نے اس کو تم سے بیاہ دیا کہ مومنوں کے لیے ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملے میں، جب کہ وہ ان سے اپنا تعلق بالکل کاٹ لیں، کوئی تنگی باقی نہ رہے۔“ (الاحزاب 37) اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ راست خدائی منصوبہ تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سماج میں کسی روایت کی جڑ بہت گہری ہو تو اسے بدلنے کے لیے صرف وعظ و نصیحت کافی نہیں ہوتے بلکہ کچھ بااثر لوگوں کا اس روایت کو ختم کرنے کے لیے عملاً سامنے آنا ضروری ہوتا ہے۔
بااثر افراد اور خاندانوں کا کسی روایت کے خلاف عمل، اس روایت کی جڑ کو کم زور کردیتا ہے۔ اور روایت کے برعکس عمل کو سماج میں قابلِ قبول بنادیتا ہے۔ اس لیے ایسی روایتوں کے خاتمے کے لیے یہ ضروری ہوتا ہے کہ بستی کے سربرآوردہ لوگ، علمائے کرام، سیاسی قائدین، اہلِ ثروت وغیرہ میں سے کچھ لوگوں کو اسے عملاً توڑنے کے لیے تیار کیا جائے۔ چند افراد کا حوصلہ و ہمت کے ساتھ آگے بڑھنا، خاندان اور سماج کی مخالفتوں اور طعن و تشنیع کی پروا نہ کرنا، اور روایت پر اپنے عمل سے کاری ضرب لگانا کسی مستحکم روایت کے خاتمے کی لازمی ضرورت ہے۔ یہ مصلحین کے پروگرام کا جز ہونا چاہیے کہ وہ ہر بستی اور شہر میں وہاں کی غلط روایتوں کے خاتمے کے لیے کچھ بااثر افراد اور خاندانوں کو کھڑا کریں اور ان کے اس اقدام کا اس طرح مثبت چرچا کریں کہ اسے سماج کی پسندیدگی کی سند حاصل ہوجائے۔

روایت کے خلاف لڑنے والے مستقل جہد کار

سماج کی گہری روایتوں کو بدلنے کے لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ کچھ مستقل گروہ ان روایتوں کے خلاف مستقل اور مسلسل برسر پیکار رہیں۔ ان کی شناعت کا احساس پیدا کریں۔ سماج میں ان روایتوں کو ناپسندیدہ بنانے کی جستجو کریں۔ اچھی مثالوں اور نمونوں کو سامنے لائیں، اس کا ابلاغ کریں۔ ان کی توقیر اور عزت افزائی کرکے اچھے رویّے کو سماج میں قابلِ قبول بنائیں۔ یہ ایک مستقل کام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ایک اہم فریضہ قرار دیا ہے۔ ہر مسلم محلے اور گاؤں میں اس فریضے کو انجام دینے کے لیے نوجوانوں کی تنظیمیں، گروپ یا ٹولیاں منظم کی جائیں اور وہ مستقل برائی کے خاتمے کی جد و جہد کریں۔ اپنے محلے یا گاؤں میں مستقل مصلح اور نگراں کا کردار ادا کریں۔ برائیوں کی روک تھام کے لیے پُرامن لیکن زبردست دباؤ پیدا کرنے والے طریقے اختیار کریں۔
حسن البنا شہیدؒ نے اپنی تحریک کی ابتدا اسی انداز کی کوششوں سے کی تھی۔ بچپن ہی میں انھوں نے دیگر بچوں کو ساتھ لے کر اسماعیلیہ میں جمعیت اخلاق ادبیہ قائم کی۔ دمنہور پہنچے تو وہاں کچھ اور نوعمر ساتھیوں کو ساتھ لے کر سلسلہ حصافیہ خیریہ قائم کی، اور قاہرہ میں جمعیت مکارم اخلاق قائم کی۔ ان سب تنظیموں کے ذریعے انہوں نے نوجوانوں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کو گھروں، محلوں، کلبوں، قہوہ خانوں وغیرہ میں گھوم گھوم کر منکرات کے ازالے کے مستقل کام کے لیے متحرک کردیا۔ غلط روایتوں کی بیخ کنی کے لیے ایسی ٹولیوں کا قیام اور ان کی مسلسل سرگرمی ناگزیر ہے۔

