ممتاز عالم دین، مصنف اور مبلغ مولانا حکیم امیرالدین مہر کی رحلت

ممتاز عالم دین مولانا حکیم امیرالدین مہر 14 دسمبر 2020ء کو خالقِ حقیقی سے جاملے۔ مولانا امیرالدین مہر کی پیدائش 30 ستمبر 1936ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر جودھ پور (راجستھان) میں ہوئی۔ تقسیمِ ملک کے بعد وہ پاکستان چلے گئے اور ان کے خاندان کے کچھ افراد ابھی بھی راجستھان میں رہائش پذیر ہیں۔ سندھ کے اندر جن شخصیتوں نے درس و تدریس، تعلیم و تربیت کے ذریعے جماعت اسلامی کے کام کو دعوتی اور عملی میدان میں آگے بڑھایا، ان میں ایک شخصیت مولانا میر محمد لاشاری مرحوم کی تھی۔ مولانا امیرالدین مہر نے ابتدائی تعلیم مدرسہ انوارالعلوم پیارو گوٹھ ضلع جیکب آباد میں مولانا میرمحمد لاشاری سے حاصل کی، جب کہ فاضل منشی، درس نظامی اور ایم اے جامعہ سندھ سے امتیازی نمبروں سے پاس کیا۔ مولانا امیرالدین مہر کی تعلیم و تربیت میں بنیادی کردار مولانا علی محمد لاشاری اور نامور مورخ، دانشور اور تعلیمی ماہر پروفیسر سید محمد سلیم کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا امیرالدین مہر نے تدریس کا آغاز 1960ء کی دہائی میں شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج منصورہ، ہالا سندھ میں بحیثیت مدرس کیا، جہاں پر پروفیسر سید محمد سلیم ؒبحیثیت پرنسپل خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ مولانا امیرالدین مہر نے شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج منصورہ میں قیام کے دوران مطب بھی قائم کیا جس کی وجہ سے مولانا مہرؒ حکیم امیرالدین کے نام سے مشہور ہوئے۔ مولانا امیرالدین مہرؒ فکری اور نظریاتی طور پر جماعت اسلامی سے وابستہ تھے، چوں کہ مولانا کی بنیادی تعلیم مدرسہ انوارالعلوم پیاروگوٹھ ضلع جیکب آباد میں نامور عالم دین میرمحمد لاشاری کے ہاں ہوئی جو اُس وقت ترجمان القرآن کے قاری تھے اور مولانا مودودی کے لیکچر سے متعارف تھے، مولانا علی محمد لاشاری کے تحرک پر ان کے چھوٹے بھائی مولانا میر محمد لاشاری نے جماعت اسلامی کے لٹریچر کا بھرپور مطالعہ کیا اور 1952ء میں چودھری غلام محمد مرحوم کے دستِ مبارک پر بیعت کرتے ہوئے رکن بن گئے، اور یہ وہی موقع تھا کہ جب اپنے استاد مولانا میر محمد لاشاری کی پیروی کرتے ہوئے مولانا امیرالدین مہرؒ بھی 1952ء میں جماعت اسلامی کے رکن بن گئے۔ اسی بنا پر مولانا امیرالدین مہر ؒجماعت اسلامی کی فکر سے آخر دم تک جڑے رہے۔
مولانا امیرالدین مہرؒ بنیادی طور پر ایک منکسرالمزاج، نرم گو اور صلح پسند طبیعت کے مالک، مرنجاں مرنج اور فنا فی التحریک شخص تھے۔ مولانا امیرالدین مہرؒ بڑے عالم دین اور سندھ کے چپے چپے سے واقف تھے۔ آپ کی کوشش ہوتی تھی کہ دعوت کا کام ہر فرد، ہر قبیلے اور ہر علاقے میں کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نے درس و تدریس کے ساتھ تعلیم و تربیت کے حوالے سے اپنے اولین دور سے ہی کام کا آغاز کردیا تھا۔ مولانا امیرالدین مہر ؒنے اس دوران مطالعہ جاری رکھا اور مختلف موضوعات پر درجنوں کتابیں لکھیں۔ نامور داعی اور عالمِ دین مولانا جان محمد بھٹو مرحوم نے اردو کی شہرئہ آفاق تفسیر تفہیم القرآن کا جب سندھی زبان میں ترجمہ شروع کیا اور سورہ یوسف تک ترجمہ کرسکے تو ان کا انتقال ہوگیا۔ تفہیم القرآن کے بقیہ ترجمے کو مولانا امیرالدین مہر ؒ نے نہایت سلیس اور آسان سندھی زبان میں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ مولانا امیرالدین مہرؒ کی سندھی زبان میں لاڑی اور ڈھاٹکی لہجے کے اثرات نمایاں تھے، اسی لیے جب مولانا نے تفہیم القرآن کا سندھی میں ترجمہ کیا تو نظرثانی کے لیے سکھر کے نامور عالم پروفیسر عبداللہ تنیو کے حوالے کیا، جنہوں نے تفہیم القرآن کے سندھی ترجمے پر نظرثانی کی۔ مولانا امیرالدین مہر نے تفہیم القرآن کا تین جلدوں میں خلاصے کا بھی سندھی زبان میں ترجمہ کیا جس کو سندھ کی مہران اکیڈمی شکارپور نے شائع کیا اور یہی خلاصہ ایک جلد میں ہندوستان سے بھی شائع ہوا۔ مولانا امیرالدین مہرؒ نے قرآن مجید کے علاوہ سیرت النبی، سیرتِ صحابہ، احادیث اور دوسرے موضوعات پر سندھی اور اردو میں متعدد کتابیں لکھیں اور سندھی زبان میں ترجمہ کیں۔ شاہ ولی اللہ اورینٹل کالج منصورہ کے قومیائے جانے کے بعد جامعہ علوم اسلامیہ منصورہ ہالا کی بنیاد رکھی گئی تو اس کے اولین اساتذہ میں بھی مولانا امیرالدین مہر شامل تھے۔ جب دعوۃ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کا قیام عمل میں آیا تو مولانا امیرالدین مہر دعوۃ اکیڈمی کے بنیادی ارکان میں سے تھے۔ 1987ء میں دعوۃ اکیڈمی کے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر محمود احمد فاروقی کے تحرک پر مولانا امیر الدین مہر کو دعوۃ اکیڈمی میں اسسٹنٹ پروفیسر تعینات کرکے سندھی شعبے کا سربراہ بنایا گیا، بعد میں مولانا کئی برس تک شعبہ سندھی لٹریچر اور تربیت ائمہ کورس کے انچارج رہے۔ اسلام آباد میں رہتے ہوئے مولانا نے گراں قدر دعوتی کتب کو سندھی زبان میں منتقل کیا۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق صدر اور عالم اسلام کے نامور عالم ڈاکٹر محمود احمد غازی اور نامور دانشور اور مغربی علوم پر دسترس رکھنے والے سابق ڈائریکٹر جنرل دعوۃ اکیڈمی پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد نے سندھی لٹریچر کی اشاعت میں سرپرستی فرمائی۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا امیرالدین مہر نے اکیڈمی کی دعوتی، تربیتی اور علمی سرگرمیوں میں نمایاں حصہ لیا اور دعوۃ اکیڈمی کے سندھی لٹریچر میں تقریباً ساٹھ دینی و دعوتی کتب کا اضافہ کیا۔ مولانا مہر صاحب کو یہ بھی اعزاز حاصل رہا کہ انہوں نے دعوۃ اکیڈمی کے علاقائی مرکز کے قیام کے لیے ابتدائی خاکہ تیار کیا اور مرکز کے قیام کے لیے اعلیٰ حکام تک منظوری کے مراحل کے لیے کوششیں کیں، یہی وجہ ہے کہ دعوۃ اکیڈمی کےعلاقائی مرکز کا کراچی میں قیام عمل میں لایا گیا، اور سندھ اور بلوچستان کے لیے دعوتی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز 2003ء میں ہوگیا۔ مرکزکے تعمیراتی، انتظامی اور مالیاتی امور دعوۃ اکیڈمی کے اُس وقت کے ایڈیشنل ڈائریکٹر محمود احمد فاروقی نے نہایت جانفشانی، خوش اسلوبی اور تیزی سے انجام دیے، جبکہ مولانا مہر ریجنل دعوۃ مرکز کے پہلے انچارج مقرر ہوئے۔ مولانا مہر نے سندھی اور اردو زبان میں تقریباً تیس کتب لکھی ہیں، جن سے اہلِ علم اور دعوت کا کام کرنے والے استفادہ کرتے رہتے ہیں۔ مولانا امیرالدین مہر کی نمایاں کتب میں سے حدیثوں کا مجموعہ ”املھ ھیرا“، ”املھ مانک“ اور ”اربعین نووی“ نمایاں ہیں، جب کہ سیرت النبیﷺ پر ”رحمت ہی رحمت“ معارف اکیڈمی کراچی نے شائع کی۔ اس کے علاوہ ”خطباتِ جمعہ“، ”گفتگو کا سلیقہ“، ”خدمتِ خلق“، ”صحابہ اکرام“، ”اصلاحِ معاشرہ میں مسجد کا کردار“،”تفسیر سورۃ الحجرات“،”تعارف قرآن“، ”وادی مہران کی علمی و دعوتی شخصیات“ اور ”حرمین کا سفر“ نمایاں ہیں۔ اسلام میں خدمتِ خلق کے حوالے سے ان کی ضخیم کتاب ”اسلام میں رفاہ عام کا تصور اور خدمتِ خلق کا نظام“ بہت عمدہ اور اعلیٰ درجے کی ہے۔ مولانا امیرالدین مہر کی یہ فراخدلی اور دعوت سے لگن تھی کہ انہوں نے اپنے آخری ایام میں کچھ کتب بلامعاوضہ طباعتی اداروں کے حوالے کیں، جو کہ شائع ہوئیں۔
