مولانا شفیع جوشؔ اور مولانا مودودیؒ… چند یادیں

مرزا غلام احمد قادیانی کی آیات قرآنی میں لفظی تحریف کی جسارت
مولانا شفیع جوش کی تحقیقاتی کاوش پر مولانا مودودی کی تحسین

ماہنامہ ترجمان القرآن کے ایک حالیہ شمارے میں محترم سلیم منصور خالد کے ایک آرٹیکل ”جب کلمہ طیبہ متنازع بنادیا گیا“ نے ہمیں چونکا دیا اور ہماری یادوں کے نصف صدی پرانے دریچے وا کردیئے، جس میں انہوں نے 1970ء کے عشرے میں اسکول کی دینیات کی نصابی کتاب میں کلمہ طیبہ کے الفاظ میں اہلِ تشیع کی طرف سے بعض تبدیلیوں کے حوالے سے لاہور ہائی کورٹ میں ایک مقدمے کی روداد اور اس میں سید ابوالاعلیٰ مودودی کی دلچسپی اور کردار کا ذکر کیا تھا۔ ہائی کورٹ میں دائر اس پٹیشن کے درخواست گزار لاہور کے مولانا محمد شفیع جوش تھے، جن کا تعلق آزاد کشمیر میں ہمارے گاؤں ہی سے تھا، اور ہمارا اُن سے گہرا قریبی تعلق تھا۔ اس واقعے کی پوری روداد انہی سے ہم 1980ء میں سن چکے تھے کہ کس طرح آج سے نصف صدی قبل اس کتاب کا ذکر مولانا جوش نے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی سے اچھرہ میں ان کی مشہور عصری مجلس میں کیا تھا، اور مولانا نے اس میں بڑی دلچسپی لی اور اس کا عدالتِ اعلیٰ سے فیصلہ بھی ہوا اور یہ مسئلہ حل ہوگیا تھا۔ اس کی ساری روداد ترجمان القرآن کے ستمبر 2020ء کے شمارے میں شائع ہوچکی ہے۔ مولانا جوش نے ہمیں یہ بھی بتایا تھا کہ انہوں نے قادیانیوں کی طرف سے قرآن میں سات مقامات پر تحریف کا بھی سراغ لگایا تھا، اور یہ کہ وہ ان قادیانیوں کی اس کفریہ جسارت کو بھی مولانا مودودی کے علم میں لائے تھے، اور مولانا نے ان کی اس کاوش کو بہت سراہا تھا اور ان کے نام ایک تعریفی خط بھی لکھا تھا۔ ہم اس مضمون میں اس واقعے کو ذرا تفصیل سے بیان کریں گے اور ان آیات کی نشان دہی بھی کریں گے جن میں تحریف کی جسارت کی گئی تھی۔ ‎یہ غالباً 1980ء کی بات ہے کہ ہم چھٹیوں پر کراچی سے لاہور گئے ہوئے تھے، جہاں کرشن نگر (اسلام پورہ) میں ہمارے برادر نسبتی خلیل الرحمٰن انصاری مرحوم رہتے تھے۔ اس رشتے کی وجہ سے ہمارا لاہور آنا جانا معمول کی بات تھی۔ اس بار لاہور میں قیام کے دوران ہم نے اپنے پرانے دوستوں سے ملنے کا پروگرام بنایا۔ ان دوستوں میں مولانا محمد شفیع بھی تھے جن کا تعلق آزاد کشمیر کے اسی علاقے وادی بناہ سے تھا جہاں ہمارا بچپن اور میٹرک تک ابتدائی تعلیم کا زمانہ گزرا تھا۔ وہ اگرچہ عمر میں ہم سے چار پانچ سال چھوٹے ہیں لیکن ان کے خاندان، خاص طور پر ان کے والد مولانا محمد اعظم سے ہمارا تعلق استاد اور شاگرد کا تھا۔ اس تعلق کی وجہ سے اُن کے بیٹے محمد شفیع سے بھی دوستی کا رشتہ قائم ہوگیا تھا۔ ہم ان کے والد سے قرآن مجید کا ترجمہ سیکھنے ان کے پاس جایا کرتے تھے۔ محمد شفیع کے ساتھ ہماری دوستی تھوڑے عرصے کے لیے استاد اور شاگرد کے رشتے میں بدل گئی کہ وہ ہمارے پاس انگریزی پڑھنے کے لیے آنے لگے۔ یہ سلسلہ کوئی سال بھر جاری رہا۔ اکتوبر 1960ء میں ہم نے میٹرک کرلیا اور نتیجہ آنے کے ایک ماہ بعد نومبر میں کراچی آگئے۔ ہمیں بعد میں علم ہوا کہ محمد شفیع بھائی بھی دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور آگئے ہیں۔ لیکن ان سے ہمارا رابطہ نہیں تھا۔ اب جو ہم لاہور گئے تو بعض مشترکہ احباب کے توسط سے ہمارا ان سے بھی رابطہ ہوگیا۔ فون پر بات ہوئی تو وہ بڑے خوش ہوئے اور ہم سے ملنے خود ہمارے پاس اسلام پورہ آئے۔ دورانِ گفتگو معلوم ہوا کہ وہ ماشااللہ ماڈل ٹاؤن ایف بلاک کی جامع مسجد میں خطیب اور امام ہیں۔ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ اپنی خطابت میں جوشیلے پن کی مناسبت سے جوشؔ کا لاحقہ بھی لگا لیا ہے اور اب وہ لاہور میں مولانا محمد شفیع جوشؔ کے نام سے جانے پہچانے جاتے ہیں۔ برسوں بعد ہونے والی اس ملاقات میں ہم نے انہیں اپنی روداد سنائی اور بتایا کہ کراچی میں ہم نے ملازمت اور محنت مزدوری کے ساتھ کیسے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھا اور کس طرح ہم اسلامی جمعیت طلبہ اور پھر جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے، تو وہ بہت خوش ہوئے اور اپنا تعلق بھی مولانا مودودیؒ سے بتانے لگے۔ ‎مولانا شفیع نے دورانِ گفتگو مولانا کی زندگی کے بعض ‎ایسے درخشاں پہلوؤں پر روشنی ڈالی جو ابھی تک ہم سے مخفی تھے اور ان کے بقول مولانا کی ہدایت تھی کہ ان کو بیان نہ کیا جائے۔ اس میں وہ پوری روداد بھی شامل تھی جو ”جب کلمہ طیبہ متنازع بنا دیا گیا“ کے عنوان سے ترجمان القرآن کے ستمبر 2020ء کے شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ مولانا محمد شفیع نے بڑی تفصیل کے ساتھ مولانا سے اپنی ملاقاتوں اور شیعہ مکتبِ فکر کی اسلامیات کی نصابی کتاب میں کلمہ طیبہ میں اضافے کی نشاندہی، اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور اس کے لیے مولانا مودودیؒ کی طرف سے جملہ اخراجات کی ذمہ داری تک کی ایک ایک تفصیل بیان کی، جس سے اندازہ ہوا کہ مولانا مودودیؒ فرقہ وارانہ سوچ سے ‎ بلند تھے، بلکہ سارے مکاتب فکر کے جید علمائے کرام کے ساتھ قریبی تعلقات اور ان کے اتحاد کے زبردست حامی بھی ہیں۔ وہ نہ صرف ان کے لیے احترام کے جذبات رکھتے ہیں بلکہ اعلیٰ مقاصد کے لیے بڑھ چڑھ کر تعاون اور ان کو اعتماد میں لینے کے بھی شدت سے حامی ہیں۔ بریلوی مکتبِ فکر کے عالم دین مولانا شفیع جوشؔ سے ان کا اس قدر قریبی تعلق اور ان پر اعتماد اس کا واضح ثبوت تھا۔ سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے کلمہ طیبہ کے حوالے سے ان کی نشاندہی اور تشویش کو پوری ملتِ اسلامیہ کا اہم مسئلہ سمجھا اوران سے بھرپور علمی،قانونی اور مالی تعاون کیا۔ اس سے ہماری نظر میں جہاں مرشدی سیدی مودودی کی فرقہ واریت سے دوری ، معاملات میں دور اندیشی اور بلندیِ فکر کا مزید ادراک ہوا، وہیں مولانا شفیع جوشؔ کی دینی حمیت اور اس کے لیے ان کے جوش اور ولولے کا شدت سے احساس بھی ہوا۔ اس سے یہ بھی پتا چلا کہ ‎سیدی مودودی تمام مکاتیبِ فکر کے جید علمائے کرام کا کس قدر احترام کرتے اور ان کو ہر اہم معاملے میں باخبر رکھنااور اعتماد میں لینا ضروری سمجھتے تھے۔ جیسا کہ انہوں نے مولانا شفیع جوش کو اس اہم معاملے میں اعتماد میں لینے کے لیے جامعہ نعیمیہ لاہور کے مہتمم مولانا محمد حسین نعیمیؒ، مفتی اعظم پاکستان اور مہتمم دارالعلوم کراچی مفتی محمد شفیع عثمانیؒ،پاکستان کے مشہور پیر طریقت پیر قمر الدین سیالویؒ، راولپنڈی کے شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خانؒ اور پیر اختر حسینؒ علی پوری کے پاس بھیجا تھا اور ان سے اس اہم معاملے پر مشاورت کی تھی۔ مولانا شفیع جوش نے ہمیں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد اقبال کی عدالت میں چلنے والے اس مقدمے کی روداد بھی سنائی تھی اور وہ آخری مکالمہ بھی بیان کیا تھا جو ترجمان القرآن میں شائع ہوا ہے۔ ‎آپ اسے حسن اتفاق کہیں یا کچھ اور کہ مولانا شفیع جوش سے ہماری لاہور کی اس ملاقات کے بعد 1980ء ہی میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں حج کی سعادت سے نوازا اور رابطہ عالم اسلامی نے مختلف ممالک کے عازمین حج کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی مکہ مکرمہ میں اپنا مہمان بنا لیا۔ ان مہمانوں میں چیف جسٹس (ریٹائرڈ) سردار محمد اقبال بھی شامل تھے جو حج کی سعادت کے لیے تشریف لائے تھے۔ ہمارا قیام منیٰ میں ایک ہی ہوٹل میں تھا، جس کی وجہ سے ہمیں سردار اقبال سے کئی بار ملاقات کا شرف حاصل ہوا، اور حسنِ اتفاق سے مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کا مبارک سفر بھی ہم دونوں نے ایک ہی گاڑی میں کیا۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کے چار گھنٹے کے سفر کے دوران ہم نے اُن سے دوسری باتوں کے علاوہ اس خاص مقدمے کا بھی ذکر کیا اور اس کے بارے میں چند سوالات بھی کیے۔ پہلے تو وہ حیران ہوئے کہ آپ کو اس کا علم کیسے ہوا؟ ہم نے انہیں بتایا کہ ہم اور مولانا شفیع جوش آزاد کشمیر کے ایک ہی علاقے سے تعلق رکھتے اور بچپن کے دوست ہیں تو وہ بڑے خوش ہوئے اور مولانا جوش کے جذبہ ایمانی اور کلمہ طیبہ کے تحفظ کے لیے ان کے جوش و خروش کو سراہا اور کہا: ”جب مقدمے میں فریقین کے دلائل مکمل ہوگئے اور درخواست گزار کو احساس ہوا کہ فیصلہ دباؤ کی بنا پر اُن کے خلاف آسکتا ہے تو وہ کمرئہ عدالت میں اچانک کھڑے ہوئے اور بڑے پُرجوش انداز میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جج صاحب اس درخواست کو منظور کرکے اپنے ایمان کو بچا لو یا اسے مسترد کرکے اپنی نوکری کو بچا لو۔ ان کے مکالمے نے میری دنیا بدل دی، میں ان کا شکر گزار ہوں کہ عدالت میں ان کے اس ایک مکالمے نے مجھے ایمان کی دولت سے مالامال کردیا تھا“۔‎ مولانا جوش نے ہمیں مزید بتایا تھا کہ ”میں اُس وقت مولانا مودودیؒ کی اپنے ساتھ شفقت، سرپرستی اور محبت سے بڑا متاثر تھا کہ انہوں نے قرآن و حدیث کے مجھ جیسے ایک ادنیٰ طالب علم کو اس قدر اہمیت دی۔ میں نے قادیانیوں کی کتب کا بغور مطالعہ کیا تھا اور ان کا تنقیدی جائزہ بھی لیا تھا جس کی انہوں نے نہ صرف تحسین کی تھی بلکہ پوری سرپرستی اور رہنمائی بھی کی تھی۔ میں ان کی عصری (نماز عصر کے بعد کی) نشستوں میں پابندی کے ساتھ جانے لگا۔ اُن دنوں مجھے اخبارات میں مضامین لکھنے کا بھی شوق تھا اور نوائے وقت میں یہ مضامین شائع ہوتے تھے۔ میرا ایسا ہی ایک مضمون امام اعظم امام ابوحنیفہؒ پر شائع ہوا جس میں ان کے آبا و اجداد کے عجمی النسل اور زوتی کے حوالے سے میری تحقیق کے مطابق میرے قبیلے جاٹ سے ہونے اور قدیم علاقائی تعلق کے بارے میں یہ لکھا تھا کہ ان کے دادا شمالی ہندوستان سے کشمیر، کشمیر سے افغانستان اور افغانستان سے کوفہ میں آباد ہوئے۔ مجھے علم نہیں تھا کہ مولانا مودودیؒ نے یہ مضمون پڑھ لیا ہے۔ اس کی اشاعت کے ایک دو دن بعد میں حسبِ معمول عصری نشست میں شرکت کے لیے پہنچا۔ نماز کے بعد مجلس شروع ہوئی تو مولانا نے بڑے خوشگوار موڈ میں منہ میں پان کی گلوری لیتے ہوئے میری طرف دیکھا اور بڑے ہی پیارے انداز میں مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ”جوش صاحب، امام ابوحنیفہؒ کے علاقائی تعلق کے بارے میں آپ نے شمالی ہندوستان لکھنے کا خوامخواہ تکلف کیا؟ سیدھے سبھاؤ لکھ دیتے کہ وہ مجوال شریف (آزاد کشمیر میں مولانا جوش کا گاؤں) سے افغانستان اور وہاں سے کوفہ گئے تھے“۔ اس پر مجلس میں زور کا قہقہہ لگا اور بات آئی گئی ہوگئی اور میں بھی اس بات کو بھول گیا۔ کچھ دنوں بعد ہفت روزہ ”ایشیا“ میں یہ واقعہ ایک لطیفے کے طور پر شائع ہوگیا، جس کے مدیر مشہور صحافی نصراللہ خاں عزیزؒ تھے۔ اس ہفت روزہ میں مولانا کی ان عصری محفلوں کی دلچسپ روداد شائع ہوتی تھی۔ میں اس سے بھی لاعلم تھا کہ یہ لطیفہ شائع ہوگیا ہے۔ کچھ دنوں بعد میں اپنے گاؤں گیا تو آزاد کشمیر کے صدر سردار عبدالقیوم خان بھی دورے پر ہمارے علاقے میں تھے اور وہ میرے گاؤں آئے اور ایک جلسے سے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ وہ اس علاقے سے تو پہلے سے واقف تھے لیکن مولانا شفیع جوش نے ایک انکشاف ایسا کیا ہے کہ وہ خاص طور پر اس گاؤں کو ایک بار پھر دیکھنے آئے ہیں کہ اس مجوال شریف کو دیکھوں جہاں امام ابوحنیفہؒ کا خاندان شروع میں آباد تھا۔ اور پھر انہوں نے ہفت روزہ ایشیا میں شائع ہونے والے مولانا مودودیؒ کے اس لطیفے کا حوالہ دیا اور کہا کہ مجھے تو یہاں کسی شریف کا مزار نظر نہیں آیا۔ جس پر میرے والد نے جواب دیا کہ ہمارے یہاں مرنے کے بعد نہیں بلکہ زندگی ہی میں لوگ شریف ہوتے ہیں۔ ‎مولانا محمد شفیع جوش نے ہماری لاہور والی ملاقات میں ایک اور واسطے سے مولانا مودودیؒ سے ملاقاتوں اور ان کی علمی رہنمائی اور تحسین کا ذکر کیا تھا جو قادیانیوں کی کتب میں قرآن مجید کی آیات میں تحریف سے تعلق رکھتا تھا۔ جس کی ہم اپنی یادداشت کے مطابق تفصیل بیان کرتے ہیں۔ اس سے بھی مولانا کی زندگی کے ایک اور درخشاں پہلو پر روشنی پڑتی ہے جو اب تک مخفی تھا۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ مولانا شفیع جوش ماڈل ٹاؤن لاہور کے ایف بلاک کی جس جامع مسجد میں امام اور خطیب تھے وہاں کے نمازیوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی بڑی تعداد تھی۔ ان میں جدید اور قدیم تعلیم کے ماہرین وکلا، علمائے کرام اور مختلف شعبوں کے افراد بھی تھے۔ ان میں تحریکِ پاکستان کے بعض کارکن اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی جماعت احرار سے تعلق رکھنے والے بزرگ بھی تھے، جن میں ظہیرالاسلام فاروقی، سید ابرار احمد اور ارشاد احمد قریشی ایڈووکیٹ بھی شامل تھے۔ فاروقی صاحب شاید اس مسجد کی انتظامی کمیٹی کے صدر یا رکن تھے۔ یہ سب لوگ عشاء کی نماز کے بعد کچھ دیر کے لیے مسجد کے صحن یا باہر بیٹھتے اور حالاتِ حاضرہ پر تبادلہ خیالات کرتے۔ ان کی باہمی گفتگو کے موضوعات میں قادیانیوں کی سرگرمیاں، تفسیر قرآن اور اسلامی تعلیمات میں ان کی من مانی تفسیر اور تشریح بھی شامل ہوتی۔ اس لیے قادیانیوں کے خلاف ان کا جوش و جذبہ عروج پر تھا۔‎ ان ہی دنوں مولانا شفیع جوش کی ملاقات لاہور میں صدر آزاد کشمیر سردار عبدالقیوم خان سے ہوئی۔ چوں کہ مولانا شفیع بھی کشمیری تھے اور ان کا خاندان کھوئی رٹہ کے قریب ایک مشہور گاؤں مجوال شریف سے تھا، یہ خاندان شروع ہی سے مسلم کانفرنس سے تعلق رکھتا تھا، اس لیے مولانا جوش کو سردار عبدالقیوم خان نہ صرف اچھی طرح جانتے تھے بلکہ وہ ان کی علمی حیثیت سے بھی واقف اور ان سے رابطے میں تھے۔ اس وقت قادیانیت کے خلاف تحریک شروع ہوچکی تھی اور عوام میں قادیانیوں کے خلاف شدید غم و غصہ پیدا ہوچکا تھا۔ اس لیے انہوں نے مولانا جوش کو یہ مشن سونپا کہ قادیانیوں کی ساری کتب کا عرق ریزی سے مطالعہ کریں اور قرآن، حدیث اور دوسری کتب کی جو بھی من مانی تشریح اور قابلِ اعتراض تعبیر نظر آئے، اس کو منظرعام پر لائیں، اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مضبوط کیس ایک دستاویز، کتاب یا کتابچے کی صورت میں تیار کریں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ”سردار عبدالقیوم نے مجھ سے کہا کہ تم قادیانیوں کی ساری کتابوں کا عام مولویوں اور روایتی مناظرہ بازوں کی طرح نہیں بلکہ ایک ریسرچ اسکالر کی طرح آئین اور قانون کو سامنے رکھتے ہوئے قرآن و سنت کی روشنی میں ناقدانہ جائزہ لو اور ایک مدلل کیس تیار کرو، کہ ان دلائل کی بنیاد پر انہیں دائرئہ اسلام سے خارج کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ میں نے مولانا مودودی سے بھی رہنمائی لی اور مرزا غلام احمد قادیانی کی کوئی سو سے اوپر اور دوسرے مصنفین کی پچاس کتب کا تنقیدی مطالعہ کیا، اور ان تمام عبارتوں کی نشاندہی کی جہاں جہاں من مانی تفسیر، تشریح اور تعبیر کی گئی تھی۔ ان کتب کے بغور مطالعے کے دوران پتا چلا کہ ختمِ نبوت کا انکار تو ایک جرم ہے، جہاد کا انکار دوسرا جرم ہے، لیکن مرزا غلام احمد قادیانی کا سب سے بڑا کفریہ جرم یہ سامنے آیا کہ اُس نے اپنے گمراہ کن اور کافرانہ دعویٰ نبوت کو قرآن سے ثابت کرنے کے لیے 7 آیاتِ قرآنی میں لفظی تحریف کر رکھی ہے۔“ اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مولانا جوش نے کہا کہ ”مرزا غلام احمد قادیانی کی کتب کا مطالعہ کرتے کرتے جب میری نگاہ اس کی کتاب ”حقیقت الوحی“ میں سورۃ الانبیاء کی آیت نمبر 25 پر پڑی تو میرا ماتھا ٹھنکا۔ جس کا اصل متن یہ ہے ”وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون“ لیکن مرزا کی کتاب میں اس طرح لکھا ہوا ملا ”وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی ولا محدث“ اس آیت کو براہین احمدیہ کی فہرست صفحہ 38 میں سورۃ الانبیاء کی آیت 21 اور 25 دکھایا گیا تھا۔ اس میں لفظ” محدث “ کا اضافہ کیا گیا تھا۔ حالاں کہ پورے قرآن میں کہیں بھی یہ لفظ موجود نہیں ہے۔ اس کے بعد میں نے مرزا کی کتب میں موجود قرآنی آیات کا زیادہ گہرائی کے ساتھ جائزہ لیا تو مزید 6 آیات میں لفظی تحریف کا سراغ مل گیا۔ یہ میرے لیے کسی بم شیل سے کم نہیں تھا۔ اس قسم کی گستاخی کا تو تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ میں نے قرآن کریم میں لفظی تحریف کی ان ساری آیات کو حوالوں کے ساتھ جمع کیا اور” مرزا غلام احمد قادیانی کی طرف سے قرآن مجید میں الفاظ کی تحریف، تحریفِ قران“ اور” قادیانی امت اور قرآن“ کے نام سے الگ الگ دو کتابچے لکھے، جن کو مولانا مودودیؒ کی ہدایت پر جمعیت اتحاد العلماء پاکستان نے اس کے ناظم اعلیٰ مولانا گلزار احمد مظاہری کے تعارف کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں طبع کرایا اور انہیں ملک کے مختلف حصوں میں تقسیم کیا ۔ اس سے مسلمانوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ پنجاب اسمبلی میں بھی اس کی باز گشت سنی گئی اور اس میں حقائق جاننے کے لیے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کی رپورٹ منظرعام پر آئی جس میں کہا گیا تھا کہ یہ تحریف ثابت ہوگئی ہے۔ اس پر قادیانیوں کے مرکز ربوہ سے ان کے ذمہ داروں کی طرف سے مجھ سے رابطہ کیا گیا اور اس لفظی تحریف کو سہوِ کتابت قرار دیتے ہوئے یقین دلایا گیا کہ اس کی اصلاح کردی جائے گی۔ حالاں کہ اس تحریف کو کسی بھی طرح کتابت کی غلطی تسلیم نہیں کیا جاسکتا تھا۔ میری اس تحقیقاتی کاوش کا علم سید ابوالاعلی مودودیؒ کو ہوا تو انہوں نے نہ صرف ملاقات پر براہِ راست میری کوشش کو سراہا بلکہ تحریری طور پر باقاعدہ ایک خط کے ذریعے میری تحسین بھی کی۔“
اُس وقت آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس کی حکومت تھی اور سردار عبدالقیوم خان اس کے صدر تھے۔ ان کی کوششوں سے اس معاملے کو آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں پیش کیا گیا اور اس وقت کے اسپیکر میجر محمد ایوب خان مرحوم نے قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی قرارداد پیش کی جو 29 اپریل 1973ء کو اتفاقِ رائے سے منظور کرلی گئی۔ اس پر قادیانیوں نے بڑا شور مچایا اور ہر طرف سے حکومتِ پاکستان پر دباؤ بڑھایا۔ یہ دباؤ اس قدر زیادہ تھا کہ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو بھی وقتی طور پر اس کے دباؤ میں آگئے اور اس کے نتیجے میں سردار عبدالقیوم کی حکومت کا خاتمہ کردیا گیا، جس سے قادیانیوں کے حوصلے بڑھ گئے اور وہ سمجھنے لگے کہ وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے 29 مئی 1973ء کو ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں پر حملہ کیا، ان کےساتھ بدتمیزی کی اور انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا جس کے خلاف تحریک چلی جو پورے ملک میں پھیل گئی اور عاشقانِ رسولؐ تحفظِ ختمِ نبوت کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر نکل کھڑے ہوئے۔ اس کے نتیجے میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس کا دیرپا حل تلاش کرنے کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا، اس کے پورے ایوان کو خصوصی کمیٹی کی شکل دی گئی اور مسلسل دو ماہ میں اس کے 28 اجلاس اور 68 نشستیں منعقد ہوئیں۔ قادیانیوں کے سربراہ مرزا ناصر پر 11 دن کی کارروائی کے دوران 42 گھنٹے اور لاہوری گروپ کے صدر الدین پر 7 گھنٹے مسلسل جرح کے بعد 6 ستمبر 1974ء کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ آزاد کشمیر اسمبلی اس سے قبل قادیانیوں کو دائرئہ اسلام سے خارج کرنے کی قرارداد تو منظور کرچکی تھی لیکن اس نے اسے اپنے عبوری آئین کا حصہ نہیں بنایا تھا، جس کی وجہ سے آزاد کشمیر میں قادیانی خود کو بدستور مسلمان قرار دیتے اور حقوق حاصل کررہے تھے۔ اس معاملے کو آزاد کشمیر کی اعلیٰ عدالت میں چیلنج کیا گیا اور اعلیٰ عدالتی فیصلے کی وجہ سے آزاد کشمیر اسمبلی اور اسٹیٹ کونسل کا مشترکہ اجلاس طلب کیا گیا۔ موجودہ وزیراعظم راجا فاروق حیدر کی ہدایت پر وزیر قانون راجا نثار احمد نے اس خاص مقصد کے لیے آزاد کشمیر کے عبوری آئین میں بارہویں ترمیم کی تحریک پیش کی، اور بحث و مباحثہ کے بعد اتفاقِ رائے سے 7 فروری 2018ء کو قادیانیوں کو اس ترمیم کے مطابق غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا۔ یہ بھی اتفاق ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے مشترکہ اجلاس میں آئینی ترمیم پیش کرنے والے وزیر قانون راجا نثار کا تعلق بھی مولانا جوش کے گاؤں مجوال شریف سے ہے۔ ‎مولانا جوش کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب میں رابطہ عالم اسلامی نے بھی اسی زمانے میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کی قرارداد منظور کی تھی اور اس کارروائی کے دوران ان کے دونوں کتابچے بھی قرارداد کی منظوری کے دوران رابطہ کے اجلاس میں زیر غور آئے تھے۔ اس کا ذکر سردار عبدالقیوم خان کے علاوہ امیر جماعت اسلامی میاں طفیل محمد نے بھی ان سے کیا کہ ان کے یہ کتابچے رابطہ عالم اسلامی کے ارکان کو فیصلہ کرنے میں بڑے معاون ثابت ہوئے، اور یہ کہ رابطہ کے شرکائے اجلاس نے ان کے اس تحقیقی کام پر اظہارِ تحسین کیا تھا۔ یہ دونوں حضرات رابطہ عالم اسلامی کے مجلس تاسیسی کے رکن تھے اور اس اجلاس میں خود موجود تھے جس میں یہ قرارداد منظور ہوئی تھی۔