عادات

اسی سے ملتی جلتی قسم وہ ہے جس میں برائی روایت تو نہیں، لیکن ایک عادت یا رویہ بن جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں، مسلم محلوں میں صفائی اور سلیقے کے فقدان کی شکایت بہت عام ہے۔ گالی گلوچ اور فحش گوئی کئی معاشروں کی نمایاں ترین برائی بن گئی ہے، یا نوجوانوں میں رات دیر تک جاگنے اور صبح دیر تک سونے کی عادت کی اکثر لوگ شکایت کرتے ہیں۔ یہ برائی علم کی کمی کی یا غلط عقیدے کی وجہ سے نہیں ہے۔ کوئی بھی اسے اچھی بات نہیں سمجھتا۔ یہ کوئی سماجی روایت بھی نہیں ہے بلکہ محض ایک اجتماعی عادت ہے۔
عادتوں کا سرچشمہ انسان کا لاشعور ہوتا ہے اور عادت بدلنے کے لیے لاشعور کو ری پروگرام (reprogramme) کرنا اور نئی عادتوں کی بار بار مشق کرنا ہوتی ہے تاکہ وہ پرانی عادتوں کی جگہ لیں۔ سماج کی عادتوں کو بدلنے کے لیے جو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں اُن میں بھی جہد کاروں (activists) کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ وہ غلط عادت کے نقصان کو مختلف طریقوں سے واضح کرتے رہتے ہیں۔ ان عادتوں سے پاک مثالی بستیاں، گلیاں یا کالونیاں تشکیل دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں سے اجتماعی عہد لیتے ہیں۔ اور نئی اچھی عادتوں کی مشق کراتے ہیں اور ان کے فروغ کی منظم کوشش کرتے ہیں۔ اس وقت عالمی طاقتیں، معاشرے میں اپنی پسندیدہ قدروں کی ترویج کے لیے بہت منظم کوششیں کررہی ہیں اور سرکاری مشنری کے ساتھ رضاکاروں اور رضاکار تنظیموں کی بھی ٹریننگ کررہی ہیں، اور گہرے مطالعے و تحقیق کے بعد سماجی عادات کی تبدیلی کے نہایت مؤثر طریقے رائج کررہی ہیں۔ ماحولیات کا تحفظ، تعلیمِ نسواں کا فروغ، حفاظتی ٹیکوں کو عام کرنا (immunization)، ایڈز، چھاتی کے کینسر وغیرہ جیسی بیماریوں کی روک تھام، اور اس طرح کے دسیوں مقاصد کی خاطر یہ مہمات چل رہی ہیں۔ ہمارے ملک میں صفائی (سوچھ بھارت)، اور کھلے مقامات پر رفع حاجت کی روک تھام کی بڑی مہمیں چلیں۔ ان سب مہمات میں جو منصوبہ بند، ہمہ گیر اور سماجی نفسیات کی نفیس تدابیر اختیار کی جارہی ہیں، ان کا ہمیں مطالعہ کرنا چاہیے اور اسی طرح منظم کوششیں اپنے معاشرے سے غیر اسلامی روایات کے خاتمے کے لیے کرنی چاہئیں۔

مفادات

بعض برائیوں کے ساتھ سماج کے کچھ طبقات کے مادی مفادات وابستہ ہوجاتے ہیں۔ اس لیے وہ اس برائی کی اصلاح نہیں چاہتے اور اصلاح کی راہ میں شدید مزاحم ہوجاتے ہیں بلکہ برائی کے فروغ کی منظم کوشش بھی کرتے ہیں۔ زرعی زمینوں کے مالکین اپنی زمینوں کی تقسیم کو پسند نہیں کرتے اس لیے لڑکیوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیتے۔ مسلکی تعصبات کے ساتھ بہت سے مذہبی مناصب والوں کی عزت و توقیر اور روزی روٹی وابستہ ہوتی ہے، اس لیے اس کا خاتمہ انھیں گوارا نہیں ہوتا۔ ان مفادات حاصلہ کو بے نقاب کیے بغیر، متعلقہ برائیوں کا خاتمہ آسان نہیں ہے۔

عملی مشکلات

بعض برائیاں اس لیے ختم نہیں ہوتیں کہ ان کے خاتمے کی راہ میں عملی مشکلات حائل ہوتی ہیں۔ جب تک ان مشکلات پر قابو نہیں پایا جائے گا اُس وقت تک ان کا حل ممکن نہیں ہے۔ ان عملی مشکلات کی درج ذیل بڑی قسمیں ہیں۔
کچھ مشکلات شرعی مشکلات ہیں۔ ان مشکلات کا اجتہادی بصیرت کے ساتھ حل ڈھونڈنا ضروری ہے۔ مثلاً بیوی کے لیے خلع حاصل کرنا یا نکاح فسخ کرانا ہمارے ملک کے بیشتر علاقوں میں آج بھی نہایت مشکل بلکہ ناممکن کام ہے۔ یہ مسئلہ خاندانوں میں بہت سی برائیوں کے فروغ کا ذریعہ بنتا ہے۔ جب تک اس عمل کو آسان نہیں بنایا جائے گا، اس سے منسلک سماجی برائیوں پر تقریروں اور اجتماعات کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اسی طرح معاشرے میں بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کی پھیلی ہوئی وبا کے درمیان مسلمان لڑکے اور لڑکیاں کس طرح باعفت زندگی گزاریں؟ ایسی کیا شکل ہو کہ وہ اپنی تعلیم بھی یکسوئی سے پوری کرسکیں اور جائز و حلال طریقے سے فطری جنسی تقاضوں کی تکمیل بھی کرسکیں؟ مغربی ملکوں میں اس سلسلے میں کچھ تدابیر سوچی گئی ہیں۔ ایسے مسائل کے مناسب شرعی حل جب تک ڈھونڈے نہیں جائیں گے، یعنی ایسے حل جو جدید معاشرے کی ضرورتوں کو شریعت کے دائرے میں پورا کرسکیں، اُس وقت تک یہ مسائل حل نہیں ہوسکتے۔
کچھ مشکلات وہ ہیں جن کا حل معاشرے کی جانب سے ادارہ جاتی تعاون (institutional support) کا تقاضا کرتا ہے۔ ازدواجی تنازعات، خاندانی پیچیدگیاں اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بہت سے مسائل مناسب کونسلنگ کے ذریعے آسانی سے حل کیے جاسکتے ہیں۔ آج ہمارے ملک کے ہر چرچ میں لازمی طور پر فیملی کونسلنگ سینٹر ہے، لیکن مسلم معاشرے میں کتنے فی صد عوام کی کونسلنگ کی سہولت تک رسائی ہے؟ دوسرا المیہ یہ ہے کہ بڑے شہروں میں اس خلا کو مغرب زدہ این جی اوز پُر کررہی ہیں۔ وہ مسائل حل کرنے کے بہانے خاندانوں اور خواتین کو اسلام اور اسلامی قدروں سے دور کردیتی ہیں۔ نشے اور ڈرگس سے چھٹکارا، گندی عادتوں سے نجات، تنازعات کی یکسوئی، یہ اور اس طرح کے دسیوں کام ہیں جن کے لیے ادارے منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے ادارے جو اسلامی تعلیمات کے بھی پابند ہوں اور متعلقہ میدانوں میں ہونے والی جدید ترین سائنسی تحقیقات سے بھی استفادہ کرنے کی لیاقت رکھتے ہوں۔
کچھ مشکلات وہ ہیں جو بعض نہایت اثر انگیز تہذیبی ذرائع کا متبادل (alternative) فراہم کرنے کا تقاضا کرتی ہیں۔ جدید میڈیا، فلمیں، اشتہارات… یہ سب خاص تہذیبی تصورات کو فروغ دے رہے ہیں۔ ابھی تک ان پر مغرب کی اباحیت پسند قدروں کا غلبہ ہے، اور اب تیزی سے ہمارے ملک کی مشرکانہ قدریں بھی ان پر حاوی ہوتی جارہی ہیں۔ بچوں کے کارٹون، فلم اور ان فلموں کے اثرات کو لاشعور میں گہرائی تک نقش کرنے کے لیے ان کے پہلو بہ پہلو بچوں کی پوری فیشن انڈسٹری اور اسٹیشنری انڈسٹری (چھوٹا بھیم کی پینسل، اسپائیڈر مین کا ٹی شرٹ وغیرہ)، یہ سب اتنی منظم اور دیرپا اثرات کی حامل تہذیبی قوتیں ہیں کہ ان کا مناسب متبادل ڈھونڈنا اصلاحِ معاشرہ کی ایک اہم ضرورت ہے۔

غربت و افلاس کی پیدا کردہ مشکلات

بعض برائیاں شدید غربت اور معاشی بدحالی کی پیدا کردہ ہوتی ہیں۔ تنگ بستیوں اور افلاس کی ماری جھونپڑیوں میں صفائی ستھرائی کے ضروری وسائل دستیاب نہیں ہوتے، نتیجتاً گندگی عادت بننے لگتی ہے۔ بڑے شہروں کی مسلم بستیوں کے تنگ و تاریک گھروں میں کئی خاندان ساتھ رہنے پر مجبور ہیں، وہاں کیسے حجاب اور اسلام کے معاشرتی آداب کی پابندی ممکن ہے؟ غربت کے نتیجے میں ناخواندگی اور جہالت بھی بہت سی سماجی برائیوں کو پیدا کرتی ہے۔ اس لیے ازالہ غربت کی کوششوں کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ معاشرتی اصلاح کے لیے بھی ضروری ہیں۔
اس طرح اگر درپیش رکاوٹوں کو دور کرنے کی ٹھوس تدابیر پر غور کیا جائے اور اس کے لیے منصوبہ بندی کی جائے تو معاشرے کی اصلاح کا امکان روشن تر ہوجائے گا۔