راقم کو مولانا کے ساتھ تقریباً دس سال دفتری کام کرنے کا موقع ملا۔ ان کی ساری زندگی جدوجہد اور دعوتی سرگرمیوں میں گزری۔ مولانا امیرالدین مہر کی خصوصیت تھی کہ وہ اپنے سے چھوٹوں کو سکھاتے اور اپنے دل نشین انداز سے علمی کام میں معاونت کرتے۔ ان سے پہلا تعارف غالباً 1995ء میں ہوا جب میں اسلام آباد میں ایک دعوتی تنظیم کے دفتر میں موجود تھا اور مولانا محترم عصر کی نماز کے بعد حسب معمول سیر کرتے ہوئے دفتر پہنچے۔ یہ ان سے میری پہلی ملاقات تھی جو بعد میں ایک اچھے تعلق میں بدل گئی، اور ان ہی کی تحریک پر میں دعوۃ اکیڈمی کا حصہ بن گیا۔ انہوں نے سندھی زبان میں ترجمے کے لیے کئی کتابیں میرے حوالے کیں اور اس حوالے سے رہنمائی کرتے رہے۔ کئی دفعہ کتابوں کا سندھی زبان میں ترجمہ کرتے ہوئے جب مشکل پیش آتی یا الفاظ کو سمجھنا ہوتا تو ہم دونوں بحث مباحثہ بھی کرتے اور موزوں الفاظ پر اتفاق کرتے۔ مجھے اس دوران یہ کبھی محسوس نہیں ہوا کہ مولانا بہت بڑے اور میں بہت چھوٹا ہوں۔ مولانا امیرالدین مہر صاحب کی یہ خصوصیت تھی کہ ہر وقت اور ہر دم مصروف رہا کرتے۔ جب مولانا صاحب دعوۃ اکیڈمی اسلام آباد سے ریٹائر ہوگئے تو انہوں نے اپنے استاد نامور مورخ اور عالم پروفیسر سید محمد سلیمؒ کو خط لکھ کر یہ رہنمائی لی کہ مجھے اب مزید دعوت کا کام کس طرح کرنا چاہیے اور میری مصروفیت کیا ہونی چاہیے؟ مجھے اسلام آباد میں رہنا چاہیے یا دعوت کے کام کے لیے سندھ آنا چاہیے؟ اس کے بعد آپ اپنے استاد کے حکم پر اسلام آباد سے جامعہ علوم اسلامیہ منصورہ آئے اور تقریباً دو سال جامعہ منصورہ کے مہتمم کے فرائض انجام دیے۔ اس کے علاوہ مولانا امیرالدین مہر نے میرپورخاص میں دو دینی مدارس قائم کیے جہاں تعلیم و تدریس جاری ہے۔ مولانا امیرالدین مہر جب 2008ء میں باقاعدہ دعوۃ اکیڈمی کے علاقائی مرکز کی ذمے داریوں سے بھی سبک دوش ہوئے تو انہوں نے فارغ بیٹھنا مناسب نہ سمجھا اور غزالی اکیڈمی میرپورخاص کی بنیاد ڈالی۔ غزالی اکیڈمی میرپورخاص کے تحت انہوں نے سندھی زبان میں ترجمہ قرآن مجید کی اشاعت کی اور اس کو صوبہ سندھ کے بڑے بڑے شہروں میں مفت پہنچایا۔ اس کے علاوہ انہوں نے سندھی اور اردو میں دعوتی کتابچے/ پمفلٹ کی اشاعت کی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انہوں نے اپنی وفات سے چند سال پہلے قرآن مجید کے حوالے سے ”مفردات قرآن“ جمع کرنا شروع کیے۔ یہ علمی کام جاری رہا مگر بدقسمتی سے مکمل نہ ہوسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا امیرالدین مہر نے اپنی ساری زندگی علمی، دینی، اسلامی، دعوتی اور رفاہی کاموں میں وقف کیے رکھی۔ انہوں نے کوشش کی کہ ان کی اولاد بھی دعوتی کام سے وابستہ ہوجائے، اس کے لیے انہوں نے اپنے پوتے اور نواسے دینی مدارس میں داخل کروائے۔ ماشاء اللہ آج ان کی اولاد حافظِ قرآن اور دینی علوم سے بہرہ مند ہے۔ اللہ تعالیٰ مولانا مہر کی مغفرت فرمائے، درجات بلند کرے